اردو
Thursday 25th of July 2024
0
نفر 0

تیونس میں برقی مصلیٰ ایجاد ہوا

تیونس کے ایک باشندے نے پہلی بار برقی جائے نماز ایجاد کی ہے جو رکعات نماز اور سجدوں کا حساب محفوظ کرتی ہے اور ہر رکعت میں ایک بتی جلاکر پڑھی ہوئی رکعتوں کی تعداد بتا دیتی ہے اور نماز کی رکعتوں یا سجدوں کی تعداد میں شک کرنے والے نمازیوں کو صحیح تعداد یاد رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق تیونس کے روزنامے "الصباح" نے رپورٹ دی ہے کہ تیونس کے باشندی "حمادی الابیض" نے الیکٹرانک جائے نماز ایجاد کی ہے جو نماز کی رکعتیں اور ہر رکعت کے سجدوں کی تعداد محفوظ کرتی ہے اور ہر رکعت میں اس جائے نماز کی ایک بتی جل جاتی ہے اور نمازی کو تعداد بتاتی ہے۔ 
گو کہ نماز کی حالت میں سجدوں اور رکعتوں کی تعداد میں شک کرکے کئی بار نماز پڑھنے پر مجبور ہونے والے افراد کے لئے یہ ایک اہم خوشخبری ہے مگر علماء نے اس حوالے سے ملا جلا رد عمل ظاہر کیا ہے۔  
تیونس کے مفتی اعظم شیخ مصطفی البطیخ نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اس جائے نماز کے بارے میں کہا: میرے خیال میں اس الیکٹرانک جائے نماز کا استعمال جائز ہے اور اس کو بغیر کسی رکاوٹ کے استعمال کیا جاسکتا ہے تا ہم اس جائے نماز کی ایجاد تیونس اور دیگر عرب اور اسلامی ممالک کے علماء اور دینی شخصیات کے مختلف رد عمل کا باعث بن سکتا ہے۔ 
دریں اثناء حمادی الابیض نے اپنی ایجاد کے بارے میں کہا کہ اس جائے نماز کی ایجاد سے ان کا مقصد یہ تھا کہ بعض نماز گزار بعض اوقات نماز کی رکعتوں، اور سجدوں میں شک و تردد سے دوچار ہوتے ہیں اور تعداد کو بھول جاتے ہیں کہ وہ مثلاً نماز کی کونسی رکعت میں ہے یا یہ کہ وہ کتنے سجدے بجا لاچکا ہے چنانچہ میں نے یہ جائے نماز تیار کردی جو اس شک سے بچنے میں نمازگزاروں کی مدد کرتی ہے۔ 
تیونس میں اس جائے نماز کی قیمت 48 دینار (7/24 یورو) ہے. 
قابل ذکر ہے کہ سنہ 2008 میں بھی ایک ترک باشندے "اوزنک سونر Ozenc Soner" نے مشابہ جائے نماز تیار کی تھی جو برقی دھاگوں سے تیار ہوئی تھی اور قبلہ یابی میں نماز گزار کو مدد پہنچاتی تھی اور جب جائے نماز زمین پر بچھائی جاتی قبلہ رخ ہوتے ہی تو روشن ہوجاتی اور جب بالکل رو بہ قبلہ ہوتی تو بہت زیادہ نورانی ہوجاتی تھی۔
اردن کے ایک باشندے «فؤاد ابو راغب» نے سنہ 2003 میں جائے نماز میں سجدے کے مقام پر ایک شفاف اسکرین نصب کیا جو نماز کی رکعتوں اور سجدوں کی تعداد نماز گزار کو بتادیا کرتی تھی. 
ایران میں بھی برسوں قبل ایک شخص نے "مُہرِ امین" کے نام سے ایک مہر ایجاد کی تھی جو اس زمانے میں بھی استعمال ہورہی ہے۔ یہ مہر، نماز اور سجدوں کی رکعت کو میکانیکی روش سے ثبت کرکے نماز گزار کو شک و تردد سے بچادیتی ہے۔ یہ مہر مراجع تقلید کی طرف سے بھی قابل تأئید ٹہری ہے۔


source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=191557
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ہندوستان اور بنگلہ دیش اسلام کا گہوارہ:وزیر اعظم ...
خبررساں ایجنسی شبستان اسرائیلی حکومت منافق، ...
آیت اللہ صافی گلپایگانی: بنی نوع انسان میں آل ...
القدس میں عنقریب ایک مسجد کا افتتاح
جرمنی كے اكثر لوگ مسلمانوں سے اظہار نفرت كرتے ہیں
ابوظہبی كی كتب نمائش میں اسلامی جمہوریہ ايران كی ...
سعودی عرب نے یمن کو خون کا حمام بنا دیا
کویت میں مراجع تقلید کے نمائندے کی رحلت پر رہبر ...
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا یوم شہادت
نجف اشرف میں فقہ قرائت قرآن کریم کے تخصصی کورس کا ...

 
user comment