اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

یمن پر تھونپی گئی چار سالہ تباہ کن جنگ میں سعودی عرب کا خرچ کتنا؟

یمن پر تھونپی گئی چار سالہ تباہ کن جنگ میں سعودی عرب کا خرچ کتنا؟

فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی گروپ کی رپورٹ کے مطابق «الخلیج آنلائن » نے اپنا ایک تبصرہ اس عنوان کے تحت منتشر کیا ہے کہ ” سعودی عرب نے ان چار سالوں میں یمن کی جنگ میں کس قدر خرچ کیا؟”

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، اس تبصرہ کے مقدمہ میں آیا ہے کہ یمن کی حالیہ جنگ کے اخراجات نے جو کہ اپنے چوتھے سال کو پورا کر رہی ہے اور ایک مہینہ بعد اس کے پانچ سال مکمل ہو جائیں گے محض یمن پر ہی بھاری و سخت نہ تھے بلکہ اس جنگ کی بنا پر عرب ممالک کے متحدہ محاذ کے سربراہ سعودی عرب کو بھی شدید معیشتی گراوٹ دیکھنی پڑی سعودی عرب کی معیشت میں زوال کی ایک بڑی وجہ یمن کی جنگ ہے ۔
الخیلج آنلائن کی تحریر کے مطابق سعودی عرب یا اس کے محاذ میں شامل حلیف ممالک میں سے کسی نے بھی یمن میں عسکری تاخت وتاز سے جڑے اخراجات کو بیان نہیں کیا ہے جبکہ خلیج فارس کے علاقوں اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق چکاچوند کر دینے والے اخراجات کو الگ الگ انداز سے بیان کیا گیا ہے ۔
اس خبری وبگاہ نے کوشش کی ہے کہ رسمی اور غیر رسمی طور پر دئے جانے والے جنگ سے متعلق آپریشنز سے جڑے آنکڑوں کی جانچ پڑتال اور مختلف معلومات کی چھان پھٹک کے ذریعہ اس جنگ کے کل اخراجات کا تخمینہ پیش کیا جا سکے ۔
سعودی عرب کا یمن کی جنگ میں بڑا خسارہ
ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق «طوفان قاطع» نامی مشن کے محض ۸ دنوں کے بعد دوسری اپریل ۲۰۱۵ء کو ہونے والا ایک تخمینی جائزہ یہ بتا رہا ہے کہ سعودی عرب کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ حوثی فورسز کے خلاف ہونے والے فضائی حملوں میں استعمال ہونے والے ۱۰۰/سو جنگی تیاروں کو استعمال میں لانے کے سبب ماہانہ ۱۷۵ ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے ۔ اس چینل نے اسکے بعد یہ اشارہ بھی کیا کہ یہ فضائی حملے جنکے بارے میں محتمل ہے کہ پانچ مہینوں سے زیادہ عرصے تک جاری رہ سکتے ہیں ریاض کے لئے ایک ارب ڈالر تک کے اخراجات کا سبب بن سکتے ہیں۔
یمن کی جنگ شروع ہونے کے ۶ مہینے بعد ، امریکن جریدہ “فوربس ” نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ چھہ مہینے کی اس جنگ کا خرچ ۷۲۵ ارب ڈالر ہے اور اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر مہینہ کا خرچ ۱۲۰ ارب ڈالر تک پہنچ جاتا ہے اور یہ وہ رقم ہے جو العربیہ نیٹ ورک کے تخمینوں سے باہر ہے اور تخمینہ جو ایک مطالعاتی رپورٹ میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ذریعہ منتشر ہوا ہے یہ بتاتا ہے کہ ایک جنگ کا یومیہ خرچ ۲۰۰ ملین ڈالر ہے ۔
سعودی عرب کے روزنامے ” الریاض ” نے سعودی عرب کے یمن میں مشن پر جانے والے جنگی طیاروں کا ماہانہ تخمینی خرچ ۲۳۰ ملین ڈالر بتایا تھا جو کہ ان لڑاکا تیاروں کے ذریعہ کی جانے والی کاروائیوں، ان میں استعمال ہونے والے گولہ بارود و جنگی سازوسامان ، انکi دیکھ ریکھ انکے پرزوں کی تعمیر و انکی نگہداشت اور دیگر امور کو شامل ہے۔
دوسری طرف ڈوئچے ویلے نیٹ ورک کی سائٹ کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے فضائی کاروارئیوں کا تخمینی خرچ جو سو کے آنکڑوں کو چھو رہے ہیں ۱۷۵ ملین ڈالر ماہانہ ہے .
