میں نے 30 جنوری کو دو ریلیاں دیکھیں۔ ایک ریلی 30 جنوری، 2013 کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں ہوئی تھی، جس میں انا ہزارے نے اپنا نظام میں تبدیلی کا رخ ملک کے سامنے رکھا تھا۔ اس ریلی میں تقریباً پونے دو لاکھ لوگ آئے تھے اور اس ریلی میں خرچ سات لاکھ روپے کے آس پاس ہوا تھا۔ دوسری ریلی میں نے 30 جنوری، 2014 کو کولکاتا کے بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ میں دیکھی۔
تقریباً 20 لاکھ لوگ پریڈ گراؤنڈ کے اندر، 10 لاکھ لوگ پریڈ گراؤنڈ کے آس پاس اور 3 لاکھ سے 4 لاکھ لوگ سڑکوں کے اوپر پریڈ گراؤنڈ کی طرف جھنڈ کے جھنڈ آتے ہوئے، لیکن راستہ نہ مل پانے کی وجہ سے کہیں، تو رینگ رہے تھے۔ یہ دونوں ریلیاں دو عوامی لیڈروں کی تھیں اور یہ ریلیاں بتاتی ہیں کہ لوگ کس طرح سے اپنی پریشانیوں کو لے کر چھٹپٹا رہے ہیں۔
کولکاتا کی ریلی گزشتہ 40 برسوں کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی ہے۔ ممتا بنرجی کو احساس تھا کہ 15 لاکھ لوگ آئیں گے، لیکن تقریباً 30-35 لاکھ لوگ آئیں گے، یہ اندازہ کولکاتا میں کسی کو نہیں تھا۔ پورا بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ کھچاکھچ بھرا، نعرے لگے۔ لوگ 24 گھنٹے پہلے سے کولکاتا میں آنا شروع کر چکے تھے۔ لوگ بھی کون؟ بنگال کے ہر کونے سے آئے ہوئے لوگ۔ کوئی بھی حصہ ایسا نہیں تھا، جہاں کے لوگ ریلی میں نہیں آئے تھے۔ ریلی پوری طرح سے عوام پر مبنی ریلی تھی۔ لوگ کھانے کا سامان ساتھ لیے ہوئے تھے۔ لوگ بسوں میں آئے، ریل گاڑی سے آئے، پیدل آئے۔ گانا گاتے ہوئے آئے، ناچتے ہوئے آئے۔ اس منظر کو دیکھنا اتنا انوکھا تھا کہ عوام کیسے کھڑے ہوتے ہیں اور کیسے آکر آواز بلند کرتے ہیں، اس کا بیان لفظوں سے بہت زیادہ نہیں کیا جا سکتا۔
میرے اس بیان کو کچھ لوگ شاید پسند نہ کریں۔ انہیں یہ مبالغہ آرائی لگے، لیکن ان لوگوں کو میں یہ بتا دوں کہ ایسا منظر صرف دیکھ کر محسوس کیا جاسکتا ہے، اسے الفاظ میں ڈھالا نہیں جاسکتا۔ کولکاتا کی ریلی اتنی بڑی ریلی تھی کہ وہ کیمرے کے فوکس کے اندر نہیں آ پا رہی تھی۔ پوری ریلی کا ایک فوٹو نہیں کھینچا جا سکتا تھا۔ ٹیلی ویژن کے کیمرے اس ریلی کی وسعت کو بھانپنے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے۔ پھر بھی کوشش کرکے بنگال کے چینلوں نے اس ریلی کو دکھایا۔ شاید چینلوں نے سوچا تھا کہ ریلی اتنی بڑی نہیں ہوگی۔ اس لیے وہاں پر صرف چند کرین لگے کیمرے تھے۔ وہ کیمرے لوگوں کا چہرہ پڑھنے میں، ان کا جوش بھانپنے میں اور وسعت کو اپنے اندر قید کرنے میں ناکام ثابت ہوگئے تھے۔
