اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

شیعہ کسےکہتے ہیں ؟

لفظ” شیعہ “ نا آشناا ور مانوس نہیں ہے،کیونکہ قرآن کریم میں آئےلفظ کو استعمال کیا گیاہے: ”ھذا من شيعتہ و ھذا من عدوہ(١) یہ ان کےشیعوں میں سےہےاوریہ ان کےدشمنوں میں سے۔ 

” اِنَّ مِن شيعتہ لابراھيم “ (٢)اور یقینا نوح ہی کےپیروکاروں میں سےابراہیم بھی تھے۔

لفظ ” شیعہ “ پیغمبر کی روایات میں بھی استعمال ہواہے؛مثلاً ،کتاب ” الصواعق المحرقہ “ میں آیاہے:یاَ اَباَ الحَسَن! امَّا اَنتَ وَشِیعتُک فی الجنَّة؛ اےعلی ! تم اور تمہارےشیعہ جنت میں ہونگے(٣)

احمد نےکتاب ” المناقب “ میں تحریر ہےکہ حضرت رسول اکرم نےعلی سےفرمایا :

اماّ ترضی انک معی فی الجنة والحسن والحسین وذریتنا خلف ظھو رنا وازواجنا خلف ذریتنا وشیعتنا عن ایماننا وشمائلنا؛(٤)کیاتم راضی نہیں ہو کہ میرےساتھ جنت میں رہو جہاں حسن وحسین اورہماری ذریت ہمارےپیچھےاورہماری بیویاں ان کےپیچھےہوں گی نیزہمارےشیعہ ہمارےدائیں بائیں ہونگے!حافظ جمال الدین زرندی نےآیہ ( اِنَّ الَّذِینَ آمَنُواوَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ اُولِئٰکَ ھُم خَیرُالبَرِیَّةِ (٥)

بےشک جو لوگ ایمان لائےہیں اورنیک اعمال انجام دئےگئےوہ بہترین مخلوق ہیں ۔کی تفسیر میں ابن عباس سےنقل کیاہے: جب یہ آیہ نازل ہوئی ، تو حضرت رسول اکرم نےحضرت علی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ھوانت وشیعتک ؛تی انت وشیعتک یوم القیامة راضین مرضیین ؛ (٦)بہترین مخلوق سےمراد تم اورتمہارےشیعہ ہیں جو قیامت کےدن خدا سےراضی ہونگےاور خدان سےراضی ہوگا ۔ جابر ابن عبداللہ نےرو ایت نقل کی ہے: ہم پیغمبر کےپاس بیٹھےہوئےتھےتوجب حضرت علی تشریف لائےتو پیغمبر نےفرمایا:

وَالَّذِیَ نَفسی بِیدہ اِنَّ ھذا شيعتہ ھم الفائزون یوم القیامة ؛ اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! یہ شخص اوراس کےشیعہ قیامت کےدن کامیاب ہیں ۔

اس کےبعدآیات” اِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا“نازل ہوئی(٧) اس واقعہ کےجب بھی اصحاب بعد سے، پیغمبر کےاصحاب علی کےآتا دیکھتے تو کہتے تھے! جاءالبریہ؛خدا کی بہترین مخلوق رہی ہے۔

ابن مرویہ نےحضرت علی سےروایت کی ہےکہ رسول خدا نےفرمایا : 

اَ لَم تسمع قول اللہ ” اِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا“! ھوانت وشیعتک وموعدی وموعدکم الحوض اذا جاءت الامم للحساب تدعون غراً محجلین؛

کیا تم نےخدا کی بات نہیں سنی ہے! ” اےایمان والو....“ وہ ، تم اورتمہار ےشیعہ ہیں ہمارا اورتمہارا وعدہ حوض کوثر کےکنارےہے،جب امتیں حساب کےلئےآئیں گی ،تم نور سےچمکتی ہوئی سفید پیشانی کےساتھ خدا کےحاضرپاس ہوجائو گے۔

