اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

عصر حاضر کے تناظر میں مسلمانوں کا مستقبل-2

جب آپ ظہور سے متعلق روایات کا جائزہ لیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میںمستقبل کے حروف تہجی تحریر ہو رہے ہیں، انکی تفسیر ہو رہی ہے اور انشاء اللہ امام زمانہ تشریف لائیں گے اور کعبہ سے یہ آواز پوری بنی نوع بشر کو سنائی دے گی: ”یا اھل العالم انا بقیةاللہ“ ہم اپنے اطراف میں واضح اورر وشن خطوط دیکھ رہے ہیں، لوگوں کا تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ ابھی کچھ ہی دنوںپہلے ایک مغربی مادی فلسفی اسلام کی طرف راغب ہوا ہے، نیز ایک اور مغربی ملحد  فلسفی نے ۸۱/سال کی عمر میں اسلام کے دامن میں پناہ لی ہے ۔اسی طرح کے دیگر اور بھی افراد جو پہلے ملحد تھے پھریا مسلمان ہو گئے یا اسلام کی طرف مائل ہو گئے ۔

یہ تمام چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ آنے والاکل مسلمانوں کا ہے ۔انٹونی سالہا سال اپنے الحادی نظریہ پرقائم رہنے اور۸۱/سال کی عمر گزر جانے کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا کہ ایک فہم و ادراک سے با بہرہ وجود، علت اولی کی حیثیت سے اس دنیا کے نظام کا خالق ہے۔ جب مغرب میں رہنے والا ایک ایسا دانشور کہ جس نے خود مغرب میں الحادی نظریات کی بنا پر کافی شورو شغف بپاکیا ہو ،اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ اس سے قبل میں جس راستہ پر چل رہا تھاوہ غلط تھا ، اب سمجھ میں آیا ہے کہ صحیح راہ کون سی ہے، اب سمجھ میں آیا ہے کہ کائنات کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ایک صاحب خرد و دانا چلانے والا ہوتواس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی طرف رجحان بڑھنے کے عمل میں گرہوں کو کھولنے کے لئے ایمان کی چابی کا عمل دخل ہے۔جہاں جہاں بھی اسلام دشمن طاقتوں نے ایمان کی راہ میں روڑے ڈالنے کی کوشش کی ہے وہاں وہاں اسلام کی طرف رغبت میں اضافہ ہوا ہے۔ ۱۱ /ستمبر کے حادثہ کے ۲ /سال سے بھی کم عرصے میں امریکہ میںمسلمانوں کی تعداد میں۲۳/ہزارافرادکا اضافہ ہوا اور قرآن کریم اس سال کی سب سے زیادہ اشاعت پانے اوربکنے والی کتاب قرار پائی ۔صرف ایک دو لوگوں کی یہ حالت نہیں ہے کہ وہ اسلام کی طرف آ رہے ہیں، بلکہ ایسے افراد اسلام کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں جو دقت نظر کے ساتھ ساتھ ذوق تحقیق و جستجو کے بھی حامل ہیں، شہوات نفسانی ، ہواوہوس کے اسیر نہیں ہیں، اکثر وہ افراد کہ جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعدآخری دہائی میں مسلمان ہوئے ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں وہ یا توکسی یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں یا تحصیل علم میں مشغول ہیں۔ یونیورسٹی کے آخری علمی مدارج کو طے کر رہے ہیں یا انکے گھر والے،رشتہ دار وغیرہ اس امر کو انجام دے چکے ہیں۔ انہیں لوگوں میں سے ایک محترم کہ جن سے میری آشنائی تھی اور ہے، اپنی شرح گزشت یوںبیان فرماتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہوا تومیرے گھر والے بھی مسلمان ہو گئے ،میرے دوست و احباب بھی مسلمان ہو گئے اور بھی دیگر کئی ایسے لوگ جن کا کسی نہ کسی طرح سے ہم سے تعلق تھا، ہمارے مسلمان ہونے کی وجہ سے مسلمان ہو گئے۔ آج اسلام کی طرف فوج در فوج راغب ہونے والوں کی خبر آ رہی ہے:” بسم اللّہ الرحمٰن الرحیم  اذا جاء نصر اللہ والفتح و․․․․“  ۱۹۹۳ء ئمیں اپنے کناڈا قیام کے دوران بڑی مشکل سے میں کسی مسلمان شخص سے رابطہ کر پاتا تھا لیکن ۵۔۶ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آج مسلمانوں نے مغرب میں اس طرح جگہ جگہ اسلامی مراکز قائم کر دئے ہیں کہ انسان غرق دریائے تعجب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔میںشب قدر یعنی شب ضربت مولا ئے متقیان ﷼ میںمسلمانوں کی طرف سے تین تین جگہ مدعو تھا جبکہ ایک زمانہ وہ تھا کہ دینی مظاہر و شعائر مغرب میں دیکھنے کو نہیں ملتے تھے لیکن آج جب آپ مغربی ممالک کی راجدھانیوں لندن، واشنگٹن،پیرس میں داخل ہوتے ہیںتو آ پ کوجگہ جگہ مذہبی رسومات اور دینی مراکز نظر آتے ہیں ۔جب میں نے مومنین سے دریافت کیاکہ یہ مذہبی دستورات اوررسومات یہاں کب سے رائج ہیں، انکی تاریخ کیا ہے؟توسب نے یہی کہا کہ اس کے سر آغاز کا علم تو ہمیں بھی نہیں ہے، ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ دو تین دہائی پہلے یہ چیزیں موجود نہیںتھیں ۔

