اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

مبطلاتِ روزہ

مبطلاتِ روزہ

(۱۵۵۳)آٹھ چیزیں روزے کو باطل کر دیتی ہیں:
۱)کھانا اور پینا۔
(۲)جما ع کرنا۔
(۳)استمناء ۔ یعنی مرد اپنے ساتھ یا کسی دوسرے سے جماع کے علاوہ کوئی ایسا فعل کرے جس کے نتیجے میں منی خارج ہو۔ عورتوں میں اس کی کیفیت کا تذکرہ مسئلہ ۳۴۵ میں ہو چکا ہے۔
۴)خدا تعالیٰ ، پیغمبر اکرم ﷺ اور ان کے جانشینوں سے احتیاط واجب کی بنا پر کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔
۵)غبار حلق تک پہنچانا احتیاط واجب کی بنا پر۔
۶)اذان صبح تک جناب، حیض یا نفاس کی حالت میں باقی رہنا۔
۷)کسی سیال چیز سے حقنہ (انیما) کرنا۔
(۸)قے کرنا۔
(ان مبطلات کے تفصیلی احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے گئے ہیں۔)

 

کھانا اور پینا

(۱۵۵۴) اگر روزے دار اس امر کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے کوئی چیز جان بوجھ کر کھائے یا پئے تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ چیز ایسی ہو جسے عموماً کھایا یا پیا جاتا ہو مثلاً روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً پیا نہ جاتا ہو مثلاً مٹی اور درخت کا شیرہ، اور خواہ کم ہو یا زیادہ حتیٰ کہ اگر روزے دار ٹوتھ برش منہ سے نکالے اور دوبارہ مُنہ میں لے جائے اور اس کی تری نگل لے تب بھی روزہ باطل ہو جاتا ہے سوائے اس صورت کے کہ اس کی تری لعاب دہن میں گھُل مل کر اس طرح ختم ہو جائے کہ اسے بیرونی تری نہ کہا جا سکے۔
(۱۵۵۵) جب روزے دار کھانا کھا رہا ہو اگر اسے معلوم ہو کہ صبح ہو گئی ہے تو ضروری ہے کہ جو لقمہ منہ میں ہو اسے اُگل دے اور اگر جان بوجھ کو وہ لقمہ نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں ہو گا اس پر کفارہ بھی واجب ہے۔
(۱۵۵۶)اگر روزے دار غلطی سے کوئی چیز کھا لے یا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا ۔
(۱۵۵۷) انجکشن اور ڈرپ سے روزہ باطل نہیں ہوتا، چاہے انجکشن تقوت پہنچانے والا اور ڈرپ گلوکوز وغیرہ کی ہی کیوں نہ ہو۔ دمے کی بیماری میں استعمال ہونے والا اسپرے اگر دوا کو صرف پھیپھڑوں تک پہنچائے تو اس سے بھی روزہ باطل نہیں ہوتا۔ اسی طرح آنکھ اور کان میں دوا ڈالنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا چاہے اس کا ذائقہ گلے میں محسوس ہو۔ ناک میں ڈالی جانے والی دوا اگر گلے تک نہ پہنچے تو اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
(۱۵۵۸) اگر روزے دار دانتوں کی ریخوں میں پھنسی ہوئی کوئی چیز عمداً نگل لے تو اس کاروزہ باطل ہو جاتا ہے۔
(۱۵۵۹)جو شخص روزہ رکھنا چاہتا ہو اس کے لئے اذان صبح سے پہلے دانتوں میں خلال کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر اسے علم ہو کہ جو غذا دانتوں کے ریخوں میں رہ گئی ہے وہ دن کے وقت پیٹ میں چلی جائے گی تو خلال کرنا ضروری ہے۔
(۱۵۶۰)مُنہ کا پانی نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا خواہ ترشی وغیرہ کے تصور سے ہی مُنہ میں پانی بھر آیا ہو۔
(۱۵۶۱)سر اور سینے کا بلغم جب تک مُنہ کے اندر والے حصے تک نہ پہنچے اسے نگلنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر وہ منہ میں آ جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے نہ نگلے۔
(۱۵۶۲)اگر روزے دار کو اتنی پیاس لگے کہ اسے پیاس سے مر جانے کا خوف ہو جائے یا اسے نقصان کا اندیشہ ہو یا اتنی سختی اٹھانا پڑے جو اس کے لئے ناقابل برداشت ہو تو اتنا پانی پی سکتا ہے کہ ان امور کا خوف ختم ہو جائے بلکہ اگر موت اور اس جیسی چیز کا خوف ہو تو پانی پینا واجب ہے لیکن اس کا روزہ باطل ہو جائے اور اگر رمضان ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اس سے زیادہ پانی نہ پئے اور دن کے باقی حصے میں وہ کام کرنے سے پرہیز کرے جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
(۱۵۶۳) بچے یا پرندے کو کھلانے کے لئے غذا کا چبانا یا غذا کا چکھنا اور اسی طرح کے کام کرنا جس میں کاغذ عموماً حلق تک نہیں پہنچتی خواہ وہ اتفاقاً حلق تک پہنچ جائے تو روزے کو باطل نہیں کرتی۔ لیکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو کہ یہ غذا حلق تک پہنچ جائے گی تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے اور ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے اور کفارہ بھی اس پر واجب ہے۔
(۱۵۶۴) انسان کمزوری اور نفاہت کی وجہ سے روزہ نہیں چھوڑ سکتا لیکن اگر کمزوری اس حد تک ہو کہ عموماً برداشت نہ ہو سکے تو پھر روزہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں۔

