اسلام تنہا ایسا دین ہے جس میں یہ خاصیت پائی جاتیہے کہ وہ گوناگوں تبدیلیوں کو خود میں جذب کر سکے اور خود کو ہر زمانہ کے حساب سے منطبق کر سکے۔ میں نے حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین کے بارے میں یہ پیشین اس آسمانی دین کا کم سے کم فائدہ یہ ہوا کہ لکھنے، پڑھنے اور اسلامی دنیا میں علوم کے عالمگیر ہونے کو بڑھاوا ملا اور اس کے ساتھ ہی یه اسپین ، جرمنی ، انگلستان جیسے ممالک اور یوروپی حکومتوں کی طرف منتقل ہوا اور اس کے بعد پوری دنیا میں فروغ حاصل ہوا، اس طرح سے اس آسمانی سنگ میل کے بعد روم و مصر و ایران جیسے تمدن و ثقافت کے پاس بھی اس کا کوئی متبادل و جواب نہیں تھا۔ اس حقیقت کے تاریخی دلائل غیر قابل انکار اور بے شمار ہیں: ان میں ایک دلیل ان اسلامی علماء و دانشوروں بلکہ غیر اسلامی و مغربی دانشمندوں کا مکرر اقرار و اعتراف ہے جس کے ایک مختصر نمونے کا ذکر ہم یہاں کریں گے:
گوئی کی ہے کہ ان کا مذھب آئندہ یوروپ کے ملکوں میں قابل قبول ہوگا۔ جیسا کہ آج کے دور میں اس کے قبول
کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اسلام کا ظہور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اھل بیت (علیہم السلام) کی زحمتوں کے نتیجے میں تاریخ بشری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں بے شمار ھمہ گیر ترقی و ارتقاء نے بنی نوع بشر کو اپنے سایہ پناہ میں لے لیا ہے۔
مغربی معاشرہ کے نامور دانشمند و اسکالرز توہین و تذلیل و اہانت کے باوجود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو نہ صرف یہ کہ صف اول کے دینی رہنما و بزرگ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں بلکہ تمام صراحت اور صاف گوئی کے ساتھ اسلام کو اس کے بے شمار خصائص کے ساتھ، ایک عالمی اور جہانی دین ہونے کا اعتراف کرتے ہیں اور شاید یہی سبب ہے کہ اس واقعیت نے توہین و اہانت کرنے والوں کے درد میں اضافہ کر دیا ہے اور اس حقیقت کے جواب میں انہیں تعصب و بے دینی و بد تمیزی کے سوا کوئی راہ نظر نہیں آ رہی ہے۔
ٹالسٹواے
مشہور روسی مصنف و مربی و فلسفہ اخلاق، جس کی تعلیمات اور آئیڈیالوجی کو بڑے بڑے سیاست مداروں منجملہ گاندھی نے اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ذات گرامی اور شخصیت تمام اکرام و احترام کی مستحق ہے اور ان کی شریعت عقل و حکمت کے موافق ہونے کے سبب ایک دن عالمگیر حیثیت اختیار کر لے گی(۱).
کارل مارکس
انیسویں صدی عیسوی کا یہ جرمنی الاصل فلسفی، سیاستمدار اور انقلابی لیڈر، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شخصیت کو عمیق طور سے درک کرنے کے بعد اپنی رای کا اس طرح سے اظہار کرتا ہے: محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) ایسے شخص تھے جو بت پرستوں کے درمیان آہنی اراد ےکے ساتھ کھڑے ہوئے اور انہیں یکتا پرستی اور توحید کی دعوت دی اور ان کے دلوں میں جاویدانی روح و نفس کا بیج بویا۔ اس لیے انہیں نہ صرف یہ کہ مردان بزرگ کی صف میں رکھا جائے بلکہ وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے فرستادہ خدا ہونے کا اعتراف کیا جائے اور دل کی گہرائی سے کہا جائے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں (۲).
مہاتما گاندھی
پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی حیات خود ایک کھلی علامت اور نشانی تھی اس بات کہ مذ ھبی امور میں جبر و اجبار کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے (۳).
جواہر لعل نہرو
جس مذھب کی پیغبمر اسلام (صلی الله علیه و آله) تبلیغ و ترویج کرتے تھے جس میں سادگی، صداقت ، درستی ، جمہوری اقدار اور مساوات وبرابری کے رنگ تھے، وہ پڑوسی ممالک کے لوگوں میں مورد استقبال قرار پایا (۴).
