تمہید :
دنیا کے تمام آسمانی دینوں میں ایک عظیم مصلح کا انتظار شامل ہے ہر قوم اس کو ایک مخصوص نام سے یاد کرتی ہے۔ اس بناء پر انتظار صرف اسلامی عقیدہ نہیں بلکہ تمام ادیان و مذاہب اپنے عقائد کے اختلاف کے باوجود ، اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں ۔ یہ عقیدہ محض ایک تسکین نہیں بلکہ نیکی اور قوت کا سر چشمہ ہے کیونکہ حضرت امام مہدی (عج) کے ظہور پر ظلم اور جور کے خاتمہ پر یقین ہے۔ آپ (عج) کا تصور جھانی ہے اور تاریخی اعتبار سے اسلام سے پہلے سے ہے لیکن اسلام نے اور بالخصوص عالم تشیع نے آپ (عج) کے جو علامتیں و خدوخال متعین کئے ہیں وہ سب سے واضح تر ہیں ۔ شیعہ عقیدہ کے لحاظ سے آپ (عج) جسمانی طور پر زندہ ہیں اور یہی مرکزی خیال غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ کی بنیاد ہے۔ وہ محض ایک اجنبی نجات دہندہ نہیں اور نہ ہی ایک تخیلی ہستی ہیں بلکہ ایک معین فرد ہیں جو ہمارے درمیان ایک حقیقی انسان کی مانند زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہماری امیدوں ، خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں۔ دنیا کے مظالم کو دیکھتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح خود بھی متاثر ہوتے ہیں اور اس معینہ وقت کے انتظار میں ہیں جب ان کو ظاہر ہو نے کا حکم دیاجائےگا ۔
انتظار لغت میں راستے پر آنکھ لگائے تیاری کرنا اور آئندہ پر ایک بہتر قسم کی امید رکھنا ، کے معنی میں ہے ۔اس بناء پر انتظار ، اس روحی حالت کو کہا جاتا ہے جو انسان کو موجودہ حال سے نکال کر اچھے اور بہتر حال میں لے جائے، اپنے سے یاس اور ناامیدی دور کرے، خوشی اور نجات کی کرن پیدا کرے، ساتھ ہی اپنے اور دوسروں کے اندر عملی حرکت پیدا کرے۔پس انتظار صرف ايک اندروني حالت کا نام نہيں ہے بلکہ اس حالت کا نام ہے جو انسان کو روشن مستقبل کے لئے آمادہ کرتی ہے اس ميں حرکت ٬ نشاط ، شادابي اور خوشحالي ايجاد کرتی ہے . پس جتنا انتظار زیادہ ہوگا اتنا ہی انسان زیادہ مادہ ہوگا ۔
انتظار ، دین کے اصلی اور حقیقی عقائد اور معارف پر اس اعتقاد کا نام ہے ، کہ ایک دن پوری دنیا ، ولایت کی حکومت ، طاقت ، اور قوت کے زیر سایہ آجائےگی اور اس کی عظیم الشان اور نا شناختہ حکومت دنیا کی تمام تر ظالم و جابر طاقتوں اور حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردےگی اور دنیا کی یہ مادی تہذیب و تمدن ولایت الٰہی کی اس بے پناہ طاقت اور حکو مت کے سا منے تاب نہ لا تے ہو ئے مصلح جہان کے دائرے میں آجا ئے گی ۔
حضرت امام مہدی (عج) کا انتظار چونکہ حجت خدا اور پيغمبراکرم ﷺ کے حقیقی جانشين کا انتظار ہے لھذا حقیقی انتظار کو مختصر بیان کرتے ہیں۔
