اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

کیا حجر اسود کو بوسہ دینا بھی شرک ہے ؟

وہابی حضرات اس ایک واقعہ کا بہت پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نے حجر الاسود کو مخاطب کر کے کہا کہ:

توصرف ایک پتھر ہے اور مجھے پتا ہے کہ تجھ میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے چوم رہےہیں، تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔

صحیح بخاری، کتاب الحجر

بدقسمتی سے امام بخاری نے اس روایت کا صرف ایک حصہ نقل کیا ہے(بخاری کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ ایسی روایات میں کتر بیونت سے کام لیتا ہے جوشیخین کے خلاف جاتی ہوں۔ اس موضوع کا تفصیلاً مطالعہ کرنے کے لئے محترمتیجانی سماوی صاحب کی کتاب فاسئلو اہلِ ذکر کا مطالعہ فرمائیے)۔اور آج یہ تحریف شدہ روایت اہلحدیث حضرات کا مکمل مال و متاع ہے اور وہاسکا صرف ایک حصہ پیش کر تے ہیں اور دوسرے حصے کو صاف چھپا جاتے ہیںکیونکہ یہ اُن کے خود ساختہ عقائد کے خلاف جا رہا ہے۔

پورا واقعہ یوں ہے

عمر ابن خطاب بالمقابل حجر الاسود

وہابی حضرات اس ایک واقعہ کا بہت پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نے حجر الاسود کو مخاطب کر کے کہا کہ:

توصرف ایک پتھر ہے اور مجھے پتا ہے کہ تجھ میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئیطاقت نہیں ہے۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے چوم رہےہیں، تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔

صحیح بخاری، کتاب الحجر

بدقسمتی سے امام بخاری نے اس روایت کا صرف ایک حصہ نقل کیا ہے(بخاری  کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ ایسی روایات میں کتر بیونت سے کام لیتا ہے جوشیخین کے خلاف جاتی ہوں۔ اس موضوع کا تفصیلاً مطالعہ کرنے کے لئے محترمتیجانی سماوی صاحب کی کتاب  فاسئلو اہلِ ذکر کا مطالعہ فرمائیے)۔

اور آج یہ تحریف شدہ روایت اہلحدیث حضرات کا مکمل مال و متاع ہے اور وہاسکا صرف ایک حصہ پیش کر تے ہیں اور دوسرے حصے کو صاف چھپا جاتے ہیںکیونکہ یہ اُن کے خود ساختہ عقائد کے خلاف جا رہا ہے۔

پورا واقعہ یوں ہے:

عمر ابن الخطاب جب کعبہ کی زیارت کو گئے تو حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا: تم کچھ(نفع یا نقصان) نہیں کر سکتے ہو، مگر میں تمہیں صرف اس لئے چومتا ہوں تاکہ رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کر سکوں۔

علی(ابن ابی طالب) نے(عمر ابن خطاب کی یہ بات) سن کر کہا: میں نے رسول ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ حجرِ اسود قیامت کے روزلوگوں کی شفاعت کرے گا۔ [یہ حدیث الترمذی، النسائی، البیہقی، الطبرانی اوربخاری کی تاریخ میں نقل ہوئی ہے]۔ یہ سن کر عمر ابن خطاب نے علی کا شکریہادا کیا۔

ماخذ:  Religion reformers in Islam

چنانچہ مولا علی  نے یہ بات واضح کر دی کہ شعائر اللہ کی تعظیم کرنے سےوہ ہمیں نفع پہنچائیں گے اور ان کی بے حرمتی نقصان کا باعث ہے۔ اور یہ باتعمر ابن الخطاب کو بھی سمجھ آ گئی۔ مگر اگر کسی کو آج تک نہیں سمجھ آئیہے، تو وہ یہ اہلحدیث حضرات ہیں۔

یہ حضرات آج بھی اس مکمل روایت کوچھپا جاتے ہیں، اور اگر کوئی اسے مکملبیان کر بھی دے، تو بہانے بنا کر اسے جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم انبہانوں پر آگے تفصیل سے روشنی ڈالیں گے، لیکن پہلے آپ کی خدمت میں اسروایت کے چند اور ورژن پیشِ خدمت ہیں۔ 

یہی حدیث شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنی کتاب "غنیۃ الطالبین" میں یوں نقل کی ہے:

