خداوند متعال، نے نظام وجود کو بطور احسن اور کامل ترين صورت ميں خلق فرمايا ہے- احسن اور کامل نظام کا تقاضا يہ ہے کہ اس نظام ميں "فرق و تفاوت" ايک ضرورت کے طور پر مدنظر رکھا جائے- ہم اس عالم ميں ـ جو کہ ہمارے کمال کے تقاضوں کے مطابق بعض اختلافات اور فرق و تفاوت پر مبني ہے ـ ہم ايک چيز کو خوب اور ايک کو بد کہتے ہيں- اس کے بعد ہم پوچھتے ہيں: وہ خوب (اچھا) کون ہے؟ يہ بد (يہ برا اور يہ برائي) کيوں ہے؟
ہم نہيں جانتے ہيں کہ اگر يہ بد نہ ہوتا تو وہ خوب بھي نہ ہوتا؛ مصوري کے ايک شاہکار کي مانند جس ميں اجالا ہے اور اندھيرا بھي ہے- يہ مختلف حصوں کے درميان فرق يا اختلاف ہے اور ايک حصہ روشن ہے تو ايک حصہ تاريک ہے؛ ليکن اس تصوير کي تصويريت اور اس کا حسن اور کمال ہي اسي بنا پر ہے کہ اس ميں روشنياں اور تاريکياں باہم مخلوط ہيں- اگر تاريکيوں کے بجائے صرف روشني ہوتي تو کيا اس تصوير کا وجود ميں آنا ممکن ہوتا؟ کيا اُس صورت ميں حُسن ہوتا؟ اگر برا اور شقي انسان نہ ہوتا، تو کيا اچھا اور سعيد انسان ہوتا؟ يہ جو ہم کہتے ہيں "حسن" اور اس کو ديکھ کر حيرت و تعجب کا شکار ہوتے ہيں اور اس کا ادراک کرتے ہيں اور اس کي تعريف کرتے ہيں، يہ سب اس لئے ہے کہ دنيا کا ہر حصہ اور ہر جگہ اُس کي طرح خوبصورت نہيں ہے- اگر پوري دنيا ايک جيسي ہوتي اور سارے انسان برے ہوتے يا بني نوع بشر کے تمام افراد حضرت اميرالمۆمنين کي خصوصيات کے حامل ہوتے اور سب کے سب سعيد انسانوں کي خصوصيات کے حامل ہوتے تو بے شک اميرالمۆمنين يا وہ نماياں انسان اور احرار عالم دوسروں سے قابل تشخيص نہ ہوتے؛ پس ہم جس چيز کو خوب، سعيد اور حسين کہتے ہيں اس کي خوبصورتي، اچھائي اور سعادت بھونڈے کے بھونڈے پن، بد کي برائي اور شقي کي شقاوت کے مرہون منت ہے- (1)
حوالہ جات:
(1) رجوع کريں: توحيد صدوق ص 312 عدل الهى شہيد مطہري، صص 163- 165.
source : http://urdu.tebyan.net