سورہ بقرہ کی آیہ شریفہ ۳۰" و اِذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلاٰئِکَۃِ اِنّی جَاعل فِی الاَرض خَلیفۃً قَالُوا أَتَجعَلُ فِیہٰا مَن یُفسدُ فِیہٰا وَ یَسفِکُ الدِّمَاءَ وَ نَحنُ نُسَبِّحُ ِبحَمدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّی اَعلمُ مَا لاَ تَعلَمونَ" کے مطابق، کیا حضرت آدم رب کے خلفیہ تہے یا خلیفۃ اللہ؟۔
اجمالی جواب
سورہ بقرہ کی آیت نمبر۳۰ میں انسان کو خلیفہ کے طور پر منتخب کرنے کا راز اسماء الہی کی تعلیم بیان کی گئی ہے۔ اور ارشاد ہے " علم آدم الاسماء کلہا" جو اسم سب اسماء پر مشتمل ہے اور سب اسماء اسی علم کا جلوہ ہیں وہ " اللہ" کا اسم مبارک ہے ، پس انسان خلیفۃ اللہ ہے نہ کہ خلیفہ رب ، کیونکہ رب اسماء الہی کا ایک اسم اور " اللہ" کا ایک جلوہ ہے۔
اس نکتہ کی طرف توجہ کرکے واضح ہوتا ہے کہ:
اولاً: اسماء سے مراد ، بلند حقائق ہیں ، جس سے عالم کے سب حقائق وجود میں آئے ہیں۔ اور عالم کے حقائق غیب اور شہود کو شامل ہیں۔
ثانیاً: الہی حقیقت اسماء کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے ، پس حقیقت میں انسان الہی اوصاف کا مظہر اور سب خدائی کاموں کا ذمہ دار اور ما سوی اللہ پر کامل الہی خلیفہ ہے۔
تفصیلی جواب :
مذکورہ سوال کوہم اس طرح واضح کرتے ہیں:
حضرت آدم کس کے خلیفہ تہے۔ اور انسان کس کا خلیفہ ہے؟ کیونکہ جو خلیفہ ، جانشیں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے مستخلف ( جس کا جانشین ہوتا ہے) کی طرف سے اس کے کاموں اور وظائف کا ذمہ دار اور اس کے صفات سے متصف ہوتا ہے ۔ خدا نے کس حد تک انسان کو اپنے افعال اور صفات سے متصف ہونے کی صلاحیت عطا کی ہے اور انسان کس حد تک پیرو خدا بن سکتا ہے۔
انسان[1] کس کا خلیفہ ہے؟
قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی آیات نمبر ۳۰ اور ۳۱ کے مطابق انسان خلیفہ اللہ ہے۔
توضیح: آیہ شریفہ میں " انی جاعل فی الارض خلیفۃ ۔۔۔" کی ضمیر متکلم وحدہ سے سمجہا جاتا ہے کہ متکلم " خداوند" نے اپنے لئے "جانشین " منتخب کیا ہے نہ کہ غیر کے لئے۔ اور بعد والی آیت[2] ( آیہ شریفہ ۳۱) میں اس انتخاب کا راز اور انسان کو خلیفہ کے طور پر منتخب کرنے کو " سب اسماء الہی کی تعلیم" بیان کی ہے اور " و علم آدم الاسماء کلہا" فرمایا ہے ۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہیں کہ خدا نے پہلی آیت میں انسان کو اپنا خلیفہ اور دوسری آیہ شریفہ میں اپنے جانشین کی طاقت ، اور عطا شدہ خلافت کی وسعت کو بیان کیا ہے ۔ چونکہ خداوند متعال کی حقیقت اسکے اسماء میں روشن ہے ، ان دو مطالب کی وضاحت ، (یعنی اسماء اور انسان کو ان کی تعلیم ) سے روشن ہوتا ہے کہ انسان کس کا خلفیہ ہے؟ اور وہ کس حد تک خدائی کاموں کو انجام دے سکتا ہے ، اور وہ کتنے اوصاف الہی کا حامل اور انہیں اپنے اندر ظاہر کر سکتا ہے۔
اسماء سے مراد
"اسم" ، "نشانہ" کے معنی میں ہے، لفظی اسم ، ذہنی مفاہیم کے نشان اور مدلول ہے۔ ذہنی مفاہیم عینی حقائق کے نام اور عینی حقائق غیب اور شہود (ظاہر و باطن ) کو شامل ہو کر اپنے حقائق کے اسم اور اسکی نشانیاں قرار پاتے ہیں۔ اب دیکہنا یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ میں جو اسماء الہی انسان کو تعلیم کئے گئے ہیں۔ ان اسماء کی کونسی اقسام میں سے ہیں، الفاظ مراد ہیں یا ذہنی مفاہیم یا عینی حقائق؟
آدم کا مسجود ملائکہ قرار پانے کیلئے صرف اسماء کی تعلیم ہی کافی نہیں۔ کیونکہ الفاظ سے آگاہی کا کمال، دل کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ہیں اور ملائکہ کو دل کے مقاصد کو جاننے کیلئے الفاظ اور لغات کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ الفاظ کے بغیر ہی دلوں کے مقاصد کو دریافت کرسکتےہیں" [3]