ابوسعید خدری کہتے ہیں: میں عمر ابن خطاب کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں آپکے ساتھ حج کو گیا۔ عمر ابن خطاب مسجد میں آئے اور حجر اسود کے پاس آ کرکھڑے ہو گئے اور پھر حجر اسود سے مخاطب ہو کر کہا کہ تو ہر صورت میں پتھرہے اور تو نہ کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ضرر۔ اگر میں نے رسول ﷺ کوتجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تجھے ہرگز نہ چومتا۔حضرت علیؑ نے فرمایا: ایسا نہ کہو، یہ پتھر نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اور نفع بھی، مگر نفع اور نقصان اللہ کے حکم سے ہے۔اگرتم نے قران پڑھا ہوتا اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اُس کو سمجھا ہوتا توہمارے سامنے ایسا نہ کہتے۔ عمر ابن خطاب نے کہا اے ابوالحسن، آپ ہیفرمائیے کہ قران میں اس کی کیا تعریف ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ جب اللہتعالیٰ نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا تو انہیں اپنی جانوں پرگواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سبنے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور ہمارا پروردگار ہے۔ پساللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا اور اس کے بعد اس پتھر کو بلایا اور اس صحیفےکو اس کے پیٹ میں بطور امانت کے رکھ دیا۔ پس یہ وہی پتھر اس جگہ اللہ کاامین ہے تاکہ قیامت کے دن یہ گواہی دے کہ وعدہ وفا ہوا یا نہیں۔ اس کے بعدعمر ابن خطاب نے کہا: اے ابوالحسن، آپ کے سینے کو اللہ نے علم اور اسرارکا خزینہ بنا دیا ہے۔

غنیۃ الطالبین، عبدالقادر جیلانی، صفحہ 534، مطبوعہ مکتبِ ابراہیمیہ، لاہور، پاکستان

متقی الہندی نے یہی روایت تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ اپنی حدیث کی کتاب "کنزالاعمال" میں یوں نقل کی ہے۔ 

 عن أبي سعيد الخدري قال: حججنا مع عمر بن الخطاب، فلما دخل الطواف استقبلالحجر فقال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت رسول اللهصلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك، ثم قبله، فقال علي بن أبي طالب: ياأمير المؤمنين إنه يضر وينفع، قال: بم؟ قال: بكتاب الله عز وجل قال: وأينذلك من كتاب الله؟ قال: قال الله تعالى: { وإذ أخذ ربك من بني آدم منظهورهم ذريتهم} إلى قوله: بلى، خلق الله آدم ومسح على ظهره فقررهم بأنهالرب وأنهم العبيد وأخذ عهودهم ومواثيقهم وكتب ذلك في رق(في رق: والرق بالفتح: الجلد يكتب فيه والكسر لغة قليلة فيه وقرأ بها بعضهم في قوله تعالى: "في رق منشور".انتهى.(1/321) المصباح المنير. ب) وكان لهذا الحجر عينان ولسانان فقال: افتح فاك ففتح فاه، فألقمه ذلك الرق،فقال: اشهد لمن وافاك بالموافاة يوم القيامة وإني أشهد لسمعت رسول اللهصلى الله عليه وسلم يقول: يؤتى يوم القيامة بالحجر الأسود وله لسان ذلقيشهد لمن استلمه بالتوحيد فهو يا أمير المؤمنين يضر وينفع، فقال عمر: أعوذبالله أن أعيش في قوم لست فيهم يا أبا الحسن.

ابو سعید خدری کہتے ہیں: 

ہم نے عمر ابن خطاب کے ساتھ حج کیا۔ چنانچہ جب وہ طواف کرنے لگے تو حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا:

“میں جانتا ہوں کہ تم صرف ایک پتھر ہو جو کہ نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہنقصان۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا، تو میںکبھی تجھے نہ چومتا۔" 

علی(ابن طالب) نے(عمر کو) کہا: "یہ(پتھر) نفع بھی پہنچا سکتا ہے اورنقصان بھی۔" عمر(ابن خطاب) نے پوچھا: “وہ کیسے"، اس پر علی نے جواب دیا: “کتاب اللہ کی رو سے۔" عمرنے کہا: “پھر آپ مجھے بھی یہ بات قران میں دکھائیے۔" علی نے کہا کہ اللہقران میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا توانہیں اپنی جانوں پر گواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیںہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اورہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا۔ اور اس پتھر کے دو لباور دو آنکھیں تھیں، چنانچہ اللہ کے حکم سے اس نے اپنا منہ کھولا اور یہصحیفہ اس میں رکھ دیا اور اس سے کہا کہ میرے عبادت گذاروں کو جو حج پوراکرنے آئیں، اُن کو اس بات کی گواہی دینا۔

اور میں رسول اللہ (ص) سے سنا ہے:”اس کالے پتھر کو قیامت کے روز لایا جائےگا، اور اس کو زبان عطا کی جائے گی جو کہ اُن لوگوں کی شہادت دے گی جوتوحید پر قائم تھے اور اپنے فرائض انجام بجا لاتے تھے۔" چنانچہ یہ پتھرنفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی۔" یہ سن کر عمر نے کہا۔ "اعوذ باللہکہ مجھے لوگوں میں ایسے رہنا پڑے کہ جن میں اے ابوالحسن(علی) آپ نہ موجود ہوں۔"

