قیامت پر ایمان کے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں گہرے اثرات ھوتے ھیں۔ ذیل میں ھم ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
۱۔ قیامت پر ایمان، انسان کو جرات اور شجاعت بخشتا ھے، اسے ایک ایسا انسان بنادیتا ھے کہ جو ایک مقدس اور الھی مقصد کی راہ میں "شھادت" کو محبوب ترین چیز اور ایک ابدی اور لافانی زندگی کا آغاز جانتا ھے۔
۲۔ قیامت پر ایمان، انسان کو گناہ کے مقابلے میں اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کی طاقت بخشتا ھے، اور بہ الفاظ دیگر ھمارے گناہ، خدا اور آخرت پر ھمارے ایمان کے ساتھ معکوس نسبت رکھتے ھیں، جس قدر ایمان قوی تر ھو جائے گناہ کم ھوتے ھیں۔
۳۔معاد پر اعتقاد اور حتی کہ اسے ممکن طور پر قبول کرنا بھی انسان میں ذمہ داری اور پابندئ عہد پیدا کرتا ھے اور اسے غور و فکر اور حق کے لئے کوشش کرنے پر مجبور کرتا ھے۔
۴۔ معاد پر ایمان کا جو ایک دوسرا تعمیری رول ھے، وہ یہ ھے کہ معاشرہ میں مادی اور معنوی توازن کو بر قرار کرتا ھے۔
۵۔ ایک معاشرہ میں اخلاقی فضائل کی بالیدگی، جبلتوں پر قابو پانا اور دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کرنا وغیرہ، انسان کے انفرادی و اجتماعی زندگی میں معاد پر ایمان کے دوسرے اثرات ھیں۔
ایک دوسری دنیا، یعنی معاد کا اعتقاد ایک فطری اور طبیعی اعتقاد ھے اور یہ اعتقاد انسان کی فکر و روح پر مسلط نھیں کیاگیا ھے اور اس کے منفی اثرات نھیں ھیں۔ اخروی زندگی کا اعتقاد ایک قدیم ترین اعتقاد ھے جس کا انسان کی تہذیب و تمدن اور معارف میں کلیدی رول رھا ھے اور تاریخ میں کوئی ایسی ثقافت اور فلسفہ نھیں پایا جاسکتا ھے، جس میں قیامت پر ایمان کے اثرات نہ پائے جاتے ھوں ۔ اصولی طور پر اس اعتقاد کا انکار اور اس سے روگردانی تہذیب ، تمدن ، اقوام اور ملتوں پر اس اعتقاد کی حکمرانی کی علامت ھے، حقیقت میں موت کے بعد حیات کا ایمان انسان کی فطری ضرورتوں کا مثبت جواب ھے۔
مادہ پرستوں کا اعتقاد ھے کہ دوسری دنیا کا ایمان انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے امور میں منفی اثرات ڈالتا ھے اور اسے تحرک و نشاط سے محروم کرکے سیاسی اور اجتماعی طور پر مفلوج کر دیتا ھے، لیکن ھمارے اعتقاد کے مطابق حقیقت یہ ھے کہ: آخرت اور قیامت کے ایمان کے نہ صرف منفی اثرات نھیں ھیں، بلکہ اس کے انسان کے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بھت سے مثبت اور تعمیری اثرات ھیں۔