 

 

(۲) جماع ٌّ

(۱۵۶۵)جماع روزہ کو باطل کر دیتا ہے خواہ عضو تناسل سپاری تک ہی داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہوئی ہو۔
(۱۵۶۶) اگر آلہٴ تناسل سپاری سے کم داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن جس شخص کی ختنہ گاہ نہ ہو اگر اس سے کم مقدار بھی داخل کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
(۱۵۶۷)اگر کوئی شخص عمداً جماع کا ارادہ کرے اور پھر شک کرے کہ سپاری کے برابر دخول ہو اتھا یا نہیں تو اس کا حکم مسئلہ نمبر۱۵۵۱ کو دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے۔البتہ اگر روزہ باطل کرنے والا کام انجام نہ دیا ہو تو کسی بھی صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوتا۔
(۱۵۶۸)اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور جماع کرے یا اسے جماع پر اس طرح مجبور کیا جائے کہ اس کا اختیار نہ رہے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا البتہ اگر جماع کی حالت میں اسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا مجبوری ختم ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع ترک کردے اور اگر ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔

 

 

(۳) اِسْتِمْنَاء ّ

(۱۵۶۹) اگر روزہ دار اِسْتِمْنَائکرے( اِسْتِمْنَائکے معنی مسئلہ۱۵۵۳میں بتائے جاچکے ہیں) تو اس کاروزہ باطل ہوجاتا ہے۔
(۱۵۷۰) اگر بے اختیاری کی حالت میں کسی کی منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔
(۱۵۷۱)اگرچہ روزے دار کو علم ہوکہ اگر دن میں سو ئے گا تو اسے احتلام ہو جائے گا یعنی سوتے میں اس کی منی خارج ہوجائے گی تب بھی اس کے لئے سونا جائز ہے خواہ نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ بھی ہو اور اگر اسے احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔
ّ(۱۵۷۲)اگر روزے دار منی خارج ہوتے وقت نیند سے بیدار ہوجائے تو اس پر واجب نہیں کہ منی کو نکلنے سے روکے۔
(۱۵۷۳)جس روزے دار کو احتلام ہوگیا ہو وہ پیشاب کر سکتا ہے خواہ اسے یہ علم ہو کہ پیشاب کرنے سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔
(۱۵۷۴)جب روزے دار کو احتلام ہو جائے،اگر اسے معلوم ہوکہ منی نالی میں رہ گئی ہے اوراگر غسل سے پہلے پیشاب کرے گا تو غسل کے بعد منی اس کے جسم سے خارج ہوگی تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ غسل سے پہلے پیشاب کرے۔
(۱۷۷۵)جو شخص منی نکالنے کے ارادے سے چھیڑ چھاڑ اور دل لگی کرے لیکن اس کی منی نہ نکلے تو اگر دوبارہ روزے کی نیت کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر دوبارہ روزے کی نیّت کر لے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ روزے کو تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔
(۱۵۷۶) اگر روزے دار منی نکالنے کے ارادے کے بغیر مثال کے طور پر اپنی بیوی سے چھڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق کرے اور اسے اطمینان ہو کہ منی خارج نہیں ہوگی تو اگر چہ اتفاقاً منی خارج ہوجائے ،اس کا روزہ صحیح ہے۔ البتہ اگر اسے اطمینان نہ ہوتو اس صورت میں جب منی خارج ہوگی تو اس کا روزہ باطل ہوجائیگا۔