متقی الہندی، کنزالاعمال، فی فضائل مکہ(المحدث سوفٹ ویئر میں اس حدیث کا نمبر 12521 ہے

ابو الحسن القطان نے الطوالات میں۔

حاکم نے اپنی کتاب "المستدرك"، جلد 1، صفحہ 457 پر۔

اہلحدیث حضرات کے اس حدیث پر اعتراضات

چونکہ ایک طرف یہ حدیث اہلحدیث حضرات کے عقائد کا قلع قمع کر رہی ہے، اوردوسری طرف اس سے مولا علی ؑ کا باب المدینۃ العلم ہونا ثابت ہوتا ہے(جوکہ اہلحدیث اور ناصبی حضرات کو ہرگز منظور نہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ ہرمعاملے میں مولا علی ؑ کے فضائل کو اتنا کم کر دیا جائے کہ کم از کمخلفائے ثلاثہ پر اُنکی برتری قائم نہ ہو)، اس لئے اُن کے لئے لازمی تھا کہ کسی نہ کسی بہانے اس حدیث کا انکار کریں۔

اور کسی بھی حدیث کو جھٹلانے کا سب سے بہتر ہتھیار انکے پاس یہ ہے کہ اُسکے متن کو دیکھنے کے بجائے، اُس کے سلسلہ رواۃ میں شک پیدا کر کے اُسےضعیف قرار دے دیا جائے۔

اس روایت کے ساتھ بھی انہوں نے یہی حشر کرنا چاہا ہے۔ اور اُنکا پورااستدلال یہ ہے کہ الذھبی نے یہ روایت حاکم سے نقل کی ہے اور پھر اس کے ایکراوی "ابی ہارون" کو ساقط قرار دیا ہے۔

جواب 1:

کیا عمر ابن خطاب اور اہلحدیث حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ رسول ﷺ نے پوری امت کو ایک بیکار اور مشرکانہ فعل میں مبتلا کر دیا ہے؟

ہمارے لئے یہ کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ہے کہ مولا علی ؑ نے عمر ابن خطابکو یہ بتایا ہے کہ نہیں کہ حجر اسود ہمیں نفع پہنچا سکتا ہے، بلکہ ہمیں توحیرت ہے کہ عمر ابن خطاب نے یہ سوچنے کی ہمت ہی کیسے کی کہ حجر اسود نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا۔

کیونکہ رسول (ص) کی اپنی زندگی میں ہزاروں واقعات ایسے ہیں، جو کہ یہ ثابتکرنے کے لئے کافی ہیں کہ ہر وہ چیز جو کہ اولیاء اللہ سے مس ہو، وہ بابرکتہو جاتی ہے۔ 

پچھلے ابواب میں ہم نے تفصیل سے وہ احادیث نقل کی ہیں کہ جن میں صحابہکرام پوری زندگی رسول ﷺ کے تبرکات سے نفع اور برکت حاصل کرتے رہے مثلاً آپﷺ کے بال، ناخن، عصا، قمیض، لعاب دہن، وضو کا پانی۔۔۔۔۔

یاد کریں وہ حدیث جب جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر بیماروں کو شفا دینے کے لئے رسول ﷺ کا کمبل پانی میں بھگو کر دیتی تھیں۔

اور یاد کریں وہ حدیث کہ ام المومنین ام سلمہ(ر) نطرِ بد اور بیماری کے خلاف رسول ﷺ کے بالوں کو پانی میں بھگو کر دیتی تھیں۔

اور یاد کریں وہ حدیث کہ جب رسول  نے مولا علی  اور صحابی سلمہ کو اپنے لعاب دہن سے نفع پہنچایا۔۔۔۔۔۔

اسی طرح کیا عمر ابن خطاب نے قران نہیں پڑھا تھا جس میں صاف لکھاہے کہ آلِ موسیٰ و آلِ ہارون کے تبرکات میں وہ برکت تھی کہ جس کی وجہ سےاُس صندق کو اللہ نے تابوتِ سکینہ قرار دے دیا۔

اور وہ مٹی جہاں سے حضرت جبرئیل ؑ کا گذر ہو گیا(بلکہ جہاں اُن کے گھوڑے کا پاؤں پڑا)، وہ مٹی اتنی بابرکت ہو گئی کہ اُس کے اثر سے گوسالہ بولنے لگا۔

اور یوسف ؑ کی قمیض میں وہ برکت تھی کہ جس نے گئی ہوئی بینائی کو لوٹا دیا۔۔۔۔

 