اس ریلی میں ممتا بنرجی نے ایک لمبی تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے کہا کہ جس طرح سے ہم نیا بنگال بنا رہے ہیں، ویسے ہی ہم نیا ہندوستان بنائیں گے۔ انہوں نے 'دلّی چلو‘ کا نعرہ دیا اور اسٹیج سے للکارا 'دنگا پارٹی چائی نا‘۔ بھیڑ نے بھی پلٹ کر جواب دیا، کانگریس نہیں چاہیے، کانگریس چائی نا۔ ممتا بنرجی نے پورے ملک میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ملک میں نریندر مودی، راہل گاندھی اور ممتا بنرجی کے درمیان مقابلہ ہونے والا ہے۔ مقابلہ کرنے کا دعویٰ ٹی وی چینلوں کے دَم پر عام آدمی پارٹی بھی کر رہی ہے اور دوسری طرف نتیش کمار لیفٹ پارٹیوں اور شرد پوار کی کانگریس کے ساتھ مل کر ایک مورچہ بنانے میں لگے ہیں۔
دراصل، یہ سارے مورچے اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے علاوہ الیکشن لڑنے کی بات کہنے والی پارٹیاں کتنی اہم ہوں گی، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے، لیکن بنگال میں ممتا بنرجی نے جس طرح نریندر مودی اور کانگریس کا نام لے کر للکارا اور سب سے بڑی چیز کہ انہوں نے بی جے پی کو فسادی پارٹی کہا، وہ اہم ہے۔ ممتا بنرجی کا یہ بیان اس لیے اہم ہے، کیوں کہ ابھی 15 دن پہلے مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے بدھ دیو بھٹاچاریہ نے کولکاتا کی ایک مجھولی ریلی میں یہ الزام لگایا تھا کہ ممتا بنرجی نریندر مودی سے ملی ہوئی ہیں اور 30 جنوری کی ریلی میں ممتا بنرجی کا یہ بیان کہ 'دنگا پارٹی چائی نا‘، بدھ دیو بھٹاچاریہ کے اس بیان کا جھوٹ لوگوں کو بتا گیا۔
یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں سیاست میں لوگ ایک دوسرے کے اوپر الزام تراشی کرنے کے لیے سیاسی لڑائی کی جگہ ایک بدعنوان لڑائی لڑتے ہیں۔ بدھ دیو بھٹا چاریہ اور پوری لیفٹ پارٹی کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ممتا بنرجی نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف ہیں۔ اس کے باوجود انہیں نریندر مودی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرنا بنگال کے سیکولر ووٹوں کو اپنی طرف موڑنے کی کوشش مانا جاسکتا ہے، لیکن یہ ایماندار کوشش نہیں ہے۔ ممتا بنرجی کا ساتھ بنگال کے لوگوں نے لیفٹ حکومت کے خلاف اس لیے دیا، کیوں کہ 35 سالوں میں انتظامیہ کی حالت بے حد کمزور ہو گئی تھی۔ ساری انتظامیہ لیفٹ کیڈروں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی اور اس سے عام عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ یہی بات میں نے جاننے کی کوشش کی اور ریلی میں آئے لوگوں سے بات چیت کرکے مجھے یہ لگا کہ ابھی بھی وہ سارے سوال، جن کے جواب میں لوگوں نے ممتا بنرجی کو بنگال کا وزیر اعلیٰ بنایا، ان کے دماغ میں زندہ ہے اور وہ ان سوالوں کا سامنا دوبارہ نہیں کرنا چاہتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسی اسمبلی انتخاب میں ممتا بنرجی کی جیت ہوئی اور شاید ویسی ہی جیت اب لوک سبھا الیکشن میں ممتا بنرجی کی ہونے جا رہی ہے۔
