اسلام میں شوہر اور بیوی کی باہمی محبت کو خدا کے وجود کی روشن علامات سمجھا جاتا ہے:
ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا و جعل بینکم مودة و رحمة(سورئہ روم‘ ۲۱)
اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے جنس کی عورتیں بنائیں تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا ہو۔
اور نکاح کو سنت اور تجرد (کنوارا رہنا) کو وبال خیال کیا جاتا ہے‘ لیکن ہمیں یہ پڑھ کر یا سن کر سخت حیرت ہوتی ہے کہ بعض (معاشروں کے) قوانین میں جنسی خواہش کو ذاتاً فحش اور جنسی اختلاط کو (خواہ وہ اپنی شرعی اور جائز بیوی ہی سے کیوں نہ ہو) تباہی اور پستی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
تعجب انگیز بات یہ ہے کہ کہتے ہیں:
قدیم زمانے میں لوگ انہی توہمات کا شکار تھے۔
موجودہ دور کے سماجی فلسفہ کے مشہور ماہر برٹرنڈرسل کا کہنا ہے:
بہت قدیم زمانوں میں جنسیات کے مخالف نظریات اور اسباب کا سراغ ملتا ہے‘ بالخصوص جن علاقوں میں عیسائیت اور بدھ مت کی حکومت تھی وہاں ایسے نظریات کو فروغ حاصل ہوا۔ دنیا چھوڑ دینے کی مثالوں سے اس تعجب انگیز طرز فکر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے‘ جو جنسی تعلقات میں کسی نہ کسی طرح فحاشی اور تباہی کا عنصر ضرور موجود ہونے کا حکم لگاتا ہے۔
جو علاقے عیسائیت اور بدھ مت کے اثرات سے دور تھے وہاں بھی ایسے مذاہب اور روحانی پیشوا موجود تھے جو تجرد کی حمایت کرتے تھے‘ مثلاً یہودیوں میں اسنیت فرقہ… اس طرح قدیم دور میں ریاضت کرنے کی ایک عام تحریک چل نکلی۔ یونان اور مہذب روم نے بھی اپیکور کے طور و طریقے چھوڑ کر کلبیوں کے طریقے اپنا لئے… نئے افلاطونوں کو دیکھئے تو وہ بھی کلبیوں کے برابر ہی ریاضت پسند نکلے۔
ایران سے (دکترین کا) یہ نظریہ مشرق کی طرف گیا جو مکمل طور پر تباہی کا نظریہ ہے۔ اسی کے ساتھ یہ نظریہ بھی معرض وجود میں آیا کہ ہر طرح کا جنسی تعلق فحاشی ہے‘ بعد میں جزوی ترمیم کے بعد یہی عقیدہ عیسائی کلیسا کے عقائد میں شامل ہو گیا۔(زنا شوئی و اخلاق Marriage & Morals‘ص ۲۵-۲۶)
ہراساں کرنے والا اور نفرت پھیلانے والا یہ نظریہ صدیوں انسانی ضمیر پر مسلط رہا۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ اس نظریے کے اثرات سے جس قدر نفسیاتی انتشار اور ذہنی خلفشار پیدا ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
اس قسم کے عقائد و نظریات تخلیق کرنے کا کیا مقصد ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کو اپنے فطری میلان کے بارے میں بدظن کرتے ہیں‘ بلکہ اصل میں انسان کے لئے اپنے ہی وجود کا ایک حصہ جکڑ دینے کا سبب بنتے ہیں؟ اس سوال پر فلاسفہ بہت بحث کر چکے ہیں‘ لہٰذا ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں‘ کیونکہ کئی ایسے اسباب پائے جاتے ہیں جو انسان کو اس قسم کے عقائد و نظریات کی طرف لے جاتے ہیں۔
