آپ کے عہد کا اہم واقعہ کعبہ معظمہ پر لشکر کشي ہے- مورخين کا کہنا ہے کہ ابرہۃ الاشرم يمن کا عيسائي بادشاہ تھا- اس ميں مذہبي تعصب بے حد تھا- خانہ کعبہ کي عظمت و حرمت ديکھ کر آتشِ حسد سے بھڑک اٹھا اور اس کے وقار کو گھٹانے کے لئے مقامِ ”صنعا” ميں ايک عظيم الشان گرجا بنوايا- مگر اس کي لوگوں کي نظر ميں خانہ کعبہ والي عظمت نہ پيدا ہوسکي تو اس نے کعبہ کو گرانے کا فيصلہ کيا اور اسود بن مقصود حبشي کي زير سرکردگي بہت بڑا لشکر، مکہ کي طرف روانہ کرديا- قريش، کنانہ، خزاعہ اور ہذيل پہلے تو لڑنے کے لئے تيار ہوئے- ليکن لشکر کي کثرت ديکھ کر ہمت ہار بيٹھے اور مکہ کي پہاڑيوں ميں اہل و عيال سميت جا چھُپے- مگر عبد المطلب اپنے چند ساتھيوں سميت خانہ کعبہ کے دروازے ميں جا کھڑے ہوئے اور کہا: مالک تيرا گھر ہے اور صرف تو ہي بچانے والا ہے- اسي دوران ميں لشکر کے سردار نے مکہ والوں کے کھيت سے مويشي پکڑے جن ميں عبد المطلب کے دو سو اونٹ بھي تھي- الغرض ابرہہ نے حناط حميري کو مکہ والوں کے پاس بھيجا اور کہا کہ ہم تم سے لڑنے نہيں آئے- ہمارا ارادہ صرف کعبہ کو گرانے کا ہے- عبد المطلب نے پيغام کا يہ جواب ديا کہ ہميں بھي لڑنے سے کوئي غرض نہيں اور اور اس کے بعد عبد المطلب نے ابرہہ سے ملنے کي درخواست کي- اُس نے اجازت دي تو يہ داخلِ دربار ہوئے- ابہہ نے خير مقدم کيا اور ان کے ساتھ تخت سے اتر کر فرش پر بيٹھا- عبد المطلب نے دوران گفتگو ميں اپنےاونٹوں کي رہائي اور واپسي کا سوال کيا- اس نے کہا تم نے اپنے آبائي مکان ”کعبہ کے لئے کچھ نہيں کہا؟ انہوں نے جواب ديا: ”انا رب الابل و للبيت رب سيمنعہ”- ميں اونٹوں کا مالک ہوں اپنے اونٹ مانگتا ہوں جو کعبہ کا مالک ہے اپنے گھر کو خود بچائے گا- عبد المطلب کے اونٹ ان کو مل گئے اور وہ واپس آگئے- غرض يہ کہ ابرہہ عظيم الشان لشکر لے کر خانہ کعبہ کي طرف بڑھا اور جب اس کي ديواريں نظر آنے لگيں تو دھادا بول دينے کا حکم دے ديا- خدا کا کرنا ديکھئے کہ جيسے ہي گستاخ و بيباک لشکر نے قدم بڑھايا مکہ کے غربي سمت سے خداوند عالم کا ہوائي لشکر”ابابيل” کي صورت ميں نمودار ہوا- ان پرندوں کي چونچ اور پنجوں ميں ايک ايک کنکري تھي- انہوں نے يہ کنکرياں ابرہہ کے لشکر پر برسانا شروع کيں- چھوٹي چھوٹي کنکريوں نے بڑي بڑي گوليوں کا کام کر کے سارے لشکر کا کام تمام کرديا- ابرہہ جو محمود نامي سرخ ہاتھي پر سوار تھا، زخمي ہو کر يمن کي طرف بھاگا، ليکن راستہ ہي ميں واصلِ جہنم ہوگيا-چونکہ ابرہہ ہاتھي پر سوار تھا اور عرب نے اس قبل ہاتھي نہ ديکھا تھا نيز اس لئے کہ بڑے بڑے ہاتھيوں کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کي ننّھي ننّھي کنکريوں سے بحکم خدا تباہ کرکے خدا کے گھر کو بچا ليا اس لئے اس واقعہ کو ہاتھي کي طرف منسوب کيا گيا اور اسي سے سنہ عام الفيل کہا گيا-
مہندي کا خضاب عبد المطلب نے ايجاد کيا- ابن نديم کا کہنا ہے کہ آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ايک خط مامون رشيد کے کتب خانہ ميں موجود تھا-
نہيں رنگا- اس وقت مکہ ميں معاد کا عقيدہ نہيں پايا جاتا تھا يا بہت کم تھا- ليکن عبد المطلب نہ صرف معاد کا عقيدہ رکھتے تھے بلکہ روز قيامت کي جزا اور سزا کے بارے ميں بھي تاکيد فرماتے تھے اور کہتے تھے: اس دنيا کے بعد ايسي دنيا آئے گي جس ميں اچھے اور برے لوگ، اپنے اعمال کي جزا اور سزا پائيں گے-(1)
جبکہ اس وقت جزيرة العرب کے ماحول ميں قبيلہ جاتي عصبيت عام تھي اور جيسا کہ ہم بيان کرچکے ہيں ہر شخص جھگڑے اور اختلافات ميں (بغير حق و باطل کا خيا ل کئے) اپنے قبيلے، خاندان اور احباب کي حمايت کرتا تھا- ليکن جناب عبدالمطلب، ايسے نہيں تھے- چنانچہ حرب بن اميہ جو کہ آپ کے خاندان اور دوستوں ميں سے تھا اس پر اتنا دباؤ ڈالا، تاکہ وہ ايک يہودي کا خون بہا ديدے جو اس کے ورغلانے پر قتل ہوا تھا(2) وہ اپني اولاد کو ظلم و ستم اور دنيا کے پست اور گھٹيا کاموں سے منع کرتے تھے اور اچھے صفات کي ترغيب دلاتے تھے-(2)
جناب عبد المطلب کا جو طريقہء کار تھا اسلام نے زيادہ تر اس کي تائيد فرمائي ہے - ان ميں کچھ چيزوں ، جيسے حرمت شراب، حرمت زنا، زناکار پر حد جاري کرنا، چور کے ہاتھ کاٹنا، فاحشہ عورتوں کو مکہ سے جلا وطن کرنا اور لڑکيوں کو زندہ درگور کرنا، محرموں سے شادي کرنااور خانہ کعبہ کا برہنہ طواف کرنے کو حرام قرار دينا اور نذر کي ادائيگي کو واجب جاننا اور حرام مہينوںکي قداست و احترام اور مباہلہ وغيرہ کے وہ قائل تھے-ايک روايت ميں آيا ہے کہ عبدالمطلب ''خدا کي حجت'' اورابوطالب ان کے ''وصي'' تھے-
حوالہ جات :
(1) حلبي، گزشتہ حوالہ، ص 6؛ آلوسي، گزشتہ حوالہ، ص 323؛ ابن اثير ، الکامل في التاريخ، ج2، ص 15؛ بلاذري، انساب الاشراف، تحقيق: محمد حميد اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج1، ص73.
(2) حلبي، گزشتہ حوالہ، ص 7؛ مسعودي، مروج الذہب، ج2، ص 1ظ 9.
source : http://www.tebyan.net