ان باتوں کے تناظر میں ہمیں امام خمینیۺ کی یہ پیشین گوئی یاد آتی ہے کہ جب آپ نجف میں تھے تو آپ نے اپنے ایک دوست سے فرمایا کہ ہم نے انقلاب اس لئے برپا کیا ہے کہ ہمارے لوگ بیدار ہو جائیں،جب  بیدار ہو جائیں گے تو عالم اسلام بیدار ہو جائے گا اور جب عالم اسلام بیدار ہوجائے گا تو پوری بنی نوع بشر بیدار ہو جائے گی اور جب پوری دنیا بےدار ہو جائے گی تو امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔یہ عصر، عصر انتظار ہے۔ بعض لوگوں کے مطابق عصر ظہور اصغر ہے اور جب ظہور اصغر ہو جائے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اب ظہور اکبر بھی ہو گا ،ظہور اکبر امام زمانہ ﷼ کے فرج سے عبارت ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس میں جہاد ہے، مار کاٹ ہے، خون خرابہ ہے اسلئے کہ دشمنا ن ا سلام  خاموش بیٹھنے والے نہیںہیں۔ روایات میںبھی ہے کہ جب امام زمانہ ﷼ کا ظہور ہوگا توکئی ہزار لوگوں سے سامنا کرنا پڑ ے گا ۔میں اس سلسلے میں اس سے زیادہ نہیں بیان کر سکتا، بس اجمالاً یہ عرض کرنا ہے کہ آنے والا کل ایک درخشاں مستقبل کی نوید دے رہا ہے کیوںکہ اس سلسلہ میںہمارے پاس جو روایات ہیں وہ ضعیف نہیں ہیں اور وہ یہی کہہ رہی ہیں کہ آنے والا کل مسلمانوں کا ہے، اس کے علاوہ ظاہری حالات بھی یہی بیان کر رہے ہیں ۔

