اردو
Tuesday 26th of November 2024
0
نفر 0

کیا انسان کی سعادت اور شقاوت ذاتی ہے؟

اس کے بعد جب وہ دن آجا ئے گا توکو ئی شخص بھی اذن خدا کے بغیر کسی سے بات بھی نہ کر سکے گا اس دن کچھ بد بخت ہو ں گے اور کچھ نیک بخت “

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آیت انسانی سعادت اور شقاوت کے ذاتی ہونے پر دلیل نہیں ہے؟

یہاں پر چند نکات پر توجہ کرنا چاہئے:

۱۔ بعض افراد نے مذ کورہ آیت سے انسان کی سعادت و شقاوت کے ذاتی ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ مذکورہ آیت نہ صرف اس امر پر دلالت نہیں کرتی بلکہ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ سعادت و شقاوت اکتسابی ہیں کیونکہ فرمایاگیا :”فا ما الذین شقوا“یعنی وہ شقی ہوئے اسی طرح فرمایا گیا ہے :”اٴمَّا الذِّیْنَ سَعَدُوا“ یعنی وہ لو گ جو سعادت مند 

(1) سورہٴ ہود ، آیت ۱۰۵․

ہوئے،اگر شقا وت و سعا د ت ذاتی ہو تیں تو کہنا چا ہئے تھا ”اماالا شقیا ء واما السعد اء“،      یا ایسی ہی کوئی اور عبارت ہو تی ۔

اس سے واضح ہو جا تاہے کہ فخر الدین رازی کی یہ بات بالکل بے بنیاد ہے جو اس نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:ان آیات میں خدا ابھی سے یہ حکم لگا رہا ہے کہ قیا مت میں ایک گروہ سعادت مند ہو گا اورایک شقاوت مند ہو گا اور جنہیں خدا ایسے حکم سے محکو م کرتا ہے اور جانتا ہے کہ آخر کار قیا مت میں سعید یا شقی ہوں گے، محال ہے کہ وہ تبدیل ہو جا ئیں ورنہ خدا کا جھو ٹی خبر دینا لازم آئے گااور اس کا علم، جہالت میں تبدیل ہو جائے گاجبکہ یہ محال ہے۔

یہ مسئلہ جبر و اختیار میں”علم خدا“کے حوالے سے مشہور اعتراض ہے کہ جس کا جواب ہمیشہ دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم اپنے خود ساختہ افکار کو آیات پر حمل نہ کریں تو ان کے مفا ہیم روشن اور وا ضح ہیں ،یہ آیات کہتی ہیں کہ اس دن ایک گروہ اپنے کردار کے باعث شقی ہوگا اور خدا جانتا ہے کہ کون سے افراد اپنے کردار، خواہش اور اختیار سے سعادت کی راہ اپنائیں گے اور کونسے اپنے ارادہ سے راہ شقاوت پر گامزن ہوں گے، اس بنا پر اگر اس کے کہنے کے برخلاف لوگ یہ راہ منتخب کرنے پر مجبور ہوں تو علم خدا جہل ہوجائے گا کیونکہ سب کے سب اپنے ارادہ و اختیار سے اپنی راہ انتخاب کریں گے۔

ہماری گفتگو کی دلیل یہ ہے کہ مذکورہ آیات گزشتہ قوموں کے واقعات کے بعدنازل ہوئی ہیں، ان واقعات کے مطابق ان لوگو ں کی بڑی تعداد اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے، حق و عدالت کے راستہ سے منحرف ہو نے کے باعث، شدید اخلاقی مفاسد کے سبب اور خدائی رہبروں کے خلاف جنگ کی وجہ سے اس جہان میںدرد ناک عذابوں میں مبتلاہوئی، یہ واقعات قرآن نے ہماری تربیت و رہنمائی کے لئے، راہ حق کو باطل سے جدا کرکے نمایاں کرنے کے لئے اور راہ سعادت کو راہ شقاوت سے جدا کرکے دکھانے کے لئے بیان کئے ہیں۔

اصولی طور پر جیسا کہ فخر رازی اور اس کے ہم فکر افراد خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم پر ذاتی سعادت و شقاوت کا حکم نافذ ہو اور ہم بغیر ارادہ و اختیار کے برائیوں اور نیکیوں کی طرف کھینچے جائیں تو تعلیم و تربیت لغو اور بے فائدہ ہو گی،انبیا ء کی بعثت ،کتب آسمانی کا نزول، پند و نصیحت، تشویق و توبیخ، سرزنش و ملامت مواخذہ و سوال غرض یہ سزا و جزا سب کچھ بے فائدہ یا ظالمانہ امور شمارہوں گے۔

