اس سوال کے جواب میں کہ اس رات '' شب قدر ،، کا نام کیوں دیا ہے بہت کچھ کہا گیا ہے من جملہ یہ کہ :
١۔ شب قدر کو شب قدر کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ بندوں کے تمام سال کے سارے مقدّرات اسی رات میں معین ہوتے ہیں اس معنی کی گواہ سورہ دخان کی آیت ہے جس میں آیا ہے کہ:
'' انا انزلنا ہ فی لیلة مبارکة اناکنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم''(دخان٤٣)'' ہم نے اس کتاب مبین کو ایک پر برکت رات میں نازل کیا ہے اور ہم ہمیشہ ہی انداز کرتے رہے ہیں اس رات میں پر امر خداوند عالم کی حکمت کے مطابق تنظیم و تعین ہوتاہے''
یہ بیان متعدد روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو کہتی ہیں کہ اسی رات میں انسان کے ایک سال کے مقدورات کی تعیین ہوتی ہے اور رزق ، عمریں اور دوسرے امور اسی مبارک رات میں تقسیم اور بیان کئے جاتے ہیں ۔ البتہ یہ چیز انسان کے ارادہ اور مسئلہ اختیار کے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی کیونکہ فرشتوں کے ذریعے تقدیر الہی لوگوں کی شائستگیوں اور لیاقتوں اوران کے ایمان اور تقوی اور نیت اعمال کی پاکیزگی کے ہو تی ہے یعنی ہر شخص کے لئے وہی کچھ مقدر کرتے ہیں جو اس کے لائق ہے یا دوسرے لفظوں میں اس کے مقدمات خود اسی کی طرف سے فراہم ہوتے ہیں اور یہ امر نہ صرف یہ کہ اختیار کے ساتھ منافات نہیں رکھتا ۔ بلکہ یہ اس پر ایک تاکید ہے۔
٢۔بعض نے یہ کہا ہے کہ اس رات کو اس وجہ سے شب قدر کہا جاتاہے کہ یہ ایک عظیم قدر و شرافت کی حامل ہے
٣۔بعض نے یہ کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اپنی پوری قدر و منزلت کے ساتھ ، قدر و منزلت والے رسول پر اور صاحب قدر و منزلت فرشتے کے ذریعے اس میں نازل ہوا ہے ۔
٤۔یا یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک ایسی رات ہے جس میں قرآن کا نازل ہونا مقدر ہوا ہے۔
٥۔یا یہ بیان ہواہے کہ جو شخص اس رات کو بیدار رہے تو صاحب قدر و مقام و منزلت ہو جاتاہے ۔
٦۔ یا یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس رات میں اس قدر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ ان کے لئے زمین تنگ ہو جاتی ہے کیونکہ تقدیر تنگ ہونے کے معنی میں آ یا ہے'' و من قدر علیہ رزقہ''(طلاق٧)
ان تمام تفاسیر کا '' لیلة القدر''کے وسیع مفہوم میں جمع ہونا پورے طور ے پر ممکن ہے اگر چہ پہلی تفسیرزیادہ مناسب اور زیادہ مشہور ہے [۱]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱]۔تفسیر نمونہ ، دانشمندوں کی ایک جماعت،ج ٢٧،ص ١٨٧
source : http://ahlulbaytportal.ir