 وہ سارے محققین جنہوں نے بھی دین اور دین شنا سی کے بارے میں تحقیقی کاوشیں انجام دی ہیں وہ اسی نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ دیگر ادیان کے مقابلے میں اسلام کی جانب لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اس زمانہ میں لوگ اسلام کی طرف زیادہ راغب ہو رہے ہیں۔ وہ خود بھی یہ دیکھ کر حیرت کا شکار ہیںکہ آج یہ کیا ہورہاہے، وہ اسلام جو ایک زمانے میں جزیرة العرب میں کسی حیثیت کا حامل نہ رہا ہو اور ۱۳ /سو سال تک مسلمان خود اپنے ہی وطن اور گھرمیں ظلم و زیادتی کا شکار تھے جب رسول گرامی مدینہ میں وارد ہوئے اور حکومت اسلامی کی تشکیل پائی تو ۱۰/ سال تک جنگیں ہی ہوتی رہیں۔ ۷۲ /سریہ اور غزوات(جنگیں) انجام پائے   لیکن اسی اسلام نے صرف ایک صدی کے اندر مغرب کے دروازوں کو اپنے اوپر وا کر لیا اور اسپین میں داخل ہو گیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جیسے جیسے اسلام کو زمانہ گزرتا گیا ویسے ویسے اسکی تجلی میں اضافہ ہوتا گیا اور اتفاق سے زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی اسلام کی تصویر اور بھی روشن ہو گئی ۔موجودہ زمانے میں اس بہترین مثال پروفیسر ہنری کاربن ہیں جو کہ صاحب تفسیر المیزان حضرت علامہ طباطبائی کے شاگرد بھی ہیں۔ آپ دقیق طور پر اسلام شناس اور منصف مزاج بھی تھے۔ آ پ کے لئے بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آپ مسلمان ہو گئے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغرب میں آپکی شخصیت پر پردہ پڑا ہوا ہے، حتی کہ آپ کا نام بھی وہاں ذکر نہیںہوتا ۔ابھی چند سال قبل ہی اس دنیا سے رخت سفر باندھا ہے۔ آپ کہتے ہیں:” میری نظر میں تمام ادیان و مذاہب کی عمر تمام ہونے والی ہے سوائے مذہب شیعہ اثنا عشری کے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام مذاہب و ادیان اس رہبر کی بات کرتے ہیں جو دنیا میں نہیں ہے یا پھر ابھی عالم وجود میں نہیں آیا ہے بعد میں کبھی آئے گا ۔صرف مذہب شیعہ ہی وہ مذہب ہے کہ جو اپنے رہبر اور امام کو زندہ اور باقی مانتا ہے اور معتقد ہے کہ ایک دن وہ آئے گا، لہذا اس مذہب کی عمرلازوال ہے “۔ امام ،امت کا دل ہوتا ہے، جب تک یہ دل زندہ ہے اس میں خون کی روانی ہے، اس میں زندگی ہے تب تک یہ امت بھی زندہ ہے اور ظواہر امر بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اسی کو دیکھتے ہوئے دشمنان اسلام نے طے کیا ہے کہ اب ایسی تھیوری اور ایسا نظریہ پیش کیا جائے کہ جو اس الٰہی معجزے کے مقابل آسکے اور خدا وند متعال کے ارادے کے آگے سپر بن سکے ۔ ان کے خیال میں اسلام انسانوں کو مسحور کرنا چاہتا ہے لہذا جس طرح فرعون نے عصا ئے موسیٰ کو سحر سمجھا تھا اسی طرح یہ لوگ بھی قرآن اور اس کی تعلیمات کو سحر و جادو سمجھتے ہیں جبکہ اسلام و قرآن سحر و جادو نہیں بلکہ الٰہی معجزہ ہے اور اس صدی کا معجزہ یہ ہے کہ اسلام حوادث کی ضد پر ہے۔

آج اسلام کے اوپر شدیدترین حملے ہو رہے ہیں ۔جتنا ظلم آج مسلمانوں پر ہو رہا ہے اسکی نظیر کہیں اور نظر نہیں آتی ۔ افغانستان ، عراق ،بوسنیا،پاکستان اورابھی حال میںتھائی لینڈ کی مثال آپ کے سامنے ہے، ہر جگہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن معجزہ یہ ہے کہ اس قدر ظلم وتشدد کے باوجود، ان تمام طاقت فرسا مشکلات کے باوجود کہ جن سے مسلمان جوجھ رہے ہیں، اسلام روز بر روز آگے بڑھ رہا ہے اور ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے۔ یہی اس صدی کا معجزہ ہے۔ میںپورے اطمینان سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ تیسرے ہزارے کی پہلی صدی مسلمانوں کی ہے۔ یہ بات دنیا پر واضح ہو چکی ہے اورمکرو فریب کے جو جال آج اسکتباری طاقتوں کے ذریعہ بچھائے جا رہے ہیں وہ صرف اسلئے ہے کہ وہ لوگ ایک خاص انفعالی کیفیت سے دوچار ہیں اور  انہیں کسی انہونی کا احساس ہو رہا ہے۔                                                                           

