جیسا کہ اس سوال میں در پردہ ادعا کیا گیا ھے ،یہ یاد دلانا ضروری ھے کہ حضرت علی ں نے اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی حقانیت اور اپنی خلافت پر استدلال کیا ھے۔حضرت امیرالمومنین جب بھی موقع مناسب دیکھتے تھے مخالفوں کو حدیث غدیر یاد دلاتے تھے ۔ اس طرح سے اپنی حیثیت لوگوں کے دلوں میں محکم فرماتے تھے اور حقیقت کے طالب افراد پر حق کو آشکار کردیتے تھے ۔
نہ صرف حضرت امام علی (ع) بلکہ بنت رسول خدا حضرت فاطمہ زھرا(ع) اور ان کے دونوں صاحب زادوں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام اور اسلام کی بھت سی عظیم شخصیتوں مثلاً عبداللہ بن جعفر،عمار یاسر،اصبغ بن نباتہ،قیس بن سعد، حتیٰ کچھ اموی اور عباسی خلفاء مثلاً عمر بن عبد العزیز اور مامون الرشید اور ان سے بھی بالاتر حضرت(ع) کے مشھور مخالفوں مثلا عمروبن عاص اور.... نے حدیث غدیر سے احتجاج واستدلال کیاھے۔
حدیث غدیر سے استدلال حضرت علی (ع) کے زمانہ سے آج تک جاری ھے اور ھر زمانہ وھر صدی میں حضرت (ع) کے دوست داروں نے حدیث غدیر کو حضرت کی امامت وولایت کے دلائل میں شمار کیاھے۔ھم یھاں ان احتجاجات اور استدلالوںکے صرف چند نمونے پیش کرتے ھیں:
1۔سب جانتے ھیں کہ خلیفہ دوم کے حکم سے بعد کے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چہ رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی کمیٹی کے افراد کی ترکیب ایسی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی (ع)تک نھیں پھنچے گی کیونکہ عمر نے اس وقت کے سب سے بڑے سرمایہ دار عبدالرحمان بن عوف (جو عثمان کے قریبی رشتہ دار تھے)کو ویٹو پاور دے رکھا تھا۔ان کا حضرت علی (ع) کے مخالف گروہ سے جو رابطہ تھا اس سے صاف ظاھر تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو اس حق سے محروم کردیں گے ۔
بھر حال جب خلافت عبد الرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کو بخش دی گئی تو حضرت علی (ع)نے شوریٰ کے اس فیصلہ کو باطل قرار دیتے ھوئے فرمایا:میں تم سے ایک ایسی بات کے ذریعہ احتجاج کرتاھوں جس سے کوئی شخص انکار نھیں کرسکتا یھاں تک کہ فرمایا :میں تم لوگوں کو تمھارے خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس کے بارہ میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا ھو ”من کنت مولاہ فھذا علیّ مولاہ، اللّٰھم وال من والاہ وانصر من نصرہ لیبلغ الشاھد الغائب“ یعنی میں جس جس کا مولاھوں یہ علی (ع)بھی اس کے مولا ھیں۔خدا یاتواسے دوست رکہ اور اس کی مدد فرما جو علی (ع)کی مدد کرے۔حاضرین ھر بات غائب لوگوں تک پھنچائیں۔
اس موقع پر شوریٰ کے تمام ارکان نے حضرت علی (ع)کی تصدیق کرتے ھوئے کھا: خدا کی قسم یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور میں نھیں پائی جاتی ۔ (6)
امام علی (ع)کا احتجاج و استدلال اس حدیث سے صرف اسی ایک موقع پر نھیں تھا بلکہ امام نے حدیث غدیر سے دوسرے مقامات پر بھی استدلال فرمایا ھے۔
2۔ ایک روز حضرت علی ں کوفہ میں خطبہ دے رھے تھے۔تقریر کے دوران آپ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں ،جوشخص بھی غدیر خم میں موجود تھا اور جس نے اپنے کانوں سے سنا ھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ھے وہ کھڑے ھو کر گواھی دے۔لیکن صرف وھی لوگ کھڑے ھوں جنھوں نے خود اپنے کانوں سے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ بات سنی ھے۔وہ نہ اٹھیںجنھوں نے دوسروںسے سنا ھے۔اس وقت تیس افراد اپنی جگہ پر کھڑے ھوئے اور انھوں نے حدیث غدیر کی گواھی دی۔
یہ بات ملحوظ رکھنی چاھئے کہ جب یہ بات ھوئی تو غدیر کے واقعہ کو گزرے ھوئے پچیس سال ھوچکے تھے۔اور پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بھت سے اصحاب کوفہ میں نھیں تھے،یا اس سے پھلے انتقال کرچکے تھے اور کچھ لوگوں نے بعض اسباب کے تحت گواھی دینے سے کوتاھی کی تھی۔
”علامہ امینی“ مرحوم نے اس احتجاج وا ستدلال کے بھت سے حوالے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ میں نقل کئے ھیں۔شائقین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں۔ (7)
3۔حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مھاجرین و انصار کی دوسو بڑی شخصیتیں مسجد نبی میں جمع ھوئیں۔ان لوگوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کی۔یھاں تک کہ بات قریش کے فضائل ان کے کارناموں اور ان کی ھجرت کی آئی اور قریش کا ھر خاندان اپنی نمایاں شخصیتوں کی تعریف کرنے لگا۔جلسہ صبح سے ظھر تک چلتا رھا اور لوگ باتیں کرتے رھے حضرت امیر المومنین (ع) پورے جلسہ میں صرف لوگوں کی باتیں سنتے رھے۔اچانک مجمع آپ (ع)کی طرف متوجہ ھوا اور درخواست کرنے لگا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے۔امام علیہ السلام لوگوں کے اصرار پر اٹھے اور خاندان پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنے رابطہ اور اپنے درخشاںماضی سے متعلق تفصیل سے تقریر فرمائی۔یھاں تک کہ فرمایا:
