'فلسفئہ خودی'' اقبال کی فکری کائنات کا مرکز و محور ہے۔ اگر اس مرکز کو اپنی جگہ سے ہٹایا جائے تو اس فکری کائنات میں محشر بپا ہوگا۔ اس لحاظ سے اقبال کی شاعری اور فکرو فلسفہ کا جزوی مطالعہ کسی طور بھی اقبال شناسی میں معاون ثابت نہیں ہو گا۔ یہاں ایک مربوط و منضبط فکری نظام کار فرما ہے۔ جو مبسوط اور منّظم مطالعہ کا متّقاضی ہے۔ قاری، محقق یا نقاد کسی بھی موضوع کے تحت فکرِ اقبال پر اظہار خیال کرنا چاہے۔ تو اُسکے لئے لازمی ہے کہ وہ علامہ کے فکری التزام اور فنی دروبست سے کماحقہ، اَشنا ہو۔ علی الخصوص ''فلسفئہ خودی'' سے اعراض اس سلسلے میں نیم نگاہی پر منتج ہوگا۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر زپرِ بحث عنوان کی بعض مخفی جہات کا سراغ فلسفئہ خودی میں بھی مل سکتا ہے۔
تصّورِ خودی دراصل قرآن کے تصّورِ نیابتِ الہیٰ کی فلسفیانہ اور بلیغانہ تفسیر ہے۔ نائب کی عظمت ور فعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ وہ کس کے حکم سے کس کا نائب مقرر ہوا ہے؟۔ قرآن مجید میں تخلیق آدم کے تعلق سے جو تصریحات ملتی ہیں۔ ان کے مطابق خالق کائنات نے انسان کو اپنے ہی حکم سے خود اپنا نائب مقرر فرمایا ہے۔ نظریہ خودی کی تشکیل میں تین منابع خاص طور سے اقبال کے زیرِنظررہے ہیں ١)تصّوف کا وجودی نظریہ ٢)نطشے کا نظریۂ فوق البشر اور ٣)کلامِ مجید کا نظریۂ نیابت۔ علامہ اقبال نے جب ان تینوں نظریات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ تو وہ اسی نتیجہ پر پہنچے کہ قرآن نے انسان کو عظمت و رفعت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مسئولیت سونپی ہے۔ تصّوف کا نظریہ و حدت الوجود در اصل اس مسئولیت سے راہبانہ فرار ہے نیز نطشے کے افکار باغیانہ فرار کے غماز ہیں۔ اس ''راہبانہ فرار '' اور''باغیانہ فرار'' سے بیرون اور افراط و تفریط سے منزّہ ''نظریہ ٔ خودی'' کا اصل مقصد یہی ہے کہ انسان اُس ''باطنی کائنات'' کی بو قلمونی کا چشمِ بصیرت سے مشاہدہ کرے۔ جس کو جناب امیر نے پوشیدہ ''عالم اکبر'' کہا ہے۔ تاکہ انسان عرفانِ ذات کے جام سے سرشار ہو کر تسخیر کائنات کی پر خار و دشوار گزار مرحلے کو عبور کرکے بارگاہِ ایزدی تک رَسائی حاصل کر سکے۔ نیز اپنی شخصیت کی تعمیر کیلئے اپنی تمام تر خلاّقانہ صلاحتوں کو بروئے کار لائے۔ خودی کے آئینے میں خود شناسی و خود یابی کی جاذبِ نظر صورت دکھائی دے تو خود بخود عزتِ نفس کا احساس ابھرے گا۔
جمال اپنا اگر تو خواب میں بھی دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھارہے
خلیفہ عبدالحکیم کا یہ جملہ قابلِ توجہ ہے۔ کہ'' اقبال صرف خودی کا پیغامبر ہی نہیں بے خودی کا رمز شناس بھی ہے۔ '' ١ پیام خودی کی ابلاغ پر باوجود اسکے اقبال کی فکری و فنی تو انائیوں کا ایک بڑا حصّہ صرف ہوا ہے۔ پھر بھی اقبال نے خودی کو اپنے جہانِ افکار کی مطلق العنان حاکمیت نہیں بخشی ہے۔ یہ خودی بھی اپنی تمام تر خصائص اور امتیازات کے باوجود اُسی فکری نظام کی پابند ہے جسکا تذکرہ ابتدائی سطور میں ہوا ہے۔ واضح الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ خودی (انائے انفرادی) جب تک بے خودی (انائے اجتماعی) کے ساتھ تعلق پیدا نہ کرے اسکی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ گویا اقبال کی نظر میں جولازمی تعلق فرد کو جماعت کے ساتھ ہونا چاہئے وہی تعلق خودی کو بے خودی کے ساتھ ہونا لازمی ہے۔ چناچہ فرد کو تمثیلی انداز میں پایندگی کا راز بتاتے ہیں۔
پیوسطہ شجررہ، امید بہار رکھ
فکرِ اقبال کی رو سے فرد کا جو ہر خودی ہے اور جماعت کا جوہر بے خودی ۔ اس لحاظ سے افراد کے مابین تعلق جماعت کا استحکام ِ ظاہری ہو تا ہے۔ اور خودی کا بے خودی کے ساتھ پیوسطہ ہونا جماعت کے واسطے استحکام جوہری (باطنی) کا مؤجب ہوتا ہے۔ اس بحثِ تمہیدی کی غایت فقط یہ کہنا ہے کہ حکیم الامت افرادِ ملت کو خودی کی بٹھی میں تپا کر ان کا استعمال ملت کی تعمیر میں کرنا چاہتے ہیں
