شاید میری طرح دوسرے بھی کئی افراد ایسے ہوں جن کے خیال میں فلسطین ایک ایسی اسلامی سرزمین ہے جہاں صرف سنی مسلمان رہتے ہیں اور حماس و دیگر اسلامی تحریکیں سنی تحریکیں ہیں. البتہ یہ الگ مسئلہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے شیعہ ہوں یا سنی اس وقت اسلام کے فرنٹ لائن میں لڑ رہے ہیں اور پورا عالم کفر ان کی خلاف برسرپیکار ہے جبکہ عیش پرست عرب حکمران ان کی ناکہ بندی اور قتل عام کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور ہم ان سب کی کامیابی کے لئے دعاگو ہیں اور ہم اہل قلم افراد کی بھی کم از کم ذمہ داری یہ ہے کہ ان کے مصائب پر سے پردہ اٹھائیں مگر یہ بات عجیب بہت سوں کے لئے یقینا نئی ہے کہ اس سرزمین پر شیعیان محمد و آل و محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی رہتے ہیں لڑتے ہیں اور بیت المقدس و مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے خون کا نذرانہ پیش کررہے ہیں.
دریں اثناء اسلام کو ٹکروں میں تقسیم کرنے والے نا عاقبت اندیش مذہبی شخصیات کی کوشش ہے کہ فلسطین کو بھی اپنی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بنائیں اور وہاں کے لوگوں کو صہیونیوں کی بجائے تشیع کے خلاف صف آراء کردیں اور مسلمانوں کے لئے ذلت خرید کر دشمنان اسلام کی خوشنودی حاصل کریں. مثال کے طور پر قرضاوی نے تاریخ کے دوران اسلام کے دفاع میں تشیع کی عظیم قربانیوں اور عصر جدید میں تشیع کی بنیاد پر ظہور پذیر ہونے والے اسلامی انقلاب کی وجہ سے عالمی سطح پر اسلامی بیداری اور 60 سال تک پوری عرب دنیا پر غالب رہنے والی اسرائیلی ریاست کی لبنانی شیعوں کی ہاتھوں ذلت آمیز شکست کو نظرانداز کرتے ہوئے فلسطین میں تشیع کے پھیلاؤ کو فتنہ قرار دیا اور کہا فلسطین کے رنج کشیدہ لوگ گھٹن میں مبتلا ہیں اور انہیں اب یہ نہیں معلوم کہ انہیں صہیونیت کے خلاف لڑنا چاہئے یا پھر اس فتنے کے مد مقابل کھڑا ہونا چاہئے!!! گویا مولوی قرضاوی صاحب جو عراق جنگ کے دوران امریکی فوجی ہیڈکوارٹر میں ان کو شاید نمازیں پڑھایا کرتے تھے! اور جب عرب مسلمانوں نے از خود ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو انہوں نے " صرف رضائے الہی کی خاطر ڈنمارک کے سفارت خانے سے معمولی سے تحائف حاصل کرکے بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کی" اس وقت خدا کی رضا کی خاطر صہیونیوں کی خدمت پر مأمور ہوگئے ہیں اور کئی دوسرے بھی ہیں جو تشیع کی پیشرفت دیکھ کر سوگ منا رہے ہیں کیوں کہ ان حضرات کو اپنی دکانیں بند ہونے کا خدشہ ہے.
یہ حضرات شیعہ مذہب کی معقولیت کو نظر انداز کرتے ہیں اور شیعہ مخالف افکار کی خامیوں کو خاطر میں نہیں لاتے جبکہ سابق وہابی عالم کچھ اور کہتے ہیں.
میں بخوبی جانتا ہوں کہ ہمارے برادران کو جب تشیع کے فضائل سنائے جاتے ہیں تو وہ ابتداء میں ناراض ہوجاتے ہیں جبکہ یہ ایک حقیقت ہے ورنہ بڑے وہابی اور سنی علماء تشیع اختیار نہ کرتے. اگر یہ لوگ شیعہ ہو ہی جاتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ میرے غیر شیعہ قارئین بھی شیعہ مذہب کا اپنے مذہب سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ عقلاء اور علماء کیوں تشیع اختیار کررہے ہیں؛ مذہب شیعہ کی کیا خوبیاں ہیں اور دوسری طرف کیا مسائل اور خامیاں ہیں جس کی بنا پر حتی کہ وہابی علماء بھی تحقیق کے مراحل میں شیعہ مذہب اختیار کرلیتے ہیں؟ یہاں میں سعودی جامعات سے ڈاکٹریٹ کرنے والے اور سعودی جامعات میں وہابی مذہب کے بڑے استاد پروفیسر ڈاکٹر عصام العماد کے انٹرویو کا خلاصہ اپنے قارئین کے نذر کرتا ہوں۔
یمنی شہریت کے حامل ڈاکٹر عصام العماد سعودی عرب کے وہابی علمی مراکز سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد تشیع کے خلاف برسرپیکار ہوئے تو انہیں تشیع کے خلاف ہتھیار ڈھونڈتے ڈھونڈتے اچانک تشیع کی حقانیت کی نشانیاں دکھائی دیں اور استادی کا درجہ ترک کرکے ایران آئے اور «جامعةالمصطفی الاسلامیة» میں حصول تعلیم میں مصروف ہو کر طالب علم ہوگئے گویا کہ وہاں کے استاد یہاں کے طالب علم ہوجاتے ہیں۔ دیکھئے:
ڈاکٹر العمادعصام عماد: وہابي لفظ «عقل» سے نفرت کرتے ہیں
انہوں نے قم کے حجتیہ ہائر اسکول میں «اہل بیت اور وہابیت» کے عنوان سے منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا: «وہابی لفظ «عقل» سے بیزار ہیں اور فکری جمود کا شکار ہیں جبکہ اہل تشیع کی فکری اساس قرآن اور اہل بیت ہیں اور اسی اعلی فکر سے لیس ہوکر ہمیں انحرافات کا سامنا کرنا ہے. انہوں نے کہا کہ حوزہ علمیہ قم میں انحرافی مذاہب کے عقائد و افکار پر بحث ہونی چاہئے کیونکہ علمی ارتباط اور آراء و افکار کا تقابل انسانوں کی ہدایت کا باعث بنتا ہے اور لوگوں کے لئے راہ حق ڈھونڈنے میں آسانی ہوتی ہے. انہوں نے کہا کہ مکتب اہل بیت علیهم السلام عقل کی بنیاد پر استوار ہونے کی بنا پر روز بروز ترقی کررہا ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اہل بیت علیهم السلام کی تعلیمات کو دنیا میں عام کردیں».
