اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

القاعدہ، حزب اللہ اور حماس (2) / لنک

حزب اللہ:

جبل عامل کی سرزمین پر قائم عرب دنیا کی معروف مسلم عسکری تنظیم جس نے طاقت کے نشے میں چور جارح اسرائیلی افواج کے دانت کھٹے کیے، اولا جس نے اسرائیل کی حمایت میں لبنان میں براجمان امریکی اور اس کی اتحادی افواج کو فرار پر مجبور کیا اورثانیا اسرائیلی افواج کو اپنی زمین سے جان بچا کر بھاگتا کیا۔

ابتدا یہ تنظیم صرف شیعہ مجاہدین پر مشتمل تھی تاہم نوے کی دہائی میں اس تنظیم کے دروازے دیگر لبنانیوں کے لیے کھولے گئے۔ جن میں عیسائی ، اہلسنت اور دروز شامل ہیں۔حزب اللہ کا آغاز ایک بہت چھوٹے سے گروہ سے ہوا ،تاہم آج اس کا شمار نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر کی منظم ترین تنظیموں میں ہوتا ہے۔آج حزب اللہ لبنانی پارلیمنٹ کے موثر ترین اتحاد جسے " ۸ مارچ کے اتحاد" کے نام سے جانا جاتا ہے کی سربراہی کر رہی ہے۔

حزب اللہ کا اپنا ریڈیو اور سیٹلائیٹ ٹی وی چینل ہے، نیز حزب اللہ کے سماجی و معاشی ترقی کے منصوبے اس تنظیم کو تمام معاصر مسلم عسکری و غیر عسکری تنظیموں سے ممتاز کرتے ہیں۔ حزب اللہ کے تحت متعدد شعبہ جات مختلف سماجی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن میں موسسہ شہدائ، جہاد البنائ، موسسہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، موسسہ قضا،صحت عامہ کے ادارے، زرعی ترقیاتی مراکز ،ہسپتال ، ڈسپنسریاں، پارک، تعلیمی ادارے قابل ذکر ہیں۔سی این این کی ایک ڈاکومنٹری "حزب اللہ کا خفیہ ہتھیار "کے مطابق حزب اللہ اپنے معاشرے کے لیے وہ سب کام انجام دیتی ہے جو کو ئی بھی حکومت اپنے شہریوں کی فلاح کے لیے کر سکتی ہے۔ ان کاموں میں کوڑا اکٹھا کرنے سے لے کر ہسپتال چلانا اور سکولوں کی مرمت تک شامل ہیں۔(۱)

لبنا ن کی فرقہ وارانہ تاریخ:

ترک خلافت کے خاتمے کے بعد لبنان کی سرزمین فرانس کے حصے میں آئی۔لبنانیوں نے فرانسیسی افواج کے خلاف متعدد محاذ قائم کیے جس کے سبب ۳۴۹۱ میں لبنا ن ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔(۲)تاہم یہ آزادی فرانس اور مارونی عیسائیوں کے نفوذ اور تسلط کے زیر سایہ تھی۔اس آزادی کے سبب لبنان میں جو نظام قائم ہوا اسے طائفی یا فرقہ وارانہ نظام کہا جا سکتا ہے ۔جہا ں طاقت کا سرچشمہ لبنان کے عیسائی تھے۔لبنان میں ۵۱ فرقوں کے لوگ آباد ہیں جن میں بڑے تین فرقے عیسائی، اہلسنت اور شیعہ قابل ذکر ہیں۔لبنان کے دستور کے مطابق حقوق و مراعات کی تقسیم کے وقت پانچ ، تین اور دو کی نسبت سے تقسیم کی جاتی ہے۔ یعنی پانچ حصے عیسائیوں کے، تین حصے اہلسنت کے اور دو حصے اہل تشیع کے لیے مختص ہیں۔(۳)حالانکہ شیعہ آبادی کے لحاظ سے لبنان کا سب سے بڑا فرقہ ہیں۔۰۶ کی دہائی تک شیعہ اکثریتی علاقوں میں سیاست کی باگ دوڑ چند وڈیروں کے ہاتھوں میں تھی۔ جو اپنے علاقوں میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ اس جاگیرداری نظام کے سبب لبنان ، کویت ، شام ، بحرین اور سعودیہ کے شیعوں کی ایک کثیر تعداد بائیں بازو کی جماعتوں اور کیمونسٹ تنظیموں کی جانب راغب ہوئی۔ان تنظیموں میں شام کی ایس ایس این پی،لبنان کی کیمونسٹ پارٹی، کیمونسٹ لیبر ایکشن کی تنظیم اور سوشلسٹ عرب بعث پارٹی زیادہ اہم ہیں۔(۴)یہ جماعتیں شیعہ نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتیں اور ان کی موت کے بعد اپنے کارناموں کی فہرستیں غیر ملکی آقاﺅں کو بھیج کر ان کے نام پر پیسے وصول کرتیں۔اس پر مستزاد فلسطینی مجاہدین کے خانماں برباد قافلوں کی آمد اور اسرائیلی طیاروں کی بمباریوں نے رہتی سہتی کسر بھی نکال دی۔

امام موسی صدر:

سید موسی صدر ساٹھ کی دہائی میں ایران سے لبنان آئے۔آپ کے اجداد کا تعلق اسی سرزمین سے تھا۔موسی صدر نے اشرافیہ کے ہاتھوں سے اقتدار کی باگ دوڑ چھین کر عام لوگوں کو قوی کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ان کا کہنا تھا:

جب بھی غریب سماجی انقلاب کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ ظلمت کے دن گنے جا چکے ہیں۔(۵(

سید موسی صد ر کے اولین کارناموں میں سے ایک کارنامہ لبنان کے شمالی قصبے برج الشمالی میں فنی تعلیم کے ایک ادارے کا قیام ہے ۔ جس نے سینکڑوں بے روزگار اور خانماں برباد یتیموں کو چھت اور روزگار مہیا کیا، نیز یہ ادارہ موسی صدر کے نظریات کی اولین درسگاہ ٹھہرا۔ جہاں کے الہی تعلیمات سے آراستہ نواجوانوں نے آگے چل کر لبنان کی تاریخ میں بہت اہم کام سر انجام دئے۔ موسی صدر اس اہم کام کے بعد علاقے کے محرومین کے بنیادی حقوق کی واگزاری کے لیے سرگرم ہو گئے۔ اسی ھدف کے پیش نظر آپ نے ۹۶۹۱ میں مجلس الاسلامی الشیعی الاعلیقائم کی اور اس کے وجود کو لبنان کی پارلیمنٹ سے منظور کروایا ۔ (۶)اس تنظیم کا قیام موسی صدر کی حیثیت اور تاثیر کا حیران کن ثبوت تھا۔اس تنظیم نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اصلاحات کے مطالبات حکومت لبنان کے سامنے رکھ دئے۔ جس میں تعلیمی، عسکری ، دفاعی ، حفظان صحت سے متعلق مطالبات قابل ذکر ہیں۔ ان مطالبات کے حصول کے لیے موسی صد ر نے کئی مظاہرے اور بھوک ہڑتالیں کیں۔آپ کے سیاسی اقدامات میں مجلس جنوب کا قیام اور بیس مطالبات قابل ذکر ہیں۔ان تمام اقدامات پر عوامی حمایت کے حصول کے لیے موسی صدر نے ۳۷۹۱ میں " حرکت محرومین"کے قیام کا اعلان کیا۔(۷) موسی صدر کے اب تک کے اقدامات نے لبنان کے شیعوں میں آپ کا احترام اور چاہت اس حد تک راسخ کر دیا تھا کہ آپ کے اعلان کے ساتھ ہی بوڑھے ، جوان اور بچے حرکت محرومین کے دفاتر کے باہر ممبر سازی کے لیے جمع ہو گئے۔حرکت محرومین کے منتطم ڈاکٹر مصطفی چمران عوامی جوش و جذبے کو ان الفاظ میں قلمبند کرتے ہیں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوجوان بائیں بازو کی جماعتوں کو چھوڑ کر اس تنظیم میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔یہ تنظیم عقیدے کی اساس اسلامی نظریات کی بنیاد پر متشکل ہوئی۔ ہر شخص اپنے اندر ایک طوفان محسوس کرتا اور اشک بہاتا۔ لوگ قصبوں اور دیہاتوں میں حرکت محرومین کے دفاتر کے سامنے جمع ہو کر اپنا نام لکھواتے ۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ان سب کو قبول کریں ۔ کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ہم ابھی اتنے منظم نہیں ہیں کہ اتنے سارے لوگوں کی تربیت کر سکیں ۔

ہم نہیں چاہتے تھے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایک نئی دکان بنا کر بیٹھ جائیں ۔جس کا کام دروغ بافی ، تہمت تراشی ، ہیراپھیری اور حکومتوں سے سودے بازی یا مفادات کی تقسیم ہو۔ ہماری تحریک کا ستون خدا پر ایمان تھا۔اس تحریک کا لبنان کے رواجی دین سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔(۸)

معروف انگریز مفکر رچرڈ نارٹن جنہوں نے اپنی زندگی کے ۰۳ سال لبنان میں گزارے اپنی کتاب حزب اللہ میں اس وقت کے حالات کو یوں لکھتے ہیں:

موسی صدر پرامن اور سیاسی انسان تھے وہ جنگ کو پسند نہ کرتے تھے۔ تاہم لبنان میں طاقت اور اسلحے کی سیاست نے ان کی تمام تر سیاسی کوششوں کو تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔(۹)