ساحر کب جناب موسی کے سامنے اپنا جادو لے کر آئے؟ جب انہیں پتہ چلا کہ جناب موسی کے پاس عصا ہے اور فرعون کو موسی سے خوف لا حق ہوا ،ورنہ اس سے قبل موسی اور موسی کے دین سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا !اسی طرح آج اسلام نے بھی اپنے عصا کو مشاہیر عالم کے سامنے پیش کیا ہے جوپوری دنیا کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے، ساتھ ہی اسلام مستضعفین عالم کے لئے ایک امید کی کرن اور مظلوموں کے لئے جینے کا سہارا بنا ہوا ہے ۔عدالت، مساوات اور بھائی چارگی کے متعلق اسلام کی تعلیمات بہترین سبق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ فضیلت اور اسکی راہ میں حرکت کے سلسلہ میں بہترین نظریات اسلام کے پاس ہیں ۔یہ تمام چیزیں ہمارے یہاں روایات میں کثرت سے موجود ہیں، بندگی کے معنی یہاں ملتے ہیں، عدالت کی تفسیر یہاں ہوتی ہے، ایسی صورت حال میں مغرب ایسے نظریات کو تدوینی شکل دے کر پیش کرنا چاہتا ہے جنکے ذریعہ اسلام کے سامنے قد علم کر سکے۔

جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیا گیا کہ آج کی دنیا میں چار طرح کے نظریات مغرب میں پائے جا رہے ہیں ،ان چار نظریات کی تاروپود آزادی اور برابری کے نام پر لبرل ڈموکرایسی کے پوری دنیا میں نفاذ پر قائم ہے۔ اس کے لئے مذہب و ملت کی کوئی قید نہیں ہے کہ آپ مسلمان ہوں یا کسی اور مذہب کے پرستار، وہ ہر جگہ ڈموکرایسی کا نظام لاگو کرنے کے لئے حاضر ہیں ۔امریکہ عراق میںبھی یہی کام کررہاہے اور ا س نے افغانستان میں بھی یہی کیا ہے، اسکا مطلب کیا ہے ؟مطلب یہ ہے کہ ہم منجی بشریت ہیں یعنی نجات کے تفکر کو وہ بھی پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا انداز نرالا ہے۔انداز یہ ہے کہ تم کسی اور منجی کے چکر میں نہ پڑو ،منجی ہم ہیں ہمارے ساتھ آجاوٴ یہی تمہارے لئے کافی ہے۔ وہ اپنے آپ کو فرشتہ نجات تسلیم کرانے کے خواہاں اس لئے ہیں کہ منجی کا تفکر لوگوں میں جینے کی ایک امید پیدا کر رہا ہے اور انہیں اپنے فرعونی افکار کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ یا خوف کا احساس بھی نہیں ہے کیونکہ قدرت اور طاقت کے ساتھ ساتھ وہ ساری چیزیں ان کے پاس موجود ہیں جن سے اپنی بات منوائی جا سکتی ہے ۔

آج کی دنیا میں صرف اسی کی آواز سنی جاتی ہے کہ جسکے پاس تین چیزیں ہوں: فوج،اقتصاد اور سیاست۔ آج کی دنیا میں یہی ہو رہا ہے۔ ساری دنیا ایک طرف ہے لیکن یہ دنیا کے ایک کونے سے اٹھ کر آتے ہیں، ایک اسلامی ملک پر دھاوا بول دیتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی مزاحمت کے ۔کیوں ؟اسلئے کہ انکے پاس عسکری طاقت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جگہ حملہ ہو جاتا ہے اور دنیا دیکھتی رہتی ہے ،کیونکہ پیسہ ہمارے پاس ہے، پوری دنیا کا تیل ہمارے قبضہ میں ہے، اب ہمارے منجی ہونے میں کس چیز کی کمی ہے؟! ہم سب کو نجات دینا چاہتے ہیں !!یہ ہے امریکی طرز فکر۔