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت مشرق وسطی میں صہیونی مخالف و امریکہ مخالف تحریکوں میں تشیع کا رنگ بڑا واضح ہے گو کہ سلفیوں نے علاقے میں گلے کاٹنے کی وحشیانہ لہریں کھڑی کرکے تشیع کا رنگ ختم کرنے کی بہتیری کوشش کی مگر
پھونکوں سے یہ چراغ بھجایا نہ جائے گا
اب تو مغربیوں کو بھی اعتراف کرنا پڑرہا ہے کہ علاقے میں دو تحریکیں پروان چڑھی ہیں: ایک سلفی تحریک جو خون کے دریا بہا کر اپنی ترویج پر یقین رکھتی ہے اور ریالوں کی بھری تھیلیاں بانٹ کر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ذاتی مفادات کو دین اور امت کے مفادات پر ترجیح دینے والے افراد سمیت عراق کی حد تک بعث پارٹی کے پسماندوں کو خریدنے میں لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف تشیع ہے جو قتل کا جواب قتل سے نہیں دیتا بلکہ اپنی منطق کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے اور اپنے ہزاروں شہداء کی لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنے عزیزوں کے قاتلوں تک کو اتحاد کی دعوت دے رہا ہے یعنی یہ کہ سلفیت اختلافات کو تفرقہ اور دشمنی میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے اور دشمنوں کی امیدیں بڑھا رہی ہے تو تشیع اتحاد کی دعوت دے کر دشمنان اسلام کو مایوس کررہا ہے.
شیعہ اشداء علی الکفار پر ایمان رکھتے ہیں مگر رحماء بینهم کو بھی نہیں بھولتے اور ان کا عقیدہ ہے کہ اپنے لوگ برے بھی ہوں دشمنوں سے بہتر ہیں اور دشمنوں کے مقابل ان کا دفاع کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے. شیعہ؛ نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں وحشیانہ انداز میں کفر کے فتؤوں کا شکار ہوکر قتل بھی ہوتے ہیں تو جاہلوں کے خلاف کفر کا فتوي نہیں دیتے کیونکہ انہوں نے دشمن کو پہچان لیا ہے اور انہیں امید ہے کہ ایک دن یہ جاہل بھی دشمن کو پہچان ہی لیں گے.
سلفیت اور وہابیت خون آشام ہے تو شیعہ منطق کی بدولت اسلام کے روشن مستقبل کی امید لگاکر جدوجہد کررہے ہیں. شیعہ اپنے عقائد کا ڈٹ کر دفاع کرتے ہیں اور اپنے احکام پر کاربند ہیں مگر دوسرے فرقوں کو بھی مسلمان سمجھتے ہیں اور کسی کو بھی خارج از اسلام قرار نہیں دیتے کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ سامنے دشمن ہے جو تمام فرقوں کو یکسان طور پر دشمن سمجھتا ہے.
وہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن، کعبہ، رسول اللہ (ص) دشمنان اسلام کی یلغار کا اصلی ترین ہدف ہیں اور یہ مقدسات سارے اسلامی فرقوں کے ہاں یکسان طور پر مقدس ہیں.
شیعہ مکتب کی بڑی نشانی اس کی انقلابی روح ہے اور انقلاب میں معقولیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور معقولیت کا تقاضا ہے کہ مسلمان فرقے متحد ہوجائیں. یقینی بات ہے کہ اتحاد کا فائدہ سب کو ملے گا اور جو لوگ اکثریت کو حقانیت کا نشان سمجھ کر دشمن کی چکی کو پانی فراہم کرتے ہوئے شیعہ کو اقلیت کے عنوان سے ناحق سمجھتے ہیں انہیں سمجھنا چاہئے کہ اتحاد کا زیادہ فائدہ بھی اکثریت کو پہنچے گا اور پھر اتحاد و یکجہتی پر یقین اس امر کا باعث بنا ہے کہ دنیا کی سطح پر تشیع کا چہرہ زیادہ پروقار اور معتدل نظر آرہا ہے کیونکہ شیعہ ہر کسی کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا اور اپنے اردگرد بے شمار محاذ قائم نہیں کرتا اور مسلمانوں کو مشترکات کی حفاظت کی دعوت دیتا ہے جبکہ اسلام کے اصلی دشمنوں کے سامنے نہایت مضبوط اور ساز باز نہ کرنے والا مجاہد ہے مگر مسلمان بھائیوں کے سامنے نہایت مہربان دوست ہے اور وحدت و یگانگت کی دعوت دیتا ہے.
شیعہ اپنوں کے ہاتھوں اپنے کٹتے ہوئے گلے سے بھی اذان وحدت دیتا ہے اور اپنے قاتل کو دشمن شناسی کا درس دیتا ہے.