ولٹر فرانسوی
یقینا حضرت محمد (صلی الله علیه و آله) نہایت بزرگ انسان تھے، وہ ایک ماہر حاکم، خردمند و مدبر قانون گذار، ایک عدالت پسند بادشاہ اورپرہیز گار پیغمبر تھے، انہوں نے عام لوگوں کے سامنے اپنے اخلاق و کردار کا جو مظاہرہ کیا وہ اس سے زیادہ ممکن نہیں تھا۔ (۵)
پیرسیمون لاپلاس
یہ اٹھارویں وانیسویں صدی عیسوی کے معروف و مشہور ماہر نجومی اور ریاضی داں تھے، ان کے نظریات نے علم نجوم و ریاضی میں ایک انقلاب پیدا کر دیا، وہ ان مغربی محققین میں سے ہیں جنہوں نے دین مبین اسلام کے بارے میں اس طرح سے اظہار رای کیا ہے:
اگر چہ میں آسمانی ادیان کا معتقد نہیں ہوں مگر حضرت محمد (صلی الله علیه و آله) کا دین اور ان کی تعلیمات، انسان کی سماجی زندگی کے دو نمونے ہیں۔ اس لیے میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ اس دین کا ظاہر ہونا اور اس کے خردمندانہ احکام بزرگ اور با اہمیت ہیں اور اسی وجہ سے میں ان کی تعلیمات سے بے بہرہ نہیں ہو سکتا (۶).
پروفیسر ارنیسٹ ھیگل
انیسویں صدی کے سب سے بڑے اور مشہور جرمنی الاصل فلسفی کا کہنا ہے:
اسلام مذھب نہایت جدید ہونے کے ساتھ ساتھ غیر مخدوش اور عالی توحیدی مباحث کا حامل ہے۔ (۷)
ہربرٹ جارج ویلز
یہ انگریز مصنف و محقق اپنی کتاب سرمایہ سخن میں اس طرح تحریر کرتا ہے:
اسلام تنہا ایسا دین ہے جس کے رکھنے پر دنیا کے تمام شریف لوگ افتخار کر سکتے ہیں، وہ تنہا دین ہے جسے میں نے سمجھا ہے اور میں مکرر اس بات کو کہتا ہوں کہ وہ دین جو خلقت و آفرینش کے رموز و اسرار سے آگاہ ہے اور تمام مراحل میں تمدن و ثقافت کے ہمراہ ہے، وہ فقط اسلام ہے۔
گوئٹہ
یہ جرمنی کا مشہور و معروف دانشمند، شاعر اور مصنف ہے جس نے جرمنی اور عالمی ادب پر گہرا اثر چھوڑا ہے، وہ اپنی کتاب دیوان شرقی وغربی میں لکھتا ہے:
قران کریم نامی کتاب کے مندرجات ہمیں مجذوب کر دیتے ہیں اور حیرت میں ڈالتے ہیں اور اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ہم اس کی تعظیم کریں۔
جارج برنارڈ شاہ (۱۸۵۶ سے ۱۹۵۰)
یہ شیکسپیر کے بعد ابگلستان کا سب سے بڑا مصنف ہے جس کے افکار نے مذھب، علم، اقتصاد، خانوادہ اور ہنر و آرٹ میں مخاطبین پر نہایت گہری چھاپ چھوڑی ہے، جس کے افکار کی متلاطم موجوں نے مغربی معاشرے کی عوام مین روشن فکری کا جذبہ پیدا کر دیا۔ وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیه و آله)کی عظیم شخصیت کے بارے میں اس طرح لکھتا ہے:
میں ہمیشہ محمد (صلی الله علیه و آله) کے دین کے بارے میں، اس کے زندہ ہونے کی خاصیت کی وجہ سے حیرت میں پڑ جاتا ہوں اور اس کا احترام کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں، میری نظر میں تنہا اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ایسی خاصیت ہے کہ وہ کسی بھی تغیر و تبدیلی کو خود میں جذب کر سکتا ہے اور خود کو زمانہ کے مختلف تقاضوں میں ڈھالنے کی استعداد رکھتا ہے۔ میں نے محمد (صلی الله علیه و آله) کے دین کے بارے میں یہ پیشین گوئی کی ہے کہ وہ آئندہ میں یوروپ والوں کے لیے قابل قبول ہو جائے گا جیسا کہ آج اس امر کی ابتداء ہو چکی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر اسلام کے پیغمبر جیسا کوئی مطلق حاکم اس ساری کائنات پر حاکم ہو جائے تو اس جہان کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں اس طرح سے موفق اور کامیاب ہو جائے گا کہ انسان صلح و سعادت تک پہچ جائے گا جسے اس کی شدید ضرورت ہے۔