اس وقت لبنان میں ایک جانب فلسطینی مہاجرین کی مختلف الخیال جماعتیں تھیں جنھیں اسرائیل سے لڑنے کے لیے مختلف عرب و غیر عرب ممالک نے بھاری اسلحہ مہیا کر رکھا تھا تو دوسری جانب عیسائی کتائب جن کے قلعہ نما گھر اسرائیلی اسلحے سے چھلکتے نظر آتے تھے ۔ کتائب اور فلسطینی مہاجرین کی آپسی جنگیں آئے روز کا معمول تھیں۔ کبھی کتائب فلسطینیوں کے کیمپوں پر توپخانے سے بمباری کرتے تو کبھی فلسطینی کتائب کے قلعوں کو فتح کرتے نظر آتے ۔ موسی صدر فلسطینی مزاحمت کو جو کہ کتائب کے حملوں کی زد پر تھی ایک مقدس شعلہ خیال کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اگر فلسطینی کتائب کے خلاف نبرد آزما رہے تو اسرائیل کے مقابلے میں ان کی قوت کمزور پڑ جائے گی۔ اسی مقدس شعلے کی حفاظت کی غرض سے موسی صدر اپنے مکتب کے نواجوانوں کے ہمراہ فلسطینیوں کے کتائب اور اسرائیل کے خلاف جہاد میں عملی طور پر شامل ہو گئے۔آپ نے تحریک مظلومین کے عسکری ونگ افواج مقاومت لبنان (امل ملیشیا) کی بنیاد رکھی۔ اس عسکری تنظیم کے قیام کا مقصد کتائب کے مقابلے میں آکر فلسطینیوں کے سر سے کتائب کے عذاب کو دوررکھنا تھا۔(۰۱)ابتدا اس تنظیم کے وجود کو خفیہ رکھا گیا۔ تنظیم کے بانی ڈاکٹر مصطفی چمران امل کی تربیت کے بارے میں اپنی کتاب لبنان میں یوں رقم تراز ہیں:

اس تنظیم نے ۴۷۹۱ میں شیعہ نوجوانوں کی تربیت کا کام سنبھالا۔یہ تربیت شام کی سرحد کے قریب بعلبک کے پہاڑوں میں دی جاتی تھی ۔اس تربیت میں فلسطینی تنظیم آزادی نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔فلسطینی رہنما یاسر عرفات بارہا اس مرکز میں آئے۔ یاسر عرفات ہی اس مرکز کے فارغ التحصیل مجاہدین سے خطاب کرتے تھے۔(۱۱)

لبنان کی خانہ جنگی اور امل:

امل ملیشیا نے فلسطینیوں کی جنگ کو اپنے سر لیا اور تحریک آزادی فلسطین کے اس شعلے کو فروزاں رکھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے متعدد قربانیا ں دیں۔ ۵۷۹۱ میں امل کے تربیتی مرکز میں دوران تربیت ہونے والے دھماکے کے سبب اس تنظیم اور شیعہ نوجوانوں کی تربیت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جس کے بعد موسی صد ر نے ۲ جون ۵۷۹۱ کو امل ملیشیا کے وجود کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ (۲۱)اس چھوٹے سے بے سرو سامان گروہ نے لبنان کی خانہ جنگی کے خونین سال انتہائی بلند حوصلے اور عظیم قربانیوں کے ساتھ گزارے ۔لبنان کی خانہ جنگی کے بارے میں ڈاکٹر مصطفی چمران کے بیان کا خلاصہ درج ذیل ہے :

لبنان کی خانہ جنگی اسرائیلی اور امریکی سازش تھی۔ جس کا مقصد فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنا تھا۔اس جنگ کے آغاز سے ہی یہ بات طے شدہ تھی کہ کتائب اورحزب اللبنانیین نے اپنے آپ کو استعمار کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ان کا مقصد اسرائیلیوں اور امریکیوں سے مراعات حاصل کرنا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے انتقام لیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینیوں پر پہلا گولا کتائب نے پھینکا اور خانہ جنگی کی ابتدا بھی کتائب ہی نے کی۔فلسطینی مزاحمت اس جنگ سے اجتناب کی کوشش کرتی رہی جس میں وہ متعدد بار کامیاب بھی ہوئی۔فلسطینیوں نے موسی صدر کو متعدد بار کہا کہ وہ جنگ کو ختم کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ موسی صدر جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرتے تو دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں اس آگ کو دوبارہ بھڑکا دیتیں۔ بالاخر ۵۷۹۱ میں کتائب کی جانب سے تل الزعتر کے محاصرے کے دو ماہ بعد فتح کو مجبورا میدان عمل میں اترنا پڑا مگر فتح بھی کتائب کے اس محاصرے کو ختم نہ کرا سکی ۔ ان حالات میں عرمون کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں مسلمان رہنما یاسر عرفات، کمال جنبلاط ، مفتی اعظم اہلسنت شیخ حسن خالد ، سید موسی صدر ، رشید کرامی اور صائب سلام شریک ہوئے اس کانفرنس میں یہ طے پایا کہ موسی صدر شام جائیں اور بشار الاسد کو اپنی افواج لبنان میں داخل کرنے پر راضی کریں۔(۳۱)