 

 

(۴)خدا اور رسول پر بہتان باندھنا

 (۱۵۷۷)اگر روزے دار زبان سے یا لکھ کر یا اشارے سے یا کسی اور طریقے سے اللہ تعالیٰ یا رسول اکرم [ص]یا آئمہ [ص]میں سے کسی سے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ وہ فوراً کہہ دے کہ میں نے جھوٹ کہا ہے یا توبہ کرے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط مستحب کی بنا پر حضرت فاطمہ زہرا ء =اور تمام انبیائے مرسلین اور ان کے جانشینوں سے بھی کوئی جھوٹی بات منسوب کرنے کا یہی حکم ہے۔
(۱۵۷۸)اگر(روزے دار)کوئی ایسی روایت نقل کرنا چاہے جس کے قطعی ہونے کی دلیل نہ ہو اور اس کے بارے میں اسے یہ علم نہ ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے نقل کرتے ہوئے بیان کرے اور پیغمبر اکرم [ص] یا آئمہ سے بلاواسطہ طور پر نسبت نہ دے۔
(۱۵۶۹) اگر (روزے دار) کسی چیز کے بارے میں اعتقاد رکھتا ہو کہ وہ واقعی قول خدا یا قول پیغمبر اکرم [ص]ہے اور اسے اللہ تعالیٰ یا پیغمبر اکرم [ص] سے منسوب کرے اور بعد میں معلوم ہو کہ یہ جھوٹ تھا تو اس کا روزہ باطل نہیں ہو گا۔
(۱۵۷۰)اگر (روزے دار )کسی چیز کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ جھوٹ ہے،اسے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم [ص]سے منسوب کرے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ درست تھا، اگر اسے معلوم تھاکہ یہ کام روزے کو باطل کردیتا ہے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ روزے کو تمام کرے اور اس کو قضا بھی بجالائے۔
(۱۵۸۱)اگر روزے دار کسی ایسے جھوٹ کو جوخودروزے دار نے نہیں بلکہ کسی دوسرے نے گھڑا ہو جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ یا رسول اکرم [ص]یا ائمہ [ص]سے منسوب کر دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کاروزہ باطل ہوجائے گا،لیکن اگر جس نے جھوٹ گھڑا ہو اس کا قول نقل کرے توکوئی حرج نہیں۔
(۱۵۸۲)اگر روزے دار سے سوال کیا جائے کہ کیا رسول اکرم [ص]نے ایسا فرمایا ہے اور وہ عمداً جہاں جواب نہیں دینا چاہیے وہاں اثبات میں د ے اور جہاں اثبات میں دینا چاہیے وہاں عمداً نفی میں جواب دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہوجاتاہے۔
(۱۵۴۸۳) اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ یا رسول کریم [ص]کا قول درست نقل کرے اور بعد میں کہے کہ میں نے جھوٹ کہا ہے یا رات کو کوئی جھوٹی بات ان سے منسوب کرے اور دوسرے دن جبکہ روزہ رکھا ہوا ہوکہے کہ جو کچھ میں نے گزشتہ رات کہا تھا وہ درست ہے تو احتیاط کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
سوائے اس کے کہ وہ اس بات کی اسی وقت کی کیفیت کی اطلاع دے رہا ہو۔

 

 

(۵)غبار کو حلق تک پہنچانا

(۱۵۸۴) احتیاط واجب کی بنا پر گاڑھے غبار کا حلق تک پہنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خواہ غبار کسی ایسی چیز کا ہو جس کا کھانا حلال ہو مثلاًآٹا یا کسی ایسی چیز کا ہوجس کا کھانا حرام ہومثلاً مٹی۔
(۱۵۸۵)غیر کثیف غبار(جو غبار گاڑھا نہ ہو) حلق تک پہنچانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
ّ(۱۵۸۶)اگر ہوا کی وجہ سے کثیف غبار پیدا ہو اور انسان متوجہ ہونے اور احتیاط کر سکنے کے باوجود احتیاط نہ کرے اور غبار اس کے حلق تک پہنچ جائے تواحتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
(۱۵۸۷) احتیاط واجب یہ ہے کہ روزے دار سگریٹ اور تمباکو وغیرہ کا دھواں بھی حلق تک نہ پہنچائے۔
(۱۵۸۸)اگر انسان احتیاط نہ کرے اور غبار یا دھواں وغیرہ حلق میں چلا جائے تو اگر اسے یقین یا اطمینان تھا کہ یہ چیزیں حلق میں نہ پہنچیں گی تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اسے گمان تھاکہ یہ حلق تک نہیں پہنچیں گی تو بہتر یہ ہے کہ اس روزے کی قضا بجالائے۔
(۱۵۸۹)اگر کوئی شخص یہ بھول جانے پر کہ روزے سے ہے احتیاط نہ کرے یا بے اختیار غبار وغیرہ اس کے حلق میں پہنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔
(۱۵۹۰)پورا سر پانی میں ڈبونے سے روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن یہ شدید مکروہ ہے۔

