استاد انصاری بویر احمدی
قرآن مجید معارف کا سب سے بڑا خزانہ ، افضل ترین کلام اورمعاشرہ کی کج رویوں اورانحرافات کی اصلاح میں عمیق ترین بیان ہے۔
کمال ِ اورجامعیت قرآن کریم اس کی ایسی منحصر بہ فرد خصوصیت ہے جو جوامع بشری کی تمام ضرورتوں اور نیاز مندیوں لے لئے جواب گو ہونے کی مکمل قدرت و صلاحیت رکھتی ہے اوردنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی اپنے دامن میں لئے ہوئےہے ۔در حقیقت تاریخِ بشر کے تمام اعصار و ادوار میں دین مبین اسلام کی وسعت و جامعیت قرآن کریم سے ماخوذ ہے ۔
{وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلاّ في كِتابٍ مُبينٍ}[1]
عقلی و نقلی براہین اور ادّلہ کی چھان بین سے واضح ہوجاتا ہے کہ بشریت کے موردِنیازتمام انسانی، تجربی، مادی اور معنوی علوم قرآن کے متعدد اورمختلف بطون میں پوشیدہ ہیں۔
{وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَاب تِبياناً لِكلِ شَيْيٍ}[2]
يہ قطعی اور مسلم ہے کہ پيغمبر اسلامﷺ اور اہل بيت^ کي سنّت، مجتھدین کا اجتہاد اور ان کے علاوہ تمام احکام اسلام قرآنِ کريم سے الہام یافتہ ہیں اور ان کی بنیاد قرآنِ حکیم ہی ہے
{مَافَرَطْنَا فِيْ الْکِتَابِ منْ شَيئيٍ}[3]
علامہ طباطبائی& تحریر فرماتے ہیں:
”قرآن کريم ہدايت وسعادت کےتمام لازم وضروري مطالب کا حامل ہے۔[4]
قرآن کريم علوم و معارفِ الہٰی کا بيکران دريا، بے انتہا حقائق اورمعارفِ الہٰی کے معدن کا عظيم خزانہ اور عالم امکان کے تمام معاشروں کی کجریوں کے درد دور کرنے کي دواء ہے۔
قرآن کريم بشريت کے موردِ نياز تمام علوم و معارف کا سر چشمہ ہے، بالخصوص معاشرے کے مختلف فردی،اجتماعی،اورمعاشرتی موضوعات سے لے کر فرد اورمعاشرہ کی متقابل تاثیرات ، اجتماعی دگرگونیوں، آئیڈئل معاشرہ ، اجتماعی گروپ بندیوں ، اجتماعی اہمیتوں، معاشروں کی قوانین مندیوں، معاشرے کی شکوفائی میں مؤثر عوامل ، اجتماعی طبقات، فردی اوراجتماعی ضرورتوں ، الہٰی جہان بینی کے اعتبار سے مسلم معاشرہ کا مستقبل، اجتماعی تہذیب کی سلامتی، عمومی لغزشوں ، معاشروں کی مدیریت کی نئی تدابیر، جوامع انسانی کے بنیادی تفاوت اوراشترکات ،معاشرے کے انحرافات کی شناخت ...کا قرآن بہترین جواب گو ہے۔اس بنا پر تمام موارد خصوصاً اجتماعی انحرافات کے علاج ميں اصيل ترين، بہترين اور کامل ترين نظريات قرآن سے اخذ کئے جاسکتے ہيں۔
تمام اجتماعی گروپ بندیوں اورپاریٹوں چاہئے سیاسی ہوں یا اقتصادی و مذہبی اورتمام اجتماعی انحرافات بحرانوں،سازشوں، اختلافات، پاریٹوں اورگروپوں کی باہمی کش کمش ، بطور کلی معاشرے کے تمام انحرافات کی معارف الہٰی اورتعلیمات قرآن کے مطابق شناسائی کی جا سکتی ہے اوران کا علاج مطلوب اورامکان پذیر ہے۔
