اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

اسلام کی نگاہ میں خواتین کی آزادی

جب عورت قبیلہ کے سردار ،باپ،بھائی یا دوسرے لوگوں کی ظالمانہ ارادہ کے ما تحت ہوتی تھی اور ہر قسم کے حقوق سے بھی محروم تھی، اسلام نے اسے آزادی جیسی نعمت عطا کی ۔ اس طرح ہمسر کا انتخاب کرنے ، اپنے مال ودولت خرچ کرنے ، اور اظہار خیال کرنے میں استقلال اور آزادی عطا کی۔ تاکہ ان کی قدروقیمت پہچان سکے۔

پھر بھی اسلام دشمن عناصر کہتے ہیں: کبھی اسلام نے انھیں مکمل آزادی نہیں دی ہے۔ جیسے شادی کرنے میں باپ یا دادا کی رضایت کو لازمی ٹھہرا کر لڑکیوں کی خودمختاری سلب کی ہے۔ ٹھیک ہے اسلام نے باپ یا دادا کی رضایت کو لازمی ٹھہرا یا لیکن اس کی حکمت عملی اور فلسفہ پر نگاہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں بھی خود لڑکی کے فائدے کا لحاظ رکھا گیاہے۔ کیونکہ لڑکے اور لڑکیاں اپنی جوانی کے دور میں احساسات اور شاعرانہ تخیّلات اور میٹھی خوابوں میں مست رہتے ہیں، انہیں اس دوران ،زندگی کی نشیب وفراز ، تلخ یا مٹھاس کا خاص احساس نہیں ہوتا ۔ احساسات اور جذبات میں آکر انہیں نفع و نقصان ایک ہی نظر آنے لگتا ہے۔ اب اس حالت میں ایک دلسوز، مہربان اور تجربہ کار نگاہ کی ضرورت ہے جو اپنی تجربات کی روشنی میں لڑکی یا لڑکے کی منفعت اور مصلحت کے تحت قدم اٹھائے۔اگرچہ روایات مختلف ہیں : بعض روایات میں باپ یا دادا کی اجازت کو ضروری سمجھا گیا ہے ۔ جیسے: امامصادق (ع)فرماتے ہیں : لا تزوّج ذوات الآباء من الابکار الّا باذن آبائھن-1

امام (ع) نے فرمایا کہ ان باکرہ لڑکیوں سے شادی ان کے آباء و اجداد کی اجازت کے بغیرنہ کرو۔ لیکن بعض روایات اس کے برعکس ہیں: امام صادق(ع) سے ہی مروی ہے: لا بئس بتزویج البکر اذا رضیت من غیراذن ابیھا-2

فرمایا: باکرہ لڑکیوں سے ان کے آباء واجداد کی اجازت بغیر شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

ان دونوں روایات کو اگر جمع کریں تو باپ کی رضایت اور موافقت کو لڑکے یا لڑکی کی رضایت کیساتھ منضم کرکے عقد برقرار کرسکتا ہے۔

ایک تیسری روایت میں ایک شخص نے امام Aسے اپنی بیٹی کی شادی کے بارے میں سوال کیا تو امام Aنے جواب دیا : افعل و یکون ذالک برضاھا فانّ لھا فی نفسھا نصیباً و حظاً-3

فرمایا :تو اسی شخص کو اپنی بیٹی کیلئے انتخاب کر جسے تیری لڑکی پسند کرے،اور لڑکی کی مرضی کے خلاف دوسرے کی زوجیت میں نہ دو۔

ان فرامیں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں عورتوں پر کوئی جبر اور قید و بند نہیں بلکہ دین مقدس اسلام نے ان کی مرضی کو ہرچیز پر مقدّم رکھتے ہوئے انھیں مکمل آزادی عطا کی ہے۔

