داوندعالم کی ذات پاک کا نامحدود ہونا اور ہماری عقل ، علم اور دانش کا محدود ہونا ہی اس مسئلہ کا اصلی نکتہ ہے۔خداوندعالم کا وجود ہر لحاظ سے لامتناہی ہے، اس کی ذات ،اس کے علم و قدرت اور دوسرے صفات کی طرح نامحدود اورختم نہ ہونے والا ہے، دوسری طرف ہم اور جو چیزیں ہم سے متعلق ہیں چاہے علم ہو یا قدرت، زندگی ہو یا ہمارے اختیار میں موجود دوسرے امور سب کے سب محدود ہیں۔لہٰذا ہم اپنی تمام تر محدودیت کے ساتھ کس طرح خدا وندعالم کے لامحدود وجود اور نا محدود صفات کو درک کرسکتے ہیں؟ ہمارا محدود علم اس لامحدود وجود کی خبر کس طرح دے سکتا ہے؟۔جی ہاں! اگر ہم دور سے کسی چیز کو دیکھیں اگرچہ وہ ہماری سمجھ میں نہ آرہی ہو لیکن پھر بھی اس کی طرف ایک مختصر سا اشارہ کیا جاسکتا ہے، لیکن خداوندعالم کی ذات اور صفات کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے یعنی تفصیلی طور پر اس کی ذات کا علم نہیں ہوسکتا۔اس کے علاوہ ایک لامحدود وجود کسی بھی لحاظ سے اپنا مثل و مانند نہیں رکھتا، وہ محض اکیلا ہے کوئی دوسرا اس کی طرح نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی دوسرا اس کی مانند ہوتا تودونوں محدود ہوجاتے۔اب ہم کس طرح اس وجود کے بارے میں تفصیلی علم حاصل کریں جس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سبھی ممکنات کے دائرے میں شامل ہے، اور اس کے صفات خداوندعالم سے مکمل طورپرفرق رکھتے ہیں(١) ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس کے اصل وجود سے آگاہ نہیں ہیں، اس کے علم، قدرت، ارادہ اور اس کی حیات سے بے خبر ہیں، بلکہ ہم ان تمام امور کے سلسلہ میں ایک اجمالی معرفت رکھتے ہیں، جن کی گہرائی اور باطن سے بے خبر ہیں، بڑے بڑے علمااور دانشوروں کے عقلی گھوڑے (بغیر کسی استثنا کے)اس مقام پر لنگڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں، یا شاعر کے بقول:بہ عقل نازی حکیم تاکی؟ بہ فکرت این رہ نمی شود طی!بہ کنہ ذاتش خرد برد پی اگر رسد خس و بہ قعر دریا!(٢)'اے حکیم و دانا و فلسفی تو اپنی عقل پر کب تک ناز کرے گا، تو عقل کے ذریعہ اس راہ کو طے نہیں کرسکتا۔اس کی کنہِ ذات تک عقل نہیں پہنچ سکتی ہیں جس طرح خس و خاشاک سمندر کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے۔حضرت امام صادق علیہ السلام سے حدیث نقل ہوئی ہے:'ذا انتہیٰ الکلام لیٰ اﷲ فامسکوا'(۳) ' جس وقت بات خدا تک پہنچ جائے تو اس وقت خاموش ہوجائو' یعنی حقیقت خدا کے بارے میں گفتگو نہ کرو، کیونکہ اس کے سلسلہ میں عقلیں حیران رہ جاتی ہیں اور کسی مقام پر نہیں پہنچ سکتیں، اس کی لامحدود ذات کے بارے میں محدود عقلوں کے ذریعہ سوچنا ناممکن ہے، کیونکہ جو چیز بھی عقل و فکر کے دائرہ میں آجائے وہ محدود ہوتی ہے اور خداوندعالم کا محدود ہونا محال ہے۔(۴)یا واضح الفاظ میں یوں کہا جائے کہ جس وقت ہم اس دنیا کی عجیب و غریب چیزوں اور ان کی ظرافت و عظمت کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں یا خود اپنے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو اجمالی طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا کوئی پیدا کرنے والا ہے، جبکہ یہ وہی علمِ اجمالی ہے جس پر انسان خدا کی معرفت اور اس کی شناخت کے آخری مرحلہ میں پہنچتا ہے، (لیکن انسان جس قدر اسرار کائنات سے آگاہ ہوتا جاتا ہے اور اس کی عظمت واضح ہوتی جاتی ہے تو اس کی وہ اجمالی معرفت قوی تر ہوتی جاتی ہے) لیکن جب ہم خود اپنے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ کون ہے؟ اور کس طرح ہے؟ اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہیں تو حیرت و پریشانی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا، یہی وہ بات ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی شناخت کا راستہ مکمل طور پر کھلا ہوا ہے حالانکہ مکمل طور پر بند بھی ہے۔اس مسئلہ کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوتِ جاذبہ کا وجود ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو چھوڑتے ہیں تو وہ گرجاتی ہے اور زمین کی طرف آتی ہے ، اور اگر یہ قوتِ جاذبہ نہ ہوتی تو روئے زمین پر بسنے والے کسی موجود کو چین و سکون نہ ملتا،لیکن اس قوۂ جاذبہ کے بارے میں علم ہونا کوئی ایسی بات نہیں جو دانشوروں سے مخصوص ہو ، بلکہ چھوٹے بچے بھی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں البتہ قوتِ جاذبہ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا دکھائی نہ دینے والی لہریں ہیں ، یا نامعلوم ذرات یا دوسری کوئی طاقت؟ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے ۔اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ قوتِ جاذبہ ،مادی دنیا میں معلوم شدہ چیز کے برخلاف، ظاہراً کسی چیز کو دوسری جگہ پہنچانے میں کسی زمانہ اور وقت کی محتاج نہیں ہے، نور کے برخلاف جو کہ مادی دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہے ، لیکن کبھی اس نور کوایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں، جبکہ قوتِ جاذبہ اسے دنیا کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ میں لمحہ بھر میں منتقل کردیتی ہے، یا کم سے کم ہم نے جو سرعت و رفتار سنی ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی رفتار ہوتی ہے۔یہ کونسی طاقت ہے جس کے آثار ایسے(عجیب و غریب) ہیں؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ کوئی شخص بھی اس کا واضح جواب نہیں دیتا، جب اس 'قوتِ جاذبہ ' (جو ایک مخلوق ہے) کے بارے میں ہمارا علم صرف اجمالی پہلو رکھتا ہے اور اس کے بارے میں تفصیلی علم نہیں ہے، تو پھر کس طرح اس ذات اقدس کی کُنہ (حقیقت) سے باخبر ہوسکتے ہیں جو اس دنیا اور ماورائے طبیعت کا خالق ہے جس کا وجود لامتناہی ہے، لیکن بہر حال ہم اس کو ہر جگہ پر حاضر و ناظر مانتے ہیں اور کسی بھی ایسی جگہ کا تصور نہیں کرتے جہاں اس کا وجود نہ ہو۔با صد ہزار جلوہ برون آمدی کہ من با صد ہزار دیدہ تماشا کنم تو را (۵) ' تولاکھوں جلووں کے ساتھ جلوہ افروز ہے تاکہ میں لاکھوں آنکھوں کے ذریعہ تیرا دیدار کروں'۔حوالہ جات(١) اگر آپ حضرات تعجب نہ کریں تو ہم 'لامتناہی' (لامحدود) مفہوم کا تصور ہی نہیں کرسکتے ،لہٰذا کس طرح لفظ 'لامتناہی' کو استعمال کیا جاتا ہے؟ اور اس کے سلسلہ میں خبر دی جاتی ہے اور اس کے احکام کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ، تو کیا بغیر تصور کے تصدیق ممکن ہے؟جواب : لفظ 'لامتناہی' دو لفظوں سے مل کر بنا ہے 'لا' جو کہ عدم اور نہ کے معنی میں ہے اور 'متناہی' جو کہ محدود کے معنی میں ہے، یعنی ان دونوں کو الگ الگ تصور کیا جاسکتا ہے، (نہ ، محدود) اس کے بعد دونوں کو مرکب کردیا گیا، اور اس کے ذریعہ ایسے وجودکی طرف اشارہ کیا گیاہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اور اس پر (صرف) علم اجمالی حاصل ہوتا ہے . (غور کیجئے)(٢) پیام قرآن ، جلد ٤، ص٣٣.(۳) تفسیر 'علی بن ابراہیم ' نور الثقلین ، جلد ٥، صفحہ ١٧٠ کی نقل کے مطابق.(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ٢٢، صفحہ ٥٥٨.(۵) پیام امام (شرح نہج البلاغہ)، جلد اول، صفحہ ٩١.........../242
source : abna