تم ان روایات سےآشنا ہونےکےلئےکہ جو اہلسنت کی کتابوں میں لفظ ” شیعہ “ کی ا صطلاح کےبارےمیں نقل ہوئی ہیں ۔ کتاب ” التشیع“ لغت میں لفظ” تشیع “ کےمعانی مشایعت کرنا ، پیروی کرنا اوردوستی کرناہے؛لیکن اس لفظ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتاہےحضرت علی کی پیروی کرتےہیں ، اگرچہ غلبہ وتسلط کی وجہ سےیہ لفظ سلمان ،مقداد ،عمار ، ابوذر اور بنی ہاشم میں سےایک گروہ سےمخصوص ہوگیا لیکن اصطلاح میںلفظ شیعت، اعتقاد ، نظریات اورمعین افکار کو کہا جاتاہےمحققین کےدرمیان ان افکار اور نظریات کےبارےمیں اختلاف ہےشھید سر خط اول کتاب ”اللمعة الدمشقیة “ میں لکھتےہیں : شیعہ وہ ہےجو حضرت علی کی پیروی کرے۔اگرچہ بارہ اماموں کی امامت قبول نہ کی ہو ؛ مثلاً زیدیہ ہو، اسماعیلہ ہو ،واقغیہ ہو ، فاطمیہ ہو ، وغیرہ وغیرہ ....۔ لیکن شیعہ اثنا عشری جبکہ یہ علی ابن ابی طالب کی امامت کےقائل ہیں ، کہتےہیں پیغمبراکرم کی نص کےمطابق امامت حضرت علی کے کےبعد ان کےفرزندوںاور ہر امام نےاپنےبعد والےامام کی امامت کی کےبارےمیں بارہویں امام(عج) تک نص کی ہے۔ (٨)

اسی طرح یہ لوگ ائمہ سےمتعلق عصمت کےقائل ہیں ان کو معصوم عن الخطا مانتےہیں۔ (٩)رفتار وگفتار اور کردار میں تولا وتبرّا کو قبول کرتےہیںاور امامت کےبارےمیں ، پیغمبر کی نص کو شرط جانتےہیں ۔ ہم انشاءاللہ ان تمام موضوعات کی بررسی وتحقیق کریں گے۔ (١٠)

شیعت کی ابتداء:

اس بارےمیں مورخین کےدرمیان اختلاف ہےابن خلدون ، احمد امین ،حسن ابراہیم وغیرہ قائل ہیں کہ شیعت پیغمبر کی و فات کےبعد وجود میں آئی ہے۔یعقوبی نےبھی اسی قول کو قبول کیاہےاور وہ کہاہے:

” جنہو ںنےپہلےخلیفہ کی بیعت کرنےسےمنہ موڑا ، وہ شیعت کی گٹھلی شمار ہوتے ہیںجن میں زیادہ مشہو ر و معروف ، سلمان فارسی، ابوذر غفاری ،مقداد اسود اورعباس ابن عبدالمطلب تھے“ ۔ بعض مورخین شیعت کی ابتداءتیسرےخلیفہ کےزمانےسےاوربعض علی ابن ابیطالب کےزمانےسےاوربعض واقعہ عاشورا کےبعد سےفرض کرتےہیں ؛ صحیح اور قوی نظریہ یہ ہےکہ تشیع پیغمبراکرم کی زندگی کےزمانےمیں شروع ہوا ہےاور خود حضرت نےشیعت کادرخت بویاہےاس مطلب کااحادیث اورآیہ (وَاَنذِر عَشِیرَتَکَ الاَقرَبِینَ ) (١١)دلالت کرتی ہی۔

پیغمبر نےنزول آیت کےبعد، اپنےرشتہ دار وں کودعوت دی اور کھانا کھلانےکےبعد فرمایا :

یابنی عبد المطلب ! انی واللَّہ قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة وقدامرنی اللَّہ ان ادعوکم الیہ فایکم یوازرنی علی امری ھذا؟ فقال علی وانا احدثھم سناً : انہ انا یا رسول اللہ فقام القوم یضحکون ؛(١٢)

اےعبد المطلب کےفرزندو ! خدا کی قسم !میں تمہارےلئےدنیا وآخرت کی اچھائیاں لےکرآیا ہوں خداوند عالم نےمجھ کو حکم دیا ہےکہ تم کودین کی طرف دعوت دوں ؛ تم میں سےہےایک میرےاس کام میں مدد کرےگا اور میرا وزیر ہوگا ؟ حضرت علی نےکہ جو ان سبھوں میں سےچھوٹا تھا ، عر ض کی : میں ،یا ر سول خدا :” یہ سن کر پوری قوم کھڑی ہوگئی اور ہنسنےلگی تو ا ن سبھوں نےہنسا اور اپنی اپنی جگہ سےاٹھے! 