 یہ چار نظریات وہ ہیں جو ان تمام چالوں کی توجیہ کرتے ہیں جو آج عالم اسلام کے خلاف اپنائی جا رہی ہیں ۔موجودہ امریکی صدرجارج بش ان چار نظریات کی آڑ میںآج دنیا کے بیشتر ممالک میں ظلم و ستم ، لوٹ کھسوٹ ،قتل و غارت گری کے بازار کو گرم کئے ہوئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کس نے بش کو بش بنایا ہے ؟واضح ہے کہ انہیں نظریات نے ۔ چنانچہ یہ چار نظریات وہ ہیں کہ جو امریکہ کے تسلط کو پوری دنیا پر ایک حتمی شکل دینے کا رول ادا کر رہے ہیں، اور ان چار نظریات کا لب لباب یہ ہے کہ لبرل ڈمو کرایسی دنیا کے تمام نظا موں میں حکومت کی بہترین شکل ہے اور یہی وہ چیز ہے جو بشریت کے کام آنے والی ہے، یہی بشریت کے لاعلاج امراض کی دوا ہے، لہذا وہ بشریت کولبرل ڈموکرایسی کا لباس پہنانا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خود انہیں اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا، خود انہوں نے کیا پایا۔اسکے لئے دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔آج جتنے بھی حادثات مغرب میں رونما ہو رہے ہیں وہ سب لبرل ڈموکرایسی ہی کی دین ہیں ۔ خونی رشتوںمیں دوری، قساوت قلب ، گھریلو اور خاندانی چپقلش وغیرہ  یہ سب اسی ڈموکرایسی کا نتیجہ ہیں۔

عراق میں آج کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیسا ڈموکرایسی کا ننگا ناچ ہے کہ ایک جوان کے بھیجے میں گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا جاتا ہے پھر اس کے بدن کو چاک کر کے اسکے جسم سے اسکے گردوں اور دیگر قیمتی اعضاء کو نکالا جاتا ہے پھر انہیںانسانی اعضاء کے عالمی بازار میں فروخت کر دیا جاتاہے؟؟!!۔ یہ نہتھے عوام کی ناموس پر ڈاکاڈالنا، یہ قتل وغارت گری یہ سب کیا ہے ؟!یہ سب نتیجہ ہے اس ڈموکرایسی کا جو مغربی تمدن پوری دنیا کو دینا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ ڈموکرایسی کے پردے میں ہو رہاہے! اب اگر ڈموکرایسی کا یہی سایہ بڑھتے بڑھتے مسلم ممالک تک کو بھی اپنے احاطے میں لے لے تو ہم بھی انہیں کی طرح ہو جائےں گے۔

 اب آئیے دیکھتے ہیں یہ چار نظریات ہیں کیا ؟

 پہلا نظریہ :نظریہٴ آخرالزمان جاپانی نژاد امریکی فلاسفر فوکوہاما کا نظریہ ہے۔ اس نظریہٴ کے مطابق تمام تر مادی کمالات حاصل ہو چکے ہیں، امریکہ مادی کمال کی شناختہ شدہ مکمل تصویر ہے ۔چونکہ اسکے پاس زندگی گزارنے کے تمام وسائل موجود ہیں، اسکا علم اور اسکی ٹکنا لوجی مادی کمال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اورکمال معنوی کو لبرل ڈموکرایسی کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ دنیا اس مادی اور معنوی کمال کی حامل ہے اور اسکی سب سے بڑی نشانی امریکہ ہے اور جس وقت دنیا اپنے مادی اور معنوی کمال کی انتہا کو پہونچ جائے تو وہی دور آخرالزمان ہوگا۔ اس نظریہ کی روشنی میں اب تک ہالی وڈ میںدس فلمیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طریقہ سے نظریہٴ مہدویت کو مخدوش بنا رہی ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ آنے والا کل مسلمانوں یا امام مہدی ﷼ کا نہیں بلکہ آنے والا کل امریکہ کا ہے۔ انہیں فلموں میں ایک فلم ”آلمینڈوم“  ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ امریکہ سے ایک عظیم لشکر اٹھے گا ( صہیونیزم اور مسیحی کے نظریات کی روشنی میں)ا ور پھر مشرق وسطی تک اسکا تسلط قائم ہو جائے گا اور اس طرح ایک عالمی حکومت کا قیام عمل میں آئے گا۔آپ غور کریں بالکل اسی انداز میں یہ سب بیا ن کیا جا رہا ہے جس طرح اسلام نے آخر الزمان کے بارے میں پیشین گوئیاں کی ہیں ۔                                        

