یه مسئله ثابت هو چکا هے که خدا وند متعال کے تمام اسماو صفات ، خواه اس کی ذات سے مربوط هوں اور خدا کے واجب الوجود هو نے کے ناطے اس کی ذات هیں –جیسے: علم ، قدرت، قیو میت ، مالکیت اور خدا کی حاکمیت اورخواه جو اسماء اس کے فعل سے مر بوط هیں اور انھیں صفات فعل کها جاتا هے ، جیسے : ربو بیت، راز قیت، خالقیت ، اراده اور خدا کی رحمت ، یه سب صفات ثبوتیه هیں که خدا وند متعال ان کے ذریعه مسلسل فیض بھیجتا هے که اس میں اس کی خالقیت کا تقاضا هے که مسلسل اور رکے بغیر پیدا کرتا رهے اور تازه به تازه تخلیق کر تا رهے " خدا وند متعال هر روز ایک نئی شان والاهے-"[1]
یهاںپر جو دوسرا مطلب قابل توجه هے، وه یه هے که چونکه خدا وند متعال حکیم هے اور ایک حکیم و دانا شخص سے بیهوده کام سر زد نهیں هو تا هے ، اس لئے خلقت کا نظام ایک با مقصد نظام هے ، جس کی بنیاد ذات باری تعالی کے بلند مقاصد پر رکھی گئی هے اور اس میں کسی قسم کا ٹیڑھا پن اور پریشانی نهیں هے اور کائنات کے تمام ذرات زبان حال میں کهتے هیں:
نیست در دائره یک نقطه خلاف از کم و بیش
که من این مسئله بے چون وچرا می بینم
(کم وبیش کے لحاظ سے کسی بھی دائره کے نقطه میں عیب ونقص نهیں هے، میں اس مسئله کا کسی چون وچرا کے بغیر مشا هده کر رها هوں)
قرآن مجید کی نص کے مطابق ، خالق مخلوقا ت نے چیزوں اور مظاهر کو نه بیهوده پیداکیا هے اور نه یه کھیل تماشا هے ، بلکه اس کی خلقت کی بنیاد کا مرکز حق پر استوار هے که اس بهترین نظام میں ، اس کے سب سے چھوٹے اجزا کی پیدائش میں بلند اور قابل قدر مقاصد مضمر هیں اور ان میں سے کوئی بھی چیز بے مقصد، بے کار اور بیهوده نهیں هے :
در این پرده یک رشته بے کار نیست
سر رشته بر ما پد یدار نیست
( اس پردے کا ایک دھاگا بھی بے کار نهیں هے اس کا بنیادی دھاگاهمیں دکھائی نهیں دیتا هے)
لیکن اس بات سے چشم پوشی نهیں کی جانی چاهئے که تخلیق کائنات اور مخلوقات کی پیدا ئش کا اصلی سبب اور مقصد انسان هے – واضح تر الفاظ میں خدا وند متعال نے کائنات کو پیدا کیا هے تا که انسان کو پیدا کرے ، کیو نکه انسان بهترین مخلوق هے – خدا وند متعال بهترین خالق هے اور اس کی هستی کے کار خانه سے انسان جیسی کوئی مخلوق پیدا نهیں هوئی هے – حدیث قدسی میں آیا هے که خدا وند متعال کا ارشادهے که: "اے آدم کے بیٹے میں نے تمام چیزوں کو تیرے لئے پیدا کیا هے اور تجھے اپنے لئے پیدا کیا هے –[2]"
اب هم ان موضوعات کو پیش کر نے کے بعد اصلی بحث میں داخل هو کر کهتے هیں : انسان کی پیدائش کا مقصد جو بھی هوا اس کا نتیجه خود انسان کی طرف پلٹتا هے نه خدا وند متعال کی طرف ، کیو نکه وه مطلق بے نیاز هے اور تمام ممکنات من جمله انسان اس کے محتاج هیں-
" اے لوگو! تم خدا کے محتاج هو ، صرف خدا وند متعال هے جو بے نیاز هے اور هر قسم کے حمد و ثنا کا مستحق هے- [3]"
" موسی نے بنی اسرائیل سے کها : " اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام بسنے والے بھی کافر هو جائیں تو همارا الله سب سے بے نیاز اور قابل حمد و ستائش هے-[4]"
