آیت اللہ العظمی عبداللہ جوادی آملی نے کہا: ہمیں فکر انتظار کو بالیدہ اور شاداب بنانا ہے؛ اس بارے میں عالمانہ گفتگو کرنی ہے اور انتظار کے محرکات اور فکر انتظار کا تحفظ کرنا ہے۔
اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے نظریہ مہدویت کی چھٹی بین الاقوامی کانفرنس کے مہتممین اور مہدویت کے موضوع پرتحقیق و تألیف کے کام میں سرگرم عمل دانشوروں کے ایک گروہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: مہدویت ایک عالمی موضوع ہے جس کے لئے فکر بھی عالمگیر ہونی چاہئے؛ امام عصر (عج) کا وجود مبارک ہم شیعیان اہل بیت (ع) اور اہل سنت یا یہود و نصاری جیسے آسمانی ادیان کے پیروکاروں ہی کو دعوت انتظار نہیں دیتا بلکہ پوری دنیا کو روشن مستقبل کی دعوت دیتا ہے۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد فلسفہ نے انسانوں کے آداب، عادات، روایات و ثقافت کے درمیان فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پوری انسانیت ایک روشن مستقبل کی منتظر ہے، پورا عالم انسانیت روشن مستقبل کی فکر میں ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فکر ایک عالمگیر اور زمین کی حدود سے بالاتر تفکر ہے۔
انھوں نے کہا: پوری انسانیت ایک ہی مشترکہ سوچ کی حامل ہے اور وہ مشترکہ سوچ عالمی نجات دہندہ اور مصلح کے انتظار کی سوچ ہے؛ اور کسی بھی ثقافت و تہذیب نے یہ سوچ اپنے خاص جغرافیائی خطے با اپنی خاص زبان اور خاص زمانے سے حاصل نہیں کی ہے بلکہ یہ فکر انھوں نے اسی جگہ سے لی ہے جو خود دل و دماغ کی خالق ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: جو کام اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے وہ اللہ کی سنتوں میں سے ہے جو تغیر و تبدل پذیر نہیں ہے چنانچہ ہمیں انتظار کی فکر کو بالکل واضح اور روشن کر دینا چاہئے، اس فطرت الہی اور اس سنت الہی کو بالیدہ اور شاداب کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں ہمیں عالمانہ انداز سے بات کرنی چاہئے تا کہ انتظار کے تفکر کو بھی اور انتظار کے محرکات کو بھی محفوظ رکھ سکیں۔
انھوں نے کہا: دنیا کے تمام انسان عدل و انصاف کے منتظر ہیں اور عدل سب کے لئے مطلوب اور میٹھا ہے جبکہ ظلم سب کے لئے کڑوا ہے چنانچہ عدل و ظلم کا مفہوم روشن ہے اور سب اس کو سمجھتے ہیں مگر عدل اور ظلم کی حقیقت واضح نہیں ہے اور یہ ہمارے اور بہت سے دیگر مکاتب کے درمیان سب سے پہلا اختلاف ہے جسے حل ہونا چاہئے۔
انھوں نے کہا: ہمیں انسانی معاشروں کو نظریہ مہدویت کی تشریح کرتے ہوئے بتا دینا چاہئے کہ ہمارے درمیان بعض اشتراکات ہیں جنہیں ہمیں تسلیم کرلینا چاہئے۔ ہمیں ظلم شناسی اور ظلم کے خلاف جہاد کرتے ہوئے ظالم کی مذمت کرنی چاہئے اور اسے مسترد کرنا چاہئے اور عدل شناسی، عدل کی تلاش اور عدل خواہی اور عادل پروری کی راہ پر گامزن کرنا چاہئے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: انسان چونکہ خلیفۃاللہ ہے اسی لئے ایک کریم اور برتر مخلوق ہے اور عدل پسندی اور ظلم کے خلاف جدوجہد بھی اس کی کرامت کے ہمراہ ہونی چاہئے۔
انھوں نے سوال اٹھایا: کیا عدل خواہی سے مراد یہی ہے کہ ہمیں محرومین اور غرباء کے مسائل حل کریں یا نہیں بلکہ عدلخواہی یہ ہے کہ ہم فقر اور غربت کے خلاف جدوجہد کریں؟
انھوں نے کہا: ائمۂ معصومین علیہم السلام کی روایات سے موصول ہونےی والی اوصاف اور فرائض، عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریوں کے تعین کا معیار ہے اور حضرت قائم عجل اللہ تعالی فَرَجَہ الشریف جب ظہور فرمائیں گے تو ایک معاشرہ آپ (عج) کا منتظر ہوگا جو کرامت کے ساتھ آپ (عج) کا استقبال کرے گا نہ وہ معاشرہ جو آپ (عج) کے فرامین پر عملدرآمد کے لئے تیار نہ ہوگا۔
نظریۂ مہدویت کے عنوان سے عالمی کانفرنس اس سال ماہ شعبان المعظم میں منعقد ہوگی جس میں ایرانی اور بیرون ملک سے آئے ہوئے مفکرین، اور حوزات علمیہ و جامعات کے محققین اور اساتذہ اور بعض اعلی حکام شرکت کریں گے۔
source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=192088