اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

قرآنِ مجید کی کون سی آیات علم و دانش کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں ؟

مھربانی کرکے قرآن مجید کی وہ آیات بیان کیجئے، جو علم و دانش کے بارے میں بحث کرتی ھیں۔

اجمالی جواب : 

چونکہ قرآن مجید، سعادت اور کمال کی راہ کی طرف ھدایت اور راھنمائی کرنے والی کتاب ھے، اور ھدایت بھی عقل و علم کے بغیر میسر نھیں ھوتی ھے، اس لئے قرآن میں علم و دانش کو کلیدی اھمیت دی گئی ھے۔ جھاں تک ھمیں معلوم ھوتا ھے قرآن مجید کی بھت سی آیات، علم ومعرفت اور اس کو حاصل کرنے کے لئے، تدبر، تامل، تعقل وغیرہ جیسے، وسائل کی قدر و قیمت اور اھمیت پر مشتمل ھیں۔اس لحاظ سے بلاوجہ نھیں ھے کہ قرآن مجید کا ایک چوتھائی حصہ علم و دانش کے موضوع پر بحث کرنے والی آیات پر مشتمل ھے۔ یہ کوئی عجیب مسئلہ نھیں ھے، کیونکہ جو پھلی آیات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ھوتی ھیں، وہ پڑھنے، اور علم ودانش نیز معرفت اور پھچان کے بارے میں تھیں جیسے ارشاد ھوتا ھے: "اس اللہ کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا ھے، اس نے انسان کو جمے ھوئے خون سے پیدا کیا ھے۔"

"پڑھو اور تمھارا پروردگار بڑا کریم ھے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ھے۔ اور انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا ھے جو اسے نھیں معلوم تھا۔" اس سے بڑھ کر، بنیادی طور پر انسان کی خلقت علم و معرفت کے ساتھ منسلک ھے۔ چنانچہ قرآن مجید اس کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتا ھے: "اور خدا نے آدم کو {خلقت کے اسرار کا علم اور موجودات کی نام گزاری کا علم، یعنی} تمام اسماء کی تعلیم دی اور پھر ان سب کو ملائکہ کے سامنے پیش کرکے فرمایا کہ ذرا تم ان سب کے نام تو بتاﺅ اگر تم اپنے خیالی استحقاق میں سچے ھو؟"۔

اس بنا پر، آسانی کے ساتھ ان تمام آیات کی تعداد معلوم کرنا آسان کام نھیں ھے۔ اس لئے ھم ذیل میں حتی الامکان اس قسم کی بعض آیات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ھیں:

۱۔ وہ آیات جو علم الھی کے بارے میں ھیں۔

۲۔ وہ آیات جو پیغمبر اسلام {ص} اور دوسرے انبیاء {ع} کے علم کے بارے میں ھیں۔

۳۔ وہ آیات جو علم و دانش کی اھمیت بیان کرتی ھیں۔

۴۔ وہ آیات جن میں واضح طور پر لفظ "علم" استعمال نھیں ھوا ھے، لیکن ان کا مفھوم علم و دانش کے بارے میں ھے اور اسی موضوع سے مطابقت رکھتا ھے، ھم ان کے چند نمونے تفصیلی جواب میں ذکر کریں گے۔

تفصیلی جواب :