کیا تم لوگوں کو یاد ھے کہ غدیر کے دن خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو یہ حکم دیا تھا کہ جس طرح تم نے لوگوں کو نماز ،زکات اور حج کی تعلیم دی یوں ھی لوگوں کے سامنے علی (ع)کی پیشوائی کا بھی اعلان کردو۔اسی کام کے لئے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا: خداوند عالم نے ایک فریضہ میرے اوپر عائد کیاھے۔میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ کھیں اس الٰھی پیغام کو پھنچانے میں لوگ میری تکذیب نہ کریں،لیکن خدواند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام انجام دوں اور یہ خوش خبری دی کہ اللہ مجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
اے لوگو! تم جانتے ھو کہ خدا میرا مولا ھے اور میں مومنین کا مولا ھوں اور ان کے حق میں ان سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ھوں؟سب نے کھا ھاں۔اس وقت پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: علی ! اٹھو ۔میں اٹہ کھڑا ھوا۔ آنحضرت نے مجمع کی طرف رُخ کرکے فرمایا:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (ع)مولا ھیں ۔خدایا! تو اسے دوست رکہ جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکہ جو علی (ع)سے دشمنی کرے۔
اس موقع پر سلمان فارسی نے رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے دریافت کیا : علی (ع)ھم پر کیسی ولایت رکھتے ھیں ؟پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:”ولائہ کولائی ،من کنت اولی بہ من نفسہ ،فعلیّ اولی بہ من نفسہ “ یعنی تم پر علی (ع)کی ولایت میری ولایت کے مانندھے ۔میں جس جس کی جان اور نفس پر اولویت رکھتا ھوں علی (ع)بھی اس کی جان اور اس کے نفس پر اولویت رکھتے ھیں۔ (8)
4۔ صرف حضرت علی ںنے ھی حدیث غدیر سے اپنے مخالفوں کے خلاف احتجاج و استدلال نھیں کیا ھے بلکہ پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پارہ ٴجگر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے ایک تاریخی دن جب آپ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے مسجد میں خطبہ دے رھی تھیں، تو
پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:
کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو فراموش کردیا جس دن پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی (ع) کے بارے میں فرمایا تھا :
”من کنت مولاہ فھٰذ ا علی مولاہ" جس کا میں مولا ھوں یہ علی اس کے مولا ھیں.
5۔ جس وقت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی قرار داد باندھنے کا فیصلہ کیا تو مجمع میں کھڑے ھو کر ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:
”خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت (ع)کو اسلام کے ذریعہ مکرم اور گرامی قرار دیا ھمیں منتخب کیا اور ھر طرح کی رجس و کثافت کو ھم سے دور رکھا … یھاں تک کہ فرمایا: پوری امت نے سنا کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںسے فرمایا: تم کو مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھارون کو موسی (ع) سے تھی“
تمام لوگوں نے دیکھا اور سناکہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں حضرت علیں کا ھاتہ تھام کرلوگوں سے فرمایا:
” من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ" (9)
6۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی سرزمین مکہ پر حاجیوں کے مجمع میں جس
میں اصحاب پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ---خطبہ دیتے ھوئے
فرمایا:
”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم جانتے ھو کہ پیغمبر اسلام نے غدیر کے دن حضرت علی ںکو اپنی خلافت و ولایت کے لئے منتخب کیا اور فرمایا کہ : حاضرین یہ بات غائب لوگوں تک پھنچا دیں “ ؟ پورے مجمع نے کھا : ھم گواھی دیتے ھیں ۔
7۔ ان کے علاوہ جیسا کہ ھم عرض کر چکے ھیں ، پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے کئی اصحاب مثلا عماریاسر ،زید بن ارقم ،عبداللہ بن جعفر ،اصبغ بن نباتہ اور دوسرے افراد نے بھی حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت علی ںکی خلافت و امامت پر استدلال کیا ھے ۔ (10)
6۔ ابن حجر عسقلانی مقدمہ فتح الباری ،ص/391طبع دار المعرفھ
7۔ حافظ سید احمد ، فتح الملک العلی ص/15
8۔ ابو حاتم رازی ، الجرح و التعدیل ج/5ص/92
9۔ وہ حدیث جسے راوی معصوم سے نسبت نہ دے
10۔ حاکم،مستدرک ج/1 ، ص93
source : http://www.balaghah.net/nahj-htm/urdo/id/maq/main.htm