یہا ں قرین قیاس ہے کہ ہم امل ملیشیا کے بانی ڈاکٹرمصطفی چمران کا کچھ احوال تحریر کریں۔ ڈاکٹرمصطفی چمران ایرانی نژاد تھے۔ آپ نے امریکہ سے الیکٹرونکس اور پلازما فزیکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مشرق وسطی کے دگرگوں حالات کے مدنظر اپنے چند مصری دوستوں کے ہمراہ آپ مصر آئے اور جمال عبد الناصر کے دور میں مصر کے صحرائے سینا میں چھاپہ مار جنگ کی تربیت حاصل کی ۔ جمال عبد الناصر کی وفات کے بعد آپ نے لبنان کا چناﺅ کیا اور انقلاب اسلامی ایران تک موسی صدر کے دست راست کے طور پر کام کرتے رہے۔ انقلاب ایران کے بعد ڈاکٹر مصطفی چمران نے ایران آکر وزیر دفاع کا قلمدان سنبھالا اورپاسداران انقلاب کی تربیت کی۔ اسی دوران آپ کو ایران کی پارلیمنٹ میں تہران کے نمائندے کے طور پر چنا گیا۔ تاہم آپ زیادہ دیر میدان کار زار سے دوری برداشت نہ کر سکے اور دوبارہ فوجی لباس میں ملبوس ہو گئے۔۱۸۹۱ میں میدان جنگ میں لڑتے ہوئے آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔(۴۱)

حزب اللہ کے بارے میں مغربی میڈیا میں عمومی طور پر یہ پراپیگینڈہ کیا جاتا ہے کہ اس تنظیم کے جنگجوﺅں کو ایران میں تربیت دی جاتی ہے جبکہ شام اس تنظیم کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کرتا ہے(۵۱) ۔ اس سلسلے میں تنظیم کے بانی ڈاکٹر مصطفی چمران کا بیان قارئین کے پیش خدمت ہے۔

ہمارے بہترین ایرانی نوجوانوں میں سے کئی سو نے لبنان میں امل کے ان مراکز میں تربیت حاصل کی۔(۶۱)

یونیورسٹی آف اوسلو کے طالب علم ایریک ایبلڈ کے حزب اللہ پر لکھے جانے والے تھیسس کے مطابق حزب اللہ کے سماجی اداروں کو ایران، عراق، شام، بحرین سے ملنے والی مدد خمس، زکات اور مذہبی صدقات کی مد میں ملتی ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سماجی منصوبوں کے لیے اکٹھی ہونے والی ایک خطیر رقم ان امدادی رقوم پر مشتمل ہوتی ہے جو بیرون ملک رہائش پذیر سنی اور شیعہ مسلمان حزب اللہ کے سیاسی منشور سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باوجود انہیں بھیجتے ہیں۔جس کی فقط ایک ہی وجہ ہے کہ انہیں حزب اللہ پر اعتماد ہے کہ ان کی دی ہوئی رقم صحیح مصرف پر خرچ ہو گی۔لبنان میں یہ جملہ اکثر سنا جا سکتا ہے کہ میں حزب اللہ سے نفرت کرتا ہوں تاہم میں حزب اللہ کے سماجی خدمت کے کاموں کے سبب ان کا احترام کرتا ہوں۔(۷۱)

موسی صدر کا اغواء:

لیبیا اور موسی صدر کے مابین تعلقات کچھ سازگار نہ تھے ۔ لیبیا کی حاشیہ بردار جماعتیں موسی صدر پر طرح طرح کے الزامات لگاتیں ۔ موسی صدر کے الجزائر کے دورے کے دوران یہ تجویز پیش کی گئی کہ لیبیا اور موسی صدر کے تعلقات میں بہتری آنی چاہیے جسے موسی صدر نے قبول کر لیا اور اس کے فورا بعد آپ کو لیبیا کے دورے کی دعوت مل گئی۔ موسی صدر ۵۷۹۱ میں لیبیاگئے اور ۱۳ اگست ۵۷۹۱ تک لیبیا ہی رہے۔ ان کی ملاقات کرنل قذافی سے نہ ہوسکی تو انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ واپس لبنان لوٹ جائیں ۔ جس کے بعد سے لے کر آج تک ان کا اور ان کے ہمسفروں کا کچھ پتہ نہیں۔(۸۱)

موسی صدر کے اس اغواءنے لبنان کے عوام بالخصوص حرکت محرومین کو ایک بار پھر یتیم کر دیا ۔ امل خانہ جنگی کے اس دور میں کمزور ہوتی گئی۔ حتی کہ ۸۷۹۱ میں اسرائیل کی جانب سے لبنانی سرزمین پر کیے جانے والے" لیتانی آپریشنز" نے امل ملیشیا کی رگوں میں تازہ ولولہ بھر دیا۔ساتھ ہی ایران میں آنے والا انقلاب امل کے جوانوں کے لیے حرکت کی ایک نظیر بن گیا۔اسی عرصے کے دوران امل اور فلسطینیوں کے مابین دوریوں کی خلیج بڑھنے لگی اور دونوں گروہ ایک دوسرے کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔امل اور بعثی فلسطینی پارٹیوں کے مابین ہونے والی جھڑپیں اسی دوری کا شاخسانہ تھیں۔

انقلاب اسلامی ایران اور حزب اللہ

موسی صدر کے زیر تربیت نوجوان علماءکے ایک جتھے نے اسلامی انقلاب ایران سے مہمیز لیتے ہوئے نئے ولولوں کے ساتھ حزب اللہ کو منظم کیا ۔۲۸۹۱ سے ۵۸۹۱ تک اس تنظیم نے خفیہ طور پر اپنی سرگرمیا ں جاری رکھیں اور ۵۸۹۱ میں شہید راغب الحرب کی شہادت کی دوسری برسی کے موقع پر اس تنظیم نے ایک کھلے خط کے ذریعے دنیا کے سامنے اپنے آپ کو متعارف کرایا۔(۹۱) امل ملیشیا جو کہ لبنان میں فلسطینیوں کے بے جا تصرف کے باعث فلسطینیوں کی مخالف ہو چکی تھی کے برعکس حزب اللہ نے موسی صدر کی راہ پر چلتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت کا بیڑاٹھایا۔

