اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

حضرت فاطمہ کی شہادت جو افسانہ نہیں ہے

حضرت فاطمہ کی شہادت افسانہ نہیں ہے
حضرت فاطمہ کی شہادت جو افسانہ نہیں ہے

حضرت فاطمہ کی شہادت افسانہ نہیں ہے

تحریر: آيةاللہ العظمی مكارم شيرازي (حفظہ اللہ)

اس مقالے میں درج ذیل امور پر روشنی ڈالی گئی ہے:1ـ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی عصمت؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر میں

2ـ قرآن و سنت میں سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر کا احترام.

3ـ والد ماجد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد آپ سلام اللہ علیہا کے گھر کی بے حرمتی.

یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ اس مقالے کے تمام مطالب اہل سنت کے معروف منابع و مآخذ سے نقل ہوئے ہیں.

اول) حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا کی عصمت؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر میںدختر پیمبر (صلى اللہ عليہ وآلہ) نہایت اونچے مرتبے پر فائز تھیں اور آپ سلام اللہ علیہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات آپ سلام اللہ علیہا کی عصمت اور گناہ و پلیدی سے پاکیزگی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں.فرماتے ہیں: «فاطمة بضعة منّي فمن أغضبها أغضبني».(1)فاطمہ میرے جسم و جان کا ٹکڑا ہے جس نے انہیں غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ہے».بغیر کہے سنے بھی ظاہر ہے کہ رسول خدا(صلى اللہ عليہ وآلہ) کا غضب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اذیت و رنج کا سبب ہے اور ایسے شخص کی سزا قرآن مجید میں یوں بیان ہوئی ہے:وَ الّذين يُؤْذُونَ رَسُول اللّه لَهُم عَذابٌ أَليم (التوبه/61 )وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اذیت پہنچائیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے».آپ سلام اللہ علیہا کی عصمت کے لئے اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ حدیث شریف میں آپ کی رضا رسول خدا کی رضا کا باعث اور آپ کی ناراضگی خدا کی ناراضگی بتائی گئی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: « فاطمةُ انّ اللّه يغضبُ لِغضبك و يَرضى لرضاك»(2) بیٹی فاطمہ! خدا آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے.اسی عالی مرتبے کی بدولت آپ سلام اللہ علیہا عالمین کی خواتین کی سردار ہیں؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ سلام اللہ علیہا کے حق میں ارشاد فرمایا ہے: «يا فاطمة! ألا ترضين أن تكونَ سيدةَ نساء العالمين، و سيدةَ نساءِ هذه الأُمّة و سيدة نساء المؤمنين.(3)بیٹی فاطمہ! کیا آپ راضی نہ ہونگی کہ خدا نے اتنی بڑی کرامت و عظمت آپ کو عطا فرمائے کہ آپ دنیا کی خواتین کی سردار اور اس امت کی خواتین کی سردار اور با ایمان خواتین کی سردار ہوں.

دوئم) قرآن و سنت میں آنحضرت سلام اللہ علیہا کے گھر کا احتراممحدثین کہتے ہیں کہ جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی کہ : فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ نورخدا ان گھروں میں ہے کہ خدا نے اجازت دی ہے کہ ان کی قدر و منزلت بلند و رفیع ہو اور اس (خدا) کا نام ان گھروں میں یاد کیا جائے اور (وہ) ان گھروں میں شب و روز خدا کی عبادت کرتے ہیں( (4آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں اس آيت کی تلاوت فرمائے. ایک شخص اٹھا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ان نہایت اہم گھروں سے مقصود کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:انبیاء کے گھر!اس موقع پر ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ (سلام اللہ علیہما) کے گھر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا: کیا یہ گھر بھی ان ہی گھروں میں سے ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہاں اور یہ ان گھروں میں "اہم ترین" ہے.(5)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلسل 9 مہینوں تک اپنی بیٹی کے گھر کے دروازے پر آتے رہے اور آپ سلام اللہ علیہا اور آپ کے خاوند (ع) کو سلام کرتے رہے اور اور دروازے ہی پر اس آیت کی تلاوت کرتے رہے:إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (احزاب33) (6)خدا نے فقط ارادہ فرمایا کہ رجس و آلودگی کو تم خاندان (اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے دور کردے اور تمہیں پاک و مطہر کردے جیسا کہ پاک ہونے کا حق ہے.وہ گھر جو نور خدا کا مرکزہ ہے اور خدا نے حکم دیا ہے کہ اس گھر کی تعظیم و تکریم کی جائے یقینا نہایت اعلی درجے پر فائز ہے اور اس کا احترام بھی نہایت اعلی پائے کا ہے.بے شک جس گھر میں اصحاب کساء ہوں گے اور خداوند متعال عظمت و جلالت کے ساتھ اس کا نام لے تمام مسلمانوں کے لئے محترم ہونا چاہئے.اب دیکھنا یہ ہے کہ رسول اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد اس گھر کے احترام کا کس حد تک لحاظ رکھا گیا؟ کس طرح بعض لوگوں نے اس گھر کا احترام توڑ کر رکھ دیا؟ اور پھر کس طرح انہوں نے صراحت کے ساتھ اس کا اعتراف بھی کیا؟ یہ حرمت شکن کون تھے اور ان کا مقصد کیا تھا؟

