آپ کا اسم گرامی
آپ کا نام نامی و اسم گرامی ”محمد“ اورمشہور لقب ” مہدی “ ہے علماٴ کا کہنا ہے کہ آپ کا نام زبان پرجاری کرنے کی ممانعت ہے علامہ مجلسی اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حکمت آن مخفی است “ اس کی وجہ پوشیدہ اورغیرمعلوم ہے ۔ (جلاٴالعیون ص۲۹۸) علماء کا بیان ہے کہ آپ کا یہ نام خود حضرت محمد مصطفی نے رکھا تھا ۔ ملاحظہ ہو روضة الاحباب و ینابع المودة ۔ مورخ اعظم ذاکرحسین تاریخ اسلام جلد۱ ص ۳۱میں لکھتے ہیں کہ ”آنحضرت نے فرمایا : کہ میرے بعد بارہ خلیفہ قریش سے ہوں گے آپ نے فرمایا کہ آخر زمانہ میں جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی ، تو میری اولاد میں سے مہدی کا ظہور ہو گا جو ظلم و جور کو دور کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا ۔ شرک و کفر کو دنیا سے نابود کر دے گا، نام ”محمد “ اورلقب ” مہدی “ ہو گا حضرت عیسی آسمان سے اترکر اس کی نصرت کریں گے اوراس کے پےچھے نماز پڑھیں گے ،اور دجال کوقتل کریں گے ۔
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے روز قیام کے سلسلے میں مختلف روایتیں پائی جاتیں ہیں بعض میں نو روز کا دن قیام کے آغاز کا دن ہے دیگر روایت میں روز عاشورہ ۔ کچھ روایتوں میں سنیچر کا دن اور کچھ میں جمعہ قیام کے لئے دن معین ہے ۔ ایک ہی زمانے میں نو روز اور عاشورا کے درمیان اشکال نہیں ہے اس لئے کہ نو روز شمسی اعتبار سے اور عاشورا قمری لحاظ سے حساب ہو جائے گ ا۔ لہٰذا دو روز کا ایک ہونا ممکن ہے۔
اور ان دو روز (عاشورا و نو روز) کا ایک زمانہ میں واقع ہونا ممکن ہے جو کچھ مشکل اور مانع ہے وہ ہفتہ میں دو دن بعنوان قیام کا ذکر کرنا ہے لیکن اس طرح کی روایت بھی قابل توجیہ ہے،اس لئے کہ اگر اس روایت کی سند صحیح ہو تو ایسی صورت میں روز جمعہ والی حدیث کو قیام و ظہور کے دن پر حمل کیا جائے گا اور وہ جو شنبہ کو قیام کا دن کہتی ہے نظام الٰہی کے اثبات اور مخالفین کی نابودی کا دن سمجھا جائے گا ۔جاننا چاہئے کہ جو روایتیں شنبہ کا دن تعیین کرتی ہیں وہ سند کے لحاظ سے مورد تامل ہیں ۔ لیکن روز جمعہ والی روایت اس اعتبار سے بے خدشہ ہے ۔
اس سلسلے میں اب روایات ملاحظہ ہوں۔
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ: ہمارے قائم جمعہ کے دن قیام کریںگے ۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ: گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حضر ت قائم عاشور کے دن شنبہ کو رکن و مقام کے درمیان کھڑے ہیں اور جبرئیل (ع) آنحضرت کے سامنے کھڑے لوگوں کو ان کی بیعت کی دعوت دے رہے ہیں۔
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ: روز عاشورہ شنبہ کے دن حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہالشریف) قیام کریں گے یعنی جس دن امام حسین (علیہ السلام) شہید ہوئے ہیں۔
نیز آنحضرت -ص- فرماتے ہیں کہ: کیا جانتے ہو کہ عاشور ہ کون سا دن ہے ؟ یہ و ہی دن ہے جس میں خداوند عالم نے آدم و حوا کی توبہ قبول کی۔ اسی دن خدا نے بنی اسرائیل کے لئے دریا شگاف کیا اور فرعون اور اس کے ماننے والوں کو غرق کیا موسیٰ (علیہ السلام) فرعون پر غالب آئے اسی دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کے توبہ او ر جناب عیسی (علیہ السلام) کی ولادت اور حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے قیام کا دن ہے۔
اسی مضمون کی امام محمد باقر (علیہ السلام) سے ایک دوسری روایت بھی نقل ہوئی ہے۔ لیکن اس روایت میں ابن بطائنی کی و ثاقت جو سلسلہ سند میں واقع ہوا ہے مورد خدشہ ہے ۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ: تیسوئیں کی شب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہالشریف) کے نام سے آواز آئے گی اور روز عاشورا حسین بن علی کی شہادت کے دن قیام کریں گے ۔
اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں کہ :نوروز کے دن ہم اہل بیت ( علیہم السلام ) کے قائم ظہور کریں گے۔
الف)اعلان ظہور
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہالشریف) کے ظہور کا اعلان سب سے پہلے آسمانی منادی کے ذریعہ ہوگا اس وقت آنحضرت جب کہ قبلہٴ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوں گے اورحق کی دعوت کے ساتھ اپنے ظہور کا اعلان کریں گے۔
امیر الموٴمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ: جب منادی آسمانی آواز دے گا کہ حق آل محمد کی طرف ہے اگر تم لوگ ہدایت و سعادت کے خواہاں ہو تو آل محمد کے دامن سے متمسک ہو جاوٴ۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں:کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) مکہ میں نماز عشاء کے وقت ظہور کریں گے جب کہ پیغمبر -ص- کا پرچم، تلوار اور پیراہن ہمراہ لئے ہوں گے اور جب نماز عشاء پڑھ چکیں گے توآوازدیں گے :اے لوگو! تمہیں خدا اور خدا کے سامنے (روز قیامت) کھڑے ہونے کو یاد دلاتا ہوں ۔ جب کہ تم پر دنیا میں اپنی حجت تمام کر چکا ہے .