قرآن کي نظر ميں معاشرے کے انحرافات کي معرفت و شناخت کي عظمت و اہميت،در حقیقت قرآن کے نظریات اوراس کے اصلاحی و عملی اعتقادات و نظریات کے حقیقت پر مبنی اورواقع بین ہونے میں ہے، یعنی قرآن میں معاشرے کے حقائق کی شناخت، نفسانی پہچان ، زندگی گذارنے کے آداب کی پہچان اور اسی طرح انسان کے مختلف فردی و اجتماعی پہلوؤں کی شناخت واقع کے مطابق اورتفکر بشری کی حدودسے فراتر مورد تحقیق و جستجو قرار پاتے ہیں۔
حقيقت ميں قرآن کے مبانی اور ملاکات سے تمسک کرتے ہوئے،صحیح راستے پر گامزن اورعاقلانہ روش کے مطابق آئیڈیل اور بہترین معاشرے کے حصول کویقینی بنایا جاسکتا ہے۔
قرآن ميں تدبر و تفکر سے حاصل ہونے والی واقع بينی، معاشرے کے علم الہٰی کے منبع سےمتصل نہائی اہداف و مقاصد کا تعیّن کرتی ہے اور کمالِ مطلوب اور مدينہ فاضلہ تک رسائی کو ممکن بناتی ہے۔ خالصاً انسانی عقل و فہم اورپیش و نظریات کے تحت معاشرے کی ہویت حد اکثر قرار دادی اور اعتباری ہوگی۔ لیکن قرآن کی بینش و نظر کے مطابق معاشرہ تکوینی، حقیقی، اصیل اور زندہ و جاوید ہویت کا حامل ہوگا۔
قرآن کی مورد تائید الہٰی اور مذہبی ہویت کے بغیر مختلف جوامع سے با ارزش ثقافت و تہذیب کے استقرار کی امید رکھنا بے ہودہ اور عبث ہے اوراس قسم کی تہذیب قرآن کے معارف و مبانی سے بہرہ مند ہوئے بغیر قطعاً مشمول دنیا واقع نہیں ہوگی۔
قرآن کے ذریعے معاشرے کے تمام ابعاد کی شناخت جامع الاطراف، عمیق و دقیق اور حقیقت پر منبی ہے۔
در حقیقت معاشرے کے تمام انحرافات کی صحیح شناخت کا بہترین ذریعہ قرآن ہے ، چونکہ معارف اور علوم الہٰی کسی خاص مکان ، زمان اورزبان سے مخصوص نہیں ہیں اسی لئے تمام عالم امکان اور بنی نوع انسانیت کو شامل ہونے والے ہیں۔
اس بنا پر قرآن کي نظر ميں معاشرہ کی تحقيق و جستجو، اصيل، منطقی اور مورد پسند اصولوں پر منبی ہوگی اور اس کتاب الہٰی”قرآن کريم“سے تمسک کرنے کا نتيجہ دنيا اور آخرت کی سعادت و خوشبختی سے بہرہ مندہوتا ہے
والسلام عليکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.
سرپرست اعلیٰ مجمع جھاني شيعہ شناسی
استاد انصاری بویر احمدی
[1]۔ کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ و مسطور نہ ہو۔ (سورہ انعام ۵۹)
[2]۔ اور ہم نے آپ پر وہ کتاب نازل کي ہے جس ميں ہر شے کي وضاحت موجود ہے۔ (سورہ نحل,٨٩)
[3]۔ہم نے کتاب ميں کسي شئي کے بيان کرنے ميں کوئي کمي نہيں کي ہے۔(سورہ انعام, آيہ ٣٨)
[4] ۔ تفسير الميزان, علامہ طباطبائي, ترجمہ باقر محمودي, ج٧, سورہ انعام کي آيہ ٣٧ کے ذيل ميں (ناشرؒدفتر تبليغات اسلامي)
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=985&link_articles=holy_quran_library/quranic_concepts/quan_nigah_muashira_inhiraf