جیسا کہ ھم سورہ بقرہ میں پڑھتے ھیں:
< وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ ۔۔۔> ([19])
”اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کو ئی شک ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے تو اس کے جیسا ایک ھی سورہ لے آؤ“۔
یھاں پر یہ سوال اٹھتا ھے کہ دشمنان اسلام قرآن کی مثل کیسے نہ لاسکے؟
اگر ھم اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو اس سوال کا جواب آسانی سے روشن ھوجاتا ھے، کیونکہ اسلامی ممالک میں پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اور آپ کی وفات کے بعد خود مکہ اور مدینہ میں بہت ھی متعصب دشمن، یھود اور نصاریٰ رہتے تھے جو مسلمانوں کو کمزور بنانے کے لئے ھر ممکن کوشش کرتے تھے، ان کے علاوہ خود مسلمانوں کے درمیان بعض ”مسلمان نما“ افراد موجود تھے جن کو قرآن کریم نے ”منافق“ کھا ھے، جو غیروں کے لئے ”جاسوسی“ کا رول ادا کررھے تھے ( جیسے ”ابوعامرراھب “ اور اس کے منافق ساتھی، جن کا رابطہ روم کے بادشاہ سے تھا اور تاریخ نے اس کو نقل کیا ھے یھاں تک کہ انھوں نے مدینہ میں ”مسجد ضرار“ بھی بنائی ، اور وہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس کا اشارہ سورہ توبہ نے کیا ھے)۔
مسلّم طور پر منافقین کا یہ گروہ اور اسلام کے بعض دوسرے بڑے بڑے دشمن مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھے ھوئے تھے اور مسلمانوں کے ھو نے والے نقصان پر بہت خوش ھوا کرتے تھے، نیز مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت سے ان واقعات کو نشر کرتے تھے، یا کم از کم ان واقعات کو حفظ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
لہٰذا ھم دیکھتے ھیں کہ جن لوگوں نے ذرا بھی قرآن سے مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا ھے، تاریخ نے ان کانام نقل کیا ھے، چنانچہ ان میں درج ذیل افراد کا نام لیا جاتا ھے:
”عبد اللہ بن مقفع“ کا نام تاریخ نے بیان کیا ھے کہ اس نے ”الدرة الیتیمة“ نامی کتاب اسی وجہ سے لکھی ھے۔
جبکہ مذکورہ کتاب ھمارے یھاں موجود ھے اور کئی مرتبہ چھپ بھی چکی ھے لیکن اس کتاب میں اس طر ف ذرا بھی اشار ہ نھیں ھے، ھمیں نھیں معلوم کھکس طرح اس شخص کی طرف یہ نسبت دی گئی ھے؟
احمد بن حسین کوفی ”متنبی“ جو کہ کوفہ کا مشھور شاعر تھا اس کا نام بھی اسی سلسلہ میں بیان کیا ھے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ھے، جب کہ بہت سے قرائن اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ اس کی بلندپروازی، خاندانی پسماندگی اور جاہ و مقام کی آرزو اس میں سبب ھوئی ھے۔
ابو العلای معری پر بھی اسی چیز کا الزام ھے ، اگرچہ اس نے اسلام کے سلسلہ میں بہت سی نازیبا حرکتیں کی ھیں لیکن قرآن سے مقابلہ کرنے کا تصور اس کے ذھن میں نھیں تھا، بلکہ اس نے قرآن کی عظمت کے سلسلہ میں بہت سی باتیں کھی ھیں۔
لیکن ”مسیلمہ کذاب“ اھل یمامہ میں سے ایک ایسا شخص تھا جس نے قرآن کا مقابلہ کرتے ھوئے اس جیسی آیات بنانے کی ناکام کوشش کی ، جس میں تفریحی پھلو زیادہ پایا جاتا ھے، یھاں پر اس کے چند جملے نقل کرنا مناسب ھوگا:
۱۔ سورہ ”الذاریات“ کے مقابلہ میں یہ جملے پیش کئے:
”وَالمُبذراتِ بذراً والحاصداتِ حَصداً والذَّاریات قَمحاً والطاحناتِ طحناً والعاجناتِ عَجناً والخَابِزاتِ خُبزاً والثارداتِ ثَرداً واللاقماتِ لَقماً إھالة وسَمناً“[20]
”یعنی قسم ھے کسانوں کی، قسم ھے بیج ڈالنے والوں کی، قسم ھے گھاس کو گندم سے جدا کرنے والوں کی اورقسم ھے گندم کو گھاس سے جدا کرنے والوں کی، قسم ھے آٹا گوندھنے والیوں کی اور قسم ھے روٹی پکانے والیوں کی اور قسم ھے تر اور نرم لقمہ اٹھانے والوں کی“!!
۲۔یا ضفدع بنت ضفدع، نقيّ ما تنقین، نِصفک فی الماء و نِصفک فِي الطین لا الماء تکدّرین ولا الشارب تمنعین“[21] ([22])
” اے مینڈک بنت مینڈک! جو تو چاھے آواز دے! تیرا آدھا حصہ پانی میں اور آدھا کیچڑ میں ھے، تو نہ پانی کوخراب کرتی ھے اور نہ کسی کو پانی پینے سے روکتی ھے“۔
[19] سورہ بقرہ ، آیت ۲۳۔
[20] اعجاز القرآن رافعی۔
[21] قرآن و آخرین پیغمبر ۔
[22] تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۳۔
source : http://51214.blogfa.com