بےگمان تمام مسلمان جس مذہب کےبھی وہ ہوں ،مثلاً جعفری ،حنفی ،مالکی ،شافعی اورحنبلی ،رات ودن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتےہیں صبح ، ظہر ،عصر ،مغرب اورعشاءاورہر ایک کےوقت کےاعلان کےلئی، ایک خاص علامت ہےمیں نہیں سوچتاہوں یہ علامتیں شیعوں او رسنیوں کےدرمیان اختلاف ہونےکےباعث ہوجائیں گی۔کتاب صحیح مسلم (١)میں عبداللہ ابن عمر نےاس عمروعاص سےنقل کیا ہےکہ پیغمبرنےفرمایا :
نماز ظہر کا وقت ،سورج زائل ہونا ہے،یعنی جب شاخص کا سایہ اپنےاندازہ کےبرابر ہو عصر اور نماز عصر کا وقت اس وقت تک ہےکہ سورج زرد ہواہو اور نماز مغرب اس وقت تک ہےکہ شفق ختم ہوا ہو اور نماز عشاءکا وقت نصف رات تک ہےاور نماز صبح کا وقت ،طلوع فجر سےلےکر طلوع آفتاب تک ہے۔ لیکن مذہب جعفری میں علامتیں اس طرح ہے:نماز ظہر کی فضیلت کا وقت ، سورج زائل ہونےسےلےکر شاخص کےسایہ کااپنےبرابر ہونےتک ہےنماز عصر کی فضیلت کاوقت ، سورج کےزائل ہونےسےلےکر شاخص کےسایہ کا اپنےبرابر ہونےتک ہے، نماز مغرب کی فضیلت کاوقت ، سورج کےغروب ہونےسےلےکر شفق (مغرب کی سرخی ) ختم ہونےتک ہےنماز عشاءکی فضیلت کاوقت شفق ختم ہونےسےلےکر رات کےتیسرےحصہ تک ہےاورنماز صبح کی فضیلت کا وقت طلوع فجر سےلےکر مشرق کی سرخی (شفق ) ظاہر ہونےتک ہے۔
امامیہ دونمازوں کےدرمیان وقت ہونا مشترک جانتےہیں ۔(٢)اورشیعہ اثنا عشری کی سیرت یہ ہےکہ مثلاً جب وہ نماز مغرب قائم کرتےہیں ، تو نماز کےبعدوہ مخصوص دعائیں کہ جو اہلبیت کی طرف سےپہنچی ہیں، (تعقیبات ) پڑھتےہیں ۔ ہر ایک نماز کی ایک خاص تعقیب ونافلہ ہےاس کےبعد وہ نماز عشاءبجالاتےہیں ۔ علماءامامیہ دونمازوں کےدرمیان جمع کرنا واجب نہیں جانتےہیں اور وہ ان کےدرمیان فاصلہ ڈال سکتےہیں اوراگر اکٹھےپڑھی ہوں تو پھر بھی انہو ں نےاپنےوقت میں نما ز قائم کی ہے، کیوں کہ جس طرح ہم نےثابت کیا ، د ونمازوں کےدرمیان وقت مشترک ہےورصرف ان کی فضیلت کا وقت مختلف ہےاس بارےمیں اہلبیت کی احادیث ، دو کےجمع کرنےپر دلالت کرتی ہیں؛(٣)لیکن وہ احادیث جو اہلسنت کےمنابع سےنقل ہوئی ہیں :(٤)
ابن عباس کہتاہے:
رسو لخدا نےظہر وعصر اورمغرب وعشاءکی نماز عام حالت میں (نہ خوف ومسافر ہونےکی حالت میں ) اکھٹےقائم کی ۔ میں نےپیغمبر کےساتھ آٹھ رکعتیں (ظہر وعصر ) اورسات رکعتیں (مغرب وعشاء) کی نمازیں پڑھیں ۔ ٥)ہم ر سول خدا کےزمانےمیں دو نمازیں اکھٹےپڑھتےتھی۔(٦)وہ روایات جو پیغمبر سےنقل ہوئی ہیں، اختیاری حالت میں ،دونمازوں کےدرمیا ن جمع کرنےکےجائز ہونےپر دلالت کرتی ہیں ) پس شیعوں اورسنیوں کو اس مطلب میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہےاسی طرح : ایک مرد نےابن عباس سےکہا : نما ز ! اس کےبعد چب رہا دوبارہ کہا : نماز! پھر بھی چپ رہا ،تیسری مرتبہ کہا: نماز! اورچب رہا توعباس نےکہا : تمہاری ماں مر گئی ہے(لا ام لک ) کیا تم ہم کو نماز سکھارہےہو؟ ہم پیغمبرکےزمانےمیں دونمازیں اکھٹےقائم کرتےتھے۔ (٧)
٢ : معاد ابن جبل کہتےہیں :ہم جنگ تبوک کےسال میں پیغمبرکےساتھ باہر گئے،حضرت نےد ونمازوں کےدرمیان اجتماع کیا اور نماز ظہر و عصر اکھٹےپڑھی اس کےبعد اپنےخیمہ میں داخل ہوئےاور باہر نکلےاورنمازمغرب وعشاءبھی اکھٹے پڑھی ۔(٨)
٣ : ابوایوب انصاری کہتےہیں :رسول خدانےمغرب وعشاءکی نماز اکھٹےپڑھی اوردو نمازوں کوجمع کیا ۔ (٩)پس ان روایات کےبعد کہ جو پیغمبر سےنقل ہوئیں اور دو نمازوں کو آپس میں جمع کرنےکےجائز ہونےپردلالت کرتی تھیں اب کوئی شک وشبھہ اس بارےمیں کہ شیعہ امامیہ کا کام پیغمبر اوراس کےاہلبیت کی سنت کےساتھ مطابقت رکھتاہے،باقی نہیں رہتاہے۔
(١)۔ صحیح مسلم ،ج ٢ ص ٥٠١ اور محمد صالح العثیمین مواقیت الصلواة ۔(٢)منہاج الصالحین ، تحریر الوسیلہ اور مراجع تقلید کےدوسرےرسالہ ،باب اوقات نماز
٣١)۔ شیخ حر عاملی ،وسائل الشیعہ ،ج ٤ ، ابواب وقتھا (٤)۔ محمد صالح العثیمنین الصلواة،مواقیت الصلاة (٥)صحیح مسلم ،ج ١ ص ٩٨٤١٩٤(٦)۔ وہی منبع(٧)۔وہی منبع ،ص ٣٥١(٦)۔ سنن الدارمی ،ج ١ ،ص ٦٥٣(٨) وہی منبع
source : http://www.shiastudies.com