انتظار کے حقیقی معنی جس کے بارے میں بہت سی احادیث و روایتیں وارد ہوئی ہیں، حقیقی انتظار کرنے والے کو "سچّا منتظر" "مجاھد" اور "شھید" کا درجہ دیا گیا ہے ۔ انتظار فرج کو افضل ترين عمل اور افضل ترين عبادت سے تعبير کیا گیا ہے جیسا کہ پيامبر اکرم ﷺ فرماتے ہيں: ( أفضل اعمال أمتي انتظار الفرج) ؛ (ميري امت کے اعمال ميں سے سب سے زيادہ فضيلت والا عمل انتظار فرج ہے ) . ایک اور جگہ فرماتے ہیں : (افضل العبادۃ انتظار الفرج) ۔
اس بناء پر حقیقی منتظر وہ ہے جو خود کو خداوند متعال کے نیک اور صالح بندوں کی صف میں لانے کی کوشش کرےگا اور زندگی کے ہر پہلو میں دین کے قوانین اور احکام کو جاری کرتے ہوئے صحیح معنوں میں دستورات دین پر عمل پیرا ہوگا ،اپنے اور معاشرے کے لوگوں کو بھی امام ؑ کے ظہور کے لئے تیار کرےگا۔ حضرت امام صادق ؑ ایک روایت میں فرماتے ہيں : جو شخص يہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ حضرت امام مہدی (عج) کے محبوں ميں سے ہو اُسے چاہئے کہ وہ ظہور حضرت امام مہدی (عج) کا منتظر رہے اور انتظار کے ساتھ اپنے آپ کو تقوي اور نيک اخلاق سے آراستہ و مزين کرے ۔
اسلامی معاشرہ بالخصوص مذہب تشیع میں انتظار کا عقیدہ ضروریات دین اور قطعی ترین مباحث میں سے ہے کہ جس کو پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی زبان مبارک سے بیان ہوا ہے، اسلام کے دوسرے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور احادیث بھی متوا تر ہیں۔ لھذا فلسفہ انتظار کو سمجھنے کے لئے یہاں چند سوالات کا بتانا ضروری ہے :
کیا انتظار کا عقیدہ انسان کو اپنی آرزو میں کامیاب بناتا ہے یا نہیں؟
کیا یہ عقیدہ انسان کو اپنے اور معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دیتا ہے؟ یا فساد اور گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے ؟
کیا یہ عقیدہ انسان کے اندر تحرک ایجاد کرتا ہے یا اس میں انجماد پیدا کردیتا ہے؟
کیا یہ عقیدہ انسان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ کرتا ہے یا ذمہ داریوں سے سبک دوش کردیتا ہے؟
کیا یہ عقیدہ انسان کو بیدار کرتا ہے یا غفلت کی نیند سلادیتا ہے ؟
اب ان کے جوابات میں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ انتظار کی حقیقت کیا ہے؟ انتظار کیوں کریں؟ انتظار کی غرض و غایت کیا ہے؟ انتظار کی اصلی بنیاد کیا ہے؟ و۔۔۔ ان تمام پہلوؤں کو واضح کرنا گنجائش سے باہر ہے، صرف فلسفہ انتظار کے تین منفی نظریات کی طرف بہت ہی مختصر اشارہ کرتے ہیں ۔
عام افراد کے نزدیک انتظار کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے ذہن میں یہ تصور قائم کر لیں کہ ہمارے امامؑ اس وقت پردہ غیبت میں موجود ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے ۔ اس تصور کا دوسرا نام انتظار ہے اور اس تصور پر ہمیں ثواب بھی نصیب ہوگا ۔