انبیاء بھیجے ، قرآن نازل کیا۔ خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کا کسی کو شریک قرار نہ دو اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کرو ۔ جس کے زندہ کرنے کو قرآن نے کہا ہے اسے زندہ کرو اور جس کے نابود کرنے کا حکم دیا ہے اسے نابود کرو راہ ہدایت کے ساتھی بنو اور تقویٰ و پر ہیز گاری اختیار کرو اس لئے کہ دنیا کے فنا زوال اور دواع کا وقت آچکا ہے ۔
میں تمہیں اللہ ، رسول ، کتاب عمل اور باطل کی نابودی رسول اللہ کی سیرت کے احیاء کی دعوت دیتا ہوں اس وقت ۳۱۳ افراد انصار کے درمیان ظہور کریںگے ۔
ب) پرچم قیام کا نعرہ
ہر حکومت کا ایک نشان ہوتا ہے تاکہ اسی کے ذریعہ پہچانی جائے اس طرح قیام و انقلاب بھی ایک مخصوص پرچم رکھتے ہیں کہ اس کا مونو گرام ایک حد تک اس کے رہبروں کے مقاصد کو نمایاں کرتا ہے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا عالمی انقلاب بھی مخصوص مو نوگرام کا ہوگا اور اس پر شعار لکھا ہوگا ۔اگر چہ مونوگرام کے شعار کے بارے میں اختلاف ہے لیکن ایک باب سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ لوگوں کو حضرت کی اطاعت کی دعوت دے گا۔
ابھی اس سلسلے میں چند نمونہ کے ذکرپہ اکتفاء کرتے ہیں :
ایک روایت میں ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے پرچم پر لکھا ہوگا ۔
”کان کھلا رکھو اور حضرت کی اطاعت کرو۔“
دوسری جگہ ملتا ہے کہ پر چم مہدی کا نعرہ ”البیعة لِللہ “بیعت خدا کے لئے ہے ۔
ج)قیام سے کائنات کی خوشحالی
روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا قیام انسانون کی خوشحالی کا باعث ہوگا اس خوشحالی کا بیان مختلف طریقوں سے ہے بعض روایتوں میں زمین اور آسمان والوں کی خوشی ہے اور بعض میں مردوں کی خوشحالی مذکور ہے ایک روایت میں قیام کے لئے استقبال کا تذکرہ ہے دوسری روایتوں میں مردوں کے زندہ ہونے کی آرزو کا تذکرہ ہے یہاں پر اس کے چند نمونے ذکر کرتا ہوں ۔
رسول خدا فرماتے ہیں کہ: حضرت مہدی کے قیام سے تمام اہل زمین و آسمان پرندے درندے دریا کی مچھلیاں خو شحال و شاد ہوں گی ۔
اس سلسلے میں حضرت امیر الموٴمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ اس وقت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے جب آپ کا نام مبارک زبان زد خاص و عام ہوگا اور لوگوں کے وجود حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے عشق سے سرشار ہوں گے اس طرح سے کہ ان کے نام کے سوا کوئی اور نام نہ زبان زد ہوگا اور نہ یاد رہ جائے گا اور ان کی دوستی سے اپنی روح کو سیراب کریں گے۔
روایت میں ”یَشْرِبُوْنَ حُبَّہالشریف“کی تعبیر سے یعنی ان کی محبت سے اپنی پیاس بجھائیں گے اس روایت میں حضرت سے ارتباط وتعلق کو خوشگوار پینے کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ لوگ جسے الفت اور پوری رغبت سے پیتے ہیں اور حضرت مہدی کا عشق ان کے وجود میں نفوذ کر جائے گا۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) ظہور سے قبل کے تلخ حوادث اور فتنوںکو شمار کرتے ہوئے ظہور کے بعد فرج اور کشادگی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: اس وقت لوگوں کو اس طرح فرج و سکون حاصل ہوگا کہ مردے دوبارہ زندگی کی تمنا کریںگے۔
امام جعفرصادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:گویا میں منبر کوفہ کی بلندی پر بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں اور رسول خدا کی زرہ ڈالے ہوئے ہیں اس وقت حضرت کے بعض حالات بیان فرمائے اور اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: کہ کوئی مومن قبر میں نہیں بچے گا کہ اس کے دل میں خوشی و مسرت داخل نہ ہوئی ہو اس طرح سے کہ مردے ایک دوسرے کی زیارت کو جائیں گے اور حضرت کے ظہور کی ایک دوسرے کو مبارک باد دیں گے ۔
بعضی روایتوں میں ”تلک الفرجہ“کی لفظ آئی ہے یعنی برزخ کے باشیوں کے لئے حضرت کے ظہور سے کشایش پیدا ہوگی اس نقل کے مطابق رہبری و انقلاب کی عظمت اس درجہ ہے کہ ارواح پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
د)محرومین کی نجا ت
شک نہیں کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہالشریف) کا قیام عدالت کی بر قراری اور انسانی سماج سے تمام محرومیت کی بیخ کنی ہے اس حصے میں حضرت کے قیام کے وقت مظلوموں کے سلسلے میں جوآپ کا اقدام ہوگا کہ محروموں کی پناہ کا باعث ہو اُسے بیان کریں گے۔
رسول خدا فرماتے ہیں کہ: میری امت سے مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے خدا انھیں انسانوں کا ملجاء بنا کر بھیجے گا اس زمانے میں لوگ نعمت وآسائش میں زندگی گذاریں گے ۔
رسول خدا نے فریاد رسی کو کسی گروہ ،ملت اور طائف سے مخصوص نہیں کیا ہے ؛بلکہ کلمہ (ناس) یعنی لوگ،کے ذریعہ تمام انسانوں کا نجات دھندہ جاناہے اس بناء پر ان کے ظہور سے پہلے شرائط کچھ ایسے ہوجائیں گے کہ دنیا کے تمام انسان ظہور کی تمنا کریں گے جابر کہتے ہیں کہ: امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: کہ حضرت مہدی مکہ میں ظہور کریں گے .
