اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔ داعی اسلام، نبی اکرم کی حیات گرامی تمام ترامن اور سلامتی کی دعوت تھی ۔یہ دعوت بعثت سے پہلے بھی تھی اور اس وقت بھی کہ جب آپؐنے کافروں اور مشرکوں کی جفاکاریوں سے تنگ آکر ہجرت فرمائی اور مکہ مکرمہ کی اقامت ترک کرکے یثرب کو اپنا مسکن بنایا۔اس وقت بھی یہ دعوت تھی جب آپ نے ایک فاتح اور کشور کشا کی حیثیت سے نزول اجلال فرمایا اور اس وقت بھی کہ جب آپ نے حج کے موقعے پر خطبہ ارشاد فرمایا۔یہ خطبہ کتب حدیث وسیر میں خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فکر ونظر اور دین مذہب کے اختلاف کو آپ نے کبھی جنگ و پیکار کی بنیاد نہیں بنایا۔آپ نے جس اسلام کی دعوت دی اس بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا:لا اکراہ فی الدین(بقرہ:٢٥٦) ''یعنی دین کے معاملے میں کوئی زبر دستی نہیں۔''
بعثت سے پہلے بھی آپ کے اطوار وعادات گرامی سے صاف طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ فرش خاک پر چلنے والا یہ انسانی پیکر آسمانی برکتوں اور نعمتوں کے سایے میں قدم زن ہے۔ اعلان نبوت سے پیشتر ہی آپ کو قوم نے با لاتفاق''الصادق'' اور '' الامین'' کا خطاب عطا کردیا تھا ۔اس لئے کہ آپ کی حیات گرامی تمام تر صدق وامانت کی آئینہ دار تھی۔
اہل عرب تمد ن سے نا آشنا،تہذ یب سے بے بہر ہ اور امن کے دشمن اور قتل و غارت کے شیدائی تھے ۔ بات بات پر تلوار نیام سے باہر نکال لیتے تھے ۔ مسافر وں کو تحفظ فراہم نہ تھا ۔ بے نواؤں اور تہی دستوں کی شنوائی نہ ہوتی تھی ۔ کمزور کاکام یہ تھا کہ ظلم کے وار سہے اور ظالم کا کام یہ تھا کہ ہدف ستم چلائے ۔ نہ راستے مامون تھے نہ بستیاں محفوظ تھیں ۔ جو ذات آگے چل کر امن کا پیامبر اور رحمت عالم بننے والی تھی اس سے یہ کیفیت دیکھی نہ گئی ۔ چناچہ آپ نے سب قبیلوں کے رئیسوں اور اصحاب فہم و دانش کو اس طرف متوجہ کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جماعت کا قیام عمل میں آیا ۔ جماعت کے شر کاء جو عہد وپیمان کیا کرتے تھے۔ وہ یہ تھے
ژہم بدامنی اور غارت گری کا سد باب کریں گے ۔
ژ۔مسافروںکی حفاظت کریں گے اور انھیں کسی طرح کا گزند نہیں پہنچنے دیں گے ۔
ژ۔ تنگ دستوں اور غریبوں کی امداد کریں گے ۔
ژ۔ ظالم کو ظلم سے روکیں گے اور مظلوم کی تائید وحمایت اور حفاظت کریں گے ۔
پھر آپ جب منصب نبوت پر فائز ہو گئے تو حق وباطل اور کفر واسلام کے راستے الگ اور واضح ہو گئے ۔تب آپ فرمایا کر تے تھے ۔اگر اب بھی اس جماعت کے منشور کے مطابق کوئی مدد کا طالب ہو تو میں سب سے پہلے اس کام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ اور تیار پاؤں گا ۔ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اس سال آپ نے مدینہ کے غیر مسلموں یعنی یہودیوں سے ایک معاہدہ امن کی تحریک شروع کی جو کا میاب ہوئی اور معاہدہ مرتب ہو گیا ۔ اس معاہدے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حصول امن کے لئے عقیدے اور مذہب کے اختلافات کے باوجود قول وقرار کیا جا سکتا ہے ۔ اس معاہدے کی سب سے اہم دفعہ یہ تھی۔ ''معاہدہ کر نے والوں یعنی مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ اگر کسی دوسرے نے جنگ کی تو پھر یہ دو نوں ایک دوسرے کی امداد واعانت کریں گے ۔ شریک معاہد ہ دو نوں قوموں کے تعلقات باہمی خیر سگالی اور فائدہ رسانی پر مبنی ہو ں گے ۔ مظلوم کی اعانت وامداد ہر حالت میں کی جائے گی۔ ''