اسلامی انقلاب اور تشیع
اسلامی انقلاب سے پہلے تشیع گوشہ نشینی پر مجبور تھا اور اکثریتی مسلمان - جو سیکولرزم کے دلدادہ ہوگئے تھے اور روز بروز مذہب سے دور ہورہے تھے - شیعوں پر بڑی آسانی سے ظلم و ستم روا رکھتے تھے اور بالفاظ دیگر یہ سیکولر مسلمان شیعوں کے سامنے آکر راسخ العقیدہ سنی مسلمان بن جاتے تھے اور شیعوں پر ظلم کرنا اپنا حق سمجھتے تھے مگر اسلامی انقلاب کے بعد جہاں اہل تشیع ابھر کر سامنے آئے وہاں عالم اسلام میں سیکولرزم نے بھی اسی انقلاب کی برکت سے اپنی جگہ اسلام کو دی اور سنی بھی دینی عقائد و احکام کی طرف لوٹ آئے گو کہ اس رجعت میں دوسروں کا بھی ہاتھ تھا جو سنی عقائد کا احیاء کرکے اسلامی انقلاب کے سامنے عالم اسلام کے تمام ممالک میں بند باندھنا چاہتے تھے.
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دنیا میں شوق تشیع بڑھ گیا ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں شیعیان اہل بیت (ع﴾ اپنے وجود و ظہور کا اعلان کرچکے ہیں اور اگر کہیں شیعہ اپنے "بھائیوں" کے خوف سے چاہ یوسف میں چھپ کر رہنے پر مجبور تھے انہوں نے کنوئیں سے نکل کر اپنی موجودگی کا اعلان کیا ہے اور نقطۂ عروج کی طرف صعود کررہے ہیں بقول حافظ
عزیز مصر به رغم برادران غیور
ز قعر چاه برآمد به اوج ماه رسید
عزیز مصر اپنے حاسد بھائیوں کی خواہش کے برعکس
کنوئیں کے تہہ سے نکل کر چاند کی بلندی پرپہنچ گیا
ارض فلسطین بھی اسی دنیا کے ایک چھوٹے سے خطے کے طور پر اس قاعدے سے مستثنی نہیں رہا اور یہاں بھی تشیع کے مؤثر جہادی پہلؤوں کے پیش نظر مکتب تشیع دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا، چنانچہ مذہب کے بعض ٹھیکیداروں نے اس مسئلے کے پیش نظر تشویش کا اظہار کیا ہے اور عجیب تو یہ ہے کہ ان حضرات کی تشویش کے ساتھ ساتھ فلسطین پر قابض صہیونی قوتوں نے بھی یکسان تشویش ظاہر کی ہے اور ان کی تشویش میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے. شہید محمد شحادہ کی شہادت میں صہیونی وزیر اعظم کی بلاواسطہ مداخلت اسی قضیّے کی عینی دلیل ہے. صہیونی کابینہ نے شحادہ کی شہادت کے بعد عالمی صہیونیوں کو مبارکباد دی تھی.
صہیونی تشویش کے حوالے سے ایک رپورٹ
اسرائیل کا دعوي؛ ایران فلسطین میں تشیع کی تبلیغ کررہا ہے
صہیونی جریدے «ہاآرٹص» نے اپنے 11 جون (2008) کے شمارے میں دعوي کیا ہے کہ ایران فلسطینیوں کو شیعہ بنانے کے لئے فلسطینی علاقوں میں بڑی رقم خرچ کررہا ہے اور جہاد اسلامی تحریک کے اکثر ممبران شیعہ ہوگئے ہیں [مصر، اردن، سعودی عرب، شیخ نشین ریاستوں اور ترکی تک کے بعض مذہبی راہنماؤں سمیت بہت سے سیکولر حکام نے بھی ایسی ہی تشویش ظاہر کی ہے].
صہیونی روزنامے نے مزید لکھا ہے کہ ایران فلسطین میں مذہب شیعہ کی ترویج کے منصوبے پر عملدرآمد کررہا ہے.
صہیونی ریاست، حماس کی تشکیل سے لے کر اب تک سینکڑوں بار اعلان کرچکی ہے کہ ایران حماس کو اقتصادی اور فوجی مدد دے رہا ہے مگر صہیونی کالم نویس «ايساخاروف» نے اس کالم میں اپنا دعوي ثابت کرنے کی خاطر سابقہ صہیونی پروپیگنڈے پر بطلان کی لکیر کھینچتے ہوئے لکھا ہے کہ حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین نے کبھی بھی ایران سے مدد نہ لی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایران کی مدد حاصل کرنے کی بنا پر انہیں ایران کے شیعہ رجحانات سے وابستہ ہونا پڑے گا!!! لیکن ان کے مارے جانے کے بعد حماس بھی حزب اللہ کی مانند ایران سے مالی امداد حاصل کررہی ہے. [یعنی یہ کہ حماس بھی جلدی یا بدیر شیعہ مکتب سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی].
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ صہیونی ریاست کس حد تک تشیع کی ترویج سے فکرمند ہے جبکہ دوسری طرف سے صہیونیت کے خلاف جہاد کے دعویدار مسلمانوں کی تشویش واقعی باعث حیرت ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اسرائیل اور یہ صاحبان ایک ہی مسئلے سے فکرمند ہیں؛ دونوں کا دشمن ایک ہے یا یوں کہئے کہ اب بس انہیں اسرائیل کے ساتھ صلح کرلینی چاہئے یعنی یہ کہ قبلہ اول اور ارض فلسطین کو فراموش کرلینا چاہئے اور دونوں کو مل کر تشیع کا مقابلہ کرنا چاہئے یا یوں کہئے کہ اب جبکہ تشیع سامنے ہے تو جہاد فلسطین کے مسلمہ اہداف و مقاصد کا خاتمہ ہوگیا ہے کیونکہ تشیع سے اسرائیل کو بھی سنجیدہ خطرہ ہے اور ٹھیکیداران اسلام کے ٹھیکوں کو بھی؛ چنانچہ اب آل محمد (ص) کے ماننے والوں کا مقابلہ کرنا چاہئے !!!
