اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

ہم نے مذہبی قصوں میں حضرت موسی (ع) کی پیدائش کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے اطفال کے قتل عام کے بارے میں سنا ہے۔ جبکہ قران مجید نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ فرعون نے ان اطفال کے قتل عام کا حکم حضرت موسی (ع) کے پیغمبر بننے کے بعد دیا ہے؟

ہم نے مذہبی قصوں میں حضرت موسی (ع) کی پیدائش کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے اطفال کے قتل عام کے بارے میں سنا ہے۔ جبکہ قران مجید نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ فرعون نے ان اطفال کے قتل عام کا حکم حضرت موسی (ع) کے پیغمبر بننے کے بعد دیا ہے؟

فرعون نے کس زمانہ میں بنی اسرائیل کے اطفال کو قتل عام کرنے کا حکم دیا ہے؟ قرآن مجید میں ہمیں دوقسم کے قتل عام ملتے ہیں: ایک اس وقت جب حضرت موسی (ع ) پیغمبر تھے اور خدا کے بارے میں فرعون سے گفتگو کی( سورہ ۴۰ آیت: ۲۳۔ ۲۵) دوسری بار اس وقت جب حضرت موسی (ع) ایک نوزاد بچہ تھے (سوہ ۲۰، آیت: ۳۸۔ ۳۹)
ایک مختصر
فرعون نے بنی اسرائیل کے اطفال کو قتل عام کرنے کا دو بار حکم دیا ہے:
۱۔ فرعون نے حضرت موسی [ع] کی پیدائش کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے اطفال کو قتل عام کرنے کا حکم دیا تاکہ حضرت موسی (ع ) کو پیدا ھوتے ہی قتل کر دیا جائے۔
۲۔ حضرت موسی (ع ) کے نبی بننے اور ان کے ذریعہ فرعون کو ڈرانے کے بعد بھی فرعون نے بنی اسرائیل کے اطفال کو قتل عام کرنے کا حکم دیا اور اس سے فرعون کا مقصد بنی اسرائیل کو کمزور کرنا تھا۔

تفصیلی جوابات
قرآن مجید کی آیات کے مطابق فرعون نے بنی اسرائیل کے اطفال کو قتل عام کرنے کا دو بار حکم دیا ہے، البتہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی دلیل تھی:
۱۔ حضرت موسی (ع) کی پیدائش سے پہلے نجومیوں نے فرعون کو خبر دی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک بیٹا پیدا ھونے والا ہے جو فرعون اور اس کی حکومت کے لئے خطرہ ھو گا۔ فرعون نے اس فرزند کی پیدائش کو روکنے کے لئے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے تمام نرینہ اطفال کا قتل عام کیا جائے۔[1]
قرآن مجید میں اس قتل عام کا واضح طور پر ذکر کیا آیا ہے۔ چونکہ مسلمان اس قصہ کو قبول کرنے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، اس لئے مفسرین نے اس واقعہ کو اجمالی طور پر بیان کرنے والی آیات کے ذیل میں روایات کے پیش نظر اس قصہ کو مکمل طور پر نقل کیا ہے۔ ان آیات میں سے ایک آیت یہ ہے کہ: «أَنِ اقْذِفيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لي وَ عَدُوٌّ لَهُ وَ أَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَ لِتُصْنَعَ عَلى عَيْني »[2] مفسرین کے اعتقاد کے مطابق، خداوند متعال سے فرعون کی دشمنی جو " عدونی" کے جملہ میں بیان کی گئی ہے، فرعون کی طرف سے الوھیت کا دعوی کرنے کی وجہ سے تھی اور فرعون کی حضرت موسی (ع) سے دشمنی، حضرت موسی (ع) کو قتل کرنے کی غرض سے فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کے اطفال کا قتل عام کرنا تھی۔[3]
ایک اور آیت جو اس قصہ کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ:" : «وَ أَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسى أَنْ أَرْضِعيهِ فَإِذا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقيهِ فِي الْيَمِّ وَ لا تَخافي وَ لا تَحْزَني إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلين »[4]
اس آیہ شریفہ میں ، جملہ " فاذا خفت علیہ" میں اسی قصہ کی طرف اشارہ ہے۔[5] اس کے علاوہ بعض مفسرین نے آیہ شریفہ"ولقد مننا علیک مرۃ اخری"[6] کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ " مننا" سے مراد حضرت موسی (ع) کی پیدائش کے وقت خداوند متعال کا حضرت موسی (ع) کو فرعون کے ذریعہ قتل ھونے سے بچانا تھا۔[7]
۲۔ فرعون نے دوسری بار بھی بنی اسرائیل کے اطفال کو قتل عام کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ قتل عام حضرت موسی (ع) کی نبوت اور بعض معجزات دکھانے کے بعد انجام پایا ہے۔ قرآن مجید کی آیات اس واقعہ کو واضح الفاظ میں بیان کرتی ہیں:«فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقّ ِ مِنْ عِندِنَا قَالُواْ اقْتُلُواْ أَبْنَاءَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ وَ اسْتَحْيُواْ نِسَاءَهُمْ وَ مَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فىِ ضَلَلٍ».[8]
اس حکم کو جاری کرنے سے فرعون کا مقصد بنی اسرائیل کو کمزور بنانا تھا تاکہ ان کے اطفال کو قتل عام کرکے انھیں ضعف و ناتوان سے دوچار کرے۔ اسی لئے صرف نرینہ اطفال کو قتل عام کرنے کا ذکر آیا ہے۔[9] فرعون نے اس سلسلہ میں صرف نرینہ اطفال کو قتل عام کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ حکم دیا کہ " استحبوا نساءھم" بنی اسرائیل کی عورتوں کو فرعون اور اس کے پیرؤں کی خدمت کے لئے زندہ رکھیں۔[10]
ایک دوسری آیت میں بھی فرعون کے اس حکم کا ذکر کیا آیا ہے، جس میں مذکورہ علت نمایاں تر بیان کی گئی ہے: «وَ قَالَ المْلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسىَ وَ قَوْمَهُ لِيُفْسِدُواْ فىِ الْأَرْضِ وَ يَذَرَكَ وَ ءَالِهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَ نَسْتَحْىِی نِسَاءَهُمْ وَ إِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ».[11]
اسی بناء پر فرعون نے دو قتل عام انجام دئے ہیں کہ ان میں سے ایک حضرت موسی (ع ) کی پیدا ئش سے پہلے اور دوسرا قتل عام حضرت موسی (ع ) کی نبوت کے بعد انجام پایا ہے۔[12]


