اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

عیسائیوں اور یہود یوں نے بے انتہا مسلمانوں کو قتل کیا

محمد المصری واٹر لوکے یونیورسٹی میں الیکٹریکل اور انجینئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ساتھ ہی ساتھ کینیڈین اسلامک کانگریس کے صدر بھی ہیں۔

تاریخی حقائق کا جائزہ لیں تو اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ کسی ملک کے ذریعہ منظم قتل عام ،کسی سیاسی گروپ کی جانب سے کیا گیا قتل کسی مذہبی جذبہ سے تحریک نہیں پاتابلکہ سیاسی طاقت اور اقتدار سے اسے تقویت ملتی ہے۔اس نظریہ کے تحت تاریخی حقائق سامنے آتے ہیں کہ دنیا کے اندر کسی دوسرے طریقہ کار کے تحت یہودیوں اور عیسائیوں نے مسلمانوں کا زیادہ قتل عام کیا ہے اور انہیں ہلاک کیا ہے۔حالانکہ یہ نظریہ موجودہ عوامی نظریہ کے خلاف کہا جائے گا لیکن بنیا دی اصولوں پر مبنی کوئی بھی تفتیش اس سچ کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہوگی۔

اس سچائی کو جاننے کے لئے یہودیوں کے تعلق سے کچھ حقیقت کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔خصوصی طورپر ان لوگوں کے لئے جو ذی اونز م یعنی صہیونیت کو کم اہمیت دیتے ہیں۔اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ صہیونیت کا مقصد کیا ہے۔صہیونیت ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا بنیا دی مقصد یہودیوں کے ایک ایسے ملک کا قیام ہے جو فلسطین میں ہو اور کسی بھی ذریعہ کو استعمال کرکے خواہ کتنا بھی تشدد کرنا پڑے۔اس کامستحکم قیام عمل میں لانا ہے۔18ویں صدی عیسوی میں اس نظریہ کو صرف 10فیصد یہودیوں کی حمایت حاصل تھی لیکن آج دنیا کے کم و بیش 90فیصد یہودی اس نظریہ کی نہ صرف پر زور حمایت کرتے ہیں بلکہ جائز ناجائز عملی، تحریری ،تقریری،مالی،سیاسی ،ہر طرح کی بھر پور معاونت بھی کرتے ہیں۔

آج سے پچاس سال پہلے سے ہی دنیا کے بہت سارے ممالک اگرچہ کسی یہودی ملک کے قیام اور توسیع کے خلاف زبردست  احتجاج کررہے تھے اس کے باوجود جہازوں میں بھر کر یوروپی یہودیوں کا گروہ کا گروہ فلسطین کے مقدس سرزمین پر پہنچنے لگا۔یہ نئے یہودی ملک کے باشندہ بننے کے لئے آئے تھے۔ان یہودیوں نے صدیوں سے آباد فلسطینی مسلمانوں کو ہتھیار ،اسلحہ اور یہودی حکومت کی شہ پر نہ صرف اجاڑنا شروع کیا ،انہیں ان کے مکانوں،کھیتوں، اثاثوں اور املاک سے بے دخل بھی کیا ۔ ان کا قتل عام بھی کیا۔ان نئے آنے والے یہودیوں کو حکومت نے فوجی اسلحہ اور ہتھیار سپلائی کیا تاکہ وہ مقامی مسلم فلسطینیوں کو ان کے آبائی قدیمی وطن سے اجاڑ کر خود وہاں بود و باش اختیار کرسکیں۔اس طرح1948تک یہودیوں نے وسیع  تر اسرائیل کا قیام کرلیا۔لیکن اس یہودی آبادی کو قائم کرنے کے لئے حکومت اور باہر سے آنے والے یہودیوں نے 15ہزار مقیم مقامی مسلم فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

1956میں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر اسرائیل نے مصر پر حملہ کردیا۔اس مختصر مگر کاری اسرائیلی ضرب نے تین ہزار  مسلم مصریوں کو ہلاک کردیا۔اس کے بعد 1967میںاسرائیل کا مشہور اسرائیلی حملہ ہواجو چھ روزہ جنگ کے نام سے مشہور ہے ۔اس جنگ میں 20ہزار عرب مسلم  جس میں مصری،شامی اور فلسطینی شامل تھے ،ہلاک ہوگئے۔یہ قتل عام بھی اسرائیل نے کیاتھا۔1973میں اسرائیل نے شام اور مصر کے 18ہزار عرب مسلم کو ہلاک کیا اور تب سے آج تک اسرائیل کا یہ خونی کھیل جاری ہے۔گذشتہ دو دہائی میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے وطن میں بری طرح ہلاک کیا ہے اور اب تک تقریباً 5ہزار مسلم فلسطینی شہری اسرائیل کی زور زبردستی،ظلم و ستم اورسیاسی غنڈہ گردی میں ہلاک ہوچکے ہیں۔اسرائیل نے ان فلسطینیوں کو خاص اسرائیل میں، مقبوضہ فلسطین میں،غازہ کے مغربی ساحل کے کنارہ پر اور لبنان میں ہلاک کیاہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل شمالی غازہ پٹی پر روزانہ بمباری کررہا ہے جس سے بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کا جانی نقصان ہورہا ہے۔