انسان کی فکر، روح، اخلاق اور انفرادی اعتقادات پر معاد کے اثرات واضح ھیں، کیونکہ معاد کا اعتقاد رکھنے والا انسان اپنے اور دنیا والوں کے فکری امور کو حقیقت پسندانہ زاویے سے دیکھتا ھے اور اپنے آپ کو چند روز کا مھمان مخلوق جانتا ھے جو دنیا والوں کے کاروان کے ھمراہ ایک ابدی اور لافانی عالم کی طرف گامزن ھے۔ اس اعتقاد اور فکر سے وہ محسوسات کی محدودیت سے آزاد ھوکر معقولات تک پھنچتا ھے اور غیبی اور مخفی مسائل تک دست رس پیدا کرتا ھے۔ اخلاق اور جذبات کی قلمرو میں بھی معاد کا رول واضح ھے، کیونکہ یہ حقیقت بینی اور طرز تفکر، باطنی جذبات کو دگرگوں کرکے انتہائی مقصد سے ھم آھنگ معقول راہ و روش سے محدود کردیتا ھے۔ جس کا یہ اعتقاد ھو کہ وہ خس و خاشاک کے مانند عالم ھستی کی امواج پر قرار پایا ھے اور خلقت کے اصلی مقصد کی طرف جارھا ھے، وہ ریاست طلبی، خود خواھی، دنیا پرستی، شھوت اور غضب جیسی نفسانی خواھشات کے اثر میں آکر سرکشی نھیں کرتا ھے کہ دوسروں کے حقوق کو پامال کرے اور انسان اپنی پیٹ پوجا اور شھوت رانی کے لئے اپنے آپ کو ایک بے ارادہ مخلوق میں تبدیل نھیں کرتا ھے، بلکہ وہ اپنی زندگی کے حساس لمحات کو ایثار و قربانی، اجتماعی خدمات اور مفید کوششوں میں صرف کرتا ھے، تاکہ اپنی محدود ضرورتوں کو پورا کرنے کے ضمن میں، سعادت کی راہِ حق میں گامزن ھوکر اپنی ابدی زندگی کو حاصل کرے، اور اگر اس راہ میں اپنی جان کی قربانی دیدے تو کیا ھی اچھا ھے، کیونکہ اس طرح وہ اپنی غمناک زندگی کو دے کر دوسری دنیا کی نورانی اور لذت بخش زندگی کو حاصل کرتا ھے۔
اس بنا پر، موت اور اس کے بعد والی دنیا کا عقیدہ نہ صرف انسان سے نشاط و تلاش و کوشش کو چھین لیتا ھے، بلکہ انھیں تقویت بخشتا ھے، کیونکہ انسان کی فعالیت، باقی رھنے کی ضرورت اور عشق پر منحصر ھے اور قیامت پر اعتقاد رکھنے سے یہ فطری ضرورت نابود نھیں ھوتی ھے۔ معاد کا ایمان، انسان کی ضرورت کے دامن کو لا محدود حد تک پھیلاتا ھے اور دنیا کو آخرت کی کھیتی بنا دیتا ھے، جس طرح فطرت کے نظام میں گندم سے گندم اگتا ھے اور جوسے جو، ویسے ھی انسان کو عمل کی مکافات سے غافل نھیں رھنا چاھئے۔ ظلم استعمار اور بے انصافی جیسے برے اعمال، جو خراب عقائد سے ترقی پاتے ھیں، انسان کی جاودانی زندگی میں نقصان دہ نتائج پیدا کرتے ھیں اور آخرت کی وسیع دنیا میں اس کے اعمال نابود نھیں ھوتے ھیں۔ قیامت کے دن تمام پوشیدہ اور مخفی چیزیں آشکار ھوتی ھیں اور انسان اپنے اعمال کا صلہ اور کردار کا بدلہ پاتا ھے، پس قدرتی طور پر جس قدر انسان کے اعمال نیک اور اجتماعی خدمات اخلاص پر مبنی اور عاقلانہ اور زیادہ ھوں، بیشک اس کا صلہ بھی زیادہ ھوگا۔ اس لحاظ سے ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ لافانی اور جاودانی زندگی کا ایمان، انسان کی فعالیتوں کو ترقی بخشتا ھے۔
بھرحال معاد کے اثرات انسان کی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی ابعاد میں قابل تحقیق ھیں۔
انفرادی اثرات سے مراد وہ اثرات ھیں جو ھر انسان کی خصوصی اور ذاتی زندگی میں ظہور پیدا کرتے ھیں۔ لیکن اجتماعی اثرات وہ اثرات ھیں جو انسان کی اجتماعی زندگی میں متجلی ھوتے ھیں اور جب تک مختلف انسان ایک معاشرہ کو تشکیل نہ دیں یہ آثار متجلی نھیں ھوتے ھیں۔