[1] ۔ فخرالدین رازی، ابوعبدالله محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، ج 27، ص 506، دار احیاء التراث العربی، بیروت، طبع سوم، 1420ق.

[2]. طه، 39: " کہ اپنے بچہ کو صندوق میں رکھ دو اور پھر صندوق کو دریا کےحوالہ کردو موجیں اسے ساحل پر ڈال دیں گی اور ایک ایسا شخص اسے اٹھا ئے گا جو میرا بھی دشمن ہے اور موسی کا بھی دشمن ہے اور ہم نے تم پر اپنی محبت کا عکس ڈال دیا تاکہ تمھیں ہماری نگرانی میں پالا جائے۔
[3] ۔ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 14، ص 150، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع پنجم، 1417ق؛ طیب، سید عبد الحسین، أطیب البیان فی تفسیر القرآن، ج 9، ص 30، انتشارات اسلام، تهران، طبع دوم، 1378ش.
[4]. قصص، 7: اور ہم نے مادر موسی کی طرف وحی کی کہ اپنے بچہ کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ھو تو اسے دریا میں ڈال دو اور بالکل ڈرو نہیں اور پریشان نہ ھو کہ ہم اسے تمھاری طرف پلٹا دینے والے اور اسے مرسلین میں سے قرار دینے والے ہیں۔
[5] ۔ حسينى شيرازى سيد محمد، تبيين القرآن، ص 398، دار العلوم، بيروت، طبع دوم، 1423 ق.
[6] ۔ طه، 37: «اور ہم نے تم پر ایک اور احسان کیا ہے۔
[7] ۔ [7]. فضل الله، سید محمد حسین، تفسیر من وحی القرآن، ج 15، ص 108، دار الملاک للطباعة و النشر، بیروت، طبع دوم، 1419ق.

[8]. غافر، 26: " تو پھر اس کے بعد جب وہ ہماری طرف سے حق لے کر آئے تو ان لوگوں نے کہہ دیا کہ جو ان پر ایمان لے آئیں ان کے لڑکوں کو قتل کر دو اور لڑکیوں کو زندہ رکھواور کافروں کا مکر بہرحال بھٹک جانے والا ھوتا ہے۔
[9] ۔مفاتیح الغیب، ج 27، ص 506 ؛ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمه: بلاغی ، محمد جواد، ج 8، ص 809، انتشارات ناصر خسرو، تهران، طبع سوم، 1372ش.
[10] ۔ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج 8، ص 809.

[11]. اعراف، 127: اور فرعون کی قوم کے ایک گروہ نے کہا کہ کیا تو موسی اور ان کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ یہ زمین میں فساد برپا کریں اور تجھے اور تیرے خداؤں کو چھوڑ دیں اس نے کہا کہ میں عنقریب ان کے لڑکوں کو قتل کر ڈالوں گا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھوں گا ۔ میں ان پر قوت اور غلبہ رکھتا ھوں۔
[12] ۔ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، ج 4، ص 8، انتشارات دانشگاه تهران، مدیریت حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1377ش؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 20، ص 76 - 77، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع اول، 1374ش.


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اصحاب کے بارے میں شیعہ دشمنوں کی چالاکی اور فریب ...
انسان خلیفۃ اللہ ہے یا خلیفۂ رب؟
سید زادی کی غیر سید سے شادی کے بارے میں مذہبِ آلِ ...
اسلام میں روزہ کی کیا اہمیت ہے؟
انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ...
ہم نے مذہبی قصوں میں حضرت موسی (ع) کی پیدائش کے ...
انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قیامت پر ...
اگر کوئی اوامر و نواھی کی مخالفت کرے تو؟
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
قرآن کا نزول دفعتا ہوا یا تدریجا ؟

 
user comment