سوئم) آپ سلام اللہ علیہا کے گھر کی بے حرمتیافسوس کا مقام ہے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتنی ساری سفارشات کے باوجود بعض لوگوں نے اس گھر کی حرمت کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اس کی توہین و بے حرمتی کا ارتکاب بھی کیا اور یہ مسئلہ ہالکل عیاں و آشکار اور ناقابل انکار ہے.ہم اس سلسلے میں اہل سنت کے منابع و مصادر سے بعض نصوص نقل کرنا چاہیں گے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ (س﴾ کے گھر کی بے حرمتی اور بعد کے واقعات «افسانہ نہیں بلکہ مسلمہ تاریخی حقائق ہیں»!! اور اگرچہ خلفاء کے دور میں خاندان رسالت کے فضائل و مناقب پر شدید سینسر لاگو تھا لیکن چونکہ «ہر شیۓ کی حقیقت وصداقت اس کی نگہبان ہے» لہذا یہ تاریخی حقیقت زندہ صورت میں تاریخ و حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہوگئی ہے اور ہم منابع و مآخذ نقل کرتے ہوئے معاصر مصنفین و مؤلفین تک ، ان کی تاریخی ترتیب کو اسلام کی پہلی صدی سے مد نظر رکھیں گے:

1. ابن ابى شيبہ اور ان کی کتاب «المصنَّف»ابوبكر ابن ابى شيبہ (159-235) المصنَّف کی مؤلف ہیں. وہ صحیح سند کی توسط سی نقل کرتی ہیں کہ:انّه حين بويع لأبي بكر بعد رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) كان علي و الزبير يدخلان على فاطمة بنت رسول اللّه، فيشاورونها و يرتجعون في أمرهم.فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة، فقال: يا بنت رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) و اللّه ما أحد أحبَّ إلينا من أبيك و ما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك، و أيم اللّه ما ذاك بمانعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك أن امرتهم أن يحرق عليهم البيت.قال: فلما خرج عمر جاؤوها، فقالت: تعلمون انّ عمر قد جاءَني، و قد حلف باللّه لئن عدتم ليُحرقنّ عليكم البيت، و أيم اللّه لَيمضين لما حلف عليه. (6)ترجمہ: جب لوگوں نے ابوبکر کے ساتھ بیعت کی، علی اور زبیر حضرت سیدہ کے گھر میں مشورے کیا کرتے تھے۔ اس بات کی اطلاع عمر کو ہوئی تو وہ سیدہ کے گھر آئے اور کہا: اے دختر رسول خدا! ہمارے لئے محبوبترین فرد آپ کے والد ہیں اور آپ کے والد کے بعد آپ ہیں لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ اگر یہ افراد آپ کے گھر میں اکٹھے ہوجائیں تو میں حکم دوں کہ گھر کو ان کے ساتھ جلا ڈالیں.یہ کہہ کر باہر چلے گئے، جب على(علیہ السلام﴾ اور زبیر گھر لوٹ آئے تو دختر رسول (ص﴾ نے على(عليہ السلام) اور زبیر سے کہا: عمر میرے پاس آئے اور قسم کھائی کہ اگر آپ لوگوں کا یہ اجتماع دہرایا گیا تو گھر کو تمہارے ساتھ نذر آتش کردیں گے؛ خدا کی قسم اس نے جو قسم کھائی ہے اس پر عمل کریں گے!ہم نے پہلے ہی اشارہ کیا کہ یہ روایت المصنف میں صحیح سند کے ذریعے سے نقل ہوئی ہے.2. بلاذرى اور كتاب «انساب الاشراف»مشہور و معروف مؤلف اور عظیم تاریخ کے مالک احمد بن يحيى جابر بغدادى بلاذرى (متوفى 270) نے یہ تاریخی واقعہ اپنی کتاب انساب الاشراف میں یوں نقل کیا ہے.انّ أبابكر أرسل إلى علىّ يريد البيعة فلم يبايع، فجاء عمر و معه فتيلة! فتلقته فاطمة على الباب.فقالت فاطمة: يابن الخطاب، أتراك محرقاً علىّ بابي؟ قال: نعم، و ذلك أقوى فيما جاء به أبوك...(7).