یہ پورا معاہدہ سیرت ابن ہشام میں موجود ہے ۔ لیکن اس کالب لباب وہ ہے جسے ابھی میں نے اوپر پیش کیا ہے۔ علامہ ابن قیم نے ''زادالمعاد''میں اس معاہدے پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضور نے اس پر اکتفانہیں فرمایا بلکہ مدینے کے اطراف میں آباد غیر مسلم قبیلوں کو بھی اس میں شریک کرنے کے لئے بہ نفس نفیس بواط اور ذی العشیرہ تشریف لے گئے اور غیر مسلم قبائل ، جو شرک یا دوسرے ادیان پر قائم تھے ، سے اس طرح کا معاہدہ فرمایا ۔ سلامتی اور امن کے مذہب کے داعی کا یہی کام تھا اور اس نے یہی کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے پاس اگر کوئی تلوار تھی تو وہ یہی امن اور عالی ظرفی کی تلوار تھی ۔
یہ بات شاید بعض لوگوں کو چونکا دینے والی ہو کہ فتح مکہ کا اصل مقصد توسیع مملکت یا کشور کشائی نہ تھا بلکہ اس معاہدے کا احترام تھا جو اہل مکہ اور رسول مقبول کے درمیان ہوا تھا۔ معاہدہ شکنی کرتے ہوئے جب بنو بکر نے ایک غیر مسلم قبیلے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش کے سرداروں عکرمہ بن ابو جہل ،سہیل بن عمر و اور صفوان بن امیہ نے بھی ، جو شریک معاہدہ تھے ، بنو بکر کا ساتھ دیا اور بنوخزاعہ پر ظلم ڈھائے تو حسب معاہدہ مظلوم کی دادرسی اور معاہدے کی پابندی کے پیش نظر حضور کی سر براہی میں دس ہزار جان نثار وں کا لشکر ظلم کومٹانے ، امن قائم کرنے اور مظلوم کی مدد کرنے کے لئے مکے کی طرف بڑھا ۔ اس پیش قدمی کانتیجہ فتح مکہ کی صورت میں نمودار ہوا ۔
لیکن ۔۔۔۔فتح مکہ کے بعد بھی کیا ہوا ؟
عہد جدید کہ جو تہذیب وتمدن اور احترام آدمیت کا دور کہلاتا ہے ، بہت سی جنگیں دیکھ چکا ہے اور دیکھ رہا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم کے فاتحوں نے مفتوحوں کے ساتھ کیساسلوک کیا ۔۔۔۔؟ پھر دوسری عالمی جنگ کے حلیفوں نے اپنے حریفوں کے ساتھ کیا برتاو کیا؟
کو ریا اور انڈو نیشیا میں اور مشرق بعید کے دوسرے ممالک میں کیاہوا ؟ اور ویت نام میں تہذیب وتمدن اور احترام آدمیت کا مظاہرہ کس طرح ہواہے ؟ بنگلہ دیش کیسے عالم وجود میں آیا ؟ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ۔ اس سے کون ناواقف ہے ؟ جنگ میں حصہ لینے والوں کو چھوڑیں نہتے ، غیر مسلح اور امن پسند شہریوں پر جو کچھ عہد جدید کی لڑائیوں میں گزر تی ہے ۔جس طرح انسانیت پامال ہوتی ہے اور اقدار انسانی کچلی جاتی ہیں ،بچوں ،بوڑھوں ،کمزوروں ، اپاہجوں ،عورتوں اور جنگ سے یکسر بے تعلق رہنے والے آدمیوں پر جس طرح مشق ستم کی جاتی ہے ، اسے کون نہیں جانتا ۔۔۔ ؟
مگر فتح مکہ پر ان عہد شکنوں ،ظالموں اور جفاپیشہ انسان نما درندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ؟ اس دن یہ سب اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے لرزاں وتر ساں اور اپنی زندگی سے مایو س ، فاتح کے سامنے سر نگوں بیٹھے تھے ۔ اچانک ان کے کانوں میں آواز آئی ''الیوم یوم البروالوفا''یعنی آج کا دن حسن سلوک اور لطف وعطاکا دن ہے ۔ اور اس کے بعد ار شاد ہواہے۔ اذھبوا فا نتم الطلقاء لا تثرب علیکم الیوم ، یعنی جاؤ تم آزاد ہو اور آج ہر مواخذے سے بری ،،
کیا امن پسند اور حرام آدمیت کا اس سے بڑا چارٹر آج تک دنیا میں کہیں کس نے دیکھا ہے ؟ وہ نبی امی تاجدارا قلیم روحانیت بھی تھا اور شہر یار مملکت بھی ۔ یہ پورا دور مشتمل تھا رحم و شفقت ،عفو ومرحمت اور اخلاق ومروت پر، اس دور میں غیر مسلموں سے بر تاؤ ،خواہ یہودی ہوں یا عیسائی ،سراسر انصاف و مہر بانی کا تھا ۔ ان سے امن و آشتی ، رواداری اور سلامتی کا سلوک پہلے سے کہیں زیادہ ہوتا تھا ۔ ان کے معاہدے محفوظ تھے ۔ شعائر میں مداخلت نارواتھی ۔ ان کے مذہبی پیشواؤں کے احترام کی تاکید اور انھیں مسجد نبوی تک میں اپنے طرز واصول پر عبادت کی اجازت تھی ۔ذمیوں کو وہ تمام شہری حقوق عطاکئے گئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے ۔ حدیہ ہے کہ مسلمان اگر ذمی کو قتل کر دے تو وہ بھی قتل سے بچ نہیں سکتا تھا ۔ اس منصفانہ طرز حکومت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام جنگ کی آگ کی طرح پھیلنے لگا ۔ جو اسلام کے بد ترین دشمن تھے وہ اسلام کے فدائی اور جان نثار بن گئے ۔ جو داعی اسلام کے در پے رہتے تھے ، ان کی نظروں میں آ پ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ تھا ۔