فلسفہ انتظار صرف اصلاح کے لئے ہے چونکہ ائمہ معصومینؑ کے روایات میں انتظار کے بارے میں یہ تعابیر بیان ہوئی ہیں کہ یہ دنیا فاسد ہوجائے گی، ہر طرف فساد پھیل جائےگا اور اس فساد کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ اس بناء پر ہم خود اصلاح نہیں کر سکتے ہیں، ہمیں اصلاح کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، خود امامؑ ہی آکر ہماری اور معاشرے کی اصلاح کریں گے! ۔
یہ نظریہ ان روایات سے لیا گیا ہے جو حضرت حجت (عج) کے ظہور کے بارے میں آیا ہے : '' یملاء الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً … '' یعنی جب حضرت (عج) ظہور فرمائیں گے تو اس زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح ظلم و ستم سے بھری ہوگی ۔ یہاں چونکہ ظہور کی شرط ، زمین کا ظلم و ستم سے بھر جانا ہے، جب تک زمین ظلم سے بھر نہیں جاتی وہ تشریف نہیں لائیں گے اس لئے ہم زمین کو فسادظلم و ستم اور نا انصافی سے بھر دیں کیونکہ جتنی جلدی زمین ظلم و ستم سے بھرےگی اتنا ہی جلد ان کا ظہور ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روایتوں سے بعض بے خبر اور خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ کئے ہیں جن کی بناء پر اس قسم کی منفی اور انحرافی نظریات وجود میں آگئی ہیں ۔
ان چند فوائد اور آثار کے ضمن میں دیا جاسکتا ہے جن کو علماء اور محققین حضرات نے آیات و روایات کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔ اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے، انسان کی زندگی پر کیا اثرات و فوائد مرتب ہوتے ہیں ؟ انسان کے طرز فکر میں کون سی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے؟ ۔
یہ عقیدہ انسان کو ایک ذمہ دار شخص بناتا ہے ؛
یہ عقیدہ انسان میں ایک جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے ؛
یہ عقیدہ انسان کو ایک ایسی قوت عطا کرتا ہے جس سے وہ مشکلات کا ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کر سکے ؛
یہ عقیدہ انسان کو امید دلاتا ہے اور مشکلات و مسائل میں کبھی بھی نا امید نہیں ہوتا ؛
یہ عقیدہ انسان کو صبر و استقامت کا درس دیتا ہے ؛
یہ عقیدہ انسان کو اپنے امام (ع) کے ظہور کے لئے آمادگی کی طرف گامزن کرتا ہے اور ہر قسم کی سستی ، غفلت اور گناہوں سے پرہیز اور معاشرہ میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے دعوت دیتا ہے ۔
یہ عقیدہ و۔۔۔ بہت سے فوائد اور آثار رکھتا ہے مگر ان تمام کو یہاں اختصار کی خاطر بیان نہیں کرسکتے ہیں ۔
حکومت جھانی حضرت امام مھدی(عج) اور اس کے انتظار کا عقیدہ ایک عالمی نظریہ ہے، تمام آسمانی دینوں حتی لادینی مکاتب فکر بھی اس عقیدہ میں مشترک ہیں لیکن اس شخصیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ شخص کون ہوگا جس کے ہاتھوں عالمی انقلاب وجود میں آۓگا ۔