مسلمان خواتین کی آزادی سے کیا مراد ؟

اسلام میں عورت کی آزادی اور حریت کے پیش نظر اسلامی ممالک میں خواتین کا ، آزادی کا نعرہ بلند کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم ان خواتین سے سوال کرتے ہیں کہ : کس حق کے حصول کیلئے نعرہ بلند کرتی ہوجو تم سے چھین چکا ہے؟ کونسی مشکلات ہے جسے اسلام نے حل نہیں کئے ہوں؟

اگر مسلمان عورتوں کا مقصد یہ ہو کہ انھیں شریک حیات کا انتخاب کا حق نہیں ملا ہے تو اسلام نے ابتداء ہی سے یہ حق عطا کیاہے ۔چنانچہ حضرت خدیجہI کی سوانح حیات کا مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے شریک حیات انتخاب کرنے کا حق بھی دیا گیا اور اپنے اموال میں پورا پورا تصرف کرنے کا حق بھی۔ آپ اسلام میں پہلی خاتون ہے جس نے اپنے رشتے کیلئے پیغام بھیجا۔ اگر مسلمان عورتوں کا مقصد حق طلب العلم فریضة علی کلّ مسلم ومسلمة تعلیم و تعلّم کا مطالبہ ہے تو اسلام نے نہ صرف یہ حق انھیں عطا کیا ہے بلکہ ، کہہ کر ان پر بھی واجب قرار دیا ہے۔

اگر مسلمان عورتوں کا مقصد قانون اسلامی میں مرد و عورت میں برابری ہے تو اسلام نے یہ حق تمام انسانی گروہوں ،خواہ وہ حبشی ہوں یا قرشی، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ،سب کو برابر اور مساوی دیا ہے۔ اسلام کے اس پیغام کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے:

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایا ز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نوازاور اگر مسلمان خواتین کا غوغا اور شور وشرابہ کرنے کا مقصد ایک آبرو مندانہ زندگی گذارنا ہے جہاں کوئی اجنبی اس کی طمع نہ کرے، اور ایک شرافت مندانہ خاندان کی تشلیکل دینا ہے جو بے بندوبار افراد کی شر سے محفوظ رہے تو اسلام نے بہترین طریقے سے اس ماحول کو عورتوں کیلئے فراہم کیا ہے ،شاید کسی اور مکتب نے فراہم نہیں کیا ہے۔

لیکن اگر ان کا مقصد بے عفّتی ، شہوت رانی ، اخلاقی حدود کو پامال کرنا ،بے پردہ ہو کر گھر سے نکلنا ،محرم نا محرم کی تمیز کئے بغیر لوگوں میں مغربی طرز پر رہن سہن رکھنا ہو اور خاندانی آشیانے کو ویران کرکے نسلوں کو خراب اور بے سرپرست قراردینا ہے تو ہم قبول کرتے ہیں کہ اسلام نے ایسی آزادی عورت کو نہیں دی ہے۔یہ آزادی تو اسلام میں مردوں کیلئے بھی نہیں دی گئی ۔

اس قسم کی ننگین آزادی کے حصول کیلئے پارلیمنٹ ۔ اسمبلی اور دوسرے سرکاری ادارے بنانے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ کافی ہے کہ شرم وحیا کے پردے کو اتار پھینک دیں تاکہ مکمل طور پر بدن برہنہ اور عریان ہو جائے ۔ بجائے اس کے کہ ابھی سینہ اور ٹانگین عریان ہے، اور اس طرح بجای اس کے کہ رات کی تاریکی میں نامحرموں کے ساتھ رقص اور جنسی خواہشات پوری کرے، علنی طور پر دن کو ایسا کرے!!! 4

امام خمینی(رح)اور یوم خواتین

اس دن کی مناسبت سے ٢٦ .٢ . ١٣٥٨ش کو خواتین کو اپنے پیغام میں یوں مخاطب ہوا :افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کی خواتین تاریخ بشریت میں دو مرحلے میں مظلوم واقع ہوئی ہیں:

١. دور جاہلیت میں کہ جس کی تفصیل گذر گئی۔ اور اسلام نے ان پر بڑا احسان کرکے انہیں اس مظلومیت سے نکالا، کہ جہاں عورت حیوان بلکہ اس سے بھی پست تر سمجھتی جاتی تھی۔