الخلیج آنلاِئن لکھتا ہے : اس اعداد و شمار کے پیش نظر حقیقی طور پر ان تمام رپورٹوں کے لئے ایک ایسا معیار تلاش کرنا مشکل ہے جس کے بل پر یمن کی جنگ کے صحیح و درست اخراجات کو پیش کیا جا سکے ، البتہ اتنا ضرور ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے یمن میں ہونے والی کاروائیوں کے پیش نظر گزشتہ سالوں میں وقوع پذیر ہونے والے اسکے جیسے دیگر و ہم مثل نمونوں کو دیکھتے ہوئے جن میں جنگ کے خرچ کو بھی بیان کیا گیا ہو ایک تقابل کیا جا سکتا ہے اوردیگر نمونوں کو ملا جلا کر ایک نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔
اس قطری وبگاہ کی تحریر کے مطابق، یمن کی اس جنگ میں زیادہ تر اخراجات کا حصہ سعودی فضائیہ سے متعلق ہے ۔ اس دور کے سعودی محاذ کے ترجمان جنرل احمد عسیری نے مارچ ۲۰۱۷ء میں یہ اعلان کیا کہ یمن کے آسمانی حدود میں محاذ کی جانب سے ہونے والی کاروائیوں کی تعداد ۹۰ اڑانوں سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔عسیری نے اپنے اس بیان میں جو کہ انہوں نے روزنامہ ٹائمز سے ہونے والی گفتگو کے دوران دیا اس بات کی تاکید کی کہ حوثیوں کے خلاف جنگ کا ایک بڑا حصہ فضائی کاروائیوں پر مشتمل ہے ۔
عربی متحدہ محاذ کے اعداد و شمار کی بنیاد پرشام وعراق میں داعش کے خلاف سر گرم عمل امریکی جنگی تیاروں میں سے کسی بھی ایک لڑاکا تیارے کے اپنے مشن پر روانہ ہونے کا تخمینی ماہانہ خرچ ۸۴ ہزار سے ۱۰۴ ہزار ڈالر پیش کیا گیا ہے اور اس معیار کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کے متحدہ محاذ کا بجٹ یمن پر فضائی حملوں کو لیکر دو سال کے اندر ۷ ارب ۵۶۰ ملین ڈالر سے لیکر ۹ ارب ۳۶۰ ملین ڈالر پر مشتمل ہے.
امریکن روزنامے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پندرہ ستمبر ۲۰۱۴ میں اینجرلیک ہوائی بیس سے عراق کے شمال میں داعشی ٹھکانوں پر حملوں کے لئے اڑان بھرنے والے ایک امریکن طیارے کے مشن پر ۸۴ سے ۱۰۴ ہزار ڈالر کے خرچ کا اندازہ لگایا گیا ہے جس میں بموں کی قیمت ، فیولنگ ،اور ایک مشن کے دیگر متعقلہ فرعی اخراجات شامل ہیں ۔
یمن کے دیگر عسکری اخراجات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اس لئے کہ اسلحوں سے لیکر تمام غیر رسمی فوجی حملے میں ہونے والے اخراجات کے اعداد و شمار اسلحوں کی مقدار و نوعیت پر منحصر ہیں اور فوجی ماہرین کے مطابق مبالغہ آمیز بھی ہیں ۔
ان تمام باتوں کے باوجود جنگ کے اخراجات محض فوجی کاروائیوں تک مخصوص نہیں ہیں بلکہ سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے اعلان کے مطابق ، ۲۰۱۵ء میں ہونے والی جنگ کی شروعات سے ۲۰۱۷ تک جنگ کے درمیانی حصہ تک ۸،۲ ارب ڈالر وزارت داخلہ کی طرف سے حکومت یمن کو امداد کے طور پر دئے گئے ۔
۲۰۱۷ ء مئی کے مہینہ میں سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے اس بات کا اعلان کیا کہ اس نے ۸/۲ ارب ڈالر کی امداد کو یمن میں چند حصوں میں تقسیم کیا ہے جن میں پہلا حصہ یمن کی ترقیاتی کاموں اور اسکی توسیع کے پروگراموں سے مخصوص ہے جو کہ ۹/۲ ارب ڈالر پر محیط ہے اور ۲/۲ ارب ڈالر یمن کی حکومت کی( منصور ہادی کی اس حکومت کے لئے جو استعفی کے بعد ریاض میں یے ) مدد کے لئے ہے ۔
