ایک معتبر روایت کے مطابق 15 جمادی الاولی سنہ 38 ہجری کو کاشانۂ زہراء سلام اللّہ علیہا میں ان کےنور نظرامام حسین علیہ السلام کو خداوند لم یلد و لم یولد نے وہ چاند سا بیٹا عطا کیا کہ اس کی روشنی سے عرب و عجم کے تمام گوشۂ و کنار روشن و منور ہوگئے ۔
امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عدل گستر حکومت کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے شہرمدینہ میں ، گلستان محمدی کے ایک اور گل سرسبد ہستی کی خوشبو ؤں سے مشام ایمان و یقین معطر ہو گئے بوستان علوی میں ایک ایسا پھول کھلا کہ جس کی مہک سے نہ صرف زمین بلکہ آسمان والوں کےقلوب بھی تر و تازہ ہو گئے ۔ اور فرشتوں نے عشق و ارادت کے نغمے گنگنانے شروع کردئے اور ارض و سما سے درود و صلوات کے نعرے بلند ہونے لگے ۔
جی ہاں ! ایک معتبر روایت کے مطابق 15 جمادی الاولی سنہ 38 ہجری کو کاشانۂ زہراء سلام اللّہ علیہا میں ان کےنور نظرامام حسین علیہ السلام کو خداوند لم یلد و لم یولد نے وہ چاند سا بیٹا عطا کیا کہ اس کی روشنی سے عرب و عجم کے تمام گوشۂ و کنار روشن و منور ہوگئے ۔
عالم انوار سے عالم ہستی میں فرزند رسول امام زین العابدین علیہ السلام کی آمد کے یہ شب و روز تمام محبان اہلبیت رسول کو مبارک ہوں ۔ بلبل بوستان امامت ،سید سجاد امام زین العابدین علیہ السلام عشق و محبت سے سرشار اسی آشیانہ آدمیت و انسانیت میں جلوہ بار ہوئے تھے کہ جس کےمکینوں کی شان میں سورۂ ہل اتی نازل ہوا ۔ جن کا آیۂ تطہیر نے قصیدہ پڑھا آیۂ مودت نے مسلمانوں پر محبت واجب کی اور آیۂ ولایت نے امامت و حقانیت کی تصدیق کردی باپ مولائے متقیان ، مشکل کشائے عالم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرزند ، سید و سردار جوانان بہشت ، سبط رسول الثقلین ، فاتح کربلا، حضرت امام حسین علیہ السلام تو ماں قدیم تہذیب و تمدن کےگہوارے ، ساسانی ایران کےآخری بادشاہ یزد گرد سوم کی بیٹی حضرت شہر بانو، جنہوں نے اپنی عفت و پاکدامنی کےسبب خانۂ عصمت و امامت میں وہ مقام حاصل کرلیا کہ ایک امام کی بہو ایک امام بیوی اورایک امام کی ماں بن کر پوری دنیا کےلئے مایۂ افتخار بن گئیں ۔
امام زین العابدین علیہ السلام کا اصلی نام علی تھا، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام فرزندوں کے نام اپنے والد کے نام پر علی ہی رکھے تھے ، امام زین العابدین علیہ السلام کی کنیت ابوالحسن اور ابو محمد تھی القاب زین العابدین ، سیدالساجدین ، سید سجاد ، زکی اور امین معروف ہیں ۔ ولادت کے چند دنوں بعد ہی ماں کے سایہ سے محروم ہوگئے اور غالبا اپنی خالہ، جناب محمد ابن ابی بکر کی زوجۂ محترمہ ،گیہان بانو کی آغوش میں پرورش پائی جنہوں نے گورنر کی حیثیت سے مصر جاتے وقت شامی لشکر کے ہاتھوں اپنے شوہر محمدابن ابی بکر کی شہادت کے بعد بظاہر دوسری شادی کرنا گوارہ نہیں کی اور بھانجے کو ہی اپنے بچوں کی طرح پالا اوربڑا کیا۔