 

 

(۶)اذان صبح تک جنابت،حیض اور نفاس کی حالت میں رہنا

(۱۵۹۱)اگر جنب شخص رمضان میں جان بوجھ کر اذان صبح تک غسل نہ کرے یا جس شخص کا فریضہ تیمم ہو اور وہ جان بوجھ کر تیمم نہ کرے تو ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور پھر ایک دن اور روزہ رکھے اور چونکہ یہ طے نہیں ہے کہ یہ دوسرا روزہ قضا ہے یا سزا،لہذا رمضان کا اس دن کا روزہ بھی ما فی الذمہ کی نیت سے رکھے اور رمضان کے بعد بھی جس دن روزہ رکھے اور اس میں قضا کی نیت نہ کرے۔
(۱۵۹۲)جو شخص رمضان کے روزے کی قضا کرنا چاہتا ہو،اگر جان بوجھ کر صبح کی اذان تک جنب رہے تو اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا۔ہاں اگر جان بوجھ کر نہ ہو تو رکھ سکتا ہے،اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اسے ترک کردے۔
(۱۵۹۳)اگر جنب شخص رمضان کے روزوں اور ان کی قضا کے علاوہ کسی بھی واجب اور مستحب روزے میں جان بوجھ کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس دن کا روزہ رکھ سکتا ہے۔
(۱۵۹۴)اگر کوئی شخص رمضان کی کسی رات میں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے حتٰی کہ وقت تنگ ہوجائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور روزہ رکھے،اس کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۵۹۵)اگر جنب شخص رمضان میں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد اسے یاد آئے تو ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ قضا کرے اور اگر چند دنوں کے بعد یاد آئے تو اتنے دنوں کے روزرں کی قضا کرے جتنے دنوں کے بارے میں اسے یقین ہوکہ وہ جنب تھا مثلاً اگر اسے یہ علم نہ ہوکہ تین دن جنب رہا یا چار دن تو ضروری ہے کہ تین دنوں کے روزوں کی قضا کرے۔
(۱۵۹۶)اگر ایک ایسا شخص اپنے آپ کو جنب کرلے جس کے پاس رمضان کی رات میں غسل اور تیمم میں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہوتو اس کا روزہ باطل ہے اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔
(۱۵۹۷)جو شخص جانتا ہوکہ اس کے پاس غسل کرنے کے لئے وقت نہیں ہے اور خود کو جنب کرلے اور پھر تیمم کرے یا وقت ہونے کے باوجود جان بوجھ کر غسل کرنے میں اتنی تاخیر کرے کہ وقت تنگ ہوجائے اور تیمم کرے تو اگرچہ وہ گنہگار ہے لیکن اس کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۵۹۸)جو شخص رمضان کی کسی رات میں جنب ہواور جانتا ہوکہ اگر سوئے گاتو صبح تک بیدارنہ ہوگا احتیاط واجب کی بنا پر اسے بغیرغسل کئے نہیں سونا چاہیے اور اگر وہ غسل کرنے سے پہلے اپنی مرضی سے سو جائے اور صبح تک بیدار نہ تو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا اورکفارہ دونوں اس پر واجب ہیں۔
ّ(۱۵۹۹)جب جنب رمضان کی رات میں سو کر جاگ اٹھے اور اس بات کا احتمال ہو کہ اگر دوبارہ سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا تو وہ دوبارہ سو سکتا ہے۔
(۱۶۰۰)اگر کوئی شخص رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور یقین یا اطمینان رکھتا ہو کہ اگر سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور اس کا مصمم ارادہ ہوکہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سو جائے اوراذان تک سوتا رہے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۶۰۱)اگر کوئی شخص رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور اسے اطمینان نہ ہوکہ اگر سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور وہ اس بات سے غافل ہوکہ بیدار ہونے کے بعد اس پر غسل کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں جبکہ وہ سوجائے اور صبح کی اذان تک سویارہے تو احتیاط کی بنا پر اس پر قضا واجب ہوجاتی ہے۔
(۱۶۰۲)اگر کوئی شخص رمضان کی کسی رات میں جنب ہواور اسے یقین ہویا احتمال اس بات کا ہوکہ اگر وہ سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور وہ بیدار ہونے کے بعد غسل نہ کرنا چاہتا ہو تو اس صورت میں جبکہ وہ سو جائے اور بیدار نہ ہوتو ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ مکمل کرے اور قضا اور کفارہ اس کے لئے لازم ہے۔اسی طرح اگراس تردد میں ہو کہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے یا نہ کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