انسان کو نیک و بد کی انجام دہی میں مجبور سمجھنے والے ،چاہے اس جبر کو جبر خدائی سمجھیں یا جبر طبیعی، چاہے جبر اقتصادی سمجھیں، یا جبر ماحول، صرف گفتگو اور کتابی دنیا تک اس مسلک کی طرفداری کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ خود بھی ہرگز یہ عقیدہ نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ اگر ان کے حقوق پر تجاوز ہو تو وہ زیادتی کرنے والے کو سرزنش، ملامت اور سزا کا مستحق سمجھتے ہیں اور اس بات کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے کہ اسے مجبور قرار دے کر اس سے صرف نظر کرلیں، یا اس کی سزا کو ظالمانہ خیال کریں یا کہیں کہ وہ یہ کام کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تھا چونکہ خدا نے ایسا ہی چاہا تھا یا ماحول اور طبیعت کا جبر تھا، چنانچہ یہ خود اصل اختیار کے فطری ہونے پر ایک دوسری دلیل ہے ۔

بہر حال ہمیں کوئی جبری مسلک والا ایسا نہیں ملتا جو اپنے روز مرہ کے کاموں میں اس عقیدہ کا پابند ہو بلکہ وہ تمام افراد سے ان کے آزاد، مسئول، جواب دہ اور مختار ہونے کے لحاظ سے ملتا اور پیش آتا ہے، دنیا کی تمام اقوام نے عدالتیں قائم کر رکھی ہیں، قوانین بنائے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں،  عملی طور پریہ سب چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ ارادہ کی آزادی اور انسان کے مختار ہونے کو قبول کیا گیا ہے، دنیا کے تمام تربیتی ادارے ضمنی طور پر اس بنیادی نظریہ کو قبول کرتے ہیں کہ انسان اپنے میل و رغبت اور ارادہ و اختیار سے کام کرتا ہے، اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ صرف اس کی رہنمائی کی جاسکتی ہے، اور اسے خطاؤں، غلطیوں اور کج فکریوں سے روکا جاسکتا ہے۔

۲۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ آیات میں ”شقوا“ فعل معروف اور ”سعدوا“فعل مجہول کی صورت میں آیا ہے، ہوسکتا ہے کہ تعبیر کا یہ اختلاف شاید اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ انسان راہ شقاوت کو اپنے قدموں سے طے کرتا ہے لیکن راہ سعادت پر چلنے کے لئے جب تک خدائی امداد اور تعاون نہ ہو اور اس راہ میں وہ اس کی نصرت نہ کرے اس وقت تک انسان کامیاب نہیں ہوتا، اس میں شک نہیں ہے کہ یہ امداد اور تعاون صرف ان لوگوں کے شامل حال ہوتا ہے جنھوں نے ابتدائی قدم اپنے ارادہ و اختیار سے اٹھائے ہوں اور اس طرح ایسی امداد کی اہلیت اور صلاحیت پیدا کرلی ہو۔ (غور کیجئے )(1)

(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۲۳۶․

۹۰۔ اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟

جیسا کہ ہم قرآن مجید کے سورہ حجرات میں پڑھتے ہیں: <قَالَتِ الْاٴَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا اٴَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ․․․>(1) ”یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے․․․“

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟

مذکورہ آیت کے مطابق ”اسلام“ اور ”ایمان“ کا فرق یہ ہے کہ اسلام ظاہری قانون کا نام ہے اور جس نے کلمہ شہادتین زبان پر جاری کرلیا وہ مسلمانوں کے دائرہ میں داخل ہوگیا، اور اسلامی احکامات اس پر نافذ ہوں گے۔

لیکن ایمان ایک واقعی اور باطنی امر ہے، جس کا مقام انسان کا دل ہے نہ کہ اس کی زبان اور اس کا ظاہری چہرہ۔

”اسلام“ کے لئے انسان کے ذہن میں بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں یہاں تک مادی اور ذاتی منافع کے لئے انسان مسلمان ہوسکتا ہے، لیکن ”ایمان“ میں معنوی مقصد ہوتا ہے جس کا سر چشمہ