٢. شاہ سابق رضا شاہ اور ان کے بیٹے کے دورن ایران میں عورت مظلوم واقع ہوئی۔اس نعرے کیساتھ کہ عورت کو آزادی دلائیں گے، بڑا ظلم کیا۔عورت کو اپنی شرافت اور عزت والی حیثیت سے گرایا ۔ اور ان کی آزادی اور مقام کو آزادی ہی کے نام سے ان سے سلب کیا۔ جوان لڑکے اور لڑکیوں کو فاسد کیا۔ اور عورت کو ایک کھلونا بنایا درحالیکہ عورت شائستہ اور برجستہ افراد کی مربّی ہوا کرتی ہے۔ کسی بھی ملک کی سعادت یا شقاوت عورت ہی کے وجود سے وابستہ ہے۔ ان باپ بیٹے (شاہ سابق ولاحق) نے خصوصاً بیٹے نے جس قدر خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اس قدر مردوں پر نہیں توڑے۔ جوانوں کیلئے فحشاء اور منکرات کے مراکز بنائے گئے۔ آزادی اور تمدن کے نام سے مرد و عورت کی آزادی کو ان سے چھین لیا گیا-5

ہمیں چاہئے کہ اسلام کے حقیقی احکام کو بیان کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق اور مقامات عوام تک پہنچائیں اور مختلف شخصیات کی غیر اسلامی نظریے اور افکار کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ مسئلہ بہت ہی پیچیدہ ہے اگر تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے خواتین پر دو طریقوں سے ظلم ہوا ہے:

١. قدرت مند افراد کی طرفسے ، کیونکہ ہر لحاظ سے جامعہ میں کچھ لوگ قوی تر ہوا کرتے ہیں یہ لوگ اپنی خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کے خاطر معاشرے میں موجود خواتین کی طرف دستدرازی کرتے ہیں، اس لحاظ سے معاشرہ مغربی ہونے یا مشرقی ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی معاشروں میں بھی ایسی ہی وضعیت پائی جاتی ہے۔

٢. عورت کو مال و دولت کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ تفصیلی گفتگو گذر گئی ۔ آج بھی عورت کے حقوق کا دفاع کے نام پر پہلے سے زیادہ ان پر ظلم ہورہا ہے۔ یورپی ممالک میں جو عورت کے حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں اور ان کیلئے قانون وضع کرتے ہیں ۔تو یہ سب کچھ اسلئے ہے کہ عورت کو کا رخا نو ں ، ملوں اور دفتروں میں ملازمت دے کر بد اخلا قی کی جڑوں کو پہلایا جا ئے۔ اور آذاد ی کا مطلب اس طرح ذہن نشین کر ایا جائے کہ زیا دہ سے زیا دہ سے عو رت اپنی جسما نی نمائش کریں۔ اس کا منہ بولتا ثبو ت آپ کوہر سال مغر بی حتیٰ مشر قی دنیا نیں بھی خو بصورتی کے مقا بلے کی شکل میں ملے گا کہ کو نسی عور ت زیادہ خوبصورت ہے تاکہ دنیا میں سب سے خو بصور ت خا تو ںکہلا سکے۔ اس طرح آزاد ی کے نام سے نا مشروع اور نا جائز طر یقے سے عورتوں اور مرد وں کے درمیان زیادہ سے زیا دہ تعلقات پید ا کرنے کیلئے زمینہ فراہم کرتے ہیں۔جوان لڑکیا ں کا لجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے لئے بوائے فرینڈ انتخاب کرتی ہیں، لڑکی کے والدین بھی اس چیز کو معیوب نہیں سمجھتے ۔ حتی مشاہدہ ہو ا ہے کہ لڑکی اپنے گھر پر اس بوائے فرینڈ کو لیکر آتی ہے اور ماں باپ سے ملاتی ہے اور ماں باپ بھی فاخرانہ انداز میں کہتے ہیں یہ لڑکا ہماری بیٹی کا دوست ہے۔ اور جان لو یہ سب مغربی فرہنگ ہماری طرف منتقل ہوئی ہے۔ ایسے میں ہمیں چاہئے کہ اسلامی افکارلوگوں تک پہنچائے اور بتا دے کہ یہ آزادی نہیں بلکہ نفسانی خواہشات کی غلامی ہے۔ اصل آزادی جو دین مقدس اسلام نے عورتوں کو عطا کی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو ایسے مطلوب مواقع فراہم کیا جائے جہاں پر وہ اپنی پوشیدہ استعداد اور صلاحیتوں کو اجاگر کرسکیں ۔تاکہ وہ لوگ بھی مردوں کی طرح کمال انسانیت کے مقام پر فائز ہو سکیں ۔ اسلام نے جس دن عورتوں کے بارے میں خطاب کیا اور اپنی تعالیم اور مطالب کو دنیا کے سامنے پیش کیا تو عورت کو ان دونوں قسم کے مظالم سے نجات مل گئی۔