(۱۶۰۳)اگر جنب شخص رمضان کی کسی رات میں سو کر جاگ اٹھے اور اسے یقین ہویا اس بات کا احتمال ہو کہ اگر دوبارہ سو گیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور وہ مصمم ارادہ بھی رکھتا ہوکہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور دوبارہ سوجائے اور اذان تک بیدار نہ ہو توضروری ہے کہ اس دن کا روزہ قضا کرے اور اگر دوسری نیند سے بیدار ہوجائے اور تیسری دفعہ سوجائے اور صبح کی اذان تک بیدار نہ ہوتو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر کفارہ بھی دے۔
(۱۶۰۴)جس نیند میں انسان کو احتلام ہو پہلی نیند سمجھی جائے گی لہذا اگر ایک بار بیدار ہونے کے بعد سوئے اور صبح کی اذان تک بیدار نہ ہو تو جیسا کہ پچھلے مسئلے میں بتایا گیا ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ قضا کرے۔
(۱۶۰۵)اگر کسی روزے دار کو دن میں احتلام ہوجائے تو اس پر فوراً غسل کرنا واجب نہیں۔
(۱۶۰۶)اگرکوئی شخص رمضان میں صبح کی اذان کے بعد جاگے اور یہ دیکھے کہ اسے احتلام ہوگیا ہے تو اگرچہ اسے معلوم ہوکہ یہ احتلام اذان سے پہلے ہوا ہے اس کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۶۰۷)جو شخص رمضان کے قضا روزے رکھنا چاہتا ہو اگر وہ صبح کی اذان کے بعد بیدار ہو اور دیکھے کہ اسے احتلام ہوگیا ہے اورجانتا ہو کہ یہ احتلام اسے صبح کی اذان سے پہلے ہوا ہے تو اس دن رمضان کے روزے کی قضا کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے۔
(۱۶۰۸)اگر رمضان کے روزوں میں عورت صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور عمداً غسل نہ کرے یا اس کا فریضہ تیمم کرنا ہواور تیمم نہ کرے تو ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور اس کی قضا بھی کرے۔رمضان کی قضا میں اگر جان بوجھ کر غسل یا تیمم نہ کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتی۔
(۱۶۰۹)جو عورت رمضان کی شب میں حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے۔اگر جان بوجھ کر غسل نہ کرے یہاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور اس کااس دن کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۶۱۰)اگر کوئی عورت رمضان میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یانفاس سے پاک ہوجائے اور غسل کے لئے وقت نہ ہوتو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور صبح کی اذان تک بیدار رہنا ضروری نہیں ہے۔جس جنب شخص کا فریضہ تیمم ہواس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
(۱۶۱۱)اگر کوئی عورت صبح کی اذان کے بعدحیض یا نفاس کے خون سے پاک ہوجائے اور اس کے غسل یا تیمم میں سے کسی کا وقت نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۶۱۲) اگر کوئی عورت صبح کی اذان کے بعد حیض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے یا دن میں اسے حیض یا نفاس کا خون آ جائے تو اگرچہ یہ خون مغرب کے قریب ہی کیوں نہ آئے اس کا روزہ باطل ہے۔
ّ(۱۶۱۳)اگر عورت حیض یا نفاس کا غسل کرنا بھول جائے اور اسے ایک دن یا کئی دن کے بعد یاد آئے تو جو روزے اس نے رکھے ہوں وہ صحیح ہیں۔
(۱۶۱۴)اگر عورت رمضان میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور غسل کرنے میں کوتاہی کرے اور صبح کی اذان تک غسل نہ کرے اور وقت تنگ ہونے کی صورت میں تیمم بھی نہ کرے تو جیسے کہ گزر چکا ہے ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے لیکن اگر کوتاہی نہ کرے مثلاً منتظر ہو کہ زنانہ حمام میسر آجائے خواہ اس مدت میں وہ تین دفعہ سوئے اور صبح کی اذان تک غسل نہ کرے اور تیمم کرنے میں بھی کوتاہی نہ کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۶۱۵)جو عورت استحاضہ کثیرہ کی حالت میں ہو اگر وہ اپنے غسلوں کو اس تفصیل سے ساتھ نہ بجالائے جس کا ذکر مسئلہ ۳۹۴ میں کیا گیا ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ایسے ہی استحاضہ متوسطہ میں اگرچہ عورت غسل نہ بھی کرے،اس کا روزہ صحیح ہے۔
ّ(۱۶۱۶)جس شخص نے میت کو مس کیا ہو یعنی اپنے بدن کاکوئی حصہ میت کے بدن سے مس کیا ہووہ غسل مس میت کے بغیر روزہ رکھ سکتاہے اور اگر روزے کی حالت میں بھی میت کو مس کرے تو اس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔

 

 

 

(۷)حقنہ لینا

 (۱۶۱۷)سیال چیز سے حقنہ(انیما) اگرچہ بہ امر مجبوری اور علاج کی غرض سے لیا جائے روزے کو باطل کردیتا ہے۔

 

 

 

 

(۸)قے کرنا

 (۱۶۱۸)اگر روزے دار جان بوجھ کرقے کرے تو اگرچہ وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے لیکن اگر سہواًیا بے اختیار ہوکر قے کرے توکوئی حرج نہیں۔
(۱۶۱۹) اگر کوئی شخص رات کو ایسی چیز کھا لے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کے کھانے کی وجہ سے دن میں بے اختیار قے آئے گی تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۶۲۰) اگر روزے دار قے روک سکتا ہو جبکہ اسے طبیعی نظام کے تحت ہی قے آ رہی ہو تو اسے روکنا ضروری نہیں۔
(۱۶۲۱)اگر روزے دار کے حلق میں مکھی چلی جائے چناچہ و ہ اس حد تک اندر چلی گئی ہوکہ اس کے نگلنے کو کھانا نہ کہا جائے تو ضروری نہیں کہ اسے باہرنکالا جائے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔لیکن اگر مکھی کافی حد تک اندرنہ گئی ہو تو ضروری نہیں کہ اسے باہر نکالا جائے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔لیکن اگر مکھی کافی حد تک اندر نہ گھی ہوتو ضروری ہے کہ باہر نکالے اگر چہ اسے قے کر کے ہی نکالنا پڑے۔مگر یہ کہ قے کرنے میں روزے دار کو ضرر اور شدید تکلیف ہو اور اگر وہ قے نہ کرے اور اسے نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر اسے قے کرکے باہر نکالے تو بھی اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔
(۱۶۲۲)اگر روزے دار سہواً کوئی چیز نگل لے اور اس کے پیٹ میں پہنچنے سے پہلے اسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے۔چنانچہ اگر وہ چیز اتنی نیچے جاچکی ہو کہ اسے معدے تک جانے دینا کھانا نہ کہا جائے تو اس چیز کا نکالنا لازم نہیں اور اس کا روزہ صحیح ہے۔
(۱۶۲۳)اگر کسی روزے دار کر یقین ہوکہ ڈکار لینے کی وجہ سے کوئی چیز اس کے حلق سے باہر آجائے گی ،چنانچہ اگر اسے قے کرنا کہاجاسکے تو ضروری ہے کہ جان بوجھ کر ڈکار نہ لے۔ لیکن اگر اسے یقین نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۶۲۴)اگر روزے دار ڈکار لے اور کوئی چیز اس کے حلق یامنہ میں آجائے تو ضروری ہے کہ اسے اگل دے اور اگر وہ چیز بے اختیار پیٹ میں چلی جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زکوٰة نہ دینے کا بیان
نماز کی اہمیت اور فوائد
کمیٹی میں ڈالے گئے پیسے پر خمس کا کیا حکم ہے؟
فلسفہٴ نماز
جھاد
تقلید کیا ھے
دنیا کی حقیقت
اصول فقہ کا مختصر تعارف
علم عرفان میں عام حجاب اور خاص حجاب سے کیا مراد ...
اذان میں «حَیَّ عَلٰی خَیرِالعَمَل» کی دلیل

 
user comment