الف۔ افراد میں معاد کے تربیتی اثرات:
انسان میں معاد کے اعتقاد کے اثرات حسب ذیل ھیں:
۱۔ قیامت پر ایمان، انسان کو جرات اور شجاعت بخشتا ھے، اسے ایک ایسا انسان بنادیتا ھے جو ایک مقدس اور الھی مقصد کی راہ میں "شھادت" کو محبوب ترین چیز اور ایک ابدی اور لافانی زندگی کا آغاز جانتا ھے۔
۲۔ قیامت پر ایمان، انسان کو گناہ کے مقابلے میں اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کی طاقت بخشتا ھے، اور بہ الفاظ دیگر ھمارے گناہ، خدا اور آخرت پر ھمارے ایمان کے ساتھ معکوس نسبت رکھتے ھیں، جس قدر ایمان قوی تر ھو جائے گناہ کم ھوتے ھیں۔ خدا وند متعال حضرت داﺅد سے خطاب کرتے ھوئے ارشاد فرماتا ھے: "اے داﺅد ھم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا ھے لہذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواھشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ھیں ان کے لئے شدید عذاب ھے کہ انھوں نے روز حساب کو یکسر نظر انداز کر دیا ھے۔[1]"
۳۔ معاد پر اعتقاد اور حتی کہ اسے ممکن طور پر قبول کرنا بھی انسان میں ذمہ داری اور تعہد (پابندئ عہد) پیدا کرتا ھے اور اسے غور و فکر اور حق کے لئے کوشش کرنے پر مجبور کرتا ھے۔ اور یہ وہ مطلب تھا جو کفر کے سرداروں کے لئے خطرناک شمار ھوتا تھا، لہذا وہ اصرار کرتے تھے کہ جس طرح ممکن ھوسکے لوگوں کے ذھنوں سے معاد اور ان کے اعمال کے بدلے اور پاداش کے عقیدہ کو دور کریں۔
۴۔ روحانی سکون: اگر کوئی شخص دل و جان سے معاد و آخرت پر ایمان رکھتا ھو، اور اعتقاد رکھتا ھو کہ جن اعمال کو وہ بجا لاتا ھے، وہ قیامت کے دن اس کے ھمراہ ھوں گے، تو ایسا انسان نظام ھستی اور عالم وجود سے پر امید ھوگا، اس کے لئے زندگی معنی پیدا کرے گی اور وہ آرام کی زندگی گزارے گا[2] اور وہ مستقبل کے بارے میں فکر مند نھیں ھوگا بلکہ اس کی روح ھمیشہ مسرور و شاد ھوگی۔[3]
۵۔ معاد کا اعتقاد، ایک امید اور اطمینان کا سہارا ھے اور کشتی نجات کا ساحل سے ھم کنار ھونا ھے۔ لہذا قرآن مجید میں اسے " دار القرار" سے یاد کیا گیا ھے، ارشاد ھوتا ھے:" قوم والو! یاد رکھو کہ یہ حیات دنیا صرف چند روزہ لذت ھے اور [دار القرار یعنی] ھمیشہ رھنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ھے۔[4]"
ب۔ معاشرہ میں معاد کے تربیتی اثرات:
ھر انسان اپنے فکر و اندیشہ اور عقائد کے مطابق عمل کرتا ھے۔ اس کے انفرادی اور اجتماعی اعمال اس کے عقیدہ و ایمان کی پیداوار ھیں۔ ھر معاشرہ کی تاریخی اور تقدیرات کی تبدیلیاں ان کے عقائد و ثقافت میں تبدیلیوں سے وابستہ ھیں، کیونکہ اقتصادی اور سیاسی حصول کو پھلے فکری و ثقافتی حصول میں پانا چاھئے۔ سیاسی اور اقتصادی آزادی ثقافتی آزادی کے بغیر ممکن نھیں ھے۔ اور اجتماعی تشکیل معاشرہ کی ذھنی بناوٹ کا نمونہ ھے۔ فکری اور ثقافتی تمہیدات، انسانی معاشروں کو حقیقی اور عملی شکل دینے والے ھوتے ھیں۔