 علم و دانش کی پیدائش، انسان کی خلقت کے ساتھ ھوئی ھے اور انسان ھمیشہ اس کوشش میں رھا ھے کہ اسے سمجھے اور ادراک کرے، انسان کی زندگی میں علم و دانش کا خاص مقام ھے۔ انسان کی زندگی میں علم کا رول یہ ھے کہ وہ انسان کی سعادت، کمال اور تعمیر و ترقی کی راہ کی راھنمائی کرتا ھے۔ علم، انسان کو توانائی بخشتا ھے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو اپنی مرضی کے مطابق سنوارے۔ علم انسان کی چاھت کے اختیار میں ایک وسیلہ کے مانند ھوتا ھے تاکہ وہ اپنی قسمت کو اپنی مرضی کے مطابق بنائے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم و دانش حاصل کرنے کے لیے اپنے پیروﺅں کی ھمت افزائی فرماتے تھے۔ آپ {ص} نے اپنے صحابیوں کے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری قرار دیا، آنحضرت {ص} نے اپنے بعض صحابیوں کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ علم کے بارے میں آنحضرت {ص} کی یہ تاکیدیں اور ھمت افزائیاں اس امر کا سبب بنیں کہ مسلمانوں نے پوری دنیا میں بے مثال تلاش و کوشش کے ساتھ علم حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ شروع کی اور انھوں نے جھاں پر علم و دانش کے آثار پائے انھیں حاصل کیا اور ترجمے کئے اور خود بھی تحقیق کا کام شروع کیا۔ اس طرح قدیم یونانی، رومی، ایرانی، مصری اور ھندی وغیرہ تمدنوں اور جدید یورپی تمدن کے درمیان ایک رابطہ قائم کرنے کے علاوہ، تاریخ بشریت کے ایک باشکوہ تھذیب و تمدن کو پیدا کیا جو اسلامی تھذیب و تمدن کے نام سے مشھور ھوا۔

خدا وند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے: "قل هل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون، انما یتذكر اولوا الالباب"[1] کھہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ھیں ان کے برابر ھو جائیں گے جو نھیں جانتے ھیں۔ اس بات سے نصیحت صرف صاحبان عقل حاصل کرتے ھیں۔" اسلام میں علم کی اھمیت اس قدر زیادہ ھے کہ اس کو حاصل کرنا ھر مسلمان پر واجب قرار دیا گیا ھے۔ اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ھیں: "طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم"[2] یعنی علم حاصل کرنا ھر مسلمان پر فرض و واجب ھے۔ اس حدیث کے معنی یہ ھیں کہ، اسلام کے واجبات میں سے ایک واجب علم حاصل کرنا ھے۔ احادیث کی کتابوں میں "باب وجوب طلب العلم" کے نام سے یا اسی عنوان کے مانند ایک مخصوص باب ھے۔ فرماتے ھیں کہ علم کے لئے تلاش و کوشش کرنا ھر مسلمان پر واجب ھے،اس میں کسی قسم کا استثنیٰ نھیں ھے، حتی کہ مرد اور عورت کے لحاظ سے بھی اس میں کوئی استثنیٰ نھیں ھے۔ یہ حدیث بتاتی ھے کہ علم حاصل کرنے کا فریضہ ایک عمومی فریضہ ھے، یہ کسی خاص طبقہ، صنف یا جنس سے مخصوص نھیں ھے۔

مکتب اسلام میں علم و دانش کی اس قدر اھمیت اور مقام کے بارے میں اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد، واضح ھوتا ھے کہ قرآن مجید نے اس موضوع کو خاص اھمیت دی ھے اور اس کتاب الھی میں جگہ جگہ پر علم کے موضوع کی مناسبت سے اس کی وضاحت کی گئی ھے، کیونکہ قرآن مجید اس مکتب کی آسمانی کتاب ھے جو انسان کو دنیا و آخرت کی سعادت اور کمال حاصل کرنے کے لئے آیا ھے اور یہ کتاب الھی مختلف علوم سے سرشار ھے۔ 