تمام مسلمانون کا متفقہ عقیدہ ہے کہ آپ کی ذات مقدس حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے خاتم النبیینﷺ سے فاطمہ زہرا(س) سے امام حسینؑ کی نسل سے ہیں۔ مسلمان بالخصوص مذہب تشیع میں انتظار یعنی امام زمانہ (عج) کی امامت و ولایت پر، اس کے ظہور پر مضبوط ایمان رکھنا اور ساتھ ہی افراد صالح کے ہاتھوں حکومت جھانی کے آغاز پر عقیدہ رکھنا ہے ۔ اس بناء پر مسلمان قرآن کے واضح وعدوں پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ الہی سنت کی یہ خلقت ، دنیا میں خدا کے وعدوں کے مطابق حرکت کررہی ہے ۔ گرچہ دنیا کے چند روز ظالموں کے فائدہ میں جارہی ہے لیکن ایک دن حکومت جھانی ، صالح اور حق پرست افراد کے ہاتھوں آئے گی اور خدائی قانون کے مطابق پوری دنیا میں عدل و انصاف برقرار ہوگا۔ اب ہم یہاں بطور مختصر آسمانی کتابوں میں چند نمونےان آیات کا ذکر کرتے ہیں جو آخری زمانے میں حکومت جھانی پاک و صالح افراد زمین کے وارث ہوں گے اور دنیا والے خواہ جس مکتب سے ہوں ، اس منجی عالم بشریت کے ظھور کے لئے لحظہ بہ لحظہ انتظار کررہے ہیں :
قرآن کی بہت سی آیات مثلا سورہ توبہ آیت نمبر 32 و 33 ، سورہ نور آیت نمبر ۵۵ ، سورہ غافر آیت نمبر51 ، سورہ انبیاء آیت نمبر ۱۰۵ و ۱۰۶ ، سورہ قصص آیت نمبر ۴ ، سورہ سجدہ آیت نمبر ۲۸ و ۲۹ ، سورہ صافات آیت نمبر ۱۷۱ و ۱۷۳ ؛ سورہ حج آیت نمبر ۴۱ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا ایک ایسے دن کی منتظر ہے جس دن پوری دنیا کی حکومت ، پاک و صاف انسانوں کے ہاتھوں آئے گی اور جس دن کا مسلمان شدت سے انتظار کررہے ہیں وہی امام مھدی (عج) کے قیام کا دن ہے ۔
مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کے ہم سب منتظر ہیں وہ جناب مسیحؑ ہیں ۔ یہودیوں کے قتل کے بعد اﷲ تعالی نے انہیں دوبارہ زندگی دی اور آسمان پر لےگئے تاکہ آخری زمانہ میں انہیں دوبارہ زمین پر بیھج دیا جائے اور ان کے ذریعے ہی وعدہ الہی پورا ہو ۔
انجیل کے بہت سے مقامات پر اس عقیدہ کا ذکر ملتا ہے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
(( اور عنقریب جنگوں اور اسکی افواہوں کو سنیں تو کبھی ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے بے صبری کا اظہار کریں، اس لیے کہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے ، لیکن وہ دن وقت تاریخ کا اختتامی زمانہ نہیں)) ؛ (( اپنی کمر کو باندھ لو اور اپنے چراغوں کو روشن رکھو اور رات میں اس طرح رہو جیسے کوئی اپنے مالک کا انتظار کرتا ہے ........)) ؛ (( کتنے خوش نصیب ہیں وہ افراد جن کا مالک آنے کے بعد ان کو جاگتا ہوا پائے........)) ؛
(( بس تم بھی تیار رہو کیونکہ انسان کا بیٹا اُس وقت آئےگا جس کے بارے میں تمہیں گمان بھی نہ ہو گا)) ؛ (( مہدیؑ اور عیسیٰؑ دجال اور شیطان کو قتل کریں گے )) ۔ اسی طرح پورا واقعہ جس میں شہادت امام حسین ؑ اور ظہور امام مہدی (عج) کا اشارہ کتاب انجیل ، دانیال باب 12 فصل 9 آیت 24 رویان 2 میں موجود ہے )) ۔ (( تم ایسے لوگوں کی طرح رہو جو اپنے آقا کا انتظار کر رہے ہوں)) ۔
(( آخری زمانہ میں جو انصاف کا مجسمہ انسان آئےگا اس کے سر پر بادل سایہ فگن ہوگا)) ۔