خدا وند عالم ان کے ہاتھوں سے سرزمین حجاز کو فرج عطا کرے گا اور حضرت بنی ہاشم کے تمام قیدیوں کو آزاد کریں گے۔“
ابو ارطات کہتا ہے کہ:حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)(مکہ سے) مدینہ کے عازم ہوں گے اور اسراء بنی ہاشم کو آزاد ی دلائیں گے پھر کوفہ جائیں گے اور بنی ہاشم کے اسراء کو آزاد کریں گے ۔
شعرانی کہتا ہے کہ: جب حضرت مہدی غرب کی سر زمین پر پہنچیں گے تواندلس کے لوگ ان کے پاس جاکے کہیں گے اے حجة اللہ (خدا کی حجت) جزیرہ اندلس کی مدد کیجئے کہ وہاں کے لوگ اور جزیرہ تباہ ہو گیا ہے ۔
آپ کے القاب
آپ کے القاب مہدی ، حجة اللہ ، خلف الصالح ، صاحب ا لعصر، صاحب الامر ، والزمان القائم ، الباقی اورالمنتظرہیں ۔ ملاحظہ ہو تذکرہ خواص الامة ۲۰۴ ، روضة الشہداٴ ص۴۳۹، کشف الغمہ ۱۳۱ ، صواعق محرقہ۱۲۴ ،مطالب السؤال ۲۹۴ ،اعلام الوری ۲۴ حضرت دانیال نبی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے ۱۴۲۰ سال پہلے آپ کالقب منتظرقراردیاہے ۔ ملاحظہ ہو کتاب دانیال باب۱۲ آیت ۱۲ ۔ علامہ ابن حجرمکی ، المنتظرکی شرح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ انھےں منتظریعنی جس کاانتظارکیاجائے اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سرداب میں غائب ہو گئے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے گئے (مطلب یہ ہے کہ لوگ ان کا نتظار کر رہے ہیں ،شیخ العراقین علامہ شیخ عبدالرضا تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کو منتظر اس لئے کہتے ہیں کہ آپ کی غیبت کی وجہ سے آپ کے مخلصین آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ملاحظہ ہو۔ (انوارالحسینیہ جلد۲ ص۵۷طبع بمبئی)۔
آپ کا نسب نامہ
آپ کا پدری نسب نامہ یہ ہے محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی ابن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی و فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، یعنی آپ فرزندرسول، دلبند علی اور نور نظر بتول علیھم السلام ہیں ۔ امام احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ اس سلسہٴ نسب کے اسماء ٴکو اگر کسی مجنون پر دم کردیا جائے تو اسے یقینا شفاحاصل ہو گی (مسندامام رضاص۷) آپ سلسہٴ نسب ماں کی طرف سے حضرت شمعون بن حمون الصفاٴ وصی حضرت عیسی تک پہنچتا ہے ۔ علامہ مجلسی اور علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون تھیں ، جن کا ایک نام ”ملیکہ“ بھی تھا ، نرجس خاتون، یشوعا کی بیٹی تھیں ، جو روم کے بادشاہ” قیصر“ کے فرزند تھے جن کا سلسلہٴ نسب وصی حضرت عیسی جناب شمعون تک منتہی ہوتا ہے ۔ ۱۳سال کی عمرمیں قیصر روم نے چاہا تھا کہ نرجس کا عقد اپنے بھتیجے سے کر دے لیکن بعض قدرتی حالات کی وجہ سے وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا، بالاخر ایک ایسا وقت آگیا کہ عالم ارواح میں حضرت عیسی ، جناب شمعون حضرت محمد مصطفی ، جناب امیرالمومنین اور حضرت فاطمہ بمقام قصر قیصر جمع ہوئے ، جناب سیدہ نے نرجس خاتون کو اسلام کی تلقین کی اور آنحضرت -ص- نے بتوسط حضرت عیسی جناب شمعون سے امام حسن عسکری کے لئے نرجس خاتون کی خواستگاری کی، نسبت کی تکمیل کے بعد حضرت محمد مصطفی -ص- نے ایک نوری منبر پر بیٹھ کر عقد پڑھا اور کمال مسرت کے ساتھ یہ محفل نشاط برخواست ہوگئی جس کی اطلاع جناب نرجس کوخواب کے طور پر ہوئی، بالاخر وہ وقت آیا کہ جناب نرجس خاتون حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں آپہنچیں اورآپ کے بطن مبارک سے نور خدا کا ظہور ہوا۔ (کتاب جلاٴالعیون ص ۲۹۸ و غایۃ المقصود ص۱۷۵)۔
آپ کی کنیت
اس پرعلما فریقین کا اتفاق ہے کہ آپ کی کنیت ” ابوالقاسم “ اور آپ ابوعبداللہ تھی اور اس پر بھی علماٴ متفق ہیں کہ ابوالقاسم کنیت خود سرور کائنات کی تجویزکردہ ہے ۔ ملاحظہ ہو جامع صغیر -ص۱۰۴ تذکرہ خواص الامة ۲۰۴ روضة الشہداٴ ص ۴۳۹ صواعق محرقہ ص۱۳۴ شواہدالنبوت ص ۳۱۲ ، کشف الغمہ ص۱۳۰ جلاٴالعیون ص۲۹۸۔