اس لحاظ سے، دوسری دنیا کی زندگی، معاشرہ کی بناوٹ کے نظام کو تبدیل کرسکتی ھے۔ اور اس کے بعد اجتماعی ڈھانچے کی تعمیر نو کرسکتی ھے اور انسان کی انفرادی، اخلاقی اور اجتماعی زندگی میں فائدہ مند اثرات پیدا کرسکتی ھے۔
جو لوگ دنیوی زندگی کو حیات کا آخری مرحلہ جانتے ھیں، ان کے لئے موت وحشتناک چیز ھوتی ھے، لیکن جو دنیا کو ابدیت تک پھنچنے کی ایک گزرگاہ جان کر موت کے متحقق ھونے سے اپنے اعمال کے نتائج کو حاصل کرنے کا اعتقاد رکھتے ھیں، ان کے لئے موت روح بخش اور شاعرانہ تصور ھوتی ھے۔ ایک کسان جب زمین میں بیج بوتا ھے اور کافی محنت کرتا ھے، تو وہ منتظر ھوتا ھے کہ فصل کو کاٹے اس کے لئے اپنی محنتوں اور کام کا پھل دل کش اور خوشگوار ھوتا ھے۔
اس تمہید کے بعد قابل بیان ھے کہ: بیشک معاد کا اعتقاد اجتماعی اخلاق کی اصلاح کے بارے میں کلیدی رول ادا کرتا ھے، اس اعتقاد کے خاص اثرات اور رول عارفوں کے امام حضرت علی علیہ السلام کی سیرت اور کردار میں جلوہ افروز دکھائی دیتا ھے۔
اسی لئے امام علی علیہ السلام اپنے حکومتی فرمان اور انتظامی قوانین میں خدا کی اور معاد کی یاد پر تاکید فرماتے ھیں اور اپنی حکومت کے کارکنوں اور کارندوں کو حقیقی ناظر، یعنی پروردگار عالم کو مد نظر رکھنے اور خداوند متعال کے دقیق حساب و کتاب کو یاد کرکے اداروں میں اخلاقی اصول کی پابندی کرنے کی تاکید فرماتے ھیں۔ جو شخص قیامت پر اعتقاد رکھتا ھو اور اپنے کردار و رفتار پر الھی حساب و کتاب کو حاکم جانتا ھو، بیشک وہ اپنے اعمال پر گہرائ سے توجہ کرتا ھے۔ حضرت [ع] مالک اشتر کو فہمائش کرتے ھیں کہ خداوند متعال کی طرف پلٹ کر جانے کو ھمیشہ یاد رکھو اس طرح صحیح کام انجام دے سکو گے اور بے انصافی، ظلم، تندی اور نافرمانی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکو گے۔[5]
اس بنا پر، امام علی علیہ السلام کی نظر میں انسان کو محفوظ رکھنے کا اھم ترین عامل، معاد کو ھمیشہ یاد کرناھے۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے حکومتی فرمانوں میں جگہ جگہ ، مالک اشتر کو معاد کی یاد دھانی فرماتے ھیں۔[6] اس سلسلہ میں فرماتے ھیں:" خدا کے بندوں پر ظلم کرنا [ انسان کا] اس دنیا کے لئے بدترین توشہ ھے۔[7]"
"۔ ۔ ۔ پس ان کے حقوق کو مکمل طور پر انھیں پھنچادو ورنہ قیامت کے دن ان لوگوں میں شمار ھوگے جن کے زیادہ دشمن ھوتے ھیں۔[8]"
ان بیانات اور تاکیدات کے بعد ھم معاد کے اعتقاد کی اجتماعی رفتار میں قابل قدر رول سے آگاہ ھوتے ھیں۔