اسلام نے اجازت نہیں دی کہ عورت پر ظلم کرے ،حتی اس سے گھریلوکام لے لے یا انہیں برا بلا کہے۔ واقعاً جاہل معاشرے کیلئے یہ بات قابل تعجب ہے کہ کیوں مردوں کو یہ حق حاصل نہیں؟ اسلام نے قطعی طور پر ان ناجائز نظریے کو کہ( عورت کو صرف مردوں کے آرام وسکون کیلئے پیدا کیا ہے) باطل قرار دیا ۔ اور کہا میاں بیوی کے درمیان حقوق دوطرفہ ہیں ۔ جسے باہمی تفاہم اور محبت کیساتھ ادا کریں ۔ اسلام نے میان بیوی کے وظائف کے حدود کو بھی معیں کیا ہے جو کاملاً مرد و عورت کی طبیعت کے مطابق ہے۔

لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب والوں کی غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے ان اسلامی حدود کی رعایت کرنا مسلمان خواتین بھی اپنے لئے ننگ وعار سمجھتی ہیں۔یہاں تک کہ اخباروں ، میگزین اور سنیما گروں اور مجالس ومحافل میں چادر کوکالا کفن کے طور پر تشہیر کرنے لگیں۔ اور بے حجاب اور بے پردہ عورتوں کو متمدن اور ترقی یافتہ سمجھنے لگیں۔ اسی طرح نیم عریانی کو آزادی کا نام دینے لگیں۔ ان کے غلط پروپیگنڈے اس قدر مؤثر تھے کہ عورتیں واقعا حجاب اور چادر کو اپنے لئے اہانت سمجھنے لگیں۔

رہبر معظم (مد ظلہ) اور یوم خواتین

رہبر معظم انقلاب حضرت آیة اللہ العظمی خامنہ ای(مدظلہ العالی)نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے: کہ جب آپ بعنوان صدر بیرون ملک کے دورے پر افریقہ میں پہنچے تو مختلف ممالک کے اخباری نمائندے آپ سے انٹرویو لینے لگے جن میں ایک بے پردہ نوجوان لڑکی بھی تھی اسے کہا گیا کہ دوپٹہ کو صحیح طور پر سر پر رکھیں ۔ یہ بات ان کیلئے بہت گراں گذری ۔ جب مجھ سے خواتین کے بارے میں سوال ہورہاتھا تو یہ خاتون اپنی جہگہ سے اٹھی اور دو سوال کی ۔ اس کے بعد رونا شروع کیا۔ اس کی احساسات کو اس قدر ٹھیس لگی تھی کہ کہنے لگی : کیوں آپ نے حکم دیا کہ دوپٹہ سر پر رکھوں؟یہ عورت اسے حقیقتا اپنے لئے بے عزتی اور اہانت سمجھ بیٹھی تھی۔ واقعا اگریہ ان کیساتھ اہانت تھی تو یہ اس پر ظلم ہوا۔ لیکن یہ دنیا میں رائج غلط فرہنگ ہے جو عورتوں اور مردوں کی ذہنوں پر سوار ہوچکی ہے-6