ابوبكر نے علی (علیہ السلام﴾ کو بیعت کے لئے بلایا تو علی (علیہ السلام) نے بیعت سے انکار کیا. اس کے بعد عمر فتيلہ Tinder اٹھا کر آیا اور گھر کے سامنے ہی سیدہ (س﴾ کے روبرو ہوئے. سیدہ نے فرمایا: یابن الخطاب! میں دیکھ رہی ہوں کہ تم میرا گھر جلانے کے لئے آئے ہو؟! عمر نے کہا: ہاں! میرا یہ عمل اسی چیز کی مدد کے لئے ہے جس کے لئے آپ کے والد مبعوث ہوئے تھے!!3. ابن قتيبہ اور كتاب «الإمامة و السياسة»مشہور مورّخ عبداللّہ بن مسلم بن قتيبہ دينوري (212-276) بزرگ ادیب اور تاریخ اسلامی کے محنت کش اہل قلم ہیں. «تأويل مختلف الحديث»، «ادب الكاتب» وغیرہ ان کی تالیفات ہیں... (8). وہ اپنی کتاب «الإمامة و السياسة» میں لکھتے ہیں:انّ أبابكر رضي اللّه عنه تفقد قوماً تخلّقوا عن بيعته عند علي كرم اللّه وجهه فبعث إليهم عمر فجاء فناداهم و هم في دار علي، فأبوا أن يخرجوا فدعا بالحطب و قال: والّذي نفس عمر بيده لتخرجن أو لاحرقنها على من فيها، فقيل له: يا أبا حفص انّ فيها فاطمة فقال، و إن!!(9)ابوبکر نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا جنہوں نے بیعت سے انکار کیا تھا اور عمر کو ان کے پاس بھیجا. عمر علی علیہ السلام کے گھر کے پاس آیا اور سب کو آواز دی اور کہا: سب باہر آجاؤ اور انہوں نے علی و فاطمہ (علیہما السلام﴾ کے گھر سے نکلنے سے اجتناب کیا اس موقع پر عمر نے لکڑیاں منگوائیں اور کہا: اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں عمر کی جان ہے کہ باہر آجاؤ ورنہ میں اس گھر کو آگ لگاؤں گا. ایک آدمی نے عمر سے کہا: اى اباحفص! اس گھر میں فاطمہ ہے؛ عمر نے کہا چاہے فاطمہ بھی ہو میں گھر کو آگ لگادوں گا!!ابن قتيبہ نے اس داستان کو پرسوز و گداز انداز میں جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ:ثمّ قام عمر فمشى معه جماعة حتى أتوا فاطمة فدقّوا الباب فلمّا سمعت أصواتهم نادت بأعلى صوتها يا أبتاه رسول اللّه ماذا لقينا بعدك من ابن الخطاب، و ابن أبي قحافة فلما سمع القوم صوتها و بكائها انصرفوا. و بقي عمر و معه قوم فأخرجوا علياً فمضوا به إلى أبي بكر فقالوا له بايع، فقال: إن أنا لم أفعل فمه؟ فقالوا: إذاً و اللّه الّذى لا إله إلاّ هو نضرب عنقك...!(10)عمر ایک گروہ کے ہمراہ سیدہ (س﴾ کے گھر پہنچا. ان لوگوں نے دستک دی جب سیدہ (س﴾ نے دستک کی صدا سنی تو بآواز بلند فرمایا: یا رسول اللہ (ص﴾ آپ کے بعد خطاب اور ابی قحافہ کی بیٹوں کی جانب سے ہم پر کیا مصیبتیں آپڑیں! عمر کے ہمراہ آنے والوں نے جب سیدہ کی گریہ وبکاء کی آواز سنی تو اکثر افراد لوٹ کر چلے گئے مگر عمر چند افرا کے ہمراہ کھڑا رہا اور علی علیہ السلام کو گھر سے باہر لے آئے اور ابوبکر کے پاس لے گئے اور کہا: بیعت کرو! علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر بیعت نہ کروں تو کیا کروگے؟ عمر نے کہااس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نہیں؛تمہارا سر قلم


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام زین العابدین(علیہ السلام)کی ولادت
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
حضرت فاطمہ کی شہادت جو افسانہ نہیں ہے
قرآن، کعبہ، سیرت پیغمبر اسلام (ص) اور اھلبیت ...
اقتضائے غم حسين
امام زمانہ کے مخصوص مقامات (صلوات اللہ علیہ)
حضرت فاطمہ زہراء (س) کی ولادت با سعادت
تیرہ جمادی الاول؛ شہزادی کونین کے یوم شہادت پر ...
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت

 
user comment