(1)سورہٴ حجرات ، آیت ۱۴․

علم و بصیرت ہوتی ہے، اور جس کاحیات بخش ثمرہ یعنی تقویٰ اسی کی شاخوں پر ظاہر ہوتا ہے۔

یہ وہی چیز ہے جس کے لئے پیغمبر اکرم  (ص) نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے: ”الإسْلَامُ عَلَانِیَةَ ،وَالإیْمَانُ فِي الْقَلْبِ“(1) ”اسلام ایک ظاہری چیز ہے اور ایمان کی جگہ انسان کا     دل ہے“۔

اور ایک دوسری حدیث میںحضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے : ”الإسْلَامُ یُحُقِّنُ بِہِ الدَمُ وَ تُوٴدیٰ بِہِ الاٴمَانَةُ ،وَ تُسْتَحِلُّ بِہِ الفُرُوجِ ،وَالثَّوابُ عَلٰی الإیِمَانِ“(۲) ’ ’اسلام کے ذریعہ انسان کے خون کی حفاظت، امانت کی ادائیگی ہوتی ہے اور اسی کے ذریعہ شادی کا جواز اپیدا ہوتا ہے اور(لیکن) ایمان پر ثواب ملتا ہے“۔

اور یہی دلیل ہے کہ کچھ روایات میں ”اسلام“ کا مفہوم صرف لفظی اقرار میں منحصر کیا گیا ہے جبکہ ایمان کو عمل کے ساتھ قرار دیا گیاہے:  ”الإیِمَانُ إقَرارٌ وَ عَمَلٌ، وَالإسلامُ إقْرَارُ بِلَا عَمَلٍ “(۳) ”ایمان ؛ اقرار و عمل کا نام ہے، جبکہ اسلام، بغیر عمل کے صرف اقرار کا نام ہے“۔

یہی معنی دوسرے الفاظ میں ”اسلام و ایمان“ کی بحث میں بیان ہوئے ہیں، فضل بن یسار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: ”إنَّ الإیِمَانَ یُشَارِکُ الإسْلاَم وَ لا یُشَارِکْہُ الإسْلام ،إنَّ الإیْمَانَ مَا وَقرَ فِی القُلُوبِ، وَالإسْلاَمُ مَا عَلَیْہِ المَنَاکِحَ وَ المَوَارِیث وَ حُقِنَ الدِّمَاءُ“(۴)  (ایمان ؛ اسلام کے ساتھ شریک ہے، لیکن اسلام؛ ایمان کے ساتھ شریک نہیں ہے، (دوسرے الفاظ میں: ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر 

(1) مجمع البیان ، جلد ۹، صفحہ ۱۳۸․

(۲) کافی ، جلد دوم، ”باب ان الاسلام یحقن بہ الدم“ حدیث ۱و۲․

(۳) کافی ، جلد دوم، ”باب ان الاسلام یحقن بہ الدم“ حدیث ۱و۲․

(۴) کافی ، جلد دوم ”باب ان الاسلام یحقن بہ الدم“ حدیث ۳․

مسلمان مومن نہیں ہے) ایمان؛ انسان کے دل میں ہوتا ہے، لیکن اسلام کی بنا پر نکاح، میراث اور جان و مال کے حفاظتی قوانین جاری ہوتے ہیں۔

اس مفہوم کا فرق اس صورت میں ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک ساتھ استعمال ہوں، لیکن اگر جدا جدا استعمال ہوں تو ممکن ہے کہ اسلام کے وہی معنی ہیں جو ایمان کے لئے ہیں، یعنی دونوں الفاظ ایک ہی معنی کے لئے استعمال ہوں۔(1)

(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۲۱۰․


source : http://islamshia-w.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شیعہ نماز میں کیوں سجدہ گاہ پر سجدہ کرتے ہیں؟
حلالہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
کیا پیغمبر اکرم (ص) امّی تھے؟
دینی سوالات اورجوابات
فلسفہ اور اسرار حج کیا ہیں؟
کیا کوکب دری کے مصنف عارف تھے؟
کتاب "مکیال المکارم" کے مطابق امام زمانہ کی ...
مصحف علی علیہ السلام کہاں ہے؟
سوال کا متن: نمازِ امام رضا عليہ السلام؟
صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟

 
user comment