نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا: امریکہ کسی وقت دنیا کی مسلط اور غالب قوت کا نام تھا لیکن ہامبرگ میں جی 20 کے اجلاس نے ثابت کیا کہ امریکہ آج دنیا میں تنہا ہے۔
نیویارک ٹائمز لکھتا ہے:
عرصہ دراز سے امریکہ بغیر کسی رکاوٹ کے دنیا کی غالب اور مسلط قوت تھا اور دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کے تمام اجلاسوں کا ایجنڈا امریکہ ہی متعین کرتا تھا لیکن جرمنی کے شہر ہامبرگ میں ہونے والے جی 20 کے حالیہ اجلاس نے ثابت کردیا کہ وہ زمانہ گذر چکا ہے۔
صدر ٹرمپ گروپ 20 کے سالانہ اجلاس میں شریک 19 ممالک کے سربراہوں اور نمائندوں سے ملاقات میں بخوبی بھانپ گئے کہ امریکہ آج ـ تجارت سے لے کر آب و ہوا کی تبدیلی تک جیسے ـ عالمی امور میں تنہائی کا شکار ہوچکا ہے۔
اس فرضیئے کا مصداق جی 20 کا بیانیہ ہے جو ہفتے کے دن شائع ہوا اور اس بیانئے سے عیاں ہوتا ہے کہ امریکہ کس قدر عالمی سطح پر تنہا رہ گیا ہے۔
ٹرمپ کے رویئے سے کچھ یوں ظاہر ہوتا تھا کہ گویا وہ تنہائی کو ناپسند نہیں کرتے۔
ٹرمپ کے خیال میں ہامبرگ کے اجلاس کا اہم ترین حصہ جمعہ کی صبح کو ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ان کی طویل نشست تھی، جس کا مقصد بظاہر دو طرفہ تعلقات کی دوبارہ بحالی تھا، وہی تعلقات جس کی جناب ٹرمپ کو ماضی میں کسی وقت تمنا ہوا کرتی تھی۔
پیوٹن کے لئے بھی یہ ملاقات بےفائدہ نہ تھی کیونکہ وہ بھی عرصے سے اس کا انتظار کررہے تھے کہ واشنگٹن کے کاروباری شریک کے طور پر عزت و احترام حاصل کریں۔
امریکہ کے سابق راہنما ہمیشہ سے اپنی طاقت کو دنیا کی سطح پر ایک خیر اندیش قوت سمجھتے تھے اور اس اصول پر صریحا یقین رکھتے تھے اور ان [بزعم خویش] کوشش رہتی تھی کہ آزادی منڈی کے وسائل اور چند طرفہ تعاون کے ذریعے دنیا میں سب کے لئے ترقی اور خوشبختی کے مواقع فراہم کریں!
جبکہ ٹرمپ کی سوچ یہ نہیں ہے۔ انھوں نے صدر امریکہ کے طور پر اپنے اقتدار کے اس محدود عرصے میں اپنا تعارف ایک قوم پرست (nationalist)، یکطرفہ (Unilateral) اور اندرونی پیداوار کے حامی راہنما کے طور پر کرایا ہے۔
لیکن حال ہی میں رونما ہونے والے بعض عالمی واقعات ـ بالخصوص اسی جی 20 کے اجلاس ـ سے ظاہر ہوا کہ آج کوئی بھی ملک اُس قدر بڑا اور اس قدر صاحب قوت ملک نہیں ہے جو اہنے آپ کسی پر مسلط کرے اور اپنی قوت کو کسی پر جتا دے۔
جرمن چانسلر اینجیلا مرکل (Angela Merkel) نے جی 20 اجلاس کے میزبان کے طور پر افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور گروپ 20 کے رکن ممالک کے درمیان کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔
مرکل نے کہا: مصالحت صرف اس وقت انجام پائے گی جب ہم سب اپنے خیالات کو ایک دوسرے پر منطبق کرلیں لیکن اسی اثناء میں ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
مرکل نے اپنے خطاب میں اس جانب بھی اشارہ کیا کہ تمام ممالک نے آب و ہوا سے متعلق پیرس معاہدے کی حمایت کی اور امریکہ نے اس کی مخالفت کر دی۔
ٹرمپ در حقیقت اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش میں اپنے ہی متحدین کو اپنا دشمن بنایا؛ گویا امریکہ ان کی خصوصی اور لامحدود ذاتی ملکیت ہے۔
جی 20 کے اجلاس میں ٹرمپ تجارت کے شعبے میں دوسروں شعبوں سے کہیں زیادہ تنہا نظر آئے۔
ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ شمالی امریکی آزاد تجارتی معاہدے [North American Free Trade Agreement (NAFTA)] یا ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ ایگریمنٹ [Trans-Pacific Partnership agreement] سمیت آزاد تجارت کے تمام معاہدے امریکہ کے نقصان پر منتج ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خاص طور پر فولاد کی صنعت عالمگیریت کے ہتھوڑے کا ذریعے پس کر نیست و نابود ہوچکی ہے۔
ممکن ہے کہ ٹرمپ اگلے چند روز ميں فولاد کی درآمدات کو محدود کرنے کے لئے ان پر کچھ پابندیاں لگائیں اور اور کچھ محصولات وضع کریں۔ اگر ٹرمپ نے ایسا کیا تو دنیا کے بارہ سے زائد ممالک ـ حتی کہ امریکہ کے جذباتی حامی ممالک ـ کا کاروبار امریکہ کے ساتھ برباد ہوجائے گا۔
ٹرمپ کا یہ اقدام آخرکار تجارتی جنگ پر منتج ہوگا۔
یورپیوں نے ہامبرگ میں نہایت تند و تیز لہجے میں ٹرمپ کی اس تجویز پر رد عمل ظاہر کیا۔
یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلاڈ جنکر (Jean-Claude Juncker) نے جمعہ کے روز کہا: اگر ضرورت پڑی تو ہم جوابی کاروائی کریں گے لیکن امید ہے کہ فی الحال اس کی ضرورت نہ پڑے۔ لیکن اگر ضرورت پڑے تو ہم آستینیں چڑھانے کے لئے تیار ہیں۔
امریکہ دنیا میں فولاد کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے جس نے گذشتہ سال تین کروڑ ایک لاکھ میٹرک ٹن فولاد درآمد کیا ہے۔ کینیڈا، برازیل اور جنوبی کوریا امریکہ کو فولاد برآمد کرنے والے پہلے تین ممالک ہیں اور میکسیکو اور ترکی بھی چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔
چین جو عالمگیریت کی پالیسیوں کی مخالفت میں اصل نشانہ رہا ہے، کم از کم ٹرمپ کی اسٹیل پالیسی سے کچھ زیادہ نقصان نہيں اٹھائے گا۔
ٹرمپ حتی اس تجویز پر بھی غور کررہے ہیں کہ امریکہ کو عالمی تجارتی تنظيم [world Trade Organization] سے بھی الگ کردے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے بھی امریکہ ٹھیک ایک سال فبل کاربن گیس کی مقدار گھٹانے کے سلسلے میں عالمی اقدام کے سلسلے میں دنیا کے ممالک کے درمیان پرچم بردار کا کردار ادا کررہا تھا لیکن آج وہی امریکہ اس سلسلے میں الگ تھلگ راستے پر گامزن ہوچکا ہے۔
امریکہ کے سوا جی 20 کے اجلاس میں حاضر 19 ممالک نے جمعہ کی رات کوشش کی کہ ایک تحریری دستاویز میں پیرس معاہدے کو ناقابل واپسی معاہدے میں تبدیل کردیں تا کہ امریکہ کا تعارف ایک الگ تھلگ ہونے والے ملک کے طور پر ـ جو اپنے گروہ سے علیحدہ ہوچکا ہے اور اپنے آپ کو قواعد و قوانین کی قید سے آزاد کرچکا ہے اور اس فیصلے کو پامال کرنے والا ہے ـ کرا دیں۔
امریکی حکام نے اعلان کیا کہ امریکہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور ان کی مدد کرے گا کہ وہ زیادہ صاف ستھرے حیاتیاتی ایندھن تک رسائی حاصل کریں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
فرانسیسی صدر امانوئل میکرون (Emmanuel Jean-Michel Frédéric Macron) امریکیوں کی اس تجویز کے سنجیدہ مخالفین میں شامل تھے۔
تاہم ٹرمپ نے ابھی پیرس معاہدے سے اپنی اس ناراضگی کا تحریری طور پر اعلان نہیں کیا ہے لیکن ان کے ماتحتوں نے کہا ہے کہ ٹرمپ کسی بھی تنقید کو اہمیت نہیں دیں گے۔
جمعہ کے روز 'پائیدار ترقی، آب و ہوا اور توانائی' کے عنوان سے جی 20 کے ورکنگ سیشن میں ٹرمپ نے مختصر سا خطاب کیا اور فوری طور پر سیشن کو ترک کرکے پیوٹن کے ساتھ ملاقات کے لئے نکل گئے جو سیشن کے شروع ہونے کے 15 منٹ بعد کے لئے طے پائی تھی۔
ماخوذ از نیویارک ٹائمز