ٹھیکیداران اسلام اپنے عوام کو سوچنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ اپنی سوچ ان پر ٹھونس دیتے ہیں حالانکہ یہ افراد امت کی توہین ہے اور قرآن مجید نے امت کے تمام افراد کی عقل کو قابل قدر قراردیتے ہوئے انہیں تدبر، تفکر اور تعقّل کی دعوت دی ہے چودہ مرتبہ مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا تم تفکر نہیں کرتے؟ کیا تم تدبر نہیں کرتے؟ اور کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے یا کیا تم میں عقل نہیں ہے؟ تفکر و تعقل و تدبر سے منع کرکے مسلمانوں پراپنی سوچ ٹھونسنے کے اسی رجحان کی بنیاد پر ان حضرات کی تشویش کی ایک مثال شیخ نشین ریاست کے امام جمعہ شیخ یوسف قرضاوی کا موقف جو قارئین محترم کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:
قطر میں مقیم مصر کے عالم دین نے قطر ہی میں منعقد ہونے والے «تقریب بین المذاہب الاسلامیة» کے حالیہ اجلاس میں - عرب عوام کے ذاتی اور فطری شوق تشیع کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طبیعی عمل کو شیعیان اہل بیت (ع﴾ کی تبلیغ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے - پیروان اہل بیت (ع﴾ پر تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ پیروان اہل بیت (ع﴾ سنی ممالک میں تشیع کی ترویج و تبلیغ سے اجتناب کریں !!!
انہوں نے اتحاد بین المسلمین کے اس اجلاس میں کہا کہ فلسطین میں تشیع کی ترویج ایک فتنہ ہے اور فلسطین کے محروم عوام اس وقت گھٹن کا شکار ہیں اور انہیں یہ نہیں معلوم کہ صہیونیت کے خلاف لڑیں یا پھر اس فتنے کا مقابلہ کریں!!!
الازہر میں شیعیان اہل بیت (ع﴾ کا داخلہ؛ مصری پارلیمان نے مخالفت کی
یہ ہی نہیں بلکہ مصر کے دینی اور سیکولر پارلیمانی ممبران بھی مل کر صہیونیوں کی مانند رواج تشیع سے نالاں ہیں.
ماجرا کـچھ یوں ہے کہ حال ہی میں جامعۃ الازہر کے سربراہ نے اعلان کیا کہ دیگر اسلامی فرقوں کے پیروکاروں کی طرح شیعہ بھی اس کے بعد جامعۃ الازہر اور اس کے متعلقہ جامعات و کالجز میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں تو مصری پارلیمان نے اس حکم کی مخالفت کی.
اخوان المسملون کے نمائندے «شیخ علی لبن» نے اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ شیخ الازہر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ چھٹی صدی ہجری میں صلاح الدین ایوبی کی طرف سے الازہر میں "شیعہ طلباء کے داخلے پر پابندی" کے قانون کا خاتمہ کریں. [یادرہے کہ الازہر یونیورسٹی کی بنیاد فاطمی شیعہ حکمرانوں نے رکھی تھی]
انہوں نے کہا کہ «الازہر میں شیعہ مذہب پر تحقیق و مطالعہ شروع ہونے کی وجہ سے اس جامعہ کی فضا میں سنیوں کے سوا دوسری فکر بھی پروان چڑھے گی اور مصر میں مذہبی فتنوں کا آغاز ہوجائے گا کیوں کہ اس صورت میں سنی طلباء بھی شیعہ مذہب کی تعلیمات کا اپنی تعلیمات سے موازنہ کرنے لگیں گے[اور ...!!!]
سیدھی بات یہ ہے کہ اخوان المسلمون کو سنی طالبعلموں کی شیعیت کی طرف رجحان سے تشویش لاحق ہے اور اس سلسلے میں وہ اسرائیل نواز سیکولر نمائندوں کو بھی ساتھ ملا کر سنی اور شیعہ طالبعلموں کے اکٹھے ہونے کا سدباب کررہے ہیں. جیسا کہ کسی زمانے میں کـچھ لوگ حاجیوں سے کہتے تھے کہ محمد (ص) معاذاللہ ساحر ہیں اور ان کے سحر سے بچنے کے لئے کانوں میں روئی ٹھونس کر مسجدالحرام میں داخل ہؤا کریں یہاں بھی کہا جارہا ہے کہ سنی طالبعلموں کو شیعہ تعلیمات کے قریب نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر سنی طالبعلم تشیع کو قریب سے دیکھیں تو جامعۃ الازہر میں داخل ہونے والے سنی طالبعلم شیعہ ہوکر اس فارغ التحصیل ہونگے اور نتیجہ جو بھی ہوگا ان حضرات اور صہیونیوں سمیت سیکولر قوتوں کے لئے اچھا نہ ہوگا.
فلسطین میں تشیع کا تاریخی سفر
جب سے ارض فلسطین پر اسلام کا پرچم لہرایا ہے اسی وقت سے تشیع بھی اس سرزمین میں آبسا ہے.