((آخری زمانے میں تمام دُنیا توحید کی ماننے والی ہو جائے گی)) ۔ (( جو آخر زمانے میں آئے گا اس پر آفتاب اثرانداز نہ ہو گا)) ۔ (( ان کے ظہور کے بعد ساری دُنیا کے دُکھ مٹا دیئے جائیں گے، ظالم اور منافق ختم کر دیئے جائیں گے ، یہ ظہور کرنے والا کنیز خدا (نرجس خاتون) کا بیٹا ہو گا)) ۔
زرتشتیوں کا عقیدہ یہ ہے: ایک مرد سرزمین نازیان سے جو ھاشم کے ذریت سے ہوگا خروج کرےگا ۔۔۔ ، اپنے جد کے دین اور فراوان لشکر کے ہمراہ ایران کی طرف آئےگا، زمین کو آباد کرےگا اور اسکو عدل سے بھردےگا ۔ ایک اور جگہ رسول خدا(ص) کی نبوت کی بشارت کے بعد آیا ہے : وہ پیامبر جوخورشید عالم اور شاہ زمان سے معروف ہے اس کی بیٹی کے نسل سے ایک مرد خلافت پر پہنچےگا ، دنیا میں یزدان کی حکم سے حکومت کرےگا، وہ اس پیامبر کا آخری خلیفہ ہے درمیان عالم یعنی مکہ میں، اس کی حکومت تا روز قیامت قائم رہےگی دین زرتشت اپنے تمام تر تحریفات اور نواقص کے باوجود ، مھدویت کے مسئلے کے بارے میں مکمل بحث کی ہے ۔ ان کے ہاں ایک ایسا شخص ( سوشیانت ) آئندہ ظھور کرے گا اور دین زرتشت کے پیروکاروں کو اہریمنوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائے گا اور عدالت کو زمین میں پھیلائےگا ۔ مسٹر جان بی ناس اپنی معروف کتاب میں اس طرح کہتا ہے : (( زرتشتی دین وہ سب سے پہلی مذہب ہے کہ جس نے قیامت کے بارے گفتگو کی ہے اور آخرالزمان کے بارے مکمل بحث کیا ہے )) ۔
یہودی قوم کا نظریہ ہے کہ وہ شخص جناب إسحاقؑ کے نسل سے ہوگا ابھی دنیا میں نہیں آیا ہے بعد میں آئےگا؛ چنانچہ توریت کا یہودی مفسر “حنان إیل ” سفر تکوین نمبر۱۷ إصحاح نمبر ۲۰ کے ذیل میں لکھتا ہے : اس آیت کے پیشن گویی سے ۲۳۳7 سال گزر گئے یہاں تک عرب إسماعیلؑ کی نسل سے ایک عظیم امت کی شکل میں پورے عالم پر غالب آیا ہے کہ جس کے جناب إسماعیلؑ مدّتوں سے منتظر تھے لیکن ذریہ اسحاقؑ میں ہماری گناہوں کی وجہ سے خدائي وعدہ اب تک پورا نہیں ہوا ہے پھر بھی ہمیں اس حتمی وعدے کے پورے ہونے میں نااُمید نہیں ہونا چاہئیے –
(( توریت کے سفرِ انبیاء : مہدی (عج) ظہور کریں گے، عیسیٰؑ آسمان سے اُتریں گے، دجال کو قتل کریں گے)) ؛
(( اشرار اور ظالموں کی موجودگی سے آزردہ خاطر نہ ہو کیونکہ ظالموں کا سلسلہ عنقریب ہی ختم ہو جائےگا اور عدل الٰہی کے منتظر زمین کے وارث ومالک بن جائیں گے اور قابل لعنت افراد متفرق ہو جائیں گے اور نیک بندے ہی زمین کے مالک ہوں گے اور دنیا کے آخری دور تک وہی آباد رہیں گے)) ؛ ((عہد قدیم (توریت) میں مزامیر داؤد نامی کتاب میں مرقوم ہے کہ خداوند عالم کے معتبر لوگ زمین کے وارث ہوں گے)) ۔