رفیق اعلی کی طرف سے پہلا بلاو آگیا تھا ۔ ٩ذی الحج سنہ١٠ ہجری کو آپ عر فات میں تشریف فرما ہوئے ۔ ایک لاکھ چالیس ہزار ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ایک لاکھ ٢٤ لاکھ ہزار کلمہ گو حاضر تھے ۔ اس موقعے پر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ابن عسا کر کی روایت کے مطابق شروع ہی میں ارشاد فرمادیا
''لوگو !میں محسوس کر تا ہوں کہ اگلے سال میںاور تم پھر کبھی اس اجتماع میں شریک نہیں ہو ںگے ''
یہ خطبہ جو''خطبۃالودا ع''کے نام سے مشہور ہے آنحضرت کا آخری خطبہ تھا ۔ اس خطبے میں آپ نے بہت سی باتیں اپنی امت کو مخاطب کر کے ارشاد فر مائیں ۔ یہ خطبہ مبارکہ نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ عالم انسانیت کے لئے محبت ، اتحاد ،تنظیم ،رواداری اور احترام و ادب کا ایسا عظیم وجلیل منشور ہے جو تا قیا مت دنیا کے لئے فلاح وسعادت کی میثاق ثابت ہو گا ۔
آپ نے زمانہ جاہلیت کے تمام دستوروں اورر سوم کو باطل قرار دیا اور فرمایا :''جاہلیت کے تمام دستور میرے پاؤں کے نیچے ہیں ۔''
آپ نے رنگ و نسل اور دولت کی بنیاد پر ایک دوسرے پر تر جیح کو ختم کیااور فرمایا !لو گو ''تمہار رب ایک ہے ۔تمہار ا باپ ایک ہے ۔عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر ، سرخ کو سیاہ اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ۔ فضیلت کا معیار تقوی ہے ۔ ''
آنحضرت نے مسلمانوں کے در میان رشتہ اخوت قائم کر تے ہوئے فرمایا !''ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ۔ جو تم کھاؤ وہی اپنے غلاموں کو کھلا ؤ ۔ جو خود پہنوو ہی انکو پہناؤ ۔''
انتقام انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ سود خوری انسان کے حرص وشقاوت کی انتہاہے ۔ بیوی کے ساتھ حاکمانہ بر تاؤ ، مرد کی سرشت ہے ۔ آپ نے ان کمزوریوںکا قلع قمع کرتے ہوئے اور عملی اقدام کرتے ہوئے فرمایا :
''جاہلیت کے تمام قتلوں کے انتقام باطل کردئیے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے خون کا انتقام باطل قرار دیتاہوں ۔جاہلیت کے تمام سود بھی باطل کر دیئے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا سود یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود کالعدم کرتاہوں۔عورتوںکے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ تمہارا حق ان پر ہے اور ان کا حق تم پر ہے ۔''
رحمت عالم کے یہ آخری کلمات ہیں ۔ وقت آخربھی آپ کے منہ سے جو بول نکلے وہ انسانیت کی فلاح اور مظلوم کی حق رسی ہی سے متعلق تھے ۔ اس کے بعد آپؐ نے تنظیم ،اتحاد اور وحدت کلمہ کی طرف دعوت دی اور فرمایا :
''میرے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی نئی امت وجود میں آئے گئی ۔''
پھر ارشاد ہوا ؛
''لوگو۔قیامت کے دن تم سے میرے باپت بھی در یافت کیا جائے گا ۔بتاؤ تم کیا جواب دو گئے ؟ ''حاضرین نے جواب میں عرض کیا ۔''ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے فریضہ تبلیغ ادا کر دیا ہے ۔ احکام الہی ہم تک پہنچا دئے ۔ رسالت ونبوت کا حق پورا کر دیا ''
آپ نے نے انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ..''اے اللہ گواہ رہنا ''
آپ کے بعد اب ہمارا فرض یہ ہے کہ آپ کے دئیے ہوئے منشور کو انپی زندگی کا مقصود بنالیں
source : http://basharatkmr.com