میرے قارئین کو اگر تاریخ کا سبق یاد ہو تو سب سے پہلے اس سرزمین میں عظیم شیعہ بزرگ صحابی رسول حضرت ابوذر غفاری (رض﴾ نے قدم رکھا اور انہوں نے شام و فلسطین کی سرزمین میں لوگوں کو تشیع کا سبق سکھایا اور محبت اہل بیت (ع﴾ ان کے دلوں میں بسادی اور لوگوں کو علی علیہ السلام کے افکار و تعلیمات سے روشناس کرایا.
اس کے بعد تاریخ فلسطین میں تشیع کی موجودگی قوی سے قوی تر ہوئی اور اس سرزمین کی اکثریت نے شیعہ امامیہ مکتب کی پیروی اختیار کرلی.
قبیلہ خزاعہ
تشیع کے استحکام کا ایک سبب یہ تھا کہ قبیلہ خزاعہ نے فلسطین کی طرف ہجرت کی جو نسل شناسی کے اعتبار سے جنوبی عرب سمجھا جاتا تھا اور قریش سے قبل مکہ پر مسلط رہا تھا اور جب اسلام کا سورج طلوع ہؤا تو یہ لوگ رسول اللہ (ص) کے حلقہ معرفت کے پروانے بنے اور مسلمان ہوئے. تاریخ کے مختلف مراحل میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ [سوره شوري کی آیت 23 : قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى = کہہ دو کہ میں تم سے رسالت کی عوض کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے اس کے میرے قرابتداروں سے مودت و محبت رکھو = Say: I do not ask of you any reward for it but love for my near relatives; and whoever earns good, پر کاربند رہ کر ] حضور (ص) کی رحلت کے بعد بھی خاندان رسالت کے وفادار رہے اور خاندان بنو ہاشم کے دائمی حلیف کے عنوان سے اپنے پیمان اولین پر قائم رہے. اس قبیلے کی ایک شاخ نے بعد میں فلسطین کا رخ کیا اور وہاں خزاعہ نامی شہر کی بنیاد رکھی.
(بنوخزاعہ اور ایران کی تشیع میں ان کا کردار - رسول جعفریان - اسلام و ایران کا تخصصی کتب خانہ ویب سائٹ﴾
تاریخ اور مسلم جغرافیہ نویسوں کے قلمی آثار کو رجوع کیا جائے تو اس حوالے سے حقائق زیادہ سے زیادہ واضح ہونگے.
چوتھی صدی ہجری کے جغرافیہ دان جناب مقدسی لکھتے ہیں کہ:
فلسطین میں تشیع پھیل چکا ہے اور طبریا، نابلُس اور القدس کی نصف آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے.
(احسن التقاسیم فی معرفہ الاقالیم جلد اول، ص252)
پانچویں صدی کے مسلمان عالم لکھتے ہیں کہ فلسطین کے شہر رملہ (رام اللہ﴾ کی پوری آبادی شیعیان اہل بیت (ع﴾ پر مشتمل ہے.
(دایرة المعارف الشیعیة، ج 12، ص 203)
مشہور فارسی شاعر اور اسماعیلی مذہب کے داعی «ناصر خسرو قبادیانی» (متوفی 481) اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں: فلسطین میں ابوہریرہ کی قبر بھی ہے مگر وہاں کے لوگ اس قبر کی طرف کوئی رغبت نہیں رکھتے کیونکہ وہاں کے عوام تماما شیعہ ہیں. ناصر خسرو - جو سنہ437 ہجری کو فلسطین کا سفر کرچکے ہیں - لکھتے ہیں کہ قدس شہر کے باشندوں کی اکثریت شیعیان اہل بیت (ع﴾ پر مشتمل ہے.
(سفرنامہ ناصر خسرو، صفحہ 30 و 31)
چھٹی صدی ہجری کے ابن جبیر اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ فلسطین در حقیقت مختلف شیعہ فرقوں کی سرزمین ہے اور یہاں امامیہ، اسماعیلیہ، زیدیہ اور نصریہ شیعہ فرقے رہتے ہیں.
فاطمی سلطنت کا خاتمہ ہؤا تو صلاح الدین ایوبی کو اقتدار ملا اور ایوبی نے شیعیان اہل بیت (ع﴾علیہم السلام کے خلاف تشدد آمیز رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے تشیع کا سلسلہ ارض فلسطین میں رک گیا اور یہ سلسلـۂ توقف ایران کے اسلامی انقلاب تک جاری رہا.
تشیع کی ترویج میں اسلامی انقلاب کا کردار
لبنان ابتداء ہی سے اہل تشیع کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا چنانچہ فلسطین میں رہنے والے شیعیان اہل بیت (ع﴾ نے اپنے تعطل کے دوران شیعیان لبنان کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھا اور اسلامی انقلاب کے کامیابی کے بعد یہ رابطہ مضبوط سے مضبوط تر ہوگیا.
فلسطین کے شیعہ ترین جہادی تحریک «الجہاد الاسلامی» نے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ اپنا ربط استوار کیا اور اس تحریک نے فلسطین میں احیائے تشیع میں اہم کردار ادا کیا.
اسلامی انقلاب کے سنجیدہ حامی اور جہاد اسلامی کے سابق سیکریٹری جنرل "شہید فتحی شقاقی" نے بارہا اس حقیقت کا اعلان کیا کہ ہم 1970 کی دہائی سے انقلابی اسلامی سے روشناس ہوئے اور ہمیں یہ نعمت امام خمینی اور شہید آیت اللہ سیدمحمد باقر الصدر کے قلمی آثار سے ملی.
اسلامی جہاد کے علاوہ کئی ملّی اور دینی تحریکیں تشیع کے محور پر فلسطین کی مقبوضہ سرزمین پر معرض وجود میں آئیں جو ثقافتی اور سماجی امور میں سرگرم عمل ہیں.
