"انس" لغت میں وحشت كے مقابل میں استعمال ھوتا ہے۔ 1 اور انسان كا كسی چیز سے مانوس ھونے كا یہ معنی ہے كہ اسے اس چیز سے كوئی خوف و اضطراب نہیں ہے اور اس كے ساتھ اسے سكون حاصل ھوتا ہے۔ كمال طلب انسان فقط مادی امور پر اكتفا ن ہیں كرتا عالی اھداف كی طرف قدم بڑھاتا ہے لہذااپنی وحشت اور تنھائی كو معنوی امور كے حصار میں زائل كردیتا ہے ۔ روایات میں علم سے انسیت، قرآن اور ذكر خدا كی معرفت كی تاكید كی گئی ہے۔
امام علی (ع) فرماتے ہیں: "جو كوئی قرآن سے مانوس ھوگا وہ دوستوں كی جدائی سے وحشت زدہ ن ہیں ھوگا" ۔ 2اسی طرح سے آپ ان افراد كے جواب میں جو وقت سفر آپ سے نصیحت كی درخواست كی تھی فرماتے ہیں: "اگر كسی مونس كی تلاش میں ھو تو قرآن تمھارے لئے كافی ہے۔" 3 آپ (ع) اپنی مناجات میں خدا سے اس طرح فرماتے ہیں:
"الّلٰھم انّك آنَسُ الآنِسین لاولیائِك۔۔۔ ان اَوحَشَتھم الغُربۃ آنَسَھم ذِكرُك"۔ 4
پروردگارا! تو اپنے دوستوں كے لئے مانوس ترین مونس ہے اور اگر غربت ان ہیں وحشت زدہ كرتی ہے تو تیری یاد كنج تنھائی میں ان كی مونس ہے۔
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: " اگر روئے زمیں پر كوئی زندہ نہ ر ہے اور میں تنھا رہ جاؤں جب تك قرآن میرے ساتھ ہے مجهے وحشت نہیں ھوگی" 5
كلام ائمہ میں اس طرح كی تعبیرات فراوان پائی جاتی ہے اور معمولاً! مھم موضوعات كی تاكیدات كے لئے اس طرح كے كلام ارشاد ھوتا ہے خصوصاً قرآن كے سلسلے میں جو كہ: "تبیاناً لكل شیٔ" 6 ہے راہ ھدایت میں انسان جس چیز كا محتاج ہے اسے قرآن میں پا سكتا ہے۔ یھاں تك انسان آیات الھی كو ترنم كے ساتھ غور سے سنے اور لذت معنوی كا قصد نہ ركھتا ھو تب بھی اس كے ایمان میں اضافہ ھوگا اور سكون محسوس كرے گا "انّما المومنون اذاذكر اللہ وجلت قلوبھم واذاتُلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناً " 7 وہ افراد جوقرآنی محافل میں جاتے ہیں اور جو كچھ حد تك معانی قرآن سے بھی آشنا ہیں آیات رحمت سنكر وجد میں آجاتے ہیں اور آیات عزاب سنكر كانپ اٹھتے ہیں اور محزون ھوجاتے ہیں۔ خلاصہ یہ كہ انكا ایمان اور محكم ھوگیا ہے كیونكہ قرآن جھاں لذت معنوی كو فراھم كر سكتا ہے وہیں كتاب عمل بھی ہے امام صادق (ع) فرماتے ہیں: "كسی مونس كی تلاش میں تھا تا كہ اس كی پناہ میں آرام و سكون كا احساس كروں اسے قرآن كی تلاوت میں پایا۔" 8
حوالہ جات :
source : www.tebyan.net