امریکا کا مشهورمسیحی مؤلف اپنی کتاب (قاموس المقدس) میں یہودیوں کے انتظار پر عیقدے کے متعلق یوں لکھتا ہے : {یھودی نسل در نسل عہدقدیم (توریت ) کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی بامشقت طویل تاریخ میں ہر قسم کی ذلتوں ، اذیتوں، رسوائیوں اورشکنجوں کو صرف اس اُمید کے ساتھ برداشت کیا کہ ایک دن مسیحا (منجی یہودیت ) آئیں گے اور انہیں ذلت ،خورای ، رنج و مصیبتوں کے گرداب سے نجات دلائیں گے اور ہمیں پوری کائنات کا حاکم بنائیں گے ۔ لیکن اس انتظار سوزان کے بعد جب جناب مسیح اس دنیا میں آۓ تو اُن میں کچھ وہ صفتیں نہیں پائیں جن کا مسیحا میں ہونا ضروری سمجھتے تھے؛ چنانچہ انہوں نے ہی اُن کی مخالفت شروع کی یہاں تک ان کو سولی پر چڑھایا اور قتل کیا ۔ پھر کہتا ہے انجیل میں بھی منجی عالم بشریت کو فرزند انسان کے نام سے اسی جگہوں پر پکارا ہے ان میں سے صرف تیس مورد میں حصرت مسیح صدق آتے ہیں باقی پچاس مورد ان پر صدق نہیں آتے بلکہ یہ ایک ایسے مصلح اور منجی جھانی کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو آخری زمانہ میں ظھور کریں گے -
یہودی اور مسیحي انیسویں اور بیسویں صدی میں اپنی دیرینہ دشمنی کے باوجود اس نتیجے پر پہنچے کہ منجی“مسیحا ” کے ظہور کے لئے سیاسی سطح پر زمین ہموار کرنے اور سیاسي پشت پناہی کے طور پر ایک مشترکہ حکومت وجود میں لایا جاۓ ۔ اس سیاسی طرز فکر کے نتیجے میں اسرائیلی غاصب حکومت فلسطینیون کے آبائی سر زمین پر وجود میں لائی گئی اور اسی نظریے کے پیچھے امریکا و یورپین ممالک کے سینکڑوں چرچوں اور مسیحی تنظیمون نے اسرائیل کی جارحانہ اور غاصب حکومت کی پشت پناہی بھی کی ۔ اور ۱۹۸۰ عیسوی میں انٹرنیشنل ام بی سی اف کرسچن قدس میں تاسیس ہوئی جس کااصلی ہدف یوں بتایا گیا (ہم إسرائیلیوں سے زیادہ صهیونیزم کے پابند ہیں اور قدس وہ شھر ہے جس پر اﷲ تعالی نے اپنا خاص کرم کیا ہے اور اسے تا ابد اسرائیلیوں کے لیے دیاہے ) ۔ اور اس کرسچن سفارت کے اراکین کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر اسرائیل نہیں تو جناب مسیحؑ کے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے چنانچہ اسرائیل کا وجود مسیح منجي عالم کےلیے ضروری ہے ۔
یہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب یھود اور نصاری عقیدہ انتظار کے سیاسي پہلو کی روشنی میں اپنی دیرینہ دشمنیوں کو بھول کر اسلام اور مسلمین کے خلاف ایک غاصب حکومت وجود میں لا سکتے ہیں تو کیا ، ہم مسلمان اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس حکومت عالمی و الہی نظام کے لیے زمین ہموار نہیں کرسکتے ؟! تو آئیں انقلاب إسلامی ایران کا ساتھ دیں۔ امام خمینی (رہ) إنتظار کے سیاسي پہلو پر عمل کرتے ہوئےاُس عالمی الہی نظام کے لئے مقدمے کے طور پر اسلامي جمہوریت کو وجود میں لائے۔اور اس وقت دنیا کے دوسرے مسلمان ممالک میں جہاں انقلاب إسلامی ایران کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی بیداری کی لہر دوڑ رہی ہے ، ان کی کامیابی کے لئے دعا کریں تاکہ اس بابرکت اصلاحی قدم پر قدم رکھتے ہوئے عصر ظھور کیلیے زمینہ فراہم ہوسکے شاید وعدہ إلہی کا تحقق نزدیک ہو۔ إنشاء اﷲ