یہ مسلمات سے ہے کہ آنحضرت -ص- نے ارشاد فرمایا ہے کہ مہدی کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہوگی ۔ لیکن اس روآیت میں بعض اہل اسلام نے یہ اضافہ کیا ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مہدی کے باپ کا نام میرے والد محترم کا نام ہوگا مگر ہمارے راویوں نے اس کی روآیت نہیں کی اور خود ترمذی شریف میں بھی ” اسم ابیہ اسم ابی “ نہیں ہے ، تاہم بقول صاحب المناقب علامہ کنجی شافعی یہ کہاجاسکتا ہے کہ روآیت میں لفظ ”ابیہ“ سے مراد ابوعبداللہ الحسین ہیں ۔ یعنی اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی حضرت امام حسین کی اولاد سے ہیں.
سنت محمدی کو زندہ کرنا
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی قضاوت ،جدید احکام نیز جو آپ اصلاح کریں گے اس کے متعلق بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں ایسے احکام جو موجودہ فقہی متون اور کبھی ظاہر روایات و سنت کے موافق نہیں ہیں بھائی کی میراث کا قانون عالم ذر میں ،شرابخور، بے نمازی کا قتل،جھوٹے کی پھانسی ، مومن سے سود لینا حرام ہے معاملات میں مسجدوں کے مناروں کا خاتمہ ،مساجد کی چھتوں کو توڑدینا انھیں میں سے ہے جو روش حضرت اپنے کاموں اور امور میں اختیار کریں گے جس کا بیان گذشتہ فصل میں ہو چکا ہے اس طرح ہے۔
روایات میں اس طرح عبارت کی تبدیلی سے جیسے جدید فیصلے ،نئی سنت ،نئی دعائیں ،نئی کتاب اسماء کا ذکر ہے کہ ہم اسے صرف سنت محمدی کو زندہ کرنے کا نام دیتے ہیں ۔
لیکن دگر گونی و اختلاف کچھ اتنا ہوگا کہ دیکھنے والے لوگ دین جدید سے تعبیر کریں گے۔
جب ایسی روایتوں کا معصومین( علیہم السلام ) سے صادر ہونا ثابت ہو جائے تو چند نکتوں کی جانب توجہ لازم و ضروری ہوگی ۔
۱۔بعض احکام الٰہی اگر چہ ان کا سر چشمہ خدا وند عالم ہی ہے لیکن اعلان و اجراء کے شرائط حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے زمانے میں فراہم ہوں گے وہ ہے جو ان احکام کا اعلان اور اجراء کریں گے۔
۲۔مرور زمانہ سے طاقتوروں اور تحریف کرنے والوں کی جانب سے احکام الٰہی میں دگر گونی و تحریفیں واقع ہوئی ہیں حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کے بعد اسے صحیح و درست کردیں گے۔
کتاب القول المختصر میں ہے کہ: کوئی بدعت اور سنت ایسی نہیں ہوگی جس کا پھر سے احیاء نہ کریں ۔
۳۔اس لئے بھی کہ جو فقہا ء نے حکم شرعی حاصل کیا ہے قواعد و اصول سے حاصل کیا ہے کبھی حاصل شدہ حکم شرعی واقع کے مطابق نہیں ہو گا اگرچہ اس استنباط کا نتیجہ مجتہد اور مقلد کے لئے حجت شرعی ہے لیکن امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں حضرت احکام واقعی کو بیان کریں گے۔
۴۔بعض احکام شرعی خاص شرائط و اضطراری صورت اور تقیہ کے عالم میں غیر واقعی صورت میں بیان ہوئے ہیں جب کہ حضرت کے زمانہ میں تقیہ نہیں ہوگا اور احکام واقعی کی صورت میں بیان ہوں گے۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تقیہ ختم ہو جائے گا اور حضرت تلوار نیام سے باہر نکالیں گے تو لوگوں سے تلوار کا لین دین کریں گے اور بس۔
مذکور بالا موارد سے متعلق چند روایت بیان کرتے ہیں :
امام جعفرصادق(علیہ السلام)ایک مفصل حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
کہ تم مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہمارے امر کے سامنے تسلیم رہو اور تمام امور کی بازگشت ہماری جانب کرو نیز ہماری اور اپنی حکومت اور فرج کے منتظر رہو جب ہمارے قائم ظہور کریں گے اور ہمارا بولنے والا بولے گا نیز قرآن کی تعلیم دین و احکام کے قوانین نئے سرے سے تمہیں دےں جس طرح رسول خدا -ص- پر نازل ہوئے ہیں تو تمہارے علماء حضرت کی اس رفتار کا انکا ر کریں گے اور تم خدا کے دین اور اس کی راہ پر ثابت نہیں رہو گے مگر تلوار کے ذریعہ جو تمہارے سروں پر سایہ فگن ہوگی۔
خدا وند عالم نے اس امت کے لئے گذشتہ امتوں کی سنت قرار دی ہے لیکن ان لوگوں نے سنت کو تبدیل کر دیا اور دین میں تحریف کر ڈالی کوئی لوگوںکے درمیان رائج حکم نہیں ہے مگر یہ کہ وحی شدہ کے اعتبار سے تحریف کر دی گئی ہے خدا تم پر رحمت نازل کرے جس چیز کی تمہیں دعوت دی جائے اسے قبول کرو تاکہ مجدددین آجائے ۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ جب حضرت قائم ظہور کریں گے تو لوگوں کو نئے سرئے سے اسلام کی دعوت دیں گے اور انھیں اسلام کی راہنمائی کریں گے جب کہ لوگ پرانے اسلام سے برگشتہ اور گمرا ہ ہو چکے ہوں گے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کسی نئے دین کی پیشکش نہیںکریں گے بلکہ چونکہ لوگ واقعی اسلام سے منحرف ہو چکے ہیں دوبارہ اسی دین کی دعوت دیں گے جیسا کہ رسول خد ا نے اس کی دعوت دی ہے ۔
امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے برید سے کہا:اے برید خدا کی قسم کوئی حریم الٰہی ایسی نہیں ہوگی جس سے تجاوز نہ کیا گیا ہو اور اس دنیامیں کتاب خدا وندی و سنت رسول خدا پر کبھی عمل نہیں ہوا اور جس دن امیر الموٴ منین(علیہ السلام) نے رحلت کی ہے اس کے بعد سے لوگوں کے
درمیان حدود الٰہی کا اجراء نہیں ہوا اس وقت فرمایا قسم خدا کی روزو شب ختم نہیں ہوں گے مگر یہ کہ خداوند عالم مردوں کو زندہ ،زندوں کو مردہ کرے گا اور حق اس کے اہل کو لوٹا دے گا اور اپنے آئین کو، جو اپنے اوررسول خدا کے لئے پسند کیا ہے ،باقی رہے گا تمہیں مبارک ہو مبارک کہ حق صرف اور صرف تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ دگر گونی و تغیر بعض موارد میں شیعوںاور ان کے مخالفین کے لئے بھی ہے۔
الف) احکام جدید
۱۔زنا کار اور زکوة نہ دینے والوں کو پھانسی
ابا ن بن تغلب کہتے ہیں : کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے مجھ سے کہا: اسلام میں حکم خدا وندی کے مطابق دو خون حلال ہے نیز اس وقت تک اس کا کوئی حکم نہیں دے گا جب تک کہ خداوند عالم ہمارے قائم کو نہ بھیج دے وہ خدا کے حکم کے مطابق حکم دیں گے اور کسی سے گواہ و شاہد کے طالب نہیں ہوں گے ۔حضرت زنائے محصنہ کرنے والوں (زن دار مرد،اور شوہر دار عورت) کو سنگسار کریںگے اور جو زکوة نہیں دے گا اس کی گردن مار دیں گے ۔
امام جعفر صادق و امام موسیٰ کاظم( علیہما السلام) فرماتے ہیں : کہ جب حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو تین ایسا حکم دیںگے کہ آپ سے پہلے کسی نے ایسا حکم نہ دیا ہوگا آنحضرت بوڑھے زنا کار مرد کو پھانسی دیں گے اور زکوة نہ دینے والوں کو قتل کردیں گے ایک برادردینی کی میراث دوسرے برادر دینی کودیں گے (یعنی جو عالم ذر میں باہم بھائی رہے ہوں گے) ۔
علامہ مجلسی زکوة نہ دینے والے کی پھانسی کے بارے میں کہتے ہیں مسلمان ہر زمانہ میں زکوة کے وجوب پر متفق اور زکوة کو اسلام کے پنجگانہ ارکان میں سے ایک جانتے ہیں لہٰذاجو اس کے وجوب کو قبول نہ کرے جبکہ فطری مسلمان ہو اور مسلمانوں کے درمیان نشو نما پائی ہو تو اسے بغیر توبہ کے پھانسی دیدیں گے اور اگر مسلمان ملی ہوگا تواسے تین بار مرتد ہونے کے بعد توبہ کی مہلت دیں گے اس کے بعد پھانسی دیدیں گے۔ یہ احکام اس صورت میں ہیں جب آگاہ و باشعور انسان وجوب کے بارے میں علم رکھتا ہو لیکن اگر وجوب سے ناواقف ہو تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگے گا
مجلسی اول اس روایت کی شرح میں بعض وجوہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : کہ شاید مراد یہ ہو کہ حضرت ان دو مورد میں اپنے علم کے مطابق حکم اور قضاوت کریں گے اور شاید ضرورت نہیں ہوگی جیسا کہ یہی روش حضرت کے دیگر فیصلوں میں بھی ہوگی ان دو مورد سے اختصاص دینے کا راز اہمیت کے لحاظ سے ہے ۔
۲۔قانون ارث
امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ خدا وند عالم نے، جسم سے دس ہزارسال قبل ارواح کو خلق فرمایا:ان میں سے جو ایک دوسرے سے آسمان پر آشنا و متعارف رہے ہیں وہ زمین پر بھی آشنارہیںگے اور جو ایک دوسرے سے اجبنی رہا ہے زمین پر بھی ایسا ہی ہوگا جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو برادر دینی کو میراث تو دیں گے لیکن نسبی برادر کو محروم کر دیں گے یہی معنی ہیں خداوند عالم کے قول کے سورہ مومنون میں : <فَاِذَاْ نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلاَ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِیذٍ وَلَاْ یَتَسَائَلُوْنَ>جب صور پھونکاجائے گا تو اس وقت لوگوں کے درمیان کوئی نسب نہیںہوگا اور نہ ہی اس کی علت دریافت کریں گے۔
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ خدا وندعالم نے جسم کی خلقت سے دس ہزار سال قبل ،ارواح کے درمیان بھائی چارگی قائم کی لہٰذا جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو برادران دینی جن کے درمیان برادری قائم ہے ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور نسبی بھائی جو ایک ماں باپ سے ہوں گے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوںگے۔