اسی طرح ذہنی مفاہیم اور حقائق کا صوری ادراک ،ملائکہ کی شان سے نیچے ہے۔ کیونکہ ان کا عالم کے بعض حقائق سے رابطہ ہے نہ کہ یہ رابطہ صرف ان حقائق کے مفاہیم سے ۔ یعنی ان حقایق کا ادراک حضوری ہے نہ کہ حصولی۔ البتہ عالم کے سب حقائق ان کیلئے مشہود نہیں لہذا انسان کیلئے سجدہ کرنے کی دلیل صرف حقایق کے مفاہیم سے اس کی آگاہی نہیں ہوسکتی ۔
اس لئے ایک طرف اسماء سے مراد وہی حقائق ہیں اور دوسری طرف عالم کے سب عینی حقائق کا علم ہے۔ جن کو سمجہنے اور حامل ہونے کیلئے فرشتے قاصر تہے اور فرشتوں میں ان اسماء کی بلندیوں تک پرواز کرنے کی طاقت نہیں تہی۔ اور بعد والی آیات کے مطابق " اسماء" سے مراد " عالم غیب کے حقایق" ہیں ، کیونکہ آیت نمبر ۳۳ میں ارشاد کیا ہے " الم اقل لکم انی اعلم غیب السموات و الارض " [4] بعض مفسرین کرام کی تفسیر کے مطابق کہ سورہ بقرہ کی آیات ۳۰ سے ۳۳ کا سیاق و سباق یہ ہے کہ اس " غیب" سے مراد " ان اسماء،جن کی تعلیم عطا ہوئی ہے اور آیہ شریفہ انی اعلم ما لا تعلمون[5] میں مذکور مسائل کے علاوہ کچہہ نہیں ہے"۔ یعنی میں نے وہ چیزیں جن کو آپ نہیں جانتے ہیں اور وہ صرف میرے علم کے دائرے تک ہی محدود ہیں انسان کو عطا کی ۔۔۔ پس اسماء غیبی وہ حقائق ہیں جو فرشتوں کی فہم سے بہت بلند ہیں۔ فرشتے ، جو خود عالم مادہ سے بالاتر اور غیب کے بعض اسرار اور مراتب کے حامل ہیں۔ اور وہ حقایق عالیہ ہیں جن سے عالم کے سب حقایق زندگی لیتے ہیں جو غیب اور شہود کو شامل ہیں۔[6]
تعلیم کے معنی
بیان شدہ مطالب کو مد نظر رکہہ کر کہ "بغیر کسی واسطے کے حضرت آدم کا اسماء کو دریافت کرنا" [7] سے واضح ہوتا ہے کہ تعلیم سے مراد:
اولاً: اسماء کے شہودی اور حضوری علم کا عطا کرنا نہ کہ صرف ان کے مفاہیم سے آگاہی۔
ثانیاً: علم لدنی اورخداوند متعال سے بغیر کسی واسطے کے تعلیم حاصل کرنا ہے۔ اور چونکہ علم کا مطلب حامل ہونا ہے چاہے کسی چیز کے مفہوم اور صورت کا حامل ہونا، یا خود اس چیز کی حقیقت کا حامل ہونا ہے۔ تعلیم الہی کی یہ دو خصوصیتیں (شہودی اور لدنی) جو بیان ہوئیں ان کا مطلب یہ ہے کہ خداوند متعال نے حضرت آدم اور انسان کو اسماء حسنی کی حقیقیت عینی اور( اسماء کے گزشتہ معنی کے مطابق ) اپنے اسماء کی پوری نشانیاں عطا کی ہیں ۔
پس مذکورہ مطالب کو مد نظر رکہتے ہوئے آیہ شریفہ پورے اسماء کی تعلیم پر دلالت کرتی ہے، اور جو اسم سب اسماء پر مشتمل ہے اور سب اسماء اس سے روشنی پاتے ہیں وہ اسم "اللہ" ہے ، نتیجہ یہ نکلا کہ انسان خلیفہ اللہ ہے نہ کہ خلیفہ رب۔ کیونکہ رب اسماء الہی اور اسم " اللہ" کا ایک جلوہ ہے اور حقیقت میں انسان خدا کا مظہر تام ہے ، اور اوصاف الہی کا جلوہ گر اور ما سوی اللہ پر سب خدائی کاموں کا ذمہ دار ہے۔
مزید معلومات کیلئے رجوع کریں:
۱۔ تفسر المیزان ، ذیل آیات ۳۰ تا ۳۴۔
۲۔ تفسیر تسنیم ، آیۃ اللہ جوادی آملی، ج ۳ ص ۱۷ ۔۔ ۳۲۱
[1] اس آیت کے دیگر تفسیری دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خلافت صرف حضرت آدم علیہ السلام کیلئے مخصوص نہیں تہی بلکہ سب انسانوں میں یہ حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اس لئے ہم نے کلی طور پر بحث میں انسان کا ذکر کیا ہے نہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کا ، مزید معلومات کیلئے ملاحظہ ہو " تفسیر تسنیم " آیۃ اللہ جوادی آملی ، ج ۲ ص ۴۱ اور ۲۹۳۔ اور "عنواں" مصداق خلیفۃ اللہ از دیدگاہ قران ، سوال ۱۹۸۱ ( سائٹ نمبر ، ۲۰۲۳)
[2] "و علم آدم الاسماء کلہا چم عرضہم علی الملائکۃ فقال انبئونی باسماء ہؤلاء ان کنتم صادقیں۔"
[3] المیزان ، ج۱ ص ۱۱۶ ، ۱۱۷۔
[4] کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ میں آسمان اور زمین کے غیب کو جانتا ہوں ۔
[5] میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
[6] "تفسیر تسنیم" ج ۳ ص ۱۶۹۔
[7] لفظ "علم" آیہ شریفہ ۳۱ میں ملائکہ کے واسطے کی نفی کرتا ہے۔
source : http://www.ahl-ul-bait.com