۱۔ معاد پر ایمان کا اجتماعی مسائل میں تعمیری رول، یہ ھے کہ معاد پر ایمان رکھنا معاشرہ میں مادی اور معنوی توازن کو بر قرار رکھتا ھے۔ بیشک آج کی دنیا میں معنوی اور مادی تعادل اور توازن درھم برھم ھو گیا ھے ، انسان کے کمال کی جگہ، وسائل کے کمال نے لے لی ھے اور انسان اپنے آپ کے بارے میں اجنبی بن گیا ھے۔ آج کے زمانہ میں مادیات کی طرف میلان کی وجہ سے انسان نے اپنی شخصیت [روح] کو فراموش کر دیا ھے کہ قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق اس کا نتیجہ خود فراموشی ھے۔[9] اس مطلب کی دلیل واضح ھے، کیونکہ خدا کی معرفت اور معاد کا ایمان انسان کے دل و جان میں موجود ھے، خدا اور معاد کو فراموش کرنا، حقیقت میں اپنی ذات اور شخصیت کو فراموش کرنے کے مترادف ھے۔ خاص کر جب کہ انسان کی حقیقت روح ھے نہ کہ جسم۔
۲۔ اقتصادی و مالی مسائل میں معاد کا رول: لین دین کرنے والوں کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ھے کہ:" ویل ھے ان کے لئے جو ناپ تول میں کمی کرنے والے ھیں۔ یہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ھیں تو پورا مال لے لیتے ھیں، اور جب ان کے لئے ناپتے یا تولتے ھیں تو کم کردیتے ھیں۔ کیا انھیں یہ خیال نھیں ھے کہ یہ ایک روز دوبارہ اٹھائے جانے والے ھیں۔ بڑے سخت دن میں، جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ھوں گے۔[10]"
یھاں پر قرآن مجید قیامت کی یاد دھانی کرکے کم فروشوں کو تنبیہ کرتا ھے، البتہ یہ معاد کے رول کا ایک نمونہ ھے ورنہ معاد پر ایمان تمام اقتصادی مسائل، من جملہ پیداوار، تقسیم، مصرف، مدیریت اور تجارت اور ھرقسم کی دوسری فعالیتوں، خاص کر اسراف کے مسئلہ میں کلیدی رول ادا کرتا ھے۔[11]
۳۔ معاشرہ میں نفسانی خواھشات پر کنٹرول اور اخلاقی فضائل کو بڑھاوا دینا: معاد کے اجتماعی اثرات میں سے ایک یہ ھے کہ طوفانی، تیز اور سرکش نفسانی خواھشات کنٹرول ھوتے ھیں، من جملہ جنسی خواھشات، جاہ و مقام کی محبت اور اقتدار کی چاھت وغیرہ۔ ۔ ۔
۴۔ قیا مت کی یاد غفلتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتی ھے: خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:" ان پر شیطان غالب آگیا ھے اور اس نے انھیں ذکر خدا سے غافل کر دیا ھے، آگاہ ھو جاﺅ کہ یہ شیطان کا گروہ ھے اور شیطان کا گروہ بھرحال خسارہ میں رھنے والا ھے۔[12]" ان کے پورے وجود پر غفلت طاری ھوگئی اور خدا کی یاد کو بھول گئے، اور چونکہ معاد کی یاد اسی مبدا کی یاد ھے، لہذا مبدا کو فراموش کرنے کے نتیجہ میں معاد کو بھی فراموش کیاگیا ھے۔[13]
۵۔ معاد کے اعتقاد کا ایک اور تحفہ، صداقت اور عہد و پیمان کی وفاداری اور لوگوں کے ساتھ دھوکا دھی، چالبازی اور خیانت سے پرھیز کرنا ھے۔[14]
۶۔ آخرت پر ایمان، دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کرنے اور ان پر ظلم و ستم نہ کرنے کا سبب بنتا ھے۔ معاد کا اعتقاد انسان کو ایک ایسی جگہ پر پھنچاتا ھے، جہاں پر وہ کہتا ھے:" خدا کی قسم اگر پوری رات صبح ھونے تک میرے بستر پر جان لیوا کیل اور کانٹے بچھے ھوں اور دن کو میرے ھاتھ پاﺅں زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے ھوں اور مجھے کوچہ و بازار میں گھسیٹا جائے، اس حالت میں اس سے زیادہ خوش ھوں گا کہ پروردگار عالم کی عدالت میں اس حالت میں حاضر کیا جاﺅں کہ میں نے بندگان خدا میں سے کسی بندے پر ظلم کیا ھو اور کسی کے حق کو غصب کیا ھو۔