عیسائیوں میں جنسی اختلاط اور تعلق کے فحش ہونے کے نظریے کی اتنی مقبولیت کا بظاہر یہی سبب ہے کہ خود کلیسا بھی اپنے قیام سے لے کر اب تک اس پر عمل کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں چونکہ حضرت عیسیٰ۱نے ساری عمر شادی نہیں کی‘ لہٰذا ان کی سنت کی خلاف ورزی بجائے خود فحاشی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں کے روحانی اور مذہبی پیشوا روحانی مدارج و مقامات حاصل کرنے کے لئے تمام عمر عورت سے اختلاط نہ کرنے کی شرط عائد کرتے ہیں‘ لہٰذا پاپ انہی (مجرد) افراد میں سے چنا جاتا ہے۔ کلیسا کے خداؤں کے ہاں تقویٰ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان شادی سے اجتناب کرے۔ رسل کہتا ہے:
قدیسین کے رسائل میں ہم صرف دو یا تین مقامات ہی پر شادی سے متعلق کوئی خوبصورت جملہ پاتے ہیں‘ ورنہ باقی ہر جگہ پر ارباب کلیسا نے شادی کے بارے میں بدترین الفاظ استعمال کئے ہیں۔
ریاضت کا مقصد لوگوں کو متقی بنانا ہوتا ہے‘ لہٰذا شادی کو جو ان کے نزدیک حقیر فعل تھا‘ ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ تقدس بحال رکھنے کے لئے سن ژروم کا یہ پختہ نظریہ تھا کہ بکارت کے کلہاڑے سے ازدواجی درخت کو گرا دیجئے۔(زنا شوئی و اخلاق‘ ص ۳۰)
کلیسا تولید نسل کی نیت سے شادی کو جائز قرار دیتا ہے‘ لیکن یہ ضرورت بھی کلیسا کی نظر میں اس فعل کی ذاتی پلیدی کو دھو نہیں سکتی۔ شادی کا دوسرا جواز برائی کو برائی کے ذریعے ختم کرنا ہے‘ یعنی اس طرح مرد اور عورت کے کھلے اختلاط کو روکا جا سکتا ہے۔
مگر رسل کہتا ہے:
سن پول کے نزدیک تولید نسل کا نظریہ ثانوی حیثیت رکھتا تھا‘ شادی کا اصل مقصد تو گناہ کا راستہ روکنا تھا‘ لہٰذا شادی کا یہی بنیادی مقصد ہے جو درحقیقت برائی کو برائی کے ذریعے ختم کرتا ہے۔
(زنا شوئی و اخلاق‘ ص ۳۱)
کلیسا نکاح کو ناقابل تنسیخ اور طلاق کو ممنوع قرار دیتا ہے تاکہ نکاح کا تقدس برقرار رکھا جا سکے‘ ممکن ہے طلاق کی ممانعت اور نکاح کے ناقابل تنسیخ ہونے کے بارے میں کلیسا کے اس نظریے سے تجرد کے بہشت سے نکالے ہوئے لوگوں کو سزا دینا مقصود ہو۔
قدیم اقوام اور قبائل میں عورت کے بارے میں جو حقارت آمیز نظریات پائے جاتے ہیں وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان کے مطابق عورت ایک مکمل انسان نہیں ہے‘ اس کی مثال انسان اور حیوان کے درمیان برزخ جیسی ہے۔ عورت بے زبان مخلوق ہے‘ وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گی‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ نظریات جب تک عورت کی قدر و قیمت تعین کرنے سے متجاوز نہیں ہوتے مرد میں تکبر اور عورت میں احساس کمتری کے سوا کوئی دوسرا نفسیاتی اثر پیدا نہیں کرتے‘ لیکن جنسی اختلاط اور تعلقات کے فحش ہونے کا نظریہ عورت اور مرد کو یکساں طور پر پراگندہ ذہن اور تباہ کرتا ہے۔ اس سے فطری میلان اور مذہبی عقیدہ کے درمیان شدید کشمکش شروع ہو جاتی ہے‘ ذہنی انتشار اور اس کے برے نتائج ہمیشہ فطری رجحانات‘ خواہشات اور ماحول کی مخالف تعلیمات کی کشمکش سے پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات شروع ہی سے اس اہم ترین مسئلہ پر غور و فکر کرتے چلے آ رہے ہیں۔