عالم بشریت کے نجات دہندہ ، مھدی موعود ، خدا کی آخری حجت ، پیغمبراسلام (ص) کے آخری حقیقی جانشین ، زمین کے آخری وارث یعنی امام المنتظر (عج) کے انتظار کا عقیدہ ، تمام آسمانی دینوں حتی لادینی مکاتب فکر میں مشترکہ تصور ہے ۔ دین اسلام بالخصوص مذہب تشیع میں انتظار کا عقیدہ ضروریات دین میں سے شمار ہوتا ہے ، ہماری روایات میں جو علامتیں اور خدوخال متعین کئے ہیں وہ سب سے واضح تر ہیں اور اسے کسی دوسرے دین یا دیگر مکاتب فکر سے نہیں لیا گیا ہے ۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہم انتظار کے حقیقی معنی سے آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں ، اُسے سیکھنا اور سکھانا ، ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
اب ہم اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انتظار کے عظیم مراتب پر فائز ہوسکتا ہے جن کے ایمان پختہ ہوں، عقائد مستحکم ہوں، انتظار کے صحیح معنی پر عمل پیرا ہونے والے افراد ہی ان صفات کے مالک بن سکتے ہیں جن کا روایات میں ذکر ہوا ہے ۔ انتظار کے فوائد و آثار بہت زیادہ ہیں منجملہ ؛ اپنے عقائد کا تحفظ ، گناہوں سے پرہیز ، رکاوٹوں کو دور اور تاریکیوں سے نجات ، غم زدہ ، افسردہ دل کو تقویت و امید ، نشاط و شادابی تمام مشکلات و مصائب کا ڈٹ کرمقابلہ ، بافضیلت ترین اور کاملترین افراد کے زمرے میں شمول و۔۔۔
1 ۔ محمد باقر الصدر ، انتظار امام ، نقل از انتظارِ امام مہدی (ع) اور تشیع کا سفرِ علم و دانش ، عاشق قرآن بلاگفا
2 ۔ بحار الانوار٬ ج۵۲ ٬ ص۱۲۲
3 ۔ کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹
4 ۔ غيبت نعماني٬ ص۲۰۰
5 ۔ کسی بھی مطلب یا چیز کے موضوع سے مربوط چند بنیادی سوالوں کے جواب سمجھنے کو فلسفہ کہا جاتا ہے
6 ۔ mashrabenaab.com
7 ۔ مقالہ : امام زمانہ آسمانی کتابوں کی منظر میں shia.com
8 ۔ ناصر مکارم شیرازی ، بہار انقلاب ؛ مقالہ انتظار امام مھدی اور تشیع کا سفر علم : erfan.ir
9 ۔ کتاب حضرت داؤدؑ زبور ، آیات 4 مرموز 98، نقل از امام زمانہ آسمانی کتابوں کی منظر میں shia.com
10 ۔ کتاب صوفیائے پیغمبر ، فصل 3 آیت 9 ، ماخوذ اسی سے
11 ۔ کتاب زبور ، مرموز 120، ماخوذ اسی سے
12 ۔ صحیفہ تنجاس ، حرف الف ، نقل از امام زمانہ آسمانی کتابوں کی منظر میں shia.com
13 ۔ موعود شناسی ص۱۰۹
14 ۔ موعود شناسی ص۱۰۹
15 ۔ تاریخ جامع ادیان ، ص ۳۱۰
16 ۔ shia.com
17 ۔ مقالہ: انتظارِ امام مہدی (ع) اور تشیع کا سفرِ علم و دانش ، shia.com ؛ erfan.ir
18 ۔ قاموس مقدس : مسٹر ہاکس ، ص۸۰۶
19 ۔ قاموس مقدس ، ص ۲۱۹ : نقل از کتاب ، وہ آجائےگا ، ص ۳۳
20 ۔ (الصیہونیۃ فی امریکا ) امریکا میں صھونیزیمصھیونیزم: حسن حداد ، مجلہ شؤون فلسطینیہ ش ۹۲و ۹۳ ،۱۹۹۰ ؛ رسالہ موعود نمبر ۱۱ ، ص ۱۸۱، بہت کم اختلاف کے ساتھ
source : alhassanain