مام زمان(ع) کے ظہور کے وقت گزشتہ انبیاء (ع) کی کتابوں کو ساتھ لے آنے کے کیا معنی ہیں؟
ایک مختصر
آسمانی کتابیں، صحیح اور تحریف نہ شدہ صورت میں ائمہ اطہار (ع) کے پاس موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی امام زمانہ (عج) کے پاس ہیں۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل روایت میں آیا ہے:
حسین بن ابی العلاء کہتے ہیں: امام صادق (ع) نے فرمایا:" بیشک میرے پاس جفر ابیض ہے" میں نے کہا: وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا: داؤد (ع) کی زبور، موسی(ع) کی توریت، عیسی (ع) کی انجیل، صحف ابراھیم، احکام حلال و حرام اور مصحف فاطمہ (ع) میرا اعتقاد نہیں ہے کہ اس میں قرآن مجید ہوگا، بہرحال لوگ جو کچھ اس کے بارے میں ہم سے محتاج ہیں، اس میں موجود ہے اور ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ اس قدر جامع ہے کہ اس میں ایک تازیانہ، نصف تا زیانہ، ایک چوتھائی تازیانہ کی سزا کا حکم ہے اور ایک خراش کا تاوان تک درج ہے۔ میرے پاس جفر احمر ہے۔ میں نے کہا: جفر احمر میں کیا ہے؟ فرمایا: " اسلحہ ہے اسے صرف خون کے لئے کھولتے ہیں، صاحب شمشیر اسے قتل کرنے کے لئے کھولتاہے۔[1]"
اس بنا پر:
اولاً: یہ سب چزیں خدا کا کلام اور مقدس ہیں اور اسی زمانہ سے دست بدست اس کے ہاتھ میں پہنچتی ہیں جو اس کا شائستہ ترین ہو۔ چونکہ ادیان آسمانی کی کتابیں سبوں کے لئے خاص کر اہل کتاب کے لئے جذابیت رکھتی ہیں، اس لئے ان کا امام زمانہ (عج) کے ہمراہ ہونا دعوت الہی کو قبول کرنے کے لئے انھیں مشتاق کرسکتا ہے۔
ثانیاً: انسان، تمام انبیاء(ع) کے پیغام کو صحیح صورت میں بخوبی ادراک کرسکتا ہے کہ یہ صرف ان کتابوں کو پیش کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
ثالثاً: جیسا کہ مذکورہ روایت میں اشارہ کیا گیا، ممکن ہے ائمہ اطہار (ع) کے علوم کا ایک منبع یہی تحریف نہ شدہ آسمانی کتابیں ہوں۔
[1] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 1، ص 240، تھران، دار الکتب الاسلامیة، طبع دوم، 1362ش۔