جبکہ حجاب کو ضروری قرار دینے کا اسلام کا مقصد یہ تھا کہ یہ مسلمان خواتین کی حرمت اور شخصیت کا پاسبان ہے۔ جو اجنبی لوگوں کی مزاحمتوں سے اسے دور رکھتاہے۔ جب اسلام نے عورت کی شخصیت اور حرمت کو گرانبہا گوہر سے تعبیر کیا تو اس کی حفاظت کا انتظام بھی ضروری سمجھا۔ اس لئے عورت کو حجاب میں مستور کیا ۔ کیونکہ تکوینی طور پر عورت میں کشش اور جازبہ پایا جاتاہے۔ اگر حجاب اور پردہ نہ ہوتو طمع کاروں کا شکار بنتی ہے۔ جس طرح بادام اور اخروٹ کے مغز کی حفاظت کیلئے مناسب چھلکے خدا نے خلق کیا اور جواہرات کو سمندر کے تہہ میں رکھا ، اسی طرح عورت کو پردے میں رکھ کر تجا وزگروں سے دور رکھنا مقصود تھا۔

مغربی آزادی کا تلخ تجربہ

آج اس جدید اور متمدن دور میں خواتین پرظلم و ستم بھی جدید طریقے سے ہورہا ہے۔ جھوٹے نعرے اور دہوکہ کے ذریعے ڈیموکریسی اور خواتین کی آزادی وحقوق کے نام پر عورتوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں خصوصاً یورپی ممالک میں عورت کو اپنا سرمایہ اور مال و دولت کی خرید وفروخت کیلئے پبلسٹی کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ سوپر مارکٹوں دفتروں، بینکوں ، دکانوں ، میں عورتوں کو اسی لئے رکھا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں اور خریداروں کو اپنی طرف مائل کرسے۔ اور اسی طرح شہوت رانی ، فحشا اور فلموں میں لا کر زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس طرح خاندان جو ہر انسان کی تشخص برقرار رکھنے کا ایک شرافت مندانہ وسیلہ تھا، درہم برہم کردیا ۔یہاں نمونے کے طور پر کچھ نام نہادترقی یافتہ اور متمدن ممالک کا تذکرہ کریں گے:

روس

اعداد وشمار کے مطابق روس میں پچاس فی صدناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں۔ عورتیں اپنے بچوں سے نفرت کرنے لگتی ہیں۔

١٩٨٠ع کے اعداد وشمار کے مطابق ساٹھ ہزارعورتیں شراب کا نشہ کرتی ہیں۔

١٩٩٠ع کے اعداد وشمار کے مطابق سالانہ تین لاکھ سے پانچ لاکھ خواتین جنسی تجاوزات کا شکار ہوتی ہیں۔

امریکہ

کچھ سال پہلے کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں تین لاکھ لڑکیاں جو اٹھارہ سال سے کم عمر والی ہیں اور ہر تیسری عورت ، تجاوز کا شکار ہوتی ہے۔اور ناجائزجنسی ملاپ کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہزاروں عورتیں اور مرد ہر سال لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔اس کے علاوہ چند سالوں کے دوران اٹھارہ ملین بچے کو سقط کرکے قتل کردئے گئے-7

انگلستان

انگلستان نے اعلان کیا کہ ہر ہفتہ پچاس حاملہ لڑکیاں جو چودہ سال سے کمتر عمر والی ہیں ،حمل گرادیتی ہیں ۔ ایک اعلامیہ کے مطابق ہر تیسری شوہر دار خاتون اجنبی مرد کیساتھ دوستی قائم کی ہوئی ہوتی ہے۔