وجود افراد کا مجازی ہے ہستیٔ قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زنِ طلسم مجاز ہو
فردو جماعت کے باہمی ربطہ کے بارے میں اقبال کا زوایئہ نگاہ معتدل اور متوازن ہے اس سلسلے میں بر گساں ، نطشے، شیڑ نر اور فردی آزادی کے زبردست حامی دیگر مغربی مفکرین سے شدید اختلاف رکھتے ہیں ۔ یہ مغربی فلاسفہ فرد کی نشونما کی راہ میں جماعتی آئین و اصول کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ علی الرّغم اسکے علامہ اقبال رموزِ بیخودی کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں ''حیات ملیہ کا انتہائی کمال یہ ہے کہ قوم کے افراد کسی آئینِ مسلّم کی پابندی سے اپنے ذاتی جذبات اور میلانات کے حدود مقرر کریں۔ تاکہ انفرادی تباین و تناقص مٹ کر تمام قوم کے لیئے ایک قلبِ مشترک پیدا ہو جائے '' ٢
فرد را ربطِ جماعت رحمت است
جوہر اور اکمال از ملت است
ناتوانی با جماعت یار باش
رونقِ ہنگامہ احرار باش
امت و امامت:
بغیرِ امامت،امت کا تصّور ایسا ہی ہے جیسے بے سر بدن کا۔ فرداگر موج ہے اور جماعت دریاء تو امام اسکے بہاؤ کی صحیح سمت کا تعین کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ بات تو طے ہوئی کہ فرد کی زندگی، قومی حیات پر انحصار رکھتی ہے
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہاء کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
لیکن امامت ، روحِ امت کی محافظ ہوتی ہے۔ نظم و ضبط سے ہی افرادامت کو تشکیل دیتے ہیں ۔ اور یہ اجتماعی نظم و ضبط امامت پر ہی انحصار رکھتا ہے۔ جس قوم میں امامت کا تصّور ماندپڑ جائے۔ حرج و مرج اور انتشار و افتراق اس کامقدربن جاتا ہے۔ فکر و عمل میں یگانگت امت میں امامت ہی کی دین ہوتی ہے۔ کاروان بغیر رہبر، اُس ریوڑ سے بھی بد تر ہے جس کا کوئی گلہ بان نہ ہو۔ جس جماعت کا اپنے امام کے ساتھ رابطہ منقطع ہو جائے وہ وقت شناس نہیں ہوسکتی۔ اسکا بے موقع و محل عملِ خیر بھی بے ثمر ثابت ہوتا ہے۔ ان ہی کے متعلق علامہ فرماتے ہیں
یہ نادان گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
امامت کا اسلامی تصّور :
فکر اقبال کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ وجودِ ملت ازخود، احتیاجِ امامت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہونا نا گزیر ہے کہ امامت کا معیار کتنا بلند ہونا چاہیے؟ معیارِ امامت کا تعیّن کافی حد تک امت کی ہیّتِ اجتماعی کرتی ہے۔ با الفاظِ دیگر جس قدر تصّور ِ امت اعلیٰ و ارفع ہوگا اسی قدر تصورِ امامت بھی مثالی اور قابلِ تقلید ہونا چاہیے۔ پس علامہ اقبال کے تصّور امت سے ہی تصّورِ امامت کے فکری نقوش قدرے روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ بات زیادہ توضیح طلب نہیں ہے۔ کہ اقبال کے ہاں جغر افیائی حدبندیوں سے متزّہ اور و طنیت کی جھکڑ بندیوں سے ماورا اگر کوئی قومیت قابلِ توجہ ہے تو وہ وہی قومیت ہے جسکی فکری، تمدنی اورثقافتی اساس توحید ور سالت پر رکھی گئی ہے۔ جو ملت اقوامِ عالم میں ہاشمی رہبر کے طفیل ممتاز ہے
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر
خاص ہے تر کیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ۖ
اس منطقی نکتے سے مفر ممکن نہیں ہے کہ ملتِ اسلامیہ اگر ترکیب میں خاص الخاص ہے تو اسکی امامت بھی بے مثل ہی ہونی چاہیئے یہ واحد امت ہے جو جملہ اقوام عالم کیلئے اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے کیا اس غیر معمولی امت کے بارے میں امامت کا عامیانہ اور عاجلانہ تصور شایانِ شان ہو سکتا ہے ؟ کیا اس سرمدی اور ''خاتم الامت '' ملتِ اسلامیہ کے قدوقامت پر جز وقتی اور غیر سرمدی خلا فت کی ''قبائے تقدیس '' راست آئے گی ؟ رموزِ بے خودی کے چھٹے اور ساتویں باب میں علامہ اقبال نے نہایت ہی اثر انگیز انداز میں ملتِ مر حومہ کے متعلق چند ایک امتیازی خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے
عقدئہ قومیتِ مسلم کشود
از وطن آقائے ما ہجرت نمود
تاز بخششہائے آں سلطانِ دین
مسجدِ ما شد ہمہ روئے زمین
آں کہ در قرآن خدااو راستود
آں کہ حفظِ جانِ او موعود بود
یہ تحّرک پسند ملت کسی مقام سے پیوسطہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی گردشِ ایام اسے معدوم کر سکتی ہے۔ اس امت سے وابسطہ مومن نہ صرف خود لازوال ہے بلکہ اسکے ہاتھوں وجود میں آنے والا ہر نقش فنا پزیری سے مبّرہ ہے
اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزلِ آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہوکسی مردِخدا نے تمام
امتِ وسط اور متوازن قیادت:
جب ماموم اورمومن کا مرتبہ اتنا بلند ہے توامام اور امیرالمومنین کامقام کیسا ہونا چاہیے ؟ ایک مثالی امت کو مثالی حرکی، سرمدی، عظیم،اور ہر زمان و مکان پر محیط آفاقی تصّورِ امامت ہی زیب دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی بارہا اس امت کی تخصیص کا تذکرہ ہوا ہے خدا وند تعالیٰ امتِ مسلمہ سے مخاطب ہے وَکَذَالک جعلنٰکم اُمّتََ وسَطَا اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچوں بیچ والا گروہ بنایا ہے '' معروف مفسرِ قرآن سید علی نقن نقی مرحو م کے مطابق امتِ و سط کا مطلب ہے '' معتدل و متوازن گروہ جس کے اعمال میں نہ افراط ہے نہ تفریط '' ٣ متوازن گروہ کی قیادت متوازن قائد ہی کر سکتا ہے۔ بلکہ امت کا توازن امامت کا ہی مر ہونِ منت ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب جب امت کے ہاتھوں دامنِ امامت چھوٹا۔ یہ اپنا توازن ہی کھو بیٹھی۔ متوازن قیادت اور غیر متوازن قَیادت کے مابین تفاوت کو علامہ نے اپنے ایک خطبے میں واضع کیا ہے۔ انہوں نے ایک صوفی بزرگ کے ایک شعر کے ضمن میں پیغمبرانہ ولایت اور صوفیانہ ولایت کی استدلالی بحث چھیڑی ہے۔ جوقابلِ توجہ ہے۔ چنانچہ اس صوفی بزرگ عبدالقدوس گنگو ہی کا کہنا ہے
محمد عربی بر فلک لافلاک رفت و باز آمد
واﷲ اگر من رفتمے ہر گز باز نیا مدے
اقبال فرماتے ہیں۔ ''شیخ موصوف (گنگو ہی ) کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا ادراک نہایت خوبی سے کرتے ہیں جو شعورِ ولایت اور شعور نبوت میں پایا جاتا ہے صوفی نہیں چاہتا ہے وارداتِ اتحاد میں اسے جو لذت و سکون حاصل ہوتا ہے اسے چھوڑ کر واپس آئے اگر آئے بھی جیسا کہ اس کا آنا ضروری ہے تو اسے نوعِ انسانی کے لیئے کوئی خاص نتیجہ مترتب نہیں ہوتا ہے برعکس اس کے نبی کی باز آمد تخلیقی ہوتی ہے وہ ان واردات سے واپس آتاہے تو اس کے لیئے کہ زمانے کی رو میں داخل ہو جائے اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے جو عالمِ تاریخ کی صورت گر ہیں، مقاصد کی نئی دنیا بیدار کرے '' ٤
نبوت کی تنہاء اور حقیقی وارث امامت ہی ہے لہٰذا نبوت کی متعینہ خطوط پر ہی امامت اپنا لائحہ عمل طے کرتی ہے۔ بنی داخلی واردات اور خارجی حالات کے مابین توازن پیدا کرنے پر قادر ہو تا ہے۔ اسی لحاظ سے امام کیلئے یہ شرطِ اساسی ہے کہ وہ عالمِ شہود میں بھی عالمِ حقیقی سے رابطہ برقرا رکھنے کی صلاحت رکھتا ہو۔ جیسا کہ آیہ ولایت سے بھی یہی بات اخذہوتی ہے ۔کہ جو خلقِ خدا سے مکمل طور لاتعلق ہو کر خدا سے لو لگائے وہ قیادت کا حق ادا نہیں کر سکتا ہے۔ سورہ مائدہ آیت نمبر٥٥میں کنا یتاً حقیقی اور کامل ولی کے ایک انوکھے عمل کو معیارِ ولایت قرار دیا گیا ہے چناچہ خداوندتعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے۔ ''ایمان والو تمہارا ولی بس اﷲ ہے اور اس کا رسولۖ اوروہ صاحبانِ ایمان جو حالتِ رکوع میں زکوات دیتے ہیں '' ٥ یعنی خدا و رسولۖ کے بعد اگر کوئی لائقِ ولایت ہے تو وہی ہے جو اپنے خدا کے ساتھ راز و نیاز کے وقت بھی خلقِ خدا کی حالتِ زار سے بے خبر نہ ہو ۔ اسی جوہرِ میزان کو مشہور مستشرق مائیکل ہارٹ نے بنی آخر الزمان کی شخصیت میں پا یا تو پورے اعتمادکے ساتھ کہہ اٹھا '' کہ یہ (حضرت محمدۖ ) واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طورپر کا میاب رہی '' ٦ حتیٰ کہ ابن تیمیہ جو امام کی عصمت و کا ملیت کا سخت مخالف ہے۔ خلفائے راشد ین کی '' محدودکا ملیت'' کی وکالت کرتے ہیں ۔ ٧ اس طور سے وہ نظریہ امامت بھی اسلام کا مطلوب نہیں ہے جو امامت کو روحانی قیادت اوردنیاوی قیادت میں تقسیم کر تا ہے ۔ یہ دراصل مسئلہ خلافت کا صوفیانہ حل ہے۔جو حل کے بجائے خود ایک مسئلہ ہے یہ نظریہ فکرِ اقبال کے ساتھ متّصادم ہے ۔ اقبال دین و سیاست کی دوئی کے ہلا کت خیز نتائج پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے خوبصورت پیرا یہ میں یہ بات امت کے گوش گزار کراناچاہی
جدا دیں سے سیاست ہو تو رہ جاتی ہے چنگیزی
دین و دنیا میں دوئی کا خاتمہ جب ہی ممکن ہے جب دین و دانش کے ساتھ ساتھ حاکمیتِ ظاہری بھی اولی الا مرکے پاس رہے۔ اقبال کہتے ہیں '' نظر بلا اقتدار کے اخلاق کو تو فروغ دیتی ہے لیکن ایسی ثقافت کی بنیاد کا اس سے قیام نہیں ہو سکتا جو دیر پا ہو اس کے برعکس اگر صرف اقتدار ہو اس کے ساتھ نظر کا فقدان ہو تو ایسا اقتدار تخریبی اور انسان کش ہو جاتا ہے انسانیت کے روحانی فروغ کے لیئے دونوں کا اجتماع ضروری ہے '' ٨ علامہ اقبال کی اس فلسفیانہ رائے کو تاریخی پس منظرمیں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو علامہ جوادی کے یہ پُر حکمت الفاظ معاون ثابت ہوں گے۔ ''امامت حافظ شریعت بھی ہے اور قیادتِ امت بھی حفظِ شریعت کیلئے علم لازم ہے اور حفظ ِامت کے لیئے قوت و طاقت۔ '' زادہ بسطتہ فی العلم و لجسم ''۔ اب امامِ امت وہی ہوگا جو علم میں ساری امت سے بالا ترہو یعنی باب مدینہ العلم اور طاقت میں ساری دنیا سے قوی تر یعنی لا فتی ا لاّ علی '' ٩
مسلم اول شہ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی
از ولائے دودمانش زندہ ام
در جہاں مثلِ گُہر تابندہ ام
قوّت دینِ مبین فرمودہ اش
کائینات آئیں پذیر از دو دہ اش
مرسلِ حق کرد نامش بو تراب
حق یدُاللہ خواند در اُمُ الکتاب
(کلیات ِاقبالفارسی٤٧)
مندرجہ بالا بحث سے اپنے الفاظ میں نییجہ اخذ کرنا چاہیں تو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ امام بر حق و ہی ہے جسکے قلم و تلوار میں کفر و باطل کے واسطے یکساں کاٹ ہو۔ جو الوہی اسرار سے واقف کار بھی ہواور میدانِ جہاد میں کرّار بھی۔ جسکی تلوار دستِ مرحبی و عنتری کو قطع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور جسکی زبان ''لسان اﷲ'' بن کر معر کئہ حق و باطل کی نظر ی رزمگاہ میں برہانِ قاطع ثابت ہو۔ جس کا کلام اہلِ نظر کی رائے کے مطابق '' فوق کلام المخلوق و تحت کلام خالق'' قرار پائے ١٠ اگر امام ایسے محیرا لعقول کمالات کا مظہر ہے تو عقیدتمند اپنی عقیدت کے پھول کیونکر نشاور نہ کرے
اے بابِ مدینۂ محبت
اے نوحِ سفینۂ محبت
اے ماحی نقشِ باطل من
اے فاتحِ خیبر دلِ من
اے سرِخط و جوب و امکان
تفسیرِ تو سورۂ ہائے قرآن
اے مذہب عشق را نمازے
اے سینۂ تو امینِ رازے
اے سرِ نبوّتِ محمدۖ
اے وصفِ تو مدحتِ محمدۖ
امام باطل اور امام برحق:
قلندر جز دو حرف لاالا کچھ نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا
یقیناً لااِلا اپنی وسعت کے اعتبار سے اہل ایمان کے فکر و عمل کی کائنات پر محیط ہے۔ مئومن کے جذبات و احساسات ، کشش و مدا فعت ، محبت و نفرت، عبادت و بغاوت، جراُتِ انکار اور شعورِ اقرار، ان دو حروف کے ساتھ گہرا علاقہ رکھتے ہیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو علامہ اقبال کے شعورِر دو قبول کے پشت پر یہی دو حروف واحد محرک و عامل کی صورت میں کار فرماہیں۔ امامِ باطل کے بطلان اور امام بر حق کی حمایت کے سلسلے میں علامہ نے اسی دو حرفی ترکیب سے کام لیا ہے۔ بد قسمتی سے تاریخ میں امامت کے خاتمے پر بہت سارے حکمران کمر بستہ نظرآتے ہیں۔ اس سلسلے میں خاص طور سے دو حر بے استعمال کیئے گیئے ١۔بلواسط ٢۔بلاواسطہ۔ بلواسط طریقہ کار کے تحت امامانِ بر حق کو نا حق شہید کیا گیا۔ چنانچہ جب شہادت سے امامت کو مزید تقویت و استحکام ملا تو اسے بھی موثر طریقہ اپنایا گیا۔ جسکے تحت امامت کے مختلف متبادلات اختراع کیئے گیئے۔ یہاں تک ہر کس و ناکس کو امامت کا منصب تفویض کیا گیا۔ آخر الذکر حربہ امامت کی حساسیت کو کم کرنے کے لیئے بہت حد تک عوام الناس میں مؤثر ثابت ہوا۔ نتیجہ کے طور مسلمانوں کی خاصی تعداد معرفتِ امام سے محروم رہ گئی۔ جب بھی کسی عام مسلمان کے قلب و ذہن میں امامت کے متعلق جستجو کی لہر اٹھی تو اس نے امامت کے عامیانہ تصّور کے صحرا میں دم توڑ دیا۔ اس عامیانہ تصورِ امامت کو علامہ اقبال نے اسی تیغ لا سے پارہ پارہ کر دیا ہے۔ یقیناً یہ چند ایک اشعار امامت کے متعلق علامہ کا حرف ''لا '' ہیں۔
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟
کیا جانیں گے یہ دورکعت کے امام
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
دو رکعتی اماموں کو معرفتِ امام سے نا بلد قرار دینا اقبال کے تصّورِ امامت کی حساسیت کا غماز ہے۔ظاہر ہے کہ حقیقی امت پر خیالی و اختراعی امامت کا اطلاق بعید از حقیقت ہے۔ اقبال جس امامت کی حمایت نظری و عملی اعتبار سے کرنا چاہتے ہیں۔ اسکے اسرار و اموز اور اصولی خطوط قرآن و احادیثِ نبویۖ میں کہیں پوشیدہ تو کہیں آشکار ہیں۔ اسلامی تاریخ میں یہ امامت اپنے ناقاَبلِ فراموش کار ناموں سے ممتاز دکھائی دیتی ہے۔ ''امامت '' کے عنوان سے علامہ اقبال نے جو مختصر مگر جامع نظم لکھی ہے۔ اسے انداز ہ ہوتا ہے کہ آپ مسئلہ امامت کے متعلق کس قدر سنجیدہ ،باریک بین، حق پسند، وسیع القب اور واقف اسرار ہیں۔ گو کہ نظم امام و رہبر کی صفات و شرائط کا علامتی اظہارہے لیکن قاری اگر صاحب نظر ہو اور قرآنی آیات و احادیث کو ٹٹو لنے اور اسلامی تاریخ کے اہم ابواب کو کھنگھالنے کی جرأتِ تامہ رکھتا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس پر حقیقت آشکار نہ ہو ۔ اس نظم کو امامت کے تیئں حرف ِ ''اِلا '' کہا جا سکتا ہے
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
اگر مسلئہ امامت ، امتِ مسلمہ کیلئے عمومی نوعیت کا ہوتا تو اسکی تفہیم و ادراک کیلئے صاحب اسرار ہونے کی شرط لازمی نہ ہوتی ۔امامت کی حقیقت تک رسائی بقولِ اقبال اُسوقت تک کافی مشکل ہے جب تک نہ انسان رموز انفس و آفاق سے واقف ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ رموزِ حیات سے آشنا ہی مقامِ ولایت کو سمجھ سکتا ہے
ہر کہ دانائے رموزِ زندگیست
سرِ اسمائے علی داند کہ چسیت
امامِ برحق کی پہچان چند ایک نشانیوں کے ذریعے کروانا چاہتے ہیں
ہے وہی تیرے زمانے کا امام بر حق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لئے اوربھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرمائے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
داستانِ حرم اور قربانئی امامت:
علامہ اقبال متذکرہ بالا نظم میں یہی پیغام دیتے ہیں۔ کوئی نااہل شخص تمام ذرایع کا استعمال کر کے اور گلہ پھاڑ کر اپنی امامت کا دعوایٰ کیوں نہ کرے۔ وہ اُس مختصر گروہ کی پچھلی صف میں بھی شامل نہیں ہوتا ہے۔ جو اپنے امام کی رہنمائی مین ''شہادت گہۂ اُلفت '' کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ مین دینِ حق کی حفاظت گلہ پھاڑ کر دعوایٰ امامت کرنے سے نہیں بلکہِ گلہ کٹا کر شہادت پیش کرنے سے ہوتی ہے۔ ''نیل کے ساحل سے لیکر کا شغر تک '' مسلمانوں کا ایک جگہ جمع ہونا ہی کافی نہیں ہے جب تک نہ اُنہیں کسی ایسے قائد کی قیادت نصیب ہو۔ جو حرم کی حفاظت کے لئے ان کا جذبہ قربانی اُبھارے۔ کیونکہ حرم کی حفاظت اصل میں قربانی اور شہادت سے ہی عبارت ہے
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد نے نہایت ہی سطی انداز میں علامہ اقبال کے اس شعر کو مور دِاعتراض ٹھہرایا ہے وہ کہتے ہیں ''محتاط ترین لوگ بھی جب شاعری کی ترنگ میں آتے ہیں تو ان کی زبان و قلم سے بھی غیر محتاط اور غلط باتیں نکل جاتی ہیں۔ مثلاً آپ علامہ اقبال کے اس شعر پر غور کیجئے