۳۔ جھوٹوں کا قتل
امام جعفرصاد ق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ ”جب حضرت قائم ظہور کریں گے تو سب سے پہلے جھوٹے شیعوں کا تعاقب کریں گے اور انھیں قتل کر ڈالیں گے۔“ احتما ل ہے کہ شاید اس سے مراد منافقین اور مہدویت کے مدعی اور بدعت گذار افراد ہوں جو دین سے لوگوں کے منحرف ہونے کا سبب بنے ہیں ۔
۴۔حکم جزیہ کا خاتمہ
حضرت امیر الموٴ منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں: خدا وند عالم دنیا کا اس وقت تک خاتمہ نہیں کرے گا جب تک حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام نہ کریں اور ہمارے دشمنوں کو نیست و نابود اور جزیہ قبول نہ کریں اور صلیب و بتوں کونہ توڑدیں نیز جنگ کا زمانہ ختم ہوگا اور لوگوں کو مال ودولت لینے کے لئے آواز دیں گے اور ان کے درمیان اموال کو برابر سے تقسیم کریں گے اور لوگوں سے عادلانہ رفتار رکھیں گے۔
رسول خدا نے صلیبوں کے توڑنے سوروں کے قتل کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب جزیہ کا حکم اور مسیحیت کا دور ختم ہونا ہے ۔ فرماتے ہیں : کہ حضرت مہدی ایک منصف فرمانروا کی حیثیت سے ظہور کریں گے صلیبوں کو توڑ اور سووروں کو قتل کر ڈالیں گے نیز اپنے کار گذاروں کو حکم دیں گے مال ودولت لئے شہروں کا چکر لگائیں تاکہ نیاز مند اسے لے لیں لیکن کوئی نیاز منداور محتاج نہیں ملے گا شاید یہ حدیث مسیحیت اور اہل کتاب کے آخری دور کی طرف اشارہ ہو۔
۵۔ امام حسین (علیہ السلام) کے باقی ماندہ قاتلوں سے انتقام
ہروی کہتے ہیں کہ: میں نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے عرض کیا: کہ یابن رسول اللہ ! امام جعفر صادق(علیہ السلام) کی اس بات کا آپ کی نظر میں کیا مطلب ہے ۔کہ آپ فرماتے ہیں : جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلین کے باقی ماندہ افراد اپنے اباوٴ اجداد کے گناہ کی سزا پائیں گے “کیا ہے؟حضرت امام رضا(علیہ السلام) نے کہا یہ بات ٹھیک ہے۔پھر میں نے ان سے کہا کہ اس آیت< وَلاَ تَزِر ُوَاْزِرَة َوِزْر َاُخْرَیٰ>”کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا “کے کیا معنی ہیں ۔
توآپ نے کہا جو خدا نے کہا ہے وہ درست ہے لیکن امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلین کے باقی ماندہ افراد اپنے آباوٴ اجداد کے رویہ سے خوشحال ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں اور جوکوئی کسی چیز سے خوش ہو تو وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے انجام دیا ہو اگر کوئی شخص مشرق میں قتل کیا جائے اور دوسرا مغرب میں رہ کر اس قتل پر اظہار خوشی کرے خدا وند عالم کے نزدیک قاتل کے گناہ میں شریک ہے۔
اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کے باقی ماندہ افراد کو نیست و نابود کریں گے اس لئے کہ وہ اپنے آباوٴ اجداد کے کردار پر اظہار خوشی کرتے ہیں“
میں نے کہا : آپ کے قائم سب سے پہلے کس گروہ سے شروع کریں گے ؟ آپ نے کہا بنی شیبہ سے ان کے ہاتھوں کو قطع کریں گے اس لئے کہ وہ مکہ معظمہ میں خانہٴ خدا کے چور ہیں ۔
۶۔ رہن و وثیقہ کا حکم
علی کہتے ہیں کہ میرے والد سالم نے امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے حدیث ”جو کوئی رہن اور وثیقہ حوالہ کرنے پر برادر مومن سے زیادہ مطمئن ہو میں اس سے بیزار ہوں “کے بارے میں میںنے سوال کیا ۔
توامام جعفر صادق(علیہ السلام) نے کہا: یہ مطلب قائم اہل بیت (علیہم السلام) کے زمانے میں ہے ۔
۷۔ تجارت کا فا ئد ہ
سالم کہتا ہے : کہ میں نے امام جعفرصاد ق(علیہ السلام) سے کہا : کہ ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ مومن کابرادر مومن سے سود لینا حرام اور رباہے؟حضرت نے کہا: یہ مطلب ہمارے اہل بیت( علیہم السلام) قائم کے ظہور کے وقت ہوگا؟ لیکن آج جایز ہے کہ کوئی شخص کسی مومن سے کچھ فروخت کرے اور اس سے فائدہ حاصل کرے تو جائز ہے۔