اڈوارڈ گیبن
یہ اٹھارویں صدی کا انگلینڈ کا سب سے بڑا مورخ اور جس نے روم کی شہنشاہیت کے سقوط کی مشہور تاریخ لکھی ہے۔ وہ قرآن مجید کے بارے میں اس طرح لکھتا ہے:
بحر ایٹلس سے لے کر ھندوستان میں موجود دریاء گنگا کے کناروں تک قرآن مجید نہ صرف یہ کہ ایک فقہی قانون کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ وہ ملکوں کے قانون اساسی بشمول قضاء و عدالت، شہریت کے نظام، سزا کے احکام سے لے کر امور مالی تک انسان کے ان تمام قوانین کا احاطہ کرتا ہے اور یہ تمام کے تمام امور ایک ثابت احکام کے سبب انجام پاتے ہیں یہ سب ادارہ خدا کی جلوہ گری ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن مجید مسلمانوں کے لیے ایک عام دستور العمل اور قانون اساسی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں دین، معاشرہ، شہریت، فوج، عدالت،جرم، سزا کے تمام قوانین اور اسی طرح سے انسان کی روزانہ کی فردی و سماجی زندگی سے لے کر دینی وظائف تک جس میں تذکیہ نفس سے لے کر، حفظان صحت کے اصول کی مراعات، فردی حقوق سے عمومی حقوق تک اور اخلاقیات سے جنایات تک، اس دینا کے عذاب و مکافات سے اس جہان کے عذاب و مکافات تک سب کو شامل کرتا ہے۔ (۸)
پروفیسر ویل ڈوران (۱۸۸۵ تا ۱۹۸۱)
یہ امریکا کا مشہور مصنف ومورخ ہے جس کے آثار کا موجودہ عصر میں لاکھوں لوگ مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی شخصیت کے بارے میں اس طرح سے اظہار نظر کرتا ہے:
اگر اس مرد بزرگ کے عام لوگوں پر ہونے والے اثر کا حساب کریں تو یقینا ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ حضرت محمد (صلی الله علیه و آله) تاریخ انسانی کے بزرگ ترین بزرگ ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ اس قوم کی علمی و اخلاقی سطح کو، جو شدت گرما اور خشکی صحرا کے سبب توحش کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، بلند کریں اور انہیں اس سلسلے میں جو توفیق حاصل ہوئی کہ وہ گزشتہ تمام عالم کے مصلح بزرگوں سے زیادہ تھی، مشکل سے ہی کسی کو ان کی صف میں کھڑا کیا جا سکتا ہے جس نے اپنی تمام آرزووں کو دین کے لیے وقف کر دی ہو،اس لیے کہ وہ اس دین پر عقیدہ رکھتے تھے۔ محمد (صلی الله علیه و آله) نے بت پرستوں اور صحرا میں پراکندہ قبیلوں کو ایک امت میں بدل دیا اور دین یہود و دین مسیح اور عرب کے قدیم دین سے برتر و بالا تر ایک سادہ آئین اور روشن اور مضبوط دین کی بنیاد رکھی، جس کی معنویت کی اساس، قومی شجاعت سے پیدا پوئی تھی، جس نے ایک ہی نسل کے اندر سو جنگوں میں فتح اور کامیابی حاصل کی اور ایک صدی کی مدت میں ایک عظیم اور باشکوہ حکومت قائم کر لی اور موجودہ زمانے میں اس کے پاس ایک پایدار قدرت ہے جس نے آدھی دنیا کو مسخر کیا ہوا ہے۔ (۹)
منابع:
(۱) ڈاکٹر گوسٹاو لوبون، اسلام و عرب صفحہ ۱۵۴ و ۱۵۸۹
(۲) محمد عند علماء الغرب، ص ۱۰۱
(۳) اسلام شناسی غرب، ص ۳۶
(۴) نگاھی بہ تاریخ جہان
(۵) اسلام از نظر ولٹر ص ۲۸ و ۵۳
(۶) مجلہ مکتب اسلام، اردیبہشت ۱۳۵۲ ص ۶۹
(۷) توماس کار لایل، زندگانی محمد (صلی الله علیه و آله) ص ۴۸
(۸) عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد و قرآن ص ۷۲
(۹) پنج گام دین ص ۱۸۵