یہ امداد اس بجٹ کو بھی شامل ہے جس میں ۱/۱ ارب ڈالر سعودی عرب میں رہنے والے یمنیوں کے کے لئے مخصوص کیا گیا ہے جب کہ یمن کی جنگ میں نقصان اٹھانے والے یمنی لوگوں کو انسان دوستانہ امداد کا بجٹ بھی ۸۴۷٫۵ ڈالر تک پہنچ گیا ہے علاوہ از ایں تقریبا، ۱ ارب ڈالر یمن کے سینٹرل بینک کو سونپ دئے گئے ہیں۔
یمن کے رسمی ابتدائی تخمینوں کے مطابق توقع ہے کہ یمن کی بازآبادکاری کا بجٹ ۱۰۰ ارب ڈالر کے قریب ہوگا جس میں سے ۷۰ فیصد یعنی ۷۰ ارب ڈالر خلیج فارس مشترکہ تعاونی کونسل سے جڑے اراکین کی جانب سے پورا کیا جائے گا ۔
الخلیج آنلائن نے مزید بیان کیا کہ بیان کئے گئے اعدا د و شمار کا ایک سادہ سا جائزہ اور محاسبہ یہ بتاتا ہے کہ یمن کی جنگ میں متحدہ محاذ کا بجٹ ۸۵ ارب ۷۶۰ ملین ڈالر سے لیکر ۸۷ ارب ۶۶۰ ملین ڈالر کے بیچ رہا ہے ۔ اس میں ان ڈائریک سعودی عرب میں سرمایہ کاری میں گراوٹ سے ہونے والے خسارے ، سعودی فوجیوں کے اخراجات میں اضافے اور بیرونی زر مبادلہ کی کمی وغیرہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔
یمن کی جنگ نے سعودی عرب کوعسکری بجٹ میں اضافہ پر وادار کیا
یمن کی جنگ سے سعودی معیشت پر پڑنے والے گہرے اثرات کا اجمالی جائزہ سے ہمیں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ سعودی عرب نے اپنے عسکری اخراجات کو ۲۰۱۵ ء میں ۸۲٫۲ ارب ڈالر بڑھا دیا ہے جبکہ یہی بجٹ ۲۰۱۳ میں۵۹٫۶ ارب ڈالر تھا ۔
”آئی ایچ اس” نامی ایک اقتصادی و مطالعاتی مرکز نے بھی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے اسلحوں میں قابل توجہ حد تک اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ اس طرح ہے کہ سعودی عرب ۶۵ ارب ڈالر کے اسلحوں کو خرید کر پورے خطہ ارض پر سب سے زیادہ اسلحوں کو خریدنے والاملک بن گیا اور اس سے بڑا اسلحوں کا در آمد کرنے والا دنیا میں کوئی ملک نہیں ہے ۔
عسکری اخراجات میں اضافہ اور اسلحوں کی درآمد و امپورٹ نے غیر متوقع طور پر سعودی عرب میں غیر ملکی زر مبادلہ کو شدید طور پر گھٹا دیا ہے اور یہ رقم اس قدر کم ہو گئی ہے کہ ۲۰۱۴ء میں ۷۳۷ ارب ڈالر کی رقم اب گھٹ کر ۲۰۱۷ ء جولائی تک ۴۸۷ ارب پر پہنچ گئی ہے ۔
بیرونی زر مبادلہ کے میں کمی کے علاوہ ۲۰۱۵ و ۲۰۱۶ میں سعودی حکومت کی حکومت کی جانب سے قرض کے بازار کی طرف رجوع کرنے میں بھی بہت تیزی آئی ہے ۔سعودی عرب کی مالیاتی وزارت نے اگست ۲۰۱۷ ء میں یہ اعلان کیا کہ ملک کا عمومی قرض ۹۱ /ارب ڈالر ہے جس میں اسی سال کے ستمبر و اکتوبر کے مہینہ میں سعودی عرب نے ۹۔۹ /ارب ڈالر کی قیمت کےمقامی بونڈس Bond finance {fixed income market } کا اضافہ کیا جبکہ بین الاقوامی بونڈس ۵۔۱۲ /ارب ڈالر تک پہنچ گئے اس طرح کل ملا کر سعودی عرب کا مجموعی قرضہ ۱۱۳۔۴ ارب ڈالر تک پہنچ گیا .