حدیث غدیر اور وہ روایات جو علی اور شیعیان علی کےبارےمیں پیغمبر اکرم کی طرف سےنقل ہوئی ہیں ، اس مطلب کی تائید کرتی ہیں ؛پس شیعت وہی اسلام محمدی ہے:

(وَماَ یَنطِقُ عَنِ الھَوای اِن ھُوَ اِلاَّ وَحی یُوحیٰ )(١٣)اوروہ اپنی خواہش سےکلام بھی نہیں کرتا ہے، اور و ہ وہی کہتاہےجو اس پر وحی ہوتی ہی۔

پیغمبر کےزمانےمیں کچھ معین اصحاب ،حضرت علی کےلئےمنتخب ہوئےاور وہ اس کےہمراہ تھےاور ان کو پیغمبر کی طرف سےپیغام پہنچانےکی طر ف، کہ وہ اس کےاحکام کی تشریح اورتفسیربتاتےتھےانہوں نےاپناامام وپیشوا انتخاب کیا ۔اس کےبعد سے، جس طرح کہ اہل لغت اشارہ کرتےہیں ، ”علی کےشیعوں کانام “ ان پر علم ہو ، اگر تم کتاب ” نہایة الاکمال “ اور”لسان العرب “ کی طر ف رجوع کرو گے،تو تم دیکھوگےکہ ” شیعہ “ علی کےپیرو کاروں ، دوستوں اور اس کےفرزندان کو کہا جاتاہے۔ (١٤)

جب پیغمبر اسلام نےوفات پائی ، تو کچھ اصحاب نےحضرت علی کی عمر کم ہونےیا یہ کہ اگر پیغمبری اورخلافت دونوں بنی ہاشم میں جمع ہوگئیں ،تو قریشیوں کو اچھا نہیں لگےگاتو انہوں نےکہا :حضرت علی کو خلیفہ نہیں بننا چاہئے!جیسا ہم جانتےہیں کہ علی اور بنی ہاشم اوربعض اصحاب ،جیسا کہ بخاری نےغزوہ خیبر کےباب میں نقل کیا ہے، اصحاب نےچھ مہینوں کےبعد پہلےخلیفہ کےساتھ بیعت کی ۔ جب حضرت علی نےدیکھا کہ اس کی بیعت نہ کرنا اختلاف کا باعث اورجبران نہ ہونےوالا خسارہ ہے،جبکہ حضرت علی اسلام کےقوی ہونے، اس کےپھیل جانےاور حق کےبرپا ہونےاورباطل کےختم ہونےکےخواہاں تھے، توآپ نےابوبکر کےساتھ بیعت کی اور اپنےحق چشم پوشی کی کی ، تاکہ مسلمانوں کا اتحاد محفوظ رہےاور لوگ اپنی سابقہ جاہلیت کی طرف نہ جائیں ۔

لیکن شیعہ جو آپ سماج سےالگ ہوچکےتھےتھی، حضرت کےسایہ میں ان کےنور سےاستفادہ کرتےتھے؛ اس زمانےمیں ، شیعوں کےپنپنےکےلئےکوئی راہ ہموار نہ تھی ؛جبکہ اسلام اپنی مضبو ط راہ پرگامزن تھا ! یہ حالات حضرت علی کی خلافت کےزمانےتک باقی رہی ؛آپ کےزمانہ خلافت میں شیعت کا مظاہرہ ہوا اور اس سےاپنےآئین پیش کرنےکا موقع ملا ، یہی وجہ تھی کہ معاویہ نےحضرت علی کےساتھ بیعت کرنےسےانکار کردیااور صفین میںحضرت علی کےساتھ جنگ کرنےپرآمادہ ہوگیا جمل اورنہروان میںدوسرےاصحاب بھی حضرت علی کےلشکر کےساتھ مل گئےاورآپ کےپرچم کےنیچےشھید ہوئےحضرت کےبزرگ اصحاب میں سےاسی آدمی تھےجنہوں نےعقبہ میں پیغمبر کےساتھ بیعت کی تھی اور جنگ بدر میں جنگ کی تھی ،جیسےعمار یاسر ، خزیمةذی الشھادتین ، ابو ایوب انصاری وغیرہ حضرت علی کی شہادت کےبعد امام حسن کےلشکرمیں شامل ہوگئےاور امام حسین نےظالم یزید بن معاویہ کےمقابلےمیں کھڑےقیام کیا جس سےشیعت نےظہور پایا اورنورافشانی کی ۔

