سوال : صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق کرنے کا ہدف کیا ہے ؟
جواب : صحابہ کی عدالت کی چھان بین کرنے کا مقصد وہی ہے جوان کے بعد آنے والے راویوں کی تحقیق کا ہدف ہوتا ہے، اور ان سب کاہدف یہ ہے کہ ان کی پہچان ہوسکے کہ کون اچھا اورلائق تھا اور کون نالائق تھا، تاکہ اس کے ذریعہ محققین صالح اور بہتر افراد سے حدیث حاصل کریں اور فاسد لوگوں سے پرہیز کریں ، اگر کوئی اس ہدف کے ساتھ تحقیق وجستجوکرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور اسی وجہ سے خطیب کی کاہلی اور سستی ظاہر ہو جاتی ہے جس کوابی زرعہ سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے :
جب بھی یہ دیکھو کہ کوئی پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے کسی صحابہ کی عیب جویی کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ یہ زندیق ہے ، کیونکہ رسول حق ہیں اور قرآن بھی حق اور جو رسول نے ہم تک پہونچایا وہ بھی حق ہے اس لیے کہ یہ سب صحابہ ہی نے ہم تک پہونچایا ہے ، کیونکہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں پرطنز کریں تا کہ قرآن اور سنتّ کو باطل کردیں ، اس طرح کے اعتراض اورنقد وجراح کے وہ خود سزاوار ہیں اور وہ زندیق بھی ہیں ۔
ہم کہتے ہیں : رازی کو اپنے مسلمان بھائیوں کے متعلق سوئے ظن ہوا ہے، اور بعض ظن و گمان کو قر آن کی زبان میں گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن اگر اس کی جگہ یہ کہا ہوتا :جب بھی کسی کو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اصحاب کے متعلق تحقیق کرتے ہوئے دیکھو، جس کے ذریعہ وہ سچےّ اورجھوٹے اور اس کے خیر و شرّسے آشنا ہوجائے اور وہ اپنے دین کو اس نیک اور سچے ّافراد سے حاصل کرئے اور دیگر لوگوں سے پرہیز کرے تو جان لینا چاہیے کہ وہ دین کے محققین اور حقیقت کو بیان کرنے والوں میں سے ہے ۔ تو یہ بہت ہی مناسب ہے، بلکہ صحیح بھی یہی ہے ۔
یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اگر کوئی دانشور دین کے مسائل میں کسی کی تحقیق کر ئے تو اس کو کفرسے متہم کیا جائے ، اور اس کو یہ کہا جائے کہ یہ مسلمانوں کے گواہوں کو قرآن وسنتّ کو باطل کرنے کیلئے خراب کرہا ہے ، مسلمانوں کے گواہ، رسول اسلام کے ہزاروں صحابہ ہیں ، لہذا ان میں سے بعض کی نقد وجرح کرنا اوربعض کو عادل سمجھنا قرآن اور سنتّ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتااور اس طرح کے لوگوں کا دین مخدوش نہیں ہے ۔ قضاوت اور تشخیص کے لئے یہ بالکل صحیح راستہ ہے ۔
source : tebyan