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
غور طلب بات یہ ہے کہ شہادت حسین اور ذبحِ اسمٰعیل میں کون سی چیز مشترک ہے ! حضرت اسمٰعیل کو ذبح کرنے کے لئے آمادہ کون ہوئے؟ اﷲ کے جلیل القدر پیغمبر! کیا حضرت حسین کی شہادت بھی کسی ایسے ہی ایک جلیل القدر شخص کے ہاتھ ہوئی ہے؟ معاذ اﷲ، ثم معاذاﷲ کون سی قدر مشترک ہے ؟ حضرت اسمٰعیل نے تو ذبح ہونے کے لئے خود ہی اپنی گردن پیش کی تھی۔ حضرت حسین نے دادِ شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ وہاں تو ارادئہ ذبح بالفعل ہوا نہیں۔ یہاں حضرت حسین بالفعل شہید کئے گئے ہیں۔ لہٰذا ان واقعات میں آپ کو کوئی قدرِ مشترک نہیں ملے گی '' ١٢
مرحوم ڈاکٹر اسرار کا یہ غیر منطقی اعتراض اس قرآنی آیت سے سراسر چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ جو ہر دو قربانیوں کے مابین ایک محکم ربط کا کام کرتی ہے۔ قرآن کے مطابق حضرت اسمٰعیل کی قربانی کو ایک عظیم قربانی کی خاطر ٹالا گیا۔۔ ''وفَدَیْنَاہُ بِذِحِِ عَظِْیم''(سورہ والصّٰفٰت۔آیت نمبر ١٠٧)۔ اس آیت کا اگر ڈاکٹر صاحب امامت کے تاریخی اورقرآنی سیاق سباق میں مطالعہ کرتے تو ان پر بھی علامہ اقبال کی طرح ''سرِ ابراہیم و اسمٰعیل '' واضح ہوجاتا چنانچہ حضرت ابراہیم نے سورہ بقرہ آیت نمبر124،128کے مطا بق خدا سے التجا کی کہ ان ہی کی ذریّت سے اُمتِ مسلمہ نیز اس اُمت کی امامت قرار دے ۔ چنانچہ یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔ لیکن امامت کے لئے ایک اہم شرط مقرر ہوئی کہ امام کو ہر حال میں نہایت ہی مشکل گزار امتحان میں سے گزرنا پڑے گا۔ البتہ یہ بات طے نہیں ہوئی کہ قربانی کا انداز یکساں ہونا چاہئے ۔ امامتِ ابراہیمی اور امامتِ علوی میںقدر مشترک کے طور خدا کی راہ میں مصائب و آلام جھیلنے کی مسلسل روایت چلی آرہی ہے جسکی نظیر اور کہیں نہیں ملتی ۔ قربانی کا انداز زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق ہونا ہی اِسے رائیگان ہونے سے بچاتا ہے ۔ لہٰذا زمانی و مکانی بُعد کے باوجود حضرت اسمٰعیل کی قربانی اور شہادت امام عالی مقام کے مابین ظاہر ی اور سطحی مماثلت ڈھونڈنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ شاید ڈاکٹر صاحب مرحوم نے علامہ اقبال کے ان اشعار کو مسلکی حد بندیوں سے بلند ہوکر نہیں پڑھا ہے۔ ورنہ واقعات کی ظاہری مشابہت تلاش کرنے کے بجائے ان واقعات کے پیچھے کا ر فرما ''مشترکہ روحِ شہادت'' کا مشاہدہ کرتے ۔
آں امام عاشقاں پور بتول
سروِ آزادے ز بستانِ رسولۖ
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبحِ عظیم آمد پسر
بہر آں شہزادۂ خیر الملل
دوشِ ختم المرسلین
درمیانِ امت آں کیواں جناب
ہمچو حرف ''قُل ھُوَاللہ'' در کتاب
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوّت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوّت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت
حریّت را زہر اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوۂ خیرالامم
چوں سحابِ قبلہ باراں در قدم
بر زمینِ کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تا قیامت قطع استبداد کرد
موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کرد
سرِ ابراہیم واسمٰعیل بود
یعنی آں اجمال را تفصیل بود
نقش الااللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوانِ نجاتِ مانوِ شت
رمز قرآں از حسین آمو ختیم
زِ آتشِ او شعلہ ہا اندوختیم
کلیات اقبال فارسی (صفحہ ١٠٩، ١١٠)
اقبال باغِ امامت کے خوشہ چین:
پیامی شاعر کی حیثیت سے علامہ اقبال نے جہاں مختلف شعری و فنی محاسن کا استعمال کیا۔ وہاں تلمیحات کے ذریعے مختلف تاریخی کرداروں کے حسن و قبح کو دلکش پیرایہ میں پیش کیا۔ ماضی کے نہاں خانوں سے خام مواد حاصل کرکے انہوں نے اُسے اپنے فکر و فن کے قالب میں ڈھالا۔ اور پھر عصری تقاضوں کے مطابق اچھوتی اصطلاحوں ، ترکیبوں اور استعاروں کا ایک منفرد نظام قائم کیا۔ اقبال جیسا بے لاگ او ر قدر شناس مفکر تاریخ کے ایک تابناک باب یعنی بابِ امامت سے صرفِ نظر کیسے کرتا؟