آج حزب اللہ لبنان میں شیعوں کی سب سے بڑی اور طاقتور جماعت ہے تاہم یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ لبنان کے تمام شیعہ اس جماعت کا حصہ ہیں اور یہ بھی وہم ہے کہ حزب اللہ صرف شیعوں ہی کی جماعت ہے۔ ابتدا امل ملیشیا نے حزب اللہ کو اپناحریف جانا یہی سبب ہے کہ امل ملیشیا اور حزب اللہ کے مابین ۰۸۹۱ کی دہائی میں متعدد جھڑپیں بھی ہوئیں جن پر حزب اللہ کی باحوش قیادت نے وقت گزرنے کے ساتھ قابو پا لیا۔

آئیں حزب اللہ کے وجود کو اس کھلے خط کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو۵۸۹۱ میں حزب اللہ کے ترجمان سید ابراھیم امین نے پیش کیا :

ہم برائیوں اور منکرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے لیے میدان عمل میں آئے ہیںاور ہمارا اعتقاد ہے کہ دنیا کی تمام مصیبتیں اور برائیاں امریکہ کے سبب ہیں۔۔۔۔ امریکہ، اسرائیل اور فلانجسٹوں کے ظلم کے نتیجے میںہمارے تقریبا ایک لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔تقریبا پانچ لاکھ مسلمان بے گھرہوئے۔ فلانجسٹوں کی مدد سے اسرائیل لبنان کے ایک تہائی حصے پر قابض ہو چکا ہے۔۔۔۔ہم حزب اللہ کے فرزند امریکہ ، اسرائیل اور فلانجسٹوں کو خطے میں اپنا حقیقی دشمن تصور کرتے ہیں ۔

اسی خط میں ایک جگہ تحریر ہے:

ہم امت کے فرزند ہیں۔۔۔ ہم ایک ایسی ملت ہیںجو اسلامی قوانین کی پابند ہے۔ہم اس بات کے بھی خواہش مند ہیں کہ دنیا بھر کے مظلومین و محرومین اس خدائی مذہب کو پرکھیں اور اس نظام کو اپنی زندگیوں میں رائج کریں۔کیونکہ یہی وہ مذہب ہے جو حقیقی عدالت، امن و آشتی کو دنیا میں متعارف کراتا ہے۔ تاہم ہم کسی پر بھی یہ نظام زبردستی مسلط نہیں کرنا چاہتے اور اسی بنیاد پر ہم اس بات پر بھی راضی نہیں ہیں کہ کوئی دوسرا ہم پر اپنے مذہب یا نظام مسلط کرے۔۔۔۔ہم تمام عرب ملتوں کو دعوت دیتے ہیںکہ ایران کے اسلامی انقلاب کا تجربہ ہم سب کے لیے حجت ہے اور کسی کے لیے کوئی عذر نہیں رہا۔ہم تمام ملتوں کو دعوت دیتے ہیںکہ اپنی صفوں کو متحد اور مستحکم کریں۔۔۔۔۔۔کٹھ پتلی حکومتوں کا تختہ الٹنے کا آغاز کریں۔ سب مظلوم ملتیں یہ یقین کر لیںکہ صرف اسلام ہی وہ واحد راہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت سکھاتا ہے اور اس کی راہ متعین کرتا ہے۔

اے ملت اسلامیہ! استعمارکے فتنوں کو اور اختلاف پیدا کرنے کے حربوں کو سمجھو۔شیعہ ، سنی تعصبات کو ہوا دینے والے عناصر کو پہچانو۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والسلام (۰۲)

حزب اللہ نے قوت ایمانی اور استقامت کی بنیاد پر صرف اٹھارہ سال کی قلیل مدت میں ۸۴۹۱ سے بیت المقدس اور اس سے ملحقہ علاقوںپر قابض اسرائیل جیسے طاقتور اور عیار دشمن کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اس عرصے میں حزب اللہ کے نواجونوں نے سینکڑوں قربانیا ں دیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تنظیم کے کئی سرکردہ رہنما اس جدوجہدکے دوران اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنے۔ جن میں شہید راغب الحرب، شہید عباس موسوی اور حاج عماد المغنیہ کے نام قابل ذکر ہیں۔۲۹۹۱ میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل عباس موسوی کی شہادت کے بعد حسن نصراللہ اس جماعت کے سیکریٹری جنرل نامزد ہوئے جو تاحال اس عہدے پر قائم ہیں۔