جنگ کے آثار و نتائج
یمن کی جنگ کے اقتصادی نتائج کے سلسلہ سے ایک اقتصادی محقق عبد الحافظ الصاوی نے الخلیج آنلائن سے اپنی گفتگو میں زور دیتے ہوئے کہا کہ یمن کی جنگ و اس کے حالیہ واقعات نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کو جھٹکا دیا ہے اور ان حوادث سے سعودی عرب میں سرمایہ کاری پر اثر پڑا ہے ۔ انہوں نے کہا اگست ۲۰۱۷ کے اختتام تک سعودی عرب میں زر مبادلہ کے ذخائر ۵۰۰ ارب ڈالر تک کم ہوئے ہیں اسکے علاوہ اس جنگ کی وجہ سے سعودی عرب مجبور ہوا کہ ۵۔۱۲/ارب ڈالر بین الاقوامی بونڈس کے پیپرز کو منتشر کرے ، اس ماہر اقتصادیات کے بقول جنگ کی بنیاد پر علاقے کا بے ثبات ہونا سعودی عرب میں مقامی و بیرونی سرمایہ کاروں کے بھاگنے سے سیدھے طور پر جڑا ہوا ہے اس ماہر اقتصاد نے مزید کہا کہ خلیج فارس سے گزشتہ برسوں میں سرمایہ کا نکلنا حتی ذاتی و انفرادی استفادہ کی نیز بیرون ملک میں رہائش حاصل کرنے کے اخراجات کی سطح پر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، مثال کے طور پر ترکی میں خلیج فارس کے لوگ زمینیں اس لئے خرید رہے ہیں کہ اقتصادی مراکز کھولیں یا کوئی تجاری کمپنی ڈالیں چاہے وہ بہت چھوٹے پیمانے پر ہی و متوسط ہی کیوں نہ ہو ۔
الصاوی نے اس بات پر زور دیا کہ یمن میں جنگ کا جاری رہنا ان تمام لوگوں کی اقتصادی طور پر کمزوری کا سبب ہوگا جو اس جنگ میں الجھے ہیں اور اسی کے ساتھ ان ممالک کے علاقے میں رول اور کردار کو انکی ثروت کو برباد کر کے نابود کر دے گا پھر انکے پاس اپنا علاقائی کرادار ادا کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

صحیح بخاری پر ایک اجمالی نظر
مسجدالاقصی پر یہودی آبادکاروں اور صیہونیوں کی ...
سعودی نواز آل خلیفہ حکومت نے شیخ عیسی قاسم کو ایک ...
پاکستان؛ شیعہ علماء کونسل کی جانب سے ملک بھر میں ...
یمن پر تھونپی گئی چار سالہ تباہ کن جنگ میں سعودی ...
پاکستانی روزنامے کی حکومت پاکستان کو اسرائیل کے ...
برما میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اسلام آباد ...
آیت اللہ دری نجف آبادی: پاکستان کی حکومت اور فوج ...
بھارتی فورسز اب بے لگام ہوچکے ہیں: آغا سید حسن
امریکہ؛ کل کی غالب طاقت اور آج کا الگ تھلگ ملک

 
user comment