امام حسین کی شہادت سےحق و باطل امام حسین نےاپنےشیعوں اوردوستوں کےساتھ تمام خصوصیات کےساتھ حقیقت کا نقشہ کھینچا جیساکہ یزید اوراس کی پیروی کرنےوالوں نےانتقام کی صورت میں کہ خدا اورملائکہ کی ان پرلعنت ہو باطل کا نقشہ کھینچا والےتھے۔

واقعہ کربلا سےشیعت کی ترقی میںکےلئےبہت بڑےآثار مرتب ہوئے۔ اس کےبعد سے، تو ابین کا قیام ، ” سلیمان ابن صرد خزاعی “ کی رہبری میں ٢٩ھق میں اور مختار کا قیام امام حسین کےقاتلوں سےلیا ،واقع ہوا ۔

اس کےبعد شیعوں کےدرمیان کچھ فرقےہیں جیسا کہ ” شھرستانی “ ذکرکرتےہیں (١٥)یہ لوگ شیعت کےنام پر شیعت کو ختم کرنےلگےہم یہاں پر فقط بعض فرقوں کا ذکر کرتےہیں ۔

کسانیہ ، مختاریہ ، ہاشمیہ ، حادثیہ ، بیانیہ ،رزامیہ ، زیدیہ، جارود یہ ، سلیمانیہ ، صالحیہ ، اسماعیلہ ، فطحیہ ، واقفیہ ، سبئیہ ، فاطمیہ اورجعفری (بارہ اماموں کےماننےوالے)(١٦)شیعہ اثنا عشری کو دوسرےفرقوں کےساتھ اختلاف ہےاور ان میں سےفاسد عقیدہ رکھنےوالےاورگمراہ کرنےوالیفرقوں سےبیزار ی کرتیہیں یہ بحث ،اسی کتاب کےدسویں سوال میں بطور مفصل آئےگی ، کہ (انشاءاللہ) اس کی طرف مراجعہ کرنےسی، مسئلہ واضح وروشن ہوجائےگا ۔

(١)سورہ صافات آیہ ٣٨(٢)۔ابن حجر ھیثمی ،الصواعق المحرقہ ،ص ٧٤٢(٣)وہی منبع ،ص ٦٤٢(٤)۔سورہ بیّنہ آیہ ٧ (٥)۔ابن حجر ،ھیثمی ،الصواعق المرقہ ،ص ٧٤٢ باب ١١ ، فصل اورسیوطی ، الدر المنثور ،ج ٨ ص ٩(٦) ابن عساکر ، تاریخ، دمشق ، ج ٢ ، ص ٢٤٤

(٨)۔ یہی کتاب ، اٹھارہواں سوال (٩)۔یہی کتاب ،انیسواں سوال (١٠)۔ یہی کتاب ، سترہواں سوال (١١)۔سورہ شعراءآیہ ٤١٢(١٢)۔ سیوطی ، الدر المنثور ،اسی آیہ کی تفسیر ۔

(١٣)۔ سورہ نجم آیہ ٣ (١٤) ۔ محمد حسنین کاشف الغطاء، اصول االشیعہ واصولھا

(١٥)۔ شہرستانی ، الملل والنحل ، ج١ ، ص ٤٣٣(١٦)۔ نوبختی ،فرق الشیعہ


source : http://shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ...
سوال کا متن: سلام عليکم. يا علي ع مدد. ....مولا علي ...
کیا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟
کیا اسلامی ممالک کی بنکوں سے قرضہ لینا جائز ہے؟
حضرت زینب (س) نے کب وفات پائی اور کہاں دفن ہیں؟
خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ...
دوسرے اديان کے پيروں کے ساتھ مسلمانوں کے صلح آميز ...
کائناتی تصور معصومین علیہم السلام کی نظر میں

 
user comment