لبنان سے اسرائیلی افواج کے انخلاءنے حزب اللہ کو عالم عرب میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم مسلمہ مزاحمتی تحریک کے طور پر متعارف کرایا۔حزب اللہ کی اس عظیم کامیابی نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ریاست ہونے کاتصور چکنا چور کر دیا۔عرب عوام کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ اگر یہ چند مٹھی بھر مجاہد اسرائیل کو اپنی سرزمین سے بے دخل کر سکتے ہیں تو اتنے سارے عرب مل کر اسرائیل کو خطے سے نکال باہر کیوں نہیں کر سکتے ۔اس فتح کے بعد عرب ممالک میں کئی ایک کانفرنسیں منعقد کرائی گئیں جس میں حزب اللہ کے رہنماﺅں کو شرکت کی دعوت دی گئی اور اسرائیل کے حوالے سے ان کے تجربات کو ملکی میڈیا پر نشر کیا گیا۔کئی عرب ممالک نے حزب اللہ کے نوجوانوں کو سرکاری دوروں کی دعوت دی جس میں سعودی حکومت کا حزب اللہ کے جوانوں کو حج کے لیے بلانا قابل ذکر ہے۔

۶۰۰۲ کی ۴۳ روزہ جنگ نے حزب اللہ کی اسرائیلی افواج پر فوقیت کو مزید مستحکم کیا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے ۰۰۰۲ کی حزیمت کو کم کرنے اورحزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے نوشتہ دیوار بنانے کی غرض سے لبنان کی سرزمین پر اندھا دھند بمباری کی ۔ اس بمباری کے بعد جب انہیں تسلی ہو گئی کہ اب حزب اللہ کی مزاحمت کی قوت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے تو انہوں نے اپنی افواج لبنان میں داخل کر دیں۔ یہی وہ وقت تھا جس کا حزب اللہ کے جوانوں کو انتظار تھا ۔ حزب اللہ کے مسلح جنگجوﺅں نے اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو اپنے راکٹوں کی انی پر رکھ لیا ۔ دشمن بوکھلا گیا اور اس وقت کا اسرائیلی وزیر اعظم یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اس وقت لبنان میں فوج کو داخل کرنا اسرائیلی حکومت کی بہت بڑی غلطی تھی۔حزب اللہ نے اسرائیل کے سرحدی دیہاتوں پر جہاںاسرائیلی افواج خیمہ زن تھیں ،راکٹوں کی برسات کر دی ۔اس جنگ کے دور ان مغربی ذرائع کے مطابق ۸۵۱ اسرائیلی فوجی مارے گئے اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے، مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ (۱۲)

اس جنگ میں لبنانی عوام کو بھی خاصا نقصان پہنچا ،تاہم حزب اللہ نے لبنانی عوام کے شانہ بشانہ ان کے گھروں کی تعمیر ، بحالی ، خوراک ، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کا خیال رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ آج لبنان میں سب سے بڑی قومی طاقت کے طور پر جانی اور مانی جاتی ہے۔

فکری نہج اور جنگی حکمت عملی:

حزب اللہ اکثریتی طور پر شیعہ اثنا عشری نوجوانو ں پر مشتمل جماعت ہے ۔ جیسا کہ مذکورہ بالا منشور کے اقتباس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو امت مسلمہ کا ایک جزو گردانتے ہیں اور دین اسلام کی سربلندی کو اپنا ھدف اولین جانتے ہیں۔یہ لوگ قرآن و سنت کے ساتھ ولایت فقیہ کے نظریے کے بھی قائل ہیں ۔حزب اللہ کے تنظیمی و غیر تنظیمی فیصلوں میں ولی فقیہ کو تمام فیصلوں پر فوقیت حاصل ہے ۔تنظیم کا جنرل سیکریٹری ولی فقیہ کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔ جس کا انتخاب حزب اللہ کی مرکزی شوری کرتی ہے۔نوے کی دہائی میں حزب اللہ نے لبنان کے دیگر مکاتب اور مسالک کے لیے تنظیم میںمخصوص شعبے بنائے جن میںشامل ہو کر دیگر لبنانی بھی اس تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں۔حزب اللہ خطے میں آزادی قدس کا سب سے بڑا لشکر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی نابودی اور قدس کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تمام جماعتوں اور شخصیات سے حزب اللہ کے بہت اچھے روابط ہیں۔ حزب اللہ خطے میں حماس کی سب سے بڑی حامی جماعت ہے۔جبکہ اسرائیل کو یہ جماعت کانٹے کی مانند چبھتی ہے۔ اس تنظیم کو اسرائیل نواز مغربی ممالک نے متعدد بین الاقوامی فورمز پر دہشت گرد تنظیم کا درجہ دلایا ، جن میں اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور نیٹو قابل ذکر ہیں۔ تاہم اکثر مسلم و غیر مسلم ممالک اس تنظیم کو باقاعدہ مزاحمتی تحریک کا درجہ بھی دیتے ہیں۔حزب اللہ کا جہاد دو جہتی ہے وہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کو جہاد اصغر اور ملک میں موجود ناانصافیوں، کرپشن ، اقربا پروری اور فرقہ واریت کے خلاف جہاد کو جہاد اکبر گردانتے ہیں۔