یہ تما م  قتل ایک نہایت ہولناک حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں۔اس طویل ترین منظم فلسطینی مسلمانوں کی مکمل صفائی کا پروگرام صرف اس لئے ہے تاکہ تشکیل شدہ اسرائیل(یہودی)ملک کو کسی بھی صورت میں مضبوط تر کیاجائے۔اگر چہ اس یہودی ملک کو بنانے میں اسرائیلی یہودیوں نے 60ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو قتل کیاہے۔جب کہ ابتدا سے ابھی تک دس ہزار یہودی ہلاک ہوئے ہیں۔اس اسرائیلی یہودی جنگ کا ایک اور بھی پہلو ہے۔

اس سے قبل یہ بات غور طلب ہے کہ صہیونیت نے آخر فلسطین کی سر زمین کا ہی انتخاب کیوں کیا؟دیگر یہ کہ یہی یہودی جو عرب اور مسلم ممالک میں اس زمانہ میں قیام پذیر تھے ،ان کے ساتھ مسلمانوں کا مساویانہ سلوک اور فیاضانہ رویہ تھا۔ان کے پاس دنیا وی دولت کی بھی بہتات تھی ۔انہیں دنیاوی جاہ و حشم بھی حاصل تھا۔مسلم ممالک میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ جب اسپین نے انہیں یہودیوں کو پھانسی کی سزا دی اور یہ چرچ کی جانب سے کیا گیا فیصلہ تھا تو ان یہودیوں نے اسپین سے فرار ہوکر ترکی و شمالی افریقہ میں پناہ لی۔جہاں مسلمانوں نے انہیں نہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں گلے لگا کر رکھا۔اسی طرح روس کے پوگرم میں یہودیوں کے قتل عام کے زمانہ میں بھی مشرق وسطی کے مسلم ممالک نے ان سزا یافتہ بھگوڑے یہودیوں کو پناہ دی۔

لیکن جن یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں نے ،مسلم ممالک نے اس قدر رحم، محبت،خلوص اور ہمدردی کا سلوک کیا،انہیں یہودیوں نے سیکڑوں سال سے ا پنے ساتھ کئے گئے ہمدردانہ ،دوستانہ اور پرخلوص سلوک کو فراموش کردیا اور اس کے بدلے میں جب ان یہودیوں نے اپنے وطن کی تشکیل کی تو انہوں نے کوئی بھی اچھا اور انسانی رویہ ان فلسطنیوں کے ساتھ اختیار نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ نہایت ظالمانہ غیر انسانی سلوک اختیار کیا۔جس میں اردن کے عوام کا استحصال،لبنان،مصر،شام،تیونشیا اور اب عراق  اور ایران میں ساری کارروائیاں دنیا کے سامنے موجود ہیں۔یہ ممالک راست اور غیر راست طریقہ سے انہیں یہودیوں کے عتاب کا شکار بنے ہوئے ہیں۔یہ ان انسان دوستی ،ہمدردی، اسلامی محبت و اخوت کا صلہ ہے جو ان یہودیوں نے مسلمانوں کو دیا ہے ۔آج دنیا کے مسلمان اس بات کو شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ مغربی ممالک اور یورپین ممالک میںیہودیوں کے ساتھ کئے گئے زیادتیوں کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔یہودیو ں کے اس راست اور غیر راست غصہ اور نفرت کا ہدف مسلم ممالک اور وہ مسلمان بن رہے ہیں جنہوں نے ان کی مد د اور معاونت کی تھی ۔اور یہ سمجھنے میں وہ حق بجانب ہیں کہ مغربی ممالک اور یورپین ممالک کے ذریعہ یہودیوں پر کئے گئے ظلم کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔اس کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے فوجی اور غیر فوجی کارروائی میں فلسطینیوں کے قتل عام ،ان پر بمباری اور گولہ باری کے خلاف اقوام متحدہ میں آج تک کوئی بھی مذمتی قرار داد پاس نہیں ہوا۔فلسطینیوں کو اسرائیلی یہودیوں کے شکل میں نہایت جابر اور ظالم فاتح ملا ہے جو نسلی مذہبی عصبیت کا مارا ہوا ہے اور اس صدی کی بدترین قوم ہے۔