اسلامی انقلاب کے بعد «اتحاد الشباب الاسلامی» کے نام سے ایک تنظیم در «بیت لحم» میں تشکیل پائی جو ایک خیراتی اور تبلیغی تنظیم ہے جس نے «الاحسان خیراتی شفاخانہ»، «السبیل خیراتی شفاخانہ»، «نقاءالدوحہ سرجری سینٹر»، «مدرسۃ النقاء» اور ایک خواتین مرکز کی بنیاد رکھی اور مساجد اور متعلقہ اداروں میں تعلیم القرآن کے کورس رکھے اور اس فعالیت نے فلسطین میں تشیع کے احیاء کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا.
اس حوالے سے ایک اور فعال تنظیم کا نام «الحرکة الاسلامیةالوطنی = قومی اسلامی تحریک) ہے. اس تنظیم کے سربراہ «محمد ابوسمرہ» اور دیگر ارکان و ممبران کچھ عرصہ قبل شیعہ ہو کر الجہاد الاسلامی میں شامل ہوئے. اس تنظیم نے اپنے تبلیغی اہداف کے حصول کے لئے «القدس مطالعات و تحقیقات مرکز» کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی ہے.
بیت لحم میں ایک "شیعی مرکز" جہاد اسلامی کے شہید کمانڈر «شہید محمد الشحادہ» کی سربراہی میں قائم ہؤا تھا جس نے تشیع کے احیاء و ترویج میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اس وقت بھی فعالانہ کردار ادا کررہا ہے.
فلسطین میں ایک اہم اور فعال ادارہ «جمعیت الجعفریہ» ہے جو «دبوریق» کے علاقے میں تشکیل پایا ہے اور اس کے سربراہ «استاد اشرف امونہ» ہیں.
اس ادارے کے تحت متعدد ذیلی ادارے کام کررہے ہیں. «حسینیة الرسول الاعظم (ص)»، «مکتب الزہرا» اور مجلة السبیل» ان ہی اداروں میں شامل ہیں.
( مجلة الثقافی، کربلا یونیورسٹی کے محقق «صلاح نوری عبود» کا انٹرویو،
www.althagafimag.com)
حال ہی میں فلسطین میں شیعیان اہل بیت (ع﴾ کی شورائے عالی تشکیل پائی ہے جس کے سربراہ سابق رکن جہاد اسلامی «محمد غوانمہ» ہیں.
یاد رہے کہ فلسطین کے سنی مسلمانوں میں ناصبیوں کی تعداد بہت کم ہے اور اگرچہ بقول شہید محمد شحادہ فلسطین کے عوام نہ صرف تشیع کو نہیں جانتے بلکہ انہیں اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں بھی بہت کم معلومات حاصل ہیں. بہرحال دنیا کے شیعیان اہل بیت اور اسلامی جمہوریہ ایران کے شیعہ عوام اور حکومت کی جانب سے فلسطین کی حمایت کی وجہ، فلسطینیوں کے شیعہ یا سنی ہونے سے تعلق نہیں رکھتی لیکن یہ جاننا واقعی ضروری ہے کہ : اسرائیل کی قید میں ہزاروں فلسطینی مجاہدین شیعہ ہوچکے ہیں اور جعلی صہیونی ریاست اسی وجہ سے ان کی رہائی سے پرہیز کررہی ہے اور اس وقت ایک پوری نسل طویل المدت قید کے ایام کاٹ رہی ہے جس کی مطلق اکثریت شیعیان اہل بیت (ع) پر مشتمل ہے اور اگر یہ لوگ رہا ہوجائیں تو فلسطین کی جدوجہد آزادی نیا رخ اختیار کرے گی کیوں کہ یہ نووارد انقلابی شیعہ شہید محمد الشحادہ کی مانند "جہاد تا شہادت" کا نظریہ قبول کرچکے ہیں. محمد شحادہ بھی جیل میں شیعہ ہوگئے تھے.
مذہب شیعہ قبول کرنے والے عرب
اجتماعی تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ اس وقت مشرق وسطی میں گذشتہ چند سالوں سے تشیع کی ایک نئی لہر اٹھی ہے اور اس لہر کا نام استبصار کی لہر رکھی گئی ہے ۔ اس نئی لہر نے تشیع کے احیاء میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے.
ان مستبصرین میں بعض تو فلسطین کے سنی علماء تھے جنہوں نے شیعہ کتب کا مطالعہ کرکے مذہب شیعہ کی حقانیت کا ادراک کیا اور اہل بیت رسول (ص) کے مذہب میں داخل ہوئے.
«شیخ محمد عبد العال» ان ہی علماء میں سے ہیں جنہوں نے کئی برسوں تک شیعہ مذہب پر تحقیق کی.
«شیخ محمد عبد العال» نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا:
« ... جن کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا ان میں «المراجعات» سب سے اہم تھی (اس کتاب میں لبنانی عالم مرحوم سیدعبدالحسین شرف الدین اور الاز ہر کے سابق سربراہ مرحوم شیخ سلیم البشری کا نہایت عالمانہ مناظرہ درج ہے﴾ اس کتاب نے میرے ایمان میں اضافہ نہیں کیا (کیوں کہ میرا ایمان یہ کتاب پڑھنے سے قبل ہی مکمل ہوچکا تھا﴾ مگر اس کتاب کی وجہ سے میری معلومات میں کافی اضافہ ہؤا.
نہایت دلچسپ واقعہ:
ہمیں روزمرہ کی زندگی میں مختلف حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ہم کم ہی ان واقعات کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں لیکن اپنی گمشدہ چیز ڈھونڈنے والے افراد ان ہی واقعات سے متاثر ہوکر زندگی کے اہم ترین فیصلے کرلیتے ہیں.