حزب اللہ کا عسکری گروہ المقاومة اسلامیہ چھاپہ مار کاروائیوں میں ید طولا رکھتا ہے۔تاہم ۶۰۰۲ کی ۴۳ روزہ جنگ میں اس گروہ نے پوری دنیا سے اپنی دیگر عسکری مہارتوںکا بھی لوہا منوایا۔ ان کا اولین ھدف ہمیشہ فوجی تنصیبات اور مسلح اشخاص ہی رہے ہیں۔۲۸۹۱ سے اسرائیل کے لبنان پر قبضے کے وقت تک حزب اللہ نے متعدد خود کش حملے کیے جس میں اسرائیلی چوکیوں ، فوجی قافلوں اور عسکری دفاتر کو نشانہ بنایا گیا، تاہم ۰۰۰۲ میں اسرائیلی افواج کے لبنان سے انخلاءکے بعد خود کش حملوں کا سلسلہ روک دیا گیا۔ (۲۲) القاعدہ کی جانب سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور عام شہریوں کے قتل کی حزب اللہ نے شدید الفاظ میں مذمت کی، تاہم پینٹا گوں کے حوالے سے حزب اللہ خاموش رہی۔(۳۲) حزب اللہ نے الجیریا کے جہادی گروہ کی جانب سے الجیریا کے عوام کے قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کی، اسی طرح مصر میں سیاحوں کی بسوں پر الجماعت الاسلامیہ کے حملوں پر بھی حزب اللہ کی قیادت کی جانب سے مذمتی بیانات منظر عام پر آئے۔(۴۲)

حزب اللہ اور مشرق وسطی کی حالیہ بیداری:

حزب اللہ عرب دنیا میں قائم نظام کو ابتداءہی سے ناکام نظام تصور کرتی ہے۔۵۸۹۱ میں جاری کردہ حزب اللہ کے اعلامیہ میں درج ہے :

عرب دنیا کو وہ نظام جس نے صیہونی حکومت سے صلح کو ترجیح دی بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اس کے سربراہان امت کی خواہشات اور آرزووں کو پورا نہیں کر سکتے۔یہ فلسطین کے غاصبوں اور قابضین سے جنگ کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔۔۔۔یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے ممالک امریکہ اور برطانیہ کے فوجی مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنااور اس کی توجیہ پیش کرتے ہوئے شریعت کا لبادہ اوڑھناعام ہو چکا ہے۔۔۔۔۔یہ عرب نظام عوام کو جہالت اور گمراہی میں رکھے ہوئے ہے۔یہ عرب عوام میں اٹھنے والی ہر اس تحریک کو جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو دبا دیتے ہیںاور اس چیز سے انتہائی خوفزدہ ہیں کہ مبادا عوام اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائے یا سیاسی معاملات میں مداخلت کرے۔ہم تمام ملتوں کو دعوت دیتے ہیںکہ اپنی صفوں کو متحد اور مستحکم کریں۔۔۔۔۔۔کٹھ پتلی حکومتوں کا تختہ الٹنے کا آغاز کریں۔(۵۲)

حزب اللہ کی ۵۸۹۱ میں دی ہوئی دعوت آج عرب ملتوں کو سمجھ آئی اور انہوں نے ۱۱۰۲ میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔اب خدا جانے کہ یہ سفر کب اپنی منزل سے ہمکنار ہو گا تاہم حزب اللہ اس موقع پر بھی عرب ملتوں کی پشت پر موجود ہے اوران کو کامیابی کی نوید سنا رہی ہے۔ مصر میں برپا ہونے والی حالیہ تحریک پر حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری حسن نصر اللہ نے کہا:

ہم ہر گز آپ کے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے کیونکہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ ان حساس حالات میں آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ لیکن یہ جان لیجیے کہ ہم اپنے آپ کو آپ کی صفوں میں شامل سمجھتے ہیںاور آپ سے کسی صور ت بھی جدا نہیں ہیں۔میں بیروت میںبیٹھ کر آپ جوانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کاش میں بھی اس وقت آپ کے ہمراہ میدان تحریر میں ہوتا۔اگر ممکن ہوتا تو میں اس کے لیے آمادہ تھا کہ مصر کی عوام کے اہداف کے حصول کے لیے اپنے خون کی قربانی پیش کرتا۔(۶۲)

بحرین میں خلیجی ممالک کی افوج کے داخلے او ر عوامی بیداری کی اس لہر کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر حسن نصر اللہ سے خاموش نہ رہا گیا اور آپ نے لبنا ن کے سنی و شیعہ علماءسے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

بحرین ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس کی کل آبادی دس لاکھ ہے۔ اس جزیرے کے مظلوم عوام نے اپنے جائز حقوق کے لیے جب احتجاج کا راستہ چناتو ان کی حکومت نے اس کا جواب گولیوں اور قتل و غارت سے دیا۔۔۔۔۔ بحرین کی یہ تحریک ایک قومی تحریک ہے اس کامذہبی فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ حکومتیں جنہوں نے بحرین میں جاری ظلم و ستم پر چپ سادھ رکھی ہے سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کیوں خاموش ہیں؟کیا آپ کی خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ بحرین میں احتجاج کرنے والے مظلوم عوام شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں؟کیا بحرین میں شیعہ اکثریت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا خون بہانا جائز ہے؟ہم نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی ہے اور کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کا مسلک کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۷۲)