حال ہی میں حماس پارٹی کو عوامی رائے سے اقتدار حاصل ہوا لیکن نسلی اور مذہبی منافرت اور عصبیت کی شکار اسرائیلی حکومت اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور یہودیKessnetنے فلسطین کی وہ رقم بھی اسے دینے سے انکار کردیا جو ٹیکس سے حاصل ہواتھا اور فلسطینی حکومت کی امانت و ان کا حق تھا۔  یہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کس  قدر عدم معاونت کے اصولوں پر کاربند ہے اور مسلمانوں سے کس قدر نفرت کرتی ہے ۔صہیونی حکومت کی حفاظت کے لئے تعمیر کی گئی دیوار زبردستی قائم کی گئی ہے۔ یہ مغربی  غازہ کے فلسطینی زمین پر قائم کی گئی ہے ۔اس کی وجہ سے فلسطینی اپنے کھیت ،باغات ،بازار ،زیتون کے باغات،اسکول اور ملازمت ،سبھی سے محروم ہوگئے ۔گویا ایک طرح سے یہ قیدی ہیں جنہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔بجائے اس کے کہ اسرائیل ان علاقوں سے اپنا قبضہ ہٹاتا،اسرائیل اپنے فوجی طاقت کا استعمال فلسطنیوں کو دبانے اور کچلنے  کے لئے کررہا ہے۔حالانکہ یہ تمام عمل امن اور انصاف کے بالکل منافی ہے جیساکہ مذاہب کی تعلیم یہی ہے۔

جہاں تک عیسائیوں کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل کی بات ہے  ،عہد وسطی میں صلیبی جنگ کے زمانہ سے اس کی ابتدا ہوئی جس میں اسپین سے مسلمانوں کی حکومت ہی نہیں ختم ہوئی بلکہ مسلمان بھی ختم ہوگئے۔اسی عہد میں یورپین شہنشاہیت نے مسلم ممالک پر قبضہ جمالیا اور انڈونیشیا سے مراقش تک ،ہندوستان اورمشرق وسطی تک اور ابھی حال میں ہی امریکی اتحادی ممالک کی فوج نے صلیبی جنگ لڑکر افغانستان اور عراق پر قبضہ جمالیا۔اس جنگ میں کروڑوں مسلم و عرب ہلاک ہوئے۔

اس مقام پر ایک بات غور طلب ہے کہ اگر عیسائیت ،یہودیت اور اسلام تینوں ہی الگ الگ عقیدوں کے مذاہب ہوتے تو ایسے تمام جنگ کا نقشہ دیگر ہوتا لیکن تینوں ہی دین ابراہیمی سے وابستہ اور کتاب کے حامل ہیں۔لیکن اپنے مذہبی اور دینی تعلیم سے یہود اور عیسائی گمراہ  مذاہب ہیں۔جس کا مقصد سیاسی غلبہ اورجنگ کے ذریعہ قابض ہونا ہے ۔لیکن ان حالات میں بھی مسلمانوں ،عیسائیوں اور یہودیوں کا جانی نقصان تقریباً برابر برابر ہونا،یہ حالات آج یہ بتاتے ہیں کہ کیوں بہت سارے یہودی اسلام سے اور مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ان کی نفرت صرف فلسطینیوں سے نہیں ہے ۔اگرچہ ایسی حرکتوں کا کوئی مذہبی جواز نہیں ہے لیکن گروپ اور افرادی طاقت کے زور پر یہ لوگ ہر ایک حال میں ایک ایسے ملک اور قوم کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور ان کی راہ میں جو بھی آئے گا خواہ وہ حق پر ہو ،یہ اسے برباد کردیں گے ۔کیا تینوں مذاہب ان معاملات کو آپسی اتفاق سے سلجھا سکتے ہیں۔لیکن اس میں سخت جد و جہد اور محنت کی ضرورت ہے اور انصاف کے ذریعہ ہی امن کا ماحول قائم کیا جاسکتاہے ۔اور یہ ذمہ داری اسرائیل پر ہی عائد ہوتی ہے کہ

وہ دیگر مغربی ممالک کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل نکالے۔ 


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی

 
user comment