اپنے فکرو پیام کی اثرپذیری کے لئے انہوں نے بارہا درِ امامت پرد ستک دی
جہاں سے پلتی تھی اقبال روح قنبر کی
مجھے بھی ملتی ہے روزی اسی خزینے سے
ہمیشہ وردِ زبان ہے علی کا نام اقبال
کہ پیاس بجھتی ہے دل کی اسی نگینے سے
اس والہانہ عقیدت کو شاعرانہ تعّلی سمجھنا سراسر غلط فہمی ہے۔ کیونکہ اقبال محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ سنجیدہ مفکر ، عظیم مصلح، حکیم الاامت ، دریائے فلسفہ کے شناور ، خودی کے نقیب ، عشق و جذبہ کے پیامبر اور دین و مذہب کے رمز شناس بھی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ امتِ مسلمہ کی اصلاح اور عظمتِ رفتہ کی بحالی ان نابغۂ روزگار ہستیوں کی فیض رسانی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ عظمتِ رفتہ جن کی جدو جہد اور ایثار کا نتیجہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امت کی زبوں حالی اور تنگدستی کا مداوا شفا خانۂ امامت میں ہی پاتے ہیں
دلوں کو مرکز مہر وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اُسے بازوے حیدر عطا کر
اقبال امام العصر کا منتظر:ـ
عالمِ تصوّر میں اقبال، ابلیس کو خدا کے حضور یوں شکوہ سنج پاتے ہیں۔
اے خداوندِ صواب و ناصواب
من شدم از صحبت آدم خراب
ہیچ گہ از حکم من سربرنہ تافت
چشم از خود بست و خود را دریافت
صید خود صیاد را گوید بگیر
الاماں از بندۂ فرماں پذیر
اے خدا یک زندہ مردِ حق پرست
لذتے شاید کہ یابم در شکست
ابلیس کی شکایت دراصل عالم آدمیت کا مرثیہ ہے۔ جس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ اولادِ آدم ابلیس کی ریشہ دوانیوں اور قہر سامانیوںکے آگے بے بس ولاچار دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں زیر کرنے کے لئے ابلیس کو زور آزمائی کی ضرورت نہیں پڑتی ہے بلکہ شکار خود ہی تہہ دام آجاتاہے۔شیطان کی سر شت میں مقابلہ آرائی او رپنجہ آزمائی ہے۔ لہٰذا وہ کسی ایسے قوی تر دشمن کی تلاش میں ہے جو اسے پچھاڑنے کی قوت رکھتا ہو۔ اقبال کا یہ انوکھا اندازِ تکلّم ہمیں اس جانب متوجہ کراتا ہے ۔ کہ پورے عالم انسانیت پر ابلیس کی حاکمیت عیاں ہے وہ ابلیس کی زبان سے اپنی تمنا کا اظہار کردیتا ہے کہ خدایا ! کسی ایسے بندئہ مولاصفات کو بھیج دے۔ جو خیبر کشائی اور مشکل کشائی کا ہنر رکھتا ہو۔ گو یا دُشمن کی زبان سے دوست کو پکار اجاتا ہے۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق ''عدومبین'' کی کار فرمائی دیکھ کر ''امامِ مبین'' کی آمد کا انتظار ہے
ہزار خیبر و صدگونہ اژدر است اینجا
نہ ہرکہ نانِ جویں خورد حیدری است
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین وطن
اس زمانے میں کوئی حیدرِکرار بھی ہے؟
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میںہے
صنم کدہ ہے جہاں لا اِلٰہ الّا اللہ
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
اس طرح کے دسیوں اشعار کلام اقبال میں ملتے ہیں۔ جوایک مردِ حق کا پتہ دیتے ہیں۔ جسکی قوتِ بازو سے عالمِ باطل زیر و زبر ہو۔ عدلِ الٰہی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ توانا، زبردست ، سریع الرفتار ، زیرک اور لطیف ''عدو مبین'' کے مقابل کسی ایسے''امام مبین'' کا وجود لابدی ہے۔ جو جملہ حق پرستوں کی تمام تر توانائیوں کا مرکز ہو۔ کیونکہ دشمن کو زیر کرنے کے لئے ارتقازِ قوت کے بغیر کوئی چارئہ کار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن جس سورے میں کھلے دشمن سے بچنے کی تلقین کرتاہے اُسی سورے میں مسلمان کو حوصلہ دیتاہے کہ ہر زمانے میں ہر شئے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا گیا ہے۔ ١٤