ممتا بنرجی ملک کا الیکشن لڑنے کا اعلان تو کر چکیں، لیکن وہ الیکشن لڑیں گی کیسے؟ ان کے اصول کیا ہوں گے، ان کے مدعے کیا ہوں گے، ان کے امیدوار کیسے ہوں گے اور ان امیدواروں کے اوپر لوگوں کو بھروسہ کیسے آئے گا؟ مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ ممتا بنرجی کی پارٹی کے جنرل سکریٹری مکل رائے نے ایک خط انا ہزارے کو لکھا ہے اور اس خط میں انہوں نے انا ہزارے کے اقتصادی پروگرام کو قبول کیا ہے۔ انہوں نے اس خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم ان پروگراموں کو ملک میں نافذ کرنے میں آپ کی رہنمائی چاہتے ہیں۔ تو کیا ممتا بنرجی اور انا ہزارے مل کر اس ملک میں کوئی تحریک چلائیں گے؟ کیوں کہ انا ہزارے کا اقتصادی پروگرام کسی پارٹی کا اقتصادی پروگرام نہیں ہے، انا ہزارے کا اقتصادی پروگرام اس ملک میں چل رہی بازار پر مبنی اقتصادیات کے خلاف عوام پر مبنی اقتصادی پروگرام ہے۔ ممتا بنرجی نے 30 جنوری کی اپنی لمبی تقریر میں 'پرو پیوپل گورنمنٹ‘ لفظ کا استعمال کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دل سے انا ہزارے کے پروگرام کو قبول کر رہی ہیں۔ کیا اقتصادی بنیاد پر کوئی اتحاد ملک میں ہو سکتا ہے، 30 جنوری کی ریلی سے یہی ایک سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ لیفٹ پارٹیوں کے اقتصادی پروگرام سے زیادہ انقلابی انا ہزارے کا اقتصادی پروگرام ہے۔ لیفٹ پارٹیوں سے زیادہ ملک کے لوگوں کو انا ہزارے کا اقتصادی پروگرام سمجھ میں آنے والا ہے اور اس پروگرام کو قبول کرنے والی ممتا بنرجی نہ صرف ملک کی پہلی وزیر اعلیٰ ہیں، بلکہ ایک بڑی بر سر اقتدار پارٹی کی صدر بھی ہیں۔ یہ واقعہ ہندوستان کی سیاست کو ایک نئی سمت میں لے جانے والا ثابت ہو سکتا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ شاید ہندوستان کی سیاست ایک نئے دروازے پر کھڑی ہے، جہاں نقلی چہروں کی چمک اترے گی اور عام عوام کی چمک آگے بڑھے گی۔ ممتا بنرجی کا یہ بیان میری آنکھوں کے آگے سے گزرا ہے، جس میں ممتا بنرجی نے کہا ہے، میں کسی سے ڈرتی نہیں ہوں اور جب تک زندہ رہوں گی، شیرنی کی طرح رہوں گی۔
ممتا بنرجی کی ریلی میں 20-30 لاکھ لوگوں کا آنا اس لیے اہم ہے، کیوں کہ ان کے پاس کیڈر نہیں ہے، جب کہ لیفٹ پارٹیوں، جنہوں نے 20-30 سال تک حکومت کی، وہ کیڈر بیسڈ پارٹی ہے۔ اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ تقریباً 30 لاکھ لوگ آئے، تو سڑکیں تو جام ہوئیں، ٹریفک پر اثر ہوا، لیکن ایک خوانچہ تک نہیں لٹا۔ انا کی تحریک کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھیں، تو انا کی حمایت میں پورے ملک سے لوگ جُٹے تھے، لیکن یہاں تو سارے بنگال سے لوگ کولکاتا آئے تھے، یہ ممتا کے تئیں لوگوں کا اعتماد، امن پسندی اور اخلاقیات کو بتاتا ہے۔