شیخ عبدالعال کہتے ہیں: ایک واقعی نے میری تحقیقات میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور میں نے قطعی فیصلہ کرکے ولایت اہل بیت علیہم السلام کا راستہ چن ہی لیا؛ اور وہ واقعہ یوں تھا:
ایک روز میں اپنے ایک عزیز کی دکان کے سامنے سڑک کے کنارے بیٹھا تھا. دکان کافی چھوٹی تھی. میں نے سنا کہ مالک دکان اپنے ایک پوتے سے کہہ رہا ہے: «میری جگہ دکان میں بیٹھو اور اس کا خیال کرو میں نماز عصر پڑھ کر آتا ہوں» میں سوچ میں ڈوب گیا اور میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ جب ایک شخص اپنی چھوٹی سے دکان چھوڑ کر نماز کے لئے قیام نہیں کرتا اور کسی کو اپنی جگہ بٹھا کر ہی نماز کے لئے چلا جاتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ (ص) نے اپنی عظیم امت کو امام اور جانشین مقرر کئے بغیر بے آسرا ترک کردیا ہو؟ خدا کی قسم ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے».
شہید محمد شحّادہ
شہید محمد شحّادہ عظیم فلسطینی مجاہد تھے جنہوں نے اسرائیل کی قید میں رہتے ہوئے لبنانی شیعہ قیدیوں کے ساتھ وسیع بحث و تمحیص کے بعد شیعہ مذہب کی حقانیت کا ادراک کیا اور شیعہ ہوکر فلسطین میں تشیع کے اعلانیہ مبلغین میں تبدیل ہوئے. محمد الشحادہ وہ شخصیت ہیں جنہیں - فلسطینی ذرائع کے مطابق - فلسطینی اتھارٹی کے بہائی و صہیونی سربراہ «محمود عباس ابومازن» کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے صہیونی دہشت گردوں نے بیت لحم میں شہید کردیا.
انہوں نے «المنبر» مجلے کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ: میرے شیعہ ہونے کا سیاسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے... میں بھی دیگر مسلمانوں کی طرح جنوب لبنان میں حزب اللہ کی فتوحات پر فخر کرتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے شیعہ ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی حقائق تھے. میں درحقیقت اپنے اندر بنیادی اعتقادی تبدیلی کی بنا پر شیعہ ہؤا اور اس کے سوا کوئی بھی چیز شیعہ ہونے کے حوالے سے مجھ پر اثر انداز نہیں ہوئی ہے.
شہید محمد شحادہ کے فرزند شحادہ شحادہ کہتے ہیں:
میرے والد شیعہ تھے
شحادہ شحادہ نے والد کی شہادت کے بعد کہا: میرے والد شیعہ تھے اور دوسری طرف سے جہاد اسلامی تحریک کے ایک سینئر کمانڈر نے کہا ہے کہ فلسطین کے اکثر فکری راہنما حزب اللہ کی طرف مائل ہورہے ہیں. اہل بیت نیوز ایجنسی نے صہیونی روزنامے ہاآرتص کے حوالے سے لکھا ہے کہ اکثر فلسطینی راہنما اور مجاہدین حزب اللہ کی طرف مائل ہوکر شیعہ ہو رہے ہیں. ہاآرٹص لکھتا ہے کہ محمد شحادہ کے بیٹے کے سیل فون پر سید حسن نصراللہ کے خطابات کے ریکارڈ موجود ہیں اور یہ کہ شحادہ شحادہ نے اس روزنامے کو بتایا ہے کہ ان کا پورا خاندان حزب اللہ کاحامی ہے اور ان کے والد کو 1992 میں اسرائیلیوں نے مرج الزہور جلاوطن کیا تو اسی وقت انہوں نے شیعہ ہونے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے لبنان کے مرج الزہور کیمپ میں دیکھا کہ لبنانیوں کی دشواریاں بھی فلسطینوں کی مشکلات سے ملتی جلتی ہیں.... میرے والد نے سرتسلیم خم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور انہوں نے آخرکار شہادت کا انتخاب کیا اور اسی طرح شہید ہوئے جس طرح کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں لڑنے کا فیصلہ کیا اور شہید ہوگئے. میرے والد حزب اللہ کے رکن نہ تھے مگر حزب اللہ سے معنوی لحاظ سے وابستہ تھے اور ان کی ہویت (Identity) حزب اللہ کی ہویت تھی. ہاآرتص نے دعوی کیا کہ شحادہ شحادہ نے حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل کے دفتر سے ٹیلیفون پر ان کے خاندان کو مالی امداد کی پیشکش کو رد نہیں کیا! محمد شحادہ کا المنبر کے ساتھ انٹرویو ابنا ویب سائٹ پر ملاحظہ کیجئے.
فلسطینی ڈاکٹر اسعد وحید قاسم بھی فلسطینی مستبصرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے تشیع کے سلسلے میں طویل مدت تک تحقیق و مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا اور مختلف راستوں سے تشیع کی حقانیت کے اثبات کی کوشش کی اور اس راہ میں صبرآزما جدوجہد کے بعد شیعہ ہوگئے اور اس کے بعد تشیع کے احیاء کی تحریک میں شامل ہوئے . انہوں نے مذہب تشیع کے دفاع میں کتابیں تالیف کیں. ان کی مشہور تالیفات میں «ازمة الخلافة و الامامة و آثارها المعاصرة = خلافت و امامت کا بحران اور عصر حاضر پر اس کے اثرات» شامل ہے.