امام سجاد ابھی 2 سال کے تھے کہ آپ کے دادا علی ابن ابی طالب شہید کردئے گئے آپ نے 12 سال کی عمر تک امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام دو نوں کے فیوضات سے استفادہ کیا لیکن سنہ 50 ھجری میں امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنےباپ کے ساتھ دس سال سکوت میں گزارے اورسنہ 61 ھجری میں کربلا کےخونیں معرکہ میں بہ نفس نفیس شرکت کی اور کربلا کی تحریک کو 35 سال تک اپنےکندھوں پر اٹھائے رکھا اور اسلام کےالہی پیغامات کی سخت ترین مراحل میں حفاظت و پاسبانی کا فریضہ انجام دیا۔ غالبا´ سنہ 57 ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صاحبزادی جناب فاطمہ سلام اللّہ علیہا سے آپ کی شادی ہوئی اور تاریخ اسلام میں ایک بار پھر ”مرج البحرین یلتقیان“ کا نظارہ پیش کرتے ہوئے علی ثانی اور فاطمۂ ثانی کے پاکیزہ رشتے کے نتیجہ میں رسول اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں فرزند حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کے صلب سے پانچویں امام ، امام محمد باقر علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام کی آغوش کی زینت قرار پائے چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام بھی واقعۂ کربلامیں تقریبا چار سال کے موجود تھے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام کےایک اور فرزند جناب زید شہید ہیں ، جو بڑے ہی با فضیلت تھے اور سنہ 121 ہجری میں امویوں کے ہاتھوں کوفے میں شہید ہوئے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کا35 سالہ دور نہایت ہی گھٹن اور اذیت کا دوررہا ہےاس دورمیں یزید شقی کے بعد حکومت مروان اور آل مروان کے ہاتھوں میں منتقل ہوگ ئی حجاج ابن یوسف کے ہاتھوں آپ کے بےشمار دوستوں اور چاہنے والوں کوشہید کیاگیا ۔ یکے بعد دیگرے خلفائے بنی امیہ کے چھ حکمراں بر سر اقتدار اہل ابھی سیاست نے مذہب کو لوگوں کی زندگی سے دورکر دینے کی کوشش کی ، ایسے میں امام سجاد علیہ السلام نے اپنی بیداری کےلئے دعااور اشک کو اسلام وقرآن کی حفاظت و پاسبانی کاوسیلہ قراردیا اور دعا سے قلوب اور اشک سے آنکھوں کو تسخیر کیا ۔ صحیفۂ سجادیہ دعاؤں کا شاہکار اور”عزاداری امام حسین“ آپ کے اشکوں کی یادگار ہے ۔
علمائے اسلام کامتفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا کی سب سے عظیم کتاب ، کلام اللّہ یعنی قرآن مجید اور لسان اللّہ کی تخلیق ، نہج البلاغہ کے بعد، صحیفۂ سجادیہ الہی حقائق و معارف کا سب سے زیادہ قیمتی خزانہ ہے اسی لئے بعض اسلامی دانشوروں نے اس کو اخت القرآن ، انجیل اہلبیت علیہم السلام اور زبور آل محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب عطا کیا ہے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک اور قیمتی یادگار آپ کا رسالۂ حقوق ہے جس میں آپ نے انسانوں کے ایک دوسرے پر مختلف حقوق و فرائض ذکر کئے ہیں ۔ ہم اپنی اس مختصر گفتگو کو امام علیہ السلام کے اسی رسالۂ حقوق کےچند جملوں پرختم کرتے ہیں ۔ امام فرماتے ہیں : ”آپ کے ساتھی اور دوست کا آپ پر یہ حق ہےکہ آپ اس پراحسان اور حسن سلوک سے کام لیں اوراگر ایسا نہ کر سکیں تواس کے حق میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں جہاں تک ممکن ہو اس کی دوستی میں کوتاہی نہ برتیں اس کے خیر خواہ و پشت پناہ رہیں اور رحمت و شفقت کا چشمہ بنے رہیں مشکل و عذاب کا باعث نہ بنیں“ ۔
source : http://www.taghrib.ir