اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ اہل تشیع نے دہشتگردی اور تکفیریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، شہدا کی قربانیاں پیش کیں مگر ملکی اور قومی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی، اتحاد امت کو مضبوط کیا، ہم نے ثابت کیا کہ تشیع فرقہ نہیں، دین اسلام کے پیرو کار عاشقان مصطفی اور محبان اہل بیت کا مکتب ہے، شیعہ کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے ناپاک خواب دیکھنے اور فتوے لگانے والے گندگی کے ڈھیر پر کھڑے تنہائی کا شکار اور ہم قومی دھارے کا مضبوط حصہ ہیں۔ اسلامی تحریک پنجاب کے سیاسی سیل کے چیرمین میاں فرزند علی چھچھر سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ مفتی جعفر حسین مرحوم اور شہید علامہ عارف حسین الحسینی رحمتہ اللہ علیہ کی میراث تحریک جعفریہ نے تشیع کے حقوق اور جمہوری جدوجہد میں جو کردار ادا کیا، وہ تاریخ کا سنہری باب ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل ضیا الحق کی شخصی آمریت کیخلاف تشکیل پانیوالے سیاسی اتحاد تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) میں شمولیت سے تحریک جعفریہ نے عملی سیاست کا آغاز مفتی جعفر حسین مرحوم کے آخری بیانیہ کے مطابق کیا، 1987ء کی قرآن وسنت کانفرنس میں شہید الحسینی کا سیاسی اعلان ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور اسی بنیاد پر 1988ء میں باقاعدہ انتخابی سیاست میں عملی طور پر حصہ لیا۔ پھر پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس اور متحدہ مجلس عمل کے ذریعے انتخابی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا اور کبھی کسی کی خواہش کی تکمیل یا کسی کو دباو میں لانے کیلئے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے قوم کو شرمندگی ہو۔
انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے ہماری جدوجہد سب کے سامنے ہے، ہم نے گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی، اس سے بھی زیادہ بہتر کردار ہم 2018ء کے انتخابات میں ادا کریں گے، جس کیلئے تنظیمیں ابھی سے تیاری کرلیں، ہم سیاسی صف بندی کو دیکھ رہے ہیں اور چاہیں گے کہ متحدہ مجلس عمل کی جماعتیں اکٹھی ہوں یا کوئی نیا پلیٹ فارم بنے اور سمجھتے ہیں کہ مذہبی سیاسی قوتوں کو مضبوط کرنے سے ملکی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ گلگت بلتستان پاکستان کا مضبوط دفاع اور وفادار لوگوں کا خطہ ہے مگر حکمرانوں کی مصلحتوں کے باعث اس علاقے کو سر زمین بے آئین رکھا گیا، ہم نے گلگت بلتستان میں حکومت تشکیل دی اور اس کے بعد بھی مشکل حالات کے باوجود اپنا کردا راد کیا۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے نام پر انارکی اور بدامنی پھیلائی گئی، مگر ہم نے حالات کا مقابلہ کیا اور آئندہ بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف فتوے بازی کرنیوالے بازاری قسم کے لوگ پالے گئے، فتویٰ ساز فیکٹریاں پیدا کی گئیں اور شخصی نظریات کو اسلام بنا کر پیش کرنے کی غلیظ مہم جاری رکھی گئی، اس دوران فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی گئی جس کا سب سے زیادہ شکار اہل تشیع ہوئے، نفرت کی بنیاد پر سیاست کرنے کی معاشرے اور آئین میں کوئی گنجائش نہیں اور ایسا کرنے والوں کو اب منہ چھپانے کیلئے جگہ نہیں مل رہی، وہ اپنی موت آپ مر چکے اور حرف غلط کی طرح مٹ جائیں گ، انشااللہ ان کا حشرہ بھی تاریخ کے منفی کرداروں جیسا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے جبکہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی رائے سے ریفرنڈم کے ذریعے کیا جائے
source : abna24