(علی اصغر رضوانی- شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات، ص365)
فلسطین میں تشیع کی تدریجی پیشرفت نہایت مضبوط ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہے اور اس پیشرفت کا سلسلہ جاری ہے گو کہ استعمار و استکبار کی خدمت پر مأمور تفکر کے لئے فلسطین کی تشیع کی جانب رجعت قابل برداشت نہیں ہے جبکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر تشیع فلسطین کو فتح کرے تو یہاں صہیونیوں کے لئے رہنے کا امکان نہ رہے گا. اسی وجہ سے مغرب بھی فکر مند ہے اور صہیونیوں کی بھی نیندیں اڑگئی ہیں گوکہ بعض دیگر افراد بھی فکر مند ہیں مگر انہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے.
اسرائیل اور مغربی دنیا فلسطین میں تشیع کے رواج کو اپنے لئے تزویری (Strategic) خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ کیوں؟
اس لئے کہ فلسطین میں تشیع کے رواج کی بدولت جعلی اسرائیلی ریاست زوال کے قریب ترہوجائے گی اور یہ وہی خطرہ ہے جس سے عالمی صہیونیت، اسرائیلی ریاست اور اسرائیل کا دفاعی کرنے والے عرب حکمران خوف و ہراس میں مبتلا ہیں کیونکہ فلسطین میں جہاد جاری ہے اور اس جہاد کو عاشورا اور سید الشہداء کے قیام سے الہام ملنا شروع ہوجائے تو یہ جہاد ائمہ طاہرین علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق شہادت تک جاری رہے گا اور ہم جانتے ہیں کہ شہادت کے مقصد سے جہاد ہی قدس اور مسجد الاقصی کی آزادی کا ضامن ہے ... دنیا جانتی ہے کہ شیعیان علی (ع) جب دیکھتے ہیں کہ اسلام کی اساس کو خطرہ ہے اور دشمن کو پہچان لیتے ہیں تو ہمیشہ کی طرح وحدت مسلمین کو اپنا شعار بنا کر آگی بڑھتے ہیں؛ تفرقہ انگیزیوں کا منطق کے ذریعے مقابلہ کرتے ہیں اور میرا تو خیال ہے کہ فلسطین کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے سنی علماء کو بھی فلسطین میں تشیع کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور انہیں اس حقیقت کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ لبنانی شیعوں نے پورے عالم اسلام کی عزت بحال کی ہے اور شیعہ ہرگز ان کے لئے خطرہ نہیں ہیں بلکہ ان کے دست و بازو ہیں اور ان کے دشمنوں کے دانت کہٹے کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر فلسطین میں جہاد کا پرچم شیعیان اہل بیت (ع) کے سپرد ہوگا تو فلسطین آزاد ہوگا ؛ صہیونی دم دباکر بھاگیں گے اور مسلمانوں کا قبلہ اول آزاد ہوجائے گا چنانچہ عرب ممالک میں تشیع کا پھیلاؤ ان کے لئے باعث تشویش نہیں ہونا چاہئے. سنی حکمران اور علماء اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عاشورا کا سبق اچھی طرح یاد کرنے والے شیعہ ان کے دشمنوں کا پیٹھ خاک سے آشنا کرسکتے ہیں اسی بنا پر پورا عالمی استعمار اس وقت شیعہ مکتب کو زک پہنچانے کے درپے ہے اور ناعاقبت اندیش تفرقہ انداز قوتیں مغرب کی ان سازشوں سے نہ صرف خوش ہیں بلکہ اپنے فتؤوں سے تشیع کو کمزور کرنے کے سامراجی مقصد کے لئے بھرپور کوششیں کررہے ہیں. اور ہاں! انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ شیعہ کو نقصان پہنچے گا تو وہ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہ رہیں گے کیوں کہ ان کی حکمران پہلے ہی بک چکے ہیں اور وہ خود بھی دشمن کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں.
انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ شیعیان اہل بیت (ع) مسلمانوں کو رسول اللہ (ص) اور اہل بیت علیہم السلام کا کنبہ سمجھتے ہیں اور ان کی دشمنی کا ارادہ کبھی بھی نہیں کرتے مگر وہ دشمن کے سامنے کبھی بھی جھکنے والے نہیں ہیں اور حصول شہادت یا دشمنان اسلام کو شکست فاش دینے تک لڑتے ہیں کیوں کہ ان کا مدرسہ کربلا، سبق عاشورا اور استاد سیدالشہداء حسین بن علی علیہ السلام ہیں.
خلاصہ یہ کہ فلسطین میں تشیع کا رواج قدس و مسجد الاقصي کی آزادی کی کنجی ہے.
ہم اپنا مضمون لکھ رہے تھے کہ جنگ ویب سائٹ پر یہ خبر نظر آگئی جو ہمارے مضمون مین شامل ہو تو شاید بے فائدہ نہ ہو:
اسرائیل اور حماس کے درمیان " امن معاہدے" پر عملدرآمد شروع
غزہ میں حماس کے ترجمان سمیع ابو زہری نے بتایاکہ غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے پر عملدرآمد مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے سے شروع کیا گیا ہے ... حماس امن معاہدے کی پاسداری کرے گی غزہ سے اسرائیل پر راکٹ حملے بند کر دیے جائیں گے اور اس کے جواب میں اسرائیل مغربی کنارے سے رکاوٹیں ہٹائے گا؛ درین اثناء امن معاہدے پر عملدرآمد شروع ہونے سے چند منٹ قبل ہی غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک فلسطینی شہید بحق ہو گیا۔ امن معاہدے میں "مصر " نے ثالث کا کردار ادا کیا ہے ۔
source : www.sibtayn.com