قرآن مجید میں علم و معرفت کے موضوع پر بیان کی گئی آیات کے بارے میں ایک مفصل بحث کرنے اور کثرت سے کتابیں تالیف کرنے کی ضرورت ھے۔ قرآن مجید کی آیات پر سرسری غور کرنے سے معلوم ھوتا ھے کہ لفظ "علم" علم و معرفت کے تمام وسائل جیسے: قلوب، عقول، تعقل، تدبیر، خرد وغیرہ اھمیت کے حامل ھیں۔ اگر ھم یہ کھیں کہ قرآن مجید کا ایک چوتھائی حصہ علم و دانش کے بارے میں ھے، تو کوئی مبالغہ نھیں ھے۔ اس لحاظ سے یہ کوئی تعجب کی بات نھیں ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ھوئی ابتدائی آیات، علم کے باب میں، پڑھنے اور معرفت کے بارے میں تھیں: "اس اللہ کے نام سے پڑھو جس نے {دنیا کو} پیدا کیا ھے۔ اس نے انسان کو جمے ھوئے خون سے پیدا کیا ھے۔ پڑھو اور تمھارا پروردگار بڑا کریم ھے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ھے۔ اور انسان کو وہ سب کچھ بتایا ھے جو اسے نھیں معلوم تھا۔"[3] اس سے بڑھ کر، بنیادی طور پر انسان کی خلقت اور علم و معرفت کے درمیان چولی دامن کا واسطہ ھے، چنانچہ قرآن مجید اس کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتا ھے: "اور خدا نے آدم کو {خلقت کے اسرار کا علم اور موجودات کی نام گزاری کا علم، یعنی} تمام اسماء کی تعلیم دی اور پھر ان سب کو ملائکہ کے سامنے پیش کرکے فرمایا کہ ذرا تم ان سب کے نام تو بتاﺅ اگر تم اپنے خیالی استحقاق میں سچے ھو؟"۔[4]  

اس بناپر،ان تمام آیات کی تعداد بتانا کوئی آسان کام نھیں ھے جو علم و دانش سے متعلق ھیں۔ اس لئے ھم ان آیات میں سے صرف بعض کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ھیں۔ علم و دانش کے بارے میں بحث سے متعلق قرآن مجید کی آیات کو مجموعی طور پر حسب ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے:

۱۔ الھی علم سے متعلق آیات۔

۲۔ پیغمبر اکرم {ص} اور دوسرے انبیاء {ع} کے علم سے متعلق آیات۔

۳۔ علم و دانش کی اھمیت سے متعلق آیات۔

۴۔ وہ آیات، جس میں واضح طور پر لفظ "علم" نھیں آیا ھے، لیکن ان کا مفھوم علم کے بارے میں ھے اور علم سے مطابقت رکھتا ھے۔

۱۔ الھی علم سے مطلق آیات:

پھلی قسم کی آیات جو الھی علم سے متعلق ھیں: ظاھر ھے کہ خداوند متعال کی صفتوں میں سے ایک صفت علم ھے۔ قرآن مجید میں اس موضوع سے متعلق کافی تعداد میں آیات پائی جاتی ھیں۔ اسی طرح، انسان کے روزمرہ کام اور سرگرمیوں کے بارے میں علم الھی سے متعلق آیات بھی ھیں۔ دلچسپ بات یہ ھے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں مختلف مناسبتوں سے صرف"علیم" کی صفت ۳۲ مرتبہ دھرائی گئی ھے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی آیت نمبر، ۳۲، ۱۸۷ اور ۲۳۵، سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۳۵، سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۷۶، سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۳، ۹۶، ۸۰ اور ۱۱۵، سورہ انفال کی آیت نمبر ۶۱ اور ۲۳، سورہ یوسف کی آیت نمبر ۳۴ اور ۸۳، سورہ یونس کی آیت نمبر ۶۵، سورہ کھف کی آیت نمبر ۲۲ اور ۱۰۹ اور سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۸۷ وغیرہ اسی کے بارے میں ھیں۔

۲۔ انبیاء {ع} کے علم سے متعلق آیات:

دوسری قسم کی آیات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے انبیائے الھی {ع} کے علم سے متعلق ھیں اور ان میں بیان کیاگیا ھے کہ خداوند متعال نے انھیں گوناگون علم عطا کیا ھے: سورہ نجم کی آیت نمبر ۵، سورہ یوسف کی آیت نمبر ۲۲، ۶۲ اور ۶۸، سورہ انبیاء کی آیت نمبر ۷۴، ۷۹ اور ۸۰، سورہ اعراف کی آیت نمبر ۶۲ اور سورہ انعام کی آیت نمبر ۷۵، انبیاء کے علم کے بارے میں ھیں

۳۔ علم و دانش کی اھمیت سے متعلق آیات:

تیسری قسم کی ایات، خود علم کی اھمیت سے متعلق ھیں۔ قرآن مجید میں متعدد ایسی آیات پائی جاتی ھیں جو علم و دانش کی اھمیت اور اس کی قدر و منزلت اور انسان کی زندگی میں اس کے رول اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مختلف پھلوﺅں سے اس کے نتائج کی بحث پر مشتمل ھیں۔ ھم یھاں پر ان میں سے بعض آیات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ھیں:

۱۔ بعض آیات میں اس مسئلہ پر بحث کی گئی ھے کہ افراد کے لئے منصبوں کے انتخاب کے سلسلہ میں علم و دانش ایک معیار شمار ھوتا ھے۔ سورہ بقرہ کی آیت: ۲۴۷ اور سورہ زمرکی آیت: ۹ اس موضوع کی طرف اشارہ کرتی ھیں: "انھیں اللہ نے تمھارے لئے منتخب کیا ھے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ھے اور اللہ جسے چاھتا ھے اپنا ملک دیتا ھے کہ وہ صاحب وسعت بھی ھے اور صاحب علم بھی۔" "کیا وہ لوگ جو جانتے ھیں ان کے برابر ھوجائیں گے جو نھیں جانتے ھیں۔"

۲۔ علم کا ایمان اور قرآن مجید کے مفاھیم و اسرار کے ساتھ اٹوٹ رشتہ ھے۔ سورہ آل عمران کی آیت:۷، سورہ نساء کی آیت: ۱۶۲، سورہ اسراء کی آیت: ۱۰۷، سورہ حج کی آیت:، ۵۴، سورہ عنکبوت کی آیت: ۴۹ اور سورہ سبا کی آیت: ۶ ایسے نمونے ھیں، جن سے اس حقیقت کا استفادہ کیا جاسکتا ھے۔

۳۔ علم کا نتیجہ خدا کا خوف ھے اس سلسلہ میں ارشاد ھوتا ھے: "لیکن اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں صرف علماء اور دانشور ھیں۔[5]  

۴۔ اثبات حق کے لئے علم مقدمہ ھے اس سلسلہ میں ارشاد الھی ھے: "پیغمبر کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کھہ دیجئے کہ آو ھم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔[6]"

۵۔ علم، انسان پر حجت تمام کرتا ھے اس سلسلہ میں ارشاد ھے: "اور اگر آپ علم کے آنے کے بعد ان کے خواھشات کی پیروی کریں گے تو پھر خدا کے عذاب سے بچانے والا نہ کوئی سرپرست ھو گا نہ مدد گار۔ [7]"

۶۔ علم انسان کو قیامت کے عذاب سے نجات دلانے کا سبب ھے اس سلسلہ میں ارشاد الھی ھے: "خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ھے ان کے درجات کو بلند کرنا چاھتا ھے" "اس وقت صاحبان علم کھیں گے کہ آج رسوائی اور برائی کافروں کے لئے ثابت ھوگئی ھے۔[8]"

۷۔ علماء اور دانشوروں کی گواھی کا خدا اور ملائکہ کی گواھی کے ھم پلہ ھونا اس سلسلہ میں ارشاد الھی ھے:" اللہ خود گواہ ھے کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے ملائکہ اور صاحبان علم گواہ ھیں کہ وہ عدل کے ساتھ قائم ھے۔[9]" 