ممتا کے عوامی رابطہ کی ایک مثال مجھے کولکاتا میں ملے فوج کے ایک سینئر افسر نے بتائی۔ 26 جنوری کو ممتا بنرجی دو کلومیٹر پیدل چلتی ہوئی بھیڑ کا دونوں ہاتھوں سے استقبال کرتے ہوئے اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گئیں۔ پریڈ ختم ہونے کے بعد وہ پھر اٹھیں اور دو کلومیٹر پیدل چلتے ہوئے لوگوں کا استقبال کرتے ہوئے وہاں سے وداع ہوئیں۔ یہ ممتا کے لوگوں سے رابطے کی نایاب مثال ہے۔ دوسری طرف دہلی میں ریاست کے وزیر اعلیٰ اروِند کجریوال نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ 26 جنوری کی پریڈ عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں گے، لیکن اس دن وہ بغیر کوئی وجہ بتائے نہایت سیکورٹی والی جگہ پر مرکزی وزراء کے بغل میں بیٹھ کر پریڈ دیکھتے ہوئے دکھائی دیے۔
اس ریلی کا سب سے اہم حصہ اسے ملک میں نہ دکھایا جانا ہے۔ بنگال کے چینل اس ریلی کو شروع سے اخیر تک دکھا رہے تھے اور چوبیس گھنٹے سے اس ریلی کی اہمیت کے اوپر آپس میں بات کر رہے ہیں، لیکن ایک بھی ہندی چینل اور انگریزی چینل نے اس ریلی کو کولکاتا سے لائیو نہیں کیا۔ نریندر مودی کی ریلی ایک لاکھ کی ہو، 50 ہزار کی ہو، 5 لاکھ کی ہو، لگاتار میڈیا میں سرخیاں پاتی رہتی ہے اور لائیو دکھائی جاتی ہے۔ راہل گاندھی کی چھوٹی سے چھوٹی ریلی لائیو ہوتی ہے، لیکن ممتا بنرجی کی 20 سے 30 لاکھ کی ریلی ملک کے میڈیا کے لیے کوئی مقام نہیں رکھتی۔ یہ میڈیا کا کیسا چہرہ ہے، سمجھ میں نہیں آتا۔ ٹائمز آف انڈیا اپنی ویب سائٹ پر لکھتا ہے کہ دو ملین کی یہ ریلی تھی، یعنی 20 لاکھ کی ریلی تھی، لیکن اپنے اخبار میں وہ تعداد نہیں چھاپتا۔ وہ کہتا ہے 'ہوز ریلی‘ (کسی کی ریلی)۔ یہ ہمارے ملک کا میڈیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ساتھیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صحافت کو اس جگہ نہیں لے جانا چاہیے، جہاں لوگ ہمیں دیکھیں اور دیکھ کر ہنسیں۔ ہمیں دیکھیں اور ہمیں کسی کا بھونپو مان کر ہمارا مذاق اڑائیں۔ ہمیں اپنے وقار اور سچائی کو دیکھنے کی صلاحیت نہ صرف برقرار رکھنی چاہیے، بلکہ اسے بڑھانا چاہیے۔
بہرحال، اگلے 15 دنوں میں بڑی سیاسی تبدیلی کا امکان ہے۔ نئے گٹھ جوڑوں کا امکان ہے۔ اور، مجھے اس میں کوئی دو رائے نہیں لگتی کہ جو گٹھ جوڑ اقتصادی پروگرام کی بنیاد پر ہوگا، وہی گٹھ جوڑ ملک کی گدّی کی طرف تیزی سے اپنا قدم بڑھائے گا، کیوں کہ اس ملک کو بازار پر مبنی اقتصادیات سے، بدعنوانی سے آزادی کی ضرورت ہے۔ یہاں پر گاؤں کو خود مختار بنانا چاہیے، گاؤں کو طاقت دینی چاہیے۔ دیہی اقتصادیات سے جوڑ کر شہری اقتصادیات کو چلنا چاہیے اور شہر اور گاؤں کے درمیان کا صنعتی تال میل فوراً نافذ کرنا چاہیے، ورنہ یہ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھے گا۔ بنگال میں 30 جنوری کو ہوئی ترنمول کانگریس کی ریلی لوگوں کی ریلی تھی، لوگوں کا سمندر تھا، لوگوں کی امیدوں کی آواز تھی، جس میں ممتا بنرجی نے شیرنی کی طرح دہاڑ کر کہا، دلّی چلو۔ اس لیے کہ دہلی میں مانش سرکار چاہیے، یعنی دہلی میں انسانوں کی سرکار چاہیے۔ دیکھتے ہیں، ممتا کی دلّی چلو دہاڑ کا کوئی اثر ہوتا ہے یا پھر یہ جنگل کا شور بن کر رہ جاتی ہے۔
source : www.rizvia.ne