آج حزب اللہ عالم عرب میں نہ صرف مزاحمت کی علامت ہے بلکہ لبنان میں یہ جماعت وفاق کا حقیقی تصور ہے۔ لبنان میں حزب اللہ وہ واحد جماعت ہے جس نے لبنانی عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں سے ماورا ایک ملک کا تصوردیا۔ اس تنظیم نے انسانی بنیادوں پر لبنانیوں کو سہارا دیا ۔ حزب اللہ ہی کی سبب لاکھوں لبنانی مہاجرین اپنے وطن کو لوٹے ۔ ایرک ایبلڈ نے حزب اللہ پر اپنے تھیسس کے اختتام پر ایک لبنانی مہاجر کسان قاسم سے اسی موضوع کا سوال پوچھا کہ حزب اللہ نے اسے کیا دیا ہے ؟قاسم کی جانب سے دیا جانے والا جواب قارئین کے پیش خدمت ہے۔

حزب اللہ نے ہی مجھے اس قابل بنایا ہے کہ میں آپ کو اپنے گھر مدعو کر سکوں۔یہ حزب اللہ ہی کی کرامات ہیں کہ میرا بیٹا اسی سرزمین پر پرورش پا رہا ہے جہاں میں جوان ہوا ۔یہ حزب اللہ ہی کی وجہ سے ہے کہ میرابیٹا ان زیتون کے درختوں کے درمیان کھیل رہا ہے۔(۸۲)

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالے

۱۔CNN (July 25, 2006). "Hezbollah's secret weapon". Retrieved July 25, 2006. ماخوذ از وکی پیڈیا

۲۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۶۴۔

۳۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۶۴۔

۴۔Hezbollah Richard Norton:Princeton University Press © 2007,P 15

۵۔Hezbollah Richard Norton:Princeton University Press © 2007,P 18

۶۔Hezbollah Richard Norton:Princeton University Press © 2007,P 20

۷۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۱۰۱۔

۸۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۲۹۔

۹۔Hezbollah Richard Norton:Princeton University Press © 2007,P 21

۰۱۔ لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۹۶۱۔

۱۱۔ لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۲۰۱

۲۱۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۶۸۱۔

۳۱۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۱۶۳۔۶۵۳

۴۱۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۸۴۴

۵۱۔Frykberg, MelL (August 29, 2008). "Mideast Powers, Proxies and Paymasters Bluster and Rearm". Middle

East Times. Retrieved August 29, 2008.ماخوذ از وکی پیڈیا

۶۱۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۲۰۱۔

۷۱۔Erik AbildThesis in Development Studies - University of Oslo P 27

۸۱۔لبنان، ڈاکٹر مصطفی چمران، امامیہ پبلیکیشنز ص ۰۹۳۔

۹۱۔"Who are Hezbollah". BBC News. May 21, 2008. Retrieved August 15, 2008.ماخوذ از وکی پیڈیا

۰۲۔"The Hizballah Program" (PDF). provided by standwithus. com (StandWithUs). Retrieved October 29, 2007.ماخوذ از وکی پیڈیا

۱۲۔ Deeb, Lara (July 31, 2006). "Hizballah: A Primer". Middle East Report. Retrieved July 31, 2006.ماخوذ از وکی پیڈیا

۲۲۔"Timeline of Hezbollah operations". Camera.org. Retrieved 2011-01-27.ماخوذ از وکی پیڈیا

۳۲۔Wright, Robin. "Inside the Mind of Hezbollah". The Washington Post. Retrieved August 1, 2006ماخوذ از وکی پیڈیا

۴۲۔Hezbollah's condemnation of murder of civilians in Egypt and Algeria is described in Saad-Ghorayeb, p. 101.ماخوذ از وکی پیڈیا

۵۲۔"The Hizballah Program" (PDF). provided by standwithus. com (StandWithUs). Retrieved October 29, 2007.ماخوذ از وکی پیڈیا

۶۲http://shiacenter.org/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=2290:2011-

۷۲۔http://www.islamtimes.org/prthi-n-.23nvidl4t2.html

۸۲۔Erik AbildThesis in Development Studies - University of Oslo P45

.............

110

متعلقہ لنکس:

القاعدہ، حزب اللہ اور حماس (1)

 


source : www.sibtayn.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نيويارك میں ابراہيمی اديان كے آرٹ شاہكاروں كی ...
طالبان کو چند ممالک کی پس پردہ حمایت حاصل/ ...
عراق کے صوبہ الانبار میں 34 وہابی داعش دہشت گرد ...
انگلستان کی مساجد میں جشن عید میلاد النبی (ص) کا ...
مجلس وحدت مسلمین ملتان کی ضلعی کابینہ کا اعلان، ...
اسرائیل، سعودی عرب کو ایٹم بم فراہم کرے: صیہونی ...
حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل کرے. مولانا حسین ...
رواں سال کے اختتام تک ایران کے شہراصفہان کی سب سے ...
لورستان میں ۳۵۰ مساجد سے گرد و غبار صاف كيا جائے ...
قرآن كريم كی بے حرمتی امريكا كے خلاف ايك بہت بڑے ...

 
user comment