۸۔ صاحبان علم و دانش پیروی کے سزاوار ھیں، اس سلسلہ میں آیا ھے: "میرے پاس وہ علم آچکا ھے جو آپ کے پاس نھیں آیا ھے لھذا آپ میرا اتباع کریں میں آپ کی سیدھے راستہ کی طرف ھدایت کردوں گا۔[10]"

۹۔ علم و دانش، بصیرت و بینائی کا سبب ھے، اس سلسلہ میں ارشاد الھی ھے: "اور جنھیں علم دیاگیا تھا، انھوں نے کھا کہ افسوس تمھارے حال پر۔ اللہ کا ثواب صاحبان ایمان و عمل صالح کے لئے اس سے کھیں زیادہ بھتر ھے اور وہ ثواب صبر کرنے والوں کے علاوہ کسی کو نھیں دیا جاتا ھے۔[11]"        

۱۰۔ مختصر یہ کہ علم و دانش کی اس قدر اھمیت ھے کہ ایک اولوالعزم پیغمبر اس کے لئے ایک پر خطر سفر کے مشکلات کو برداشت کرتا ھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ علم و آگاھی حاصل کرسکے۔ یہ داستان سورہ کھف کی آیت نمبر ۶۶ سے ۸۱ تک حضرت موسی{ع} اور حضرت خضر{ع} کے قصہ میں آئی ھے، ارشاد ھوتا ھے:

 "موسیٰ نے اس بندہ سے کھا کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ھوں کہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ تعلیم کریں جو رھنمائی کا علم آپ کو عطا ھوا ھے ۔ ۔ ۔ [12]"

۴۔ قرآن مجید میں لفظ "علم" کے بجائے اس کا مفھوم۔

 چوتھی قسم کی آیات، جن میں واضح طور پر لفظ"علم" استعمال نھیں ھوا ھے، لیکن ان کا مفھوم علم کے باب سے متعلق ھے اور علم و دانش سے تطبیق کرتا ھے، جیسے آیات میثاق، جن کو خداوند متعال نے کتاب عطا کی ھے{انبیاء} سے عھد و پیمان لیا ھے کہ اسے ضرور لوگوں تک پھنچادیں و۔ ۔ ۔" اس مقالہ میں ھم اسی پر اکتفا کرتے ھیں اور اس سلسلہ میں مزید آگاھی حاصل کرنے کے لئے آپ کتاب "معجم المفھرس الفاظ قرآن"، تالیف: محمد فواد الباقی کا مطالعہ کرسکتے ھیں۔        

 [1] سوره زمر، آیه 9.

[2] اصول كافی، ج 1، ص 30.

[3] علق، 1- 5.

[4] بقره، 31.

[5] آل عمران، 61.

[6] بقره، 120.

[7] مجادله، 11؛ نحل، 27.

[8] آل عمران، 18.

[9] آل عمران، 18.

[10] مریم، 43.

[11] قصص، 80.

[12] ۔ ظاھر ھے کہ یہ آیات، علم و معلم کی اھمیت اور شاگرد پر معلم کے حقوق سے متعلق ھیں۔ اسی طرح لیاقتوں اور صلاحیتوں کو بیان کرتی ھیں جو علم کی تلاش کرنے والوں میں ھونی چاھئے۔ اس سلسلہ میں مزید آگاھی حاصل کرنے کے لئے ، آپ سورہ لقمان اور اس کی تفسیر کی طرف رجوع کرسکتے ھیں۔


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام مہدی (عج)کے اخلاق اور اوصاف کیا ہے ، اور ...
حقوق العباد کيا ہيں ؟
مجلس کیا ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
کیا خدا وند عالم کے وعد و عید حقیقی ھیں ؟
کیا تمام انسانی علوم قرآن میں موجود ہیں ؟
کو نسی چیزیں دعا کے اﷲ تک پہنچنے میں مانع ہوتی ...
صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟
مرجع تقلید کے ہوتے ہوئے ولی فقیہ کی ضرورت کیوں؟
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...

 
user comment