لیکن اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ قرآن مجید میں متشابہ آیات کی وجہ کیا ھے؟ جبکہ قرآن مجید نور، روشنی، کلام حق اور واضح ھے نیزلوگوں کی ھدایت کے لئے نازل ھوا ھے تو پھر قرآن مجید میں اس طرح کی متشابہ آیات کیوں ھیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کا مفھوم پیچیدہ کیوں ھے کہ بعض اوقات شرپسندوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا مو قع مل جا تا ھے ؟
یہ موضوع در حقیقت بہت اھم ھے جس پر بھر پورتوجہ کرنے کی ضرورت ھے، کلی طور پر درج ذیل چیزیں قرآن میں متشابہ آیات کا راز اور وجہ ھو سکتی ھیں:
۱۔ انسان جو الفاظ اور جملے استعمال کرتا ھے وہ صرف روز مرّہ کی ضرورت کے تحت ھوتے ھیں ، اسی وجہ سے جب ھم انسان کی مادی حدود سے باھر نکلتے ھیں مثلاً خداوندعالم جو ھر لحاظ سے نامحدود ھے، اگر اس کے بارے میں گفتگو کر تے ھیںتو ھم واضح طور پر دیکھتے ھیں کہ ھمارے الفاظ ان معانی کے لئے کما حقہ پورے نھیں اترتے، لیکن مجبوراً ان کو استعمال کرتے ھیں ، کہ الفاظ کی یھی نارسائی قرآن مجید کی بہت سی متشابہ آیات کا سرچشمہ ھیں ، <یَدُ اللهِ فَوقَ اٴیدِیھم>[40] یا <الرَّحمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ استَویٰ>[41] یا <إلیٰ رَبِّہَا نَاظِرَةِ>[42] یہ آیات اس چیز کا نمونہ ھیں نیز ”سمیع“ اور ”بَصِیرٌ“ جیسے الفاظ بھی اسی طرح ھیں کہ آیات محکمات پر رجوع کرنے سے ان الفاظ اور آیات متشابھات کے معنی بخوبی واضح اور روشن ھوجاتے ھیں۔
۲۔ بہت سے حقائق دوسرے عالم یا ماورائے طبیعت سے متعلق ھوتے ھیں جن کو ھم سمجھنے سے قاصر ھیں، چونکہ ھم زمان و مکان میں مقید ھیں لہٰذا ان کی گھرائی کو سمجھنے سے قاصر ھیں، اورھمارے افکار کی نارسائی اور ان معانی کا بلند و بالا ھونا ان آیات کے تشابہ کا باعث ھے جیسا کہ قیامت وغیرہ سے متعلق بعض آیات موجود ھیں۔
یہ بالکل اسی طرح ھے کہ اگر کوئی شخص شکم مادر میں موجود بچہ کو اس دنیا کے مسائل کی تفصیل بتانا چاھے، تو بہت ھی اختصار اور مجمل طریقہ سے بیان کرنے ھوں گے کیونکہ اس میں صلاحیت اور استعداد نھیں ھے۔
۳۔ قرآن مجید میں متشابہ آیات کا ایک راز یہ ھو سکتا ھے کہ اس طرح کا کلام اس لئے پیش کیا گیا تاکہ لوگوں کی فکر و نظر میں اضافہ ھو ، اور یہ دقیق علمی اور پیچیدہ مسائل کی طرح ھیں تاکہ دانشوروں کے سامنے بیان کئے جائیںاور ان کے افکار پختہ ھوں اور مسائل کی مزید تحقیق کریں ۔
۴۔قرآن کریم میں متشابہ آیات کے سلسلہ میں ایک دوسرا نکتہ یہ ھے کہ جس کی تائید اھل بیت علیھم السلام کی احادیث سے بھی ھو تی ھے:قرآن مجید میں اس طرح کی آیات کا موجود ھونا انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی ضرورت کو واضح کرتا ھے تاکہ عوام الناس مشکل مسائل سمجھنے کے لئے ان حضرات کے پاس آئیں، اور ا ن کی رھبری و قیادت کو رسمی طور پر پہچانیں، اور ان کے تعلیم دئے ھوئے دوسرے احکام اور ان کی رھنمائی پر بھی عمل کریں ، اور یہ بالکل اس طرح ھے کہ تعلیمی کتابوں میں بعض مسائل کی وضاحت استاد کے اوپر چھوڑدی جا تی ھے تاکہ شاگرد استاد سے تعلق ختم نہ کرے اور اس ضرورت کے تحت دوسری چیزوں میں استاد کے افکار سے الھام حاصل کرے ، خلاصہ یہ کہ قرآن کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص)کی مشھور وصیت کے مصداق پر عمل کریں کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:”إنِّي َتارکٌ فِیکُمُ الثَّقلین کتابَ اللهِ وَ اٴھلَ َبیتي وَ إنّھما لن یَفترقا حتّٰی یَرِدَا عَلیَّ الْحَوضِ“۔
” یقینامیں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں: ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اھل بیت، اور (دیکھو!) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوںگے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پھنچ جائيں“[43]([44])
[40] سورہ فتح۱۰.
[41] سورہ طٰہ۵.
[42] سورہ قیامت۲۳.
[43] مستدرک حاکم ، جلد ۳، صفحہ ۱۴۸۔
[44] تفسیر نمو نہ ، جلد ۲،صفحہ ۳۲۲۔
source : http://51214.blogfa.com