 دوسرا نظریہ : ساری دنیا کا ایک دیہات کی شکل اختیار کر جانا، یہ نظریہ اس بات کو بیان کر رہا ہے کہ آج دنیا ایک دیہات کی شکل میں سمٹ رہی ہے، آج کی دنیا ٹکنالوجی کی دنیا ہے ۔دنیا کے ایک کونے میں کوئی معمولی سا بھی حادثہ ہوتا ہے تو دوسرے کونے میں اسے دیکھا جاتا ہے ،اسے ٹکنالوجی کے عصر سے تعبیر کیا جا تا ہے کیونکہ آج دنیا ایک دیہات کی شکل میں سمٹ کر رہ گئی ہے (خود انہیں کے بقول Global Village)، جب دنیا ایک دیہات کی شکل اختیار کر گئی ہے تو یہ بھی واضح ہے ہر دیہات کا ایک مکھیا ہوتا ہے ،سر پنچ ہوتا ہے۔ اب اس عالمی دیہات کا بھی ایک مکھیا ہونا چاہیے اور مکھیا وہی ہو سکتا ہے جس کے پاس طاقت ہو۔ اس وقت یہ طاقت صرف امریکہ کے ہاتھ میں ہے یعنی آج دنیاامریکہ کے ظہور کی منتظر ہے تا کہ پوری دنیا پر صرف اسی کا حکم چل سکے۔                    

  تیسرا نظریہ :یہ”سب سے برتر “ کے عنوان سے جانا جاتا ہے اور آلونٹ ٹفلرکے ذہن کی کھوج ہے۔

  یہ مغرب کا وہ دانشور ہے جس نے قدرت و طاقت کے علاوہ ذرائع ابلاغ اور پرو پیگنڈے کے ا ثرات جیسے موضوعات پربھی کافی کتابیں تحریر کی ہیں ۔اس دانشور کی تحریر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو پرو پیگنڈے اور میڈیا کی طاقت سے جوڑ دیا ہے۔ اس کے بموجب پروپیگنڈہ بہت ساری امواج اور لہریںخلق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسکے کئی مرحلے ہیں، پہلے مرحلے کی فضا ئیںاور اسکی لہریں دوسرے اور تیسرے مرحلہ کی لہریں اور انکی فضائیں۔پہلی فضا سازی اور اسکی لہروں کا مرحلہ یہ ہے کہ اخباروں کے ذریعہ ایک ماحول تیار کیا جائے ۔دوسرے مرحلہ میں کسی بھی بات کی فضا بنانے میں اخباروں کے ساتھ ساتھ میڈیا اور دوسرے ترسیلی ذرائع کی مدد سے کسی مسئلہ کو اچھال کر اسکی فضا بنائی جا سکتی ہے۔اس میں انٹر نیٹ اور دیگر برقی ا رسالی و ترسیلی ذرائع کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ تیسرے مرحلہ میں اسی پروپیگنڈے کے ذریعہ آمنے سامنے دنیا سے گفتگو کی منزل ہے۔ اس میں آپ بالکل آمنے سامنے ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ اس نظریہ کی بازگشت بھی امریکہ ہی کی طرف ہے ۔ آج کون ہے جس کا ذرائع ابلاغ پر قبضہ ہو ؟آج کون ہے جو دنیا کے آمنے سامنے قرار پا سکتا ہے ؟ یہ بھی امریکہ ہی ہے ۔

چوتھا نظریہ: تمدنوں اور تہذیبوں کے آپسی ٹکراوٴ کانظریہ ہے ۔   

 اگرچہ انہوں نے اواخر میں اس نظریہ سے عدول کرکے اپنی غلطی کا اقرارکر لیا ہے لیکن اسکے باوجود اپنے دیگر نظریات کی بنا پر امریکہ کریہہ  چہرے کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کی نجات امریکہ ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شیطانی تہذیب کا جبر اوراصلاحِ معاشرہ
میاں بیوی کے باہمی حقوق
مومن کی شان
ڈنمارک ؛ ڈینش نوجوانوں میں دین اسلام کی مقبولیت
يورپي معاشرے ميں عورت کے متعلق راۓ
عصر حاضر کے تناظر میں مسلمانوں کا مستقبل-2
اسلام کی نگاہ میں خواتین کی آزادی
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت
اتحاد بین المسلین سے بہتر مسلمانوں کے لئے کوئی ...
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ دوّم )

 
user comment