مجلسی اول اس روایت کی سند کو قوی جاننے کے بعد فرماتے ہیں : کہ اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو روایات کسی مومن سے فائدہ لینے کو مکر وہ سمجھتی ہیں اور اسے ربا کہتی ہیں ،مبالغہ نہیں ہے ممکن ہے کہ فی الحال مکروہ ہو لیکن حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے زمانے میں حرام ہو جائے لیکن مجلسی دوم اس روایت کو مجہول قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: شاید ان دو مورد میں حرمت حضرت حجت کے قیام کے زمانے سے مقید ہو۔
۸۔ برادر دینی کا ایک دوسرے کی مدد کرنا
اسحاق کہتے ہیں : کہ میں امام جعفرصاد ق (علیہ السلام)کی خدمت میں تھا کہ حضرت نے برادر مومن کی مدد و تائید کی بات چھیڑدی اوراس وقت کہا-”کہ جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو برادران مومن کی مدد اس وقت واجب ہو جائے گی اور چاہئے کہ ان کی مدد کریں۔
۹۔قطایع کا حکم (غیر منقول اموال کا مالک ہونا)
(امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ قطایع حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے وقت نیست و نابو د ہو جائیں گے اس طرح سے کہ پھر کوئی قطایع کا وجود نہیں ہوگا۔
قطایع ۔یعنی بہت بڑا سرمایہ ،جیسے دیہات میں بے شمار زمینیں اور قلعے ہیں جسے باد شاہوں اور طاقتور افرا د نے اپنے نام درج کرا لیا ہے ساری کی ساری امام زمانے(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے وقت ان کی ہو جائیں گی۔
۱۰۔ دولتوں کا حکم
معاذ بن کثیر کہتا ہے : کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام)نے فرمایا: کہ ہمارے خوشحال شیعہ آزاد ہیں کہ جو کچھ حاصل کریں راہ خیر میں خرچ کردیں لیکن جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو ہر خزانہ دار پر اسی کا ذخیرہ حرام ہو جائے گا مگر یہ کہ اسے حضرت کی خدمت لائے تاکہ اس کے ذریعہ دشمن سے جنگ میں مدد حاصل کریں یہی خدا وند عالم فرماتا ہے کہ <وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھْبَ وَالْفِضَّةَ وَلَاْ یُنْفِقُوْنَھَاْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَاْبٍ اَلِیْمٍ> ”جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں لیکن اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی بشارت دیدو۔“
حضرت مہدی کے انصار
قابل غور نکتہ یہ ہے ،کہ روایا ت میں قم والوں اور ان افراد کے جو اہل بیت (علیہم السلام) کا حق لینے کے لئے قیام کریں گے اسماء مذکور ہیں۔
عفان بصری کہتا ہے : کہ امام صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے کہا:”کیا جانتے ہو کہ قم کو قم کیوں کہتے ہیں ؟“
تو میں نے کہا : کہ خداوند اور اس کا رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں ۔آپ نے کہا: ”قم کو اس لئے اس نام سے یا د کرتے ہیں کہ اس کے رہنے والے قائم آل محمد کے ارد گرد جمع ہوں گے اور حضرت کے ساتھ قیام کریں گے اور اس راہ میں ثبات قدم اور پایداری کا ثبوت پیش کریں گے اور آپ کی مدد کریں گے۔
صادق آل محمد (علیہ السلام) ایک دوسری روایت میں اس طرح فرماتے ہیں:”قم کی مٹی، مقدس و پاکیزہ ہے اور قم والے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں کوئی ظالم برائی کا ارادہ نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس کی سزا میں جلدی ہو جائے ۔البتہ یہ اس وقت تک ہے جب اپنے بھائی سے خیانت نہ کریں اور اگر ایسا کیا تو، خدا وند عالم ،بد کردارستمگروں کو ان پر مسلط کر دے گا،لیکن قم والے ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے انصار اور ہمارے حق کی دعوت دینے والے ہیں “۔
اس وقت امام (علیہ السلام) نے آسمان کی جانب سر اٹھا یا اور اس طرح دعا کی : خدا وندا َ انھیں ہر فتنے سے محفوظ رکھ اور ہر ہلاکت و تباہی سے نجات عطا کر۔
ایران امام زمانہ کا ملک ہے
جو روایات شہر قم کے بارے میں بیان کی گئی ہیں ایک حد تک ایرانیوں کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ ظہور سے قبل اور ظہور کے وقت لیکن معصومین ( علیہم السلام) کی تقریروں میں تھوڑا غور کرنے سے اس نتیجہ تک پہنچیں گے کہ انھوں نے ایرانیوں اور ایران کی طرف خاص توجہ رکھی ہے اور مختلف مواقع پر دین کی مدد اور ظہور کے لئے مقدمہ چینی کے بارے میں اور بھی تقریریں کی ہیں یہاں پر چند ایسی روایات جو ایرانیوں اور ظہور کے سلسلے میںمقدمہ بنانے والوں کی عظمت بیان کرتی ہیں اکتفاء کرتے ہیں ۔
ایرانیوں کی عظمت