مذکورہ عقائد کے مقابلے میں اسلامی فلسفہ غیر معمولی حد تک پرکوشش ہے‘ کیونکہ اسلام میں جنسی تعلق کے فحش ہونے کے بارے میں کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا‘ بلکہ اسلام نے اس تعلق کو مربوط بنانے کے لئے اپنی نیک کوششیں بروئے کار لائی ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے جنسی تعلقات کو صرف موجودہ معاشرے کی یا آنے والی نسل کی مصلحتیں محدود کر سکتی ہیں‘ مگر ساتھ ہی اسلام نے ایسی تدابیر اختیار کی ہیں جن سے یہ تجدید احساس محرومی یا جنسی خواہش کو دبانے کا موجب نہیں بننے پاتی۔
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ برٹرنڈرسل جیسے دانشور نے جنسیات پر مسیحی اور بدھ نظریات پر تو اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے‘ لیکن (جنسیات پر) اسلامی عقائد کے بارے میں وہ بالکل خاموش ہے اور صرف یہ لکھ کر آگے بڑھ گیا ہے:
اگر کنفوسیوس کے مسلک کو مذہب کہا جا سکتا ہے تو محمد اور کنفوسیوس کے علاوہ سب مذاہب کے بانیوں نے سیاسی اور معاشرتی اصولوں سے بے اعتنائی برتی ہے۔ ان کی متمام تر کوشش یہ رہی ہے کہ روحانی تکمیل‘ مراقبہ و مکاشفہ کے ذریعے ہو اور اسے فکر و فنا بہم پہنچائیں۔
(زنا شوئی و اخلاق‘ ص ۸۶)
بہرحال اسلامی نقطہ نظر سے جنسی تعلق نہ صرف معنویت اور روحانیت کے مخالف نہیں بلکہ اسے انبیاء کا خلق اور عادت سمجھا جاتا ہے۔
حدیث نبوی ہے:
من اخلاق الانبیاء حب النساء(وسائل‘ ج ۳‘ ص ۳)
عورتوں کی محبت انبیاء۱کے اخلاق سے ہے۔
اس بارے میں متعدد شواہد اور روایات موجود ہیں جن سے رسول اکرم اور آئمہ اطہار۱کے عورت سے لگاؤ اور دلچسپی کا اظہار بڑے واضح انداز میں ہوتا ہے‘ اس کے برعکس ایسی روایات پائی جاتی ہیں جن میں رہبانیت کا رجحان رکھنے والے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے۔
رسول اکرم کے ایک صحابی عثمان بن مظعون نے اپنی عبادات کا دائرہ اس قدر وسیع کر لیا کہ وہ سارا دن روزہ رکھتے اور رات بھر صبح تک نماز پڑھتے۔ ان کی بیوی نے اپنے شوہر کے اس معمول کی اطلاع آنحضرت۱کو دی تو آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار نمایاں ہو گئے‘ آپ اسی وقت عثمان بن مظعون کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا:
اے عثمان! جان لو کہ خدا نے مجھے رہبانیت کے لئے نہیں بھیجا‘ میری شریعت فطری آسودگی کی شریعت ہے۔ میں خود نماز پڑھتا ہوں‘ روزے رکھتا ہوں مگر اپنی بیوی کے حقوق بھی پورے کرتا ہوں‘ جو کوئی میرے دین کی پیروی کرنا چاہتا ہے اسے میری سنت پر عمل کرنا ہو گا‘ شادی کرنا اور زوجین کا اختلاط میری سنت ہے۔
جنسی تعلق یا اس سے متعلق دوسرے امور کے فحش ہونے کے نظریے پر ہم نے جو کچھ لکھا ہے‘ اس کا تعلق مغربی دنیا کے ماضی سے ہے۔ آج کی مغربی دنیا جنسی اخلاق کے معاملے میں اپنے ماضی سے بھی دو قدم آگے ہے۔ اب جنسی تعلقات کے احترام‘ تقدس‘ مکمل آزادی اور تمام (جنسی) پابندیاں ختم کرنے کی بات ہوتی ہے‘ پہلے دین کے نام پر سب کچھ کہا جاتا رہا‘ اب علم اور فلسفہ کے زور پر اس کے برعکس اظہار خیال ہو رہا ہے۔
قوموں کے درمیان رابطے کے ذرائع کمزور ہونے کے باوجود بدقسمتی سے ہم مذکورہ مغربی نظریات کے نقصانات سے بچ نہیں پائے اور ہم میں وہ افکار کم و بیش سرایت کر چکے ہیں۔ مغرب کے جدید نظریات کے سیلاب کا رخ بھی ہماری طرف ہے‘ آگے چل کر ہم ان جدید افکار پر بحث کریں گے
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=59992