جاپان

جاپان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو پانچ لاکھ فاحشہ عوروں کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے گزارش دی ہے کہ سالانہ دنیا کی اسّی ملین خواتین نہ چاہتے ہوئے حاملہ ہوتی ہیں-8

تھائلینڈ

ہفتہ وار مجلہ اشپیگل یکم جولائی ١٩٨٥ع میں ایک گزارش دی تھی کہ جس کے مطابق دلالوں کے ذریعے تھائلینڈ کی فقیر دیہاتوں سے دوشیزہ جوان لڑکیوں کی ظاہرا خدمت گزاری کیلئے لیکن درحقیقت فاحشہ گری کیلئے ایک ہزار مارک میں فروخت ہوتی ہیں ۔ جو بنکاک اور ہانکونگ،جاپان اور جرمن کے نائٹ کلب میں لائی جاتی ہیں ۔ بنکاک پولیس کے ایک اعداد وشمار کے مطابق تھائلینڈ سے سولہ ہزار عورتیں اور لڑکیاں دوسرے ممالک میں صادر ہوتی ہیں۔ان میں سے مغربی جرمنی میں تین ہزار درآمد ہوتی ہیں۔ جہاں پر قانونی طور پر ایجنسیاں پائی جاتی ہیں جن کا کام فاحشہ عورتوں اور لڑکیوں کو ملک میں وارد کرنا ہے۔ بہت سے لوگ ان ایجنسیوں کے ہاں رجوع کرتی ہیں اور لڑکیوں یا عورتوں کو خریدنے کے بعد انہیں بازاروں میں بہیجتے ہیں، تاکہ بدن فروشی کرکے مالک کیلئے پیسہ جمع کرے۔ اور مالک کا اقتصاد بحال ہوجائے۔

 

مغربی جرمنی

صرف مغربی جرمنی میں دوہزار کمپنیاں موجود ہیں جو عورتوں اور لڑکیوں کو خریداروں کیلئے فراہم کرتی ہیں ۔ اور پانچ ہزار سے بارہ ہزار تک عورتیں اور لڑکیاں تیار رکھتی ہیں۔ ہر مہینہ میں تین ہزار کے قریب عوتوں اور لڑکیوں کا معاملہ ہوتا ہے-9

افسوس کا مقام ہے کہ آج بھی آزادی کے نام سے عورتوں کی یہ درد ناک حالت باقی ہے اور خود عورتیں بھی اسے آزادی سمجھ کر بہت خوش ہیں۔

خدا تعالی سے یہی دعا ہے کہ جناب زینب I کی لٹی ہوئی چادر کا واسطہ ہماری ماں بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی چادر اور پردے کی حفاظت کرنے کی توفیق اور باپ بیٹوں اور بھائیوں کو غیرت ناموس عطا فرما۔

1 . من لایحضرالفقیہ ،ج٣، ص٣٩٥ ۔

2 ۔ التھذیب،ج٥۔

3 ۔ ہمان۔

4 ۔ حقوق زن در اسلام وجہاں ،ص١٦٠ ۔

5 ۔ فاطمہ گل واژہ آفرینش،ص٦٧۔

6 ۔ حجاب و آزادی،ص٢٤۔

7 ۔ اخبار جمہوری اسلامی۔٨.٣.١٣٦٤ ۔

8 ۔ فقہ و حقوق، ج٣، ص١٨۔

9 ۔ حجاب و آزادی، ص١٣٧۔

 

 

 

 


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شیطانی تہذیب کا جبر اوراصلاحِ معاشرہ
میاں بیوی کے باہمی حقوق
مومن کی شان
ڈنمارک ؛ ڈینش نوجوانوں میں دین اسلام کی مقبولیت
يورپي معاشرے ميں عورت کے متعلق راۓ
عصر حاضر کے تناظر میں مسلمانوں کا مستقبل-2
اسلام کی نگاہ میں خواتین کی آزادی
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت
اتحاد بین المسلین سے بہتر مسلمانوں کے لئے کوئی ...
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ دوّم )

 
user comment