[15]"اسی وجہ سے تمام ادیان ومذاھب الھی افراد کی تربیت اور معاشروں کی اصلاح کرنے کے لئے لوگوں کے دلوں میں قیامت پر ایمان کو تقویت بخشنے کی کوشش و تلاش کرتے ھیں۔ خاص کر قرآن مجید کے اھم حصہ میں تربیت کے مسائل کے بارے میں اسی طریقہ کار پر عمل کیاگیا ھے۔ دلچسپ بات ھے کہ قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ھے: "انسان کی تربیت کے لئے صرف ایمان و یقین کافی نھیں ھے، بلکہ اس کا ظن و گمان بھی گہرا اثر رکھتا ھے:" کیا انھیں یہ خیال نھیں ھے کہ ایک روز دوبارہ اٹھائے جانے والے ھیں، بڑے سخت دن میں، جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ھوں گے۔[16]" قرآن مجید مختلف مواقع پر تاکید کرتا ھے کہ صرف معاد اور آخرت کی امید ھی انسان کو خدا اور نیک کام انجام دینے کے سلسلہ میں نافرمانی سے بچانے میں کافی ھے۔[17]"
۷۔ پس جو شخص بھی اپنے پروردگار سے ملاقی ھونے کی امید رکھتا ھے، وہ شائستہ کام انجام دے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔[18]" اس ترتیب سے یہ تعلیمات اخروی زندگی کا ایمان رکھنے والے کی دنیوی زندگی میں رونما ھونے والے تمام حوادث کے وقت اس کی روح کی گہرائیوں میں ذمہ داری کے احساس کو اجھاگر کرتی ھیں۔[19]
[1] ص، 26.
[2] رعد، 28، "الا بذکرالله تطمئن القلوب".
[3] صالحی مازندرانی، اسماعیل، معاد، صالحی مازندرانی، محمد علی، ص 57، قم، صالحان، طبع اول، 1384
[4] غافر، 39. "وَ إِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دارُ الْقَرار".
[5] نهج البلاغة، نامه 53، "... و لن تحکم ذلک من نفسک حتی تکثر همومک بذکر المعاد الی ربک".
[6] بئس الزاد الی المعاد العدوان علی العباد". ایضاً.
[7] نهج البلاغة، حکمت 220.
[8] نهج البلاغة، نامه 26.
[9] توبه، 67، "نسوا الله...".
[10] مطففین، 1- 7.
[11] قرائتی، محسن، معاد، ص 47-48، قم، مؤسسه در راه حق.
[12] مجادله، 19.
[13] جوادی آملی، عبد الله، معاد در قرآن، ج 4، ص 29، قم، نشر اسراء، طبع اول، 1380.
[14] نهج البلاغة، خ 41." ایها الناس ان الوفاء توأم الصدق، و لا اعلم جنة اوقی منه و ما یغدر من علم کیف المرجع و لقد اصبحنا فی زمان قد اتخذ".
[15] نهج البلاغة، خ 214. معاد کے اعتقاد کے اثرات کے بارے میں مزید آگاھی حاصل کرنے کے لئے، نہج البلاغہ خط ۳۱ کا مطالعہ کرسکتے ھیں۔
[16] مطففین، 5- 7.
[17] ۔ قابل بیان ھے کہ امید و رجاء کے مفہوم میں بھی قطع و یقین مستتر ھے۔
[18] کهف، 110.
[19] مکارم شیرازی، ناصر، معاد و جهان پس از مرگ، ص 75- 76، قم، مطبوعاتی هدف، طبع دوم. 1336هجری
source : http://hujjatmission.com