خبررساں ایجنسی شبستان: ایک کینیڈین خاندان نے اس ملک کی پارلیمنٹ میں اسلام مخالف قوانین کی منظوری کی حمایت کے لیے اپنے مراکش کے سفر کے تجربات بیان کیے ہیں۔
خبررساں ایجنسی شبستان نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کینیڈا کی ریاست "کبک" کے شہرمونٹرال کی قومی اسمبلی کمیشن میں پبلک مقامات پردینی شعائر کے ہمراہ رکھنے پرپابندی کے منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے ایک جنرل عدالت تشکیل دی ہے۔
اس اجلاس کے ضمن میں ایک کینیڈین خاندان نے اسلامی ملک مراکش کے اپنے سفرکے حالات بیان کیے ہیں جن میں اسلام اورمراکشی لوگوں کی اہانت کی گئی ہے۔
ا س کینیڈین خاندان کی ماں"جنوییو کارون" نے مسلمانوں کے بارے غلط بیانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مراکش کی ایک مسجد میں داخل ہوئے تووہاں پرموجود افراد نے ہمیں کہا ہے کہ اپنے جوتے اتاردو توہم نے تعجب کیا کہ کیوں ہم یہ مضحکہ خیز کام کریں؟
جب ہم مسجد میں داخل ہوئے توہم نے دیکھا کہ مرد زمیں پرسجدہ ریز ہیں اورعورتیں البتہ دوسرے کمرے میں پردے کے پیچھے اسی شکل میں سجدے میں پڑی ہوئی ہیں۔
اس خاندان کے ایک مرد نے بھی اس بارے کہا ہے کہ مراکش میں مرد مسلمان ہونے کی علامت کے طورپراپنے سرپرٹوپی پہنتے ہیں کہ جس سے ان کے کچھ چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔
اس نے مزید کہا ہے کہ مراکش میں بہت زیادہ میناردکھائی دیتے ہیں کہ جن سے دن میں کئی مرتبہ اذان کی آوازسنائی دیتی ہے کہ جس کی وجہ سے کانوں کوسخت اذیت پہنچتی ہے۔
جالب بات یہ ہے کہ کبک کی حکومت نے دین مخالف قانون کی منظوری کے لیے ایسے گواہوں اورعینی شاہدین کو دعوت دی ہے کہ جو ادیان کے پابندافراد سے اپنے تعلقات کے تجربات بیان کریں۔
source : http://shabestan.net