اس لئے تو ہم حیرت زدہ ہیں کہ عمر ابن خطاب نے اپنی پوری زندگی میں سیکھا ہی کیا؟ 

خیر عمر ابن خطاب نے تو پھر مولا علی ؑ کے کہنے پر اپنی تصیح کر لی، اِسسے زیادہ حیرت تو آج کے اہلحدیث اور ناصبی حضرات پر ہے جو اب تک یہی ایمانلائے بیٹھے ہیں کہ حجر اسود کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور جوایسا اعتقاد رکھے، وہ مشرک ہے۔

تو جناب، حجر اسود تو اللہ کی وہ نشانی ہے کہ جسے ہزاروں انبیاء نےلاتعداد بار چوما ہے۔ اب پتا نہیں کہ اسے انبیاء کے چومنے سے برکت ملی، یاانبیاء کو اسے چومنے سے برکت ملی، مگر وہ شخص جاہلِ مطلق ہے جو اب بھی اسکو نفع و نقصان کا حامل نہ سمجھے، چاہے وہ مدینہ یونیورسٹی کا پڑھا ہوامفتیِ اعظم ہی کیوں نہ ہو۔

اور جو مولا علی  نے فرمایا:

۔۔۔۔حضرت علی نے فرمایا: ایسا نہ کہو، یہ پتھر نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اور نفع بھی،مگر نفع اور نقصان اللہ کے حکم سے ہے۔۔۔۔(غینیۃ الطالبین، عبدالقادر جیلانی) 

تو باخدا بس یہی شیعہ عقیدہ ہے کہ بیشک اولیاء اللہ مسلمانوں کو اللہ کےحکم و اجازت سے نفع پہنچا سکتے ہیں اور بیشک نفع و نقصان اللہ کے حکم سےہی ہے۔

جواب 2:

ہمیں پتا ہے کہ اب بھی اہلحدیث اور ناصبی حضرات بھاگنے کے چکر میں رہتےہیں اور یہ سب ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ تو اِن کی خدمت میں یہ ایکحدیث اور پیش کر کے اپنی طرف سے ہم اتمام حجت کرتے ہیں:

113 - باب مَا جَاءَ فِي الْحَجَرِ الأَسْوَدِ   

976 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِصلى الله عليه وسلم فِي الْحَجَرِ " وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُبِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ " قَالَ اَبُو عِيسَىهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ 

قتیبہ نے جریر سے، اُس نے ابن خثیم سے، اُس نے سعید بن جبیر سے، اُس نےابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول ﷺ نے حجر الاسود کے متعلق فرمایا:

خدا کی قسم، اللہ اس(حجر اسود) کو روزِ قیامت آنکھیں عطا کرے گا جو انہیں دیکھیں گی، اور زبان عطا کرے گاجو اُن کے حق میں شہادت دیں گی جنھوں نے اُس کے ساتھ صحیح سلوک کیا ہے۔

ابو عیسی کہتے ہیںیہ حدیث حسن ہے

حوالہ:   سنن ترمذی، کتاب الحج 

اگر کوئی اب بھی نہ مانے اور حجر اسود کو نفع و نقصان نہ پہنچانے والا عامپتھر سمجھے، تو جان لیجئے کہ اللہ نے اُس کے دلوں پر تالا ڈال دیا ہے اوراس شخص کو ہدایت نہیں کی جاسکتی۔

آخر میں ہم یہ روایت مومنین کے لئے وسائل الشیعہ سے نقل کر رہے ہیں۔

ذكره، عن أبي جعفر(عليه السلام) ـ في حديث ـ قال: ثم ادن من الحجر واستلمه بيمينك. 

((17843)) 13 ـ وعن محمد بن الحسن، عن الصفار، عن علي بن حسان الواسطي، عن عمه عبد الرحمن بن كثير الهاشمي، عن أبي عبدالله(عليه السلام) قال: مر عمر بن الخطاب على الحجر الاسود فقال: والله يا حجر إنا لنعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع إلا أنا رأينا رسول الله(صلى الله عليه وآله) يحبك فنحن نحبك، فقال أمير المؤمنين(عليه السلام): كيف يابن الخطاب ! فوالله ليبعثنه الله يوم القيامة وله لسان وشفتان، فيشهد لمن وافاه،

حوالہ:   وسائل الشیعہ


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ...
سوال کا متن: سلام عليکم. يا علي ع مدد. ....مولا علي ...
کیا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟
کیا اسلامی ممالک کی بنکوں سے قرضہ لینا جائز ہے؟
حضرت زینب (س) نے کب وفات پائی اور کہاں دفن ہیں؟
خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ...
دوسرے اديان کے پيروں کے ساتھ مسلمانوں کے صلح آميز ...
کائناتی تصور معصومین علیہم السلام کی نظر میں

 
user comment