حضرت علی علیه السلام اپنے مشهور خطبه، " حمام" میں فر ماتے هیں : " خدا وند متعال مخلوقات کو تخلیق کر تے وقت بندوں کی اطاعت اور بندگی سے بے نیاز اور ان کی معصیت اور نا فر مانی سے محفوظ تھا ، کیونکه بندوں کی معصیت اور نا فر مانی سے اسے کوئی نقصان نهیں پهنچتا هے اور ان کی اطاعت اور فرمانبرداری اسے کوئی فا ئده پهنچاتی هے- [5](بلکه اطاعت کےامرکا مقصد اور معصیت کی نهی بندوں کے لئے مفید هے)
انسان کی تخلیق کےمقصد کے بارے میں قرآن مجید کی آیات میں مختلف صورتوں میں بیان کیا گیا هے که حقیقت میں ان میں سے هر ایک اس مقصد کے ایک پهلو کی طرف اشاره هے، من جمله آیاهے که : " اور میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا هے – [6]" اور ایک دوسری جگه میں آیا هے : " اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا هے تا که تمھاری آز مائش کرے که تم میں حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بهتر کون امام هے- [7]" یعنی ایک آمیخته آز مائش جو پرورش اور تکامل کے نتیجه میں هو – ایک اور جگه پر آیا هے : " لیکن لوگ همیشه مختلف هیں ، مگر یه که تمھارا پر وردگار رحم کرے اور اسی لئے ( رحمت کو قبول کر نے اور اس کے سایه میں کمال حاصل کر نے کے لئے انھیں پیدا کیا گیا هے)[8]جیسا که ملاحظه کیا گیا که یه تمام خطوط ایک نقطه پر تمام هوتے هیں اور وه انسانوں کی پرورش ، هدایت اور کمال هے، یهاں اسی معلوم هو تا هے که انسان کی تخلیق کا اصلی مقصد، اس کا کمال وسعادت تک پهنچنا اور بلند ترین انسانی عظمت اور قدروں کو حاصل کر نا هے اور یه سب ذات احدیت کے بارے میں آگاهانه ، معرفت ، عبودیت اور بندگی کے ذریعه هی ممکن هے : " خدا کی بندگی ایک ایسا گراں قیمت گوهر هے جس کا باطن ربو بیت هے – [9]" جس نے اسے حاصل کیا وه خدا کے علاوه سب پر حکومت کرے گا-
امام صادق علیه السلام سے نقل کی گئی ایک روایت میں آیا هے که:" امام حسین علیه السلام نے اپنے اصحاب میں حاضر هو کر یوں فر مایا : " خدا وندمتعال نے اپنے بندوں کوصرف اس کی معرفت حاصل کر نے کے لئے پیدا کیا هے ، جب وه اس کی معرفت حاصل کرتے هیں اور اسے پهچان لیتے هیں اور اس کی عبادت کرتے هیں اور جب وه خدا کی بندگی کرتے هیں تو غیر خدا کی بندگی سے بے نیاز هوتے هیں-[10]"
[1]- " کل یوم هو فی شان" ، الرحمن، ٢٩-
[2] - یا بن آدم خلقت الاشیاء لا جلک و خلقتک لاجلی" ،المنھج القوی ، ج٥،ص٥١٦: علم الیقین ،ج١ ،ص٣٨١-
[3] - " یا ایھا الناس انتم الفقراء الی الله والله هوالغنی الحمید " ،فاطر، آیه ١٥-
[4] - " وقال موسی ان تکفروا انتم ومن فی الارض جمیعاً فان ا لله لغنی حمید" ،ابراھیم ، آیه ٨-
[5] - "اما بعد ، فان الله سبحانه وتعالی خلق الخلق حین خلقهم غنیاً عن طاعتهم ، آمناً من معصیتهم ، لانه لا تضره معصیه من عصاه ، ولا تنفعه طاعه من اطاعه }" ، نهج البلاغه فیض ، ص١١خطبه همام-
[6] - " وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون "، ذاریات،٥٦-
[7] - { الذی خلق الموت والحیاه لیبلوکم ایکم احسن عملاً} ملک ،٢-
[8] - " ولا یزالون مختلفین الامن رحم ربک ولذالک خلقهم "، ھود،١١٨و ١١٩-
[9] - " العبودیه جوھره کنههاالربو بیه "، مصباح الشریعه در حقیقت عبو دیت-
[10] -" ان الله عز وجل ماخلق العباد الا لیعرفوه ، فاذا عبدوه استغنو بعباده عن عباده من سواه " علل الشرائع صدوق ، طبق نقل المیزان ، ج١٨،ص٤٢٣
source : http://www.ahlulbaytportal.com