ابن عباس کہتے ہیں:کہ رسول خدا -ص- کی خدمت میں فارس کی بات چلی تو آنحضرت -ص- نے کہا:”اہل فارس ایرانی“بعض ہم اہل بیت سے ہیں۔“
جس وقت رسول خدا -ص- کی خدمت میں غیر عرب یا موالی (چاہنے والوں) کی بات چلی تو آنحضرت-ص- نے فرمایا :
ابن عباس کہتے ہیں کہ: جس گھڑی سیاہ پر چم تمہاری سمت بڑھ رہے ہوں فارسوں کا احترام کرو؟اس لئے کہ تمہاری حکومت ان کی بدولت ہے“۔
ایک روز اشعث نے حضرت علی (علیہ السلام) سے اعتراض کرتے ہوئے کہا:کہ اے امیر الموٴ منین یہ (گونگے )کیوں تمہارے ارد گرد آئے ہوئے ہیں ۔ ؟ حضرت غصہ ہوئے اور جواب دیا-”کون مجھے معذور قرار دے گا کہ ایسے قوی ہیکل ، بے خیر کہ ان میں سے ہر ایک لمبے کان لئے اپنے بستر پر لوٹتا ہو اور فخر و مباحات کرتے ہوئے ایک قوم سے رو گرداں ہو؛تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اُن سے دور ہو جاوٴں ؟کبھی میں ان سے دور نہیں ہوں گا۔
جب تک کہ وہ جاہل کی صف میں شامل نہ ہو جائیں ۔اس خدا کی قسم جس نے دانے اگائے اور مخلوقات کو خلق کیا وہ لوگ ایسے ہیں جو تمہیں دین اسلام کی طرف لوٹانے کے لئے تم سے مبارزہ کریں گے جس طرح تم اسلام لانے کے لئے ان کے درمیان تلوار چلاتے ہو۔“
ظہور کی راہ ہموار کرنے والے
حایز اہمیت حصہ جو روایات میں ظہور سے پہلے کے واقعات اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے انصار کے بارے میں آیا ہے وہ ایران اور ایرانیوں کے بارے میں مختلف تعبیر کے ساتھ جیسے اہل فارس ۔عجم، اہل خراسان ،اہل قم،اہل طالقان،اہل ری۔و۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیان کیا گیا ہے ۔
تمام روایات کی تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ملک ایران میں ظہور سے پہلے الٰہی حکومت جو ائمہ( علیہم السلام) کی دفاع کرنے والی اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی عنایت کا مرکز ہوگی قائم ہوگی نیز ایرانی ۔حضرت کے قیام میں بہت بڑا کردار ادا کریں گے کہ قیام کی بحث میں ذکر کروں گا ۔یہاں پر صرف چند روایت پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
رسول خدا -ص- فرماتے ہیں کہ:”ایک شخص سر زمین مشرق سے قیام کرے گا اور حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔“
نیز فرماتے ہیں کہ:
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ: گویا میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جس نے مشرق میں قیام کر دیا ہے اور حق کے طالب ہیں؛لیکن انھیں حق نہیں دیا جا رہا ہے دو بارہ طلب کرتے ہیں پھر بھی ان کے حوالے نہیں کیا جا رہا ہے ایسی صورت میں تلواریں نیام سے باہر نکالے شانوں پر رکھے ہوئے ہیں اس وقت دشمن ان کی مرادوں کو پورا کررہا ہے لیکن وہ لوگ قبول نہیں کر رہے اور قیام کر رہے ہیں اور حق صاحب حق ہی کو دیں گے ان کے مقتولین شہید ہیں اور اگر ہم نے انھیں درک کر لیا تو میں خودکو اس صاحب امر کے لئے آمادہ کروں گا ۔
اگر چہ عجم کا اطلاق غیر عرب پر ہوتا ہے لیکن قطعی طور پر ایرانیوں کو بھی شامل ہے اور دیگر روایات پر توجہ کرنے سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ) کی مخصوص فوج کی تعداد زیادہ تر ایرانیوں پر مشتمل ہے۔
رسول خدا -ص- فرماتے ہیں :کہ عنقریب تمہارے بعد ایک قو م آئے گی جسے طی الارض کی صلاحیت ہوگی اور دنیاوی دروازہ ان پر کھلے ہوں گے نیزان کی خدمت ایرانی مرد اور عورت کریں گی زمین ان کے قدموں میں سمٹ جائے گی اس طرح سے کہ ان میں سے ہرایک شرق و غرب کی فاصلہ کے باوجود ایک گھنٹہ میں مسافت طے کر لے گا نہ انھوں نے خود کو دنیا سے فروخت کیا ہے اور نہ ہی وہ دنیادار ہیں۔“
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :کہ طالقان والوں کو مبارک ہو کہ خداوند عالم کا وہاں ایسا خزانہ ہے جو نہ سونے کا ہے اور نہ چاندی کا بلکہ صاحب ایمان لوگ ہیں جنھوں نے خدا کو حق کے ساتھ پہچانا ہے اور وہی لوگ آخر زمانہ میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے انصا ر میں ہوں گے ۔
رسول خدا -ص- بھی خراسان کے بارے میں فرماتے ہیںکہ:”خراسان میں خزانے ہیں لیکن نہ وہ چاندی ہے اور نہ سونا ،بلکہ ایسے لوگ ہیں جنھیں خدا و رسول دوست رکھتے ہیں۔
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=72057