فغانِ ماضی، عصری کرب ، اور تابناک مستقبل کے خواب کا اظہار اقبال کے یہاں جگہ جگہ ملتا ہے ۔ کہیں پر خدا سے دِل مسلم کو زندہ تمنّا عطا کرنے کی دعا کرتے ہیں تو کہیں''وادیٔ فاراں'' کو اُسکی کھوئی ہوئی شان و شوکت لوٹانے کے آرزومند ہیں ۔ جوانانِ ملت کو جب عیش کوشی او رآرام طلبی کا ر سیا پاتے ہیں توا نہیں''قوتِ حیدری'' اور ''استغنائے سلمانی'' کے روبرو کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک ان کی افلاس زدگی کا علاج بھی اسی دربار سے کروانا چاہتے ہیں
تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدار قوتِ حیدری
انہیں اس بات کا یقین محکم تھا کہ اُمت کسی بھی دور میں امامت کے ماضی، حال اور مستقبل سے فیض یاب ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی امامت کے مبدا تو کبھی امامت کے موّخر کو اپنی امیدوں کا مرکز مانتے ہیں۔ یہاں وہ ایسے کردار پاتے ہیں جن کی اتباع سے امت کی تقدیر ہی بدل سکتی ہے ۔ امامِ برحق کی مدح سرائی کا مقصد اقبال کے یہاں اُمت سازی بھی ہے ۔ ڈاکٹر علی شریعتی کہتے ہیں۔ '' میں جب اقبال کے بارے میں سوچتا ہوں۔ میں ان کو ''علی گونہ'' (علی نما) پاتاہوں ۔یعنی ایک ایسا انسان جو علی کی سنت کا پیرو ہے لیکن وہ انسان بیسویں صدی کی انسانی استعداد کے کیف و کم کا بھی مکمل نمونہ ہے۔
کیوں؟ اس لئے کہ علی کی شخصیت وہ شخصیت ہے جو صر ف اپنے کلمات اور افکار ہی سے نہیں بلکہ اپنے وجود اور اپنی زندگی کے ذریعے ہر دور کے تمام انسانوں کے دکھ درد، مسائل اور کثیر الابعاد بشری حاجتوں کے حل کی راہ بتاتی ہے '' ١٥ علامہ اقبال اُمت کے ہر فرد کو ''علی نما'' دیکھنے کے متمنی تھے ۔ تاکہ یہ ''دنیا کی امامت'' کے اہل ہوسکیں ۔ نیز عدالتِ علوی، صداقت مرتضوی ، اور شجاعت حیدری کا پر تو ان میں دکھائی دے۔ پھر عجب نہیں اگر ان سے بھی محیر العقول امور کا صدور ہو ۔
زحیدر یم من و تو ز ماعجب نبود
گر آفتاب سوئے خاوراں بگردانیم
بہ حیثیت مجموعی اقبال نے اپنے گردو پیش اور معاصر عالمی حالات کا بہ نظر غائر مشاہدہ کیا تو اُس نے محسوس کیا۔ شرق و غرب میں انسانیت کی مٹی پلید ہورہی ہے ۔ جو انسان خالقِ کائنات کا شاہکار تھا۔ ''وہی اب بے بصر ہو چلا ہے۔ وہ خود شناس ہے نہ خدا شناس اور نہ ہی جہاں بین'' مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ان پر عالم کفر خندہ زن ہے۔ انہیں مسلکی اور گروہی افتراق و انتشار نے پراگندہ کیا ہے۔ مادیت کا غلبہ چاروں اور روز بروز مستحکم ہوتا جارہا ہے اورروحانیت اپنی بساط لپیٹے جارہی ہے ''آتشِ عشق اُمت مسلمہ میں خاموش ہوچکی ہے ۔ نتیجتاً حرارت، حریّت، حرکت اور بصیرت جیسی نعمتیں مفقود ہوچلی ہیں اور چار سواندھیرا ہی اندھیرا ''
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کاڈھیر ہے
دنیا میں ''اہرمن'' ارزاں اور ''یزداں '' دیر یاب ہے۔'' رقص بدن'' کے ہر جگہ چرچے ہیں اور''رقص روح'' کودیکھنے والی آنکھ کب کی سوچکی ہے۔ کعبہ کے پاسبان غلاف کعبہ اوڑھے غفلت کی نیند میں مست ہے۔اُنہیں استعماری قوتوں کے، مرکز اسلام کی جانب اُٹھتے قدموںکی چاپ ، خواب میںبھی سنائی نہیں دے رہی ہے
بُت صنم خانوں میں کہتے ہیں کہ مسلماں گیٔے ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گیٔے
اقبال یہ سب کچھ دیدہ ور اور خیر خواہِ ملت کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ اور ہزاروں کوفی وشامی خصلت لوگوں کے درمیان خود کو تنہا پاتے ہیں
بے خبر مرداں زردزمِ کفرو دیں
جانِ من تنہا چو زین العابدین
ایسے میں اگر وہ قنوطیت کا شکار ہو کر گو شہ نشین ہو بھی جاتے تو کوئی حیرا نگی کی بات نہیں تھی۔ لیکن وہ کبھی بھی نا اُمید نہیں ہوئے۔اور نہ ہی کسی کو دعوتِ یاس دیتے ہیں
نہ ہو نااُمید ، نااُمیدی زوالِ علم و عرفان ہے
اُمیدِ مرد ِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
اُن کا پُر اُمید ہونا اس بات کا غماز ہے کہ وہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ شبِ تیرہ و تار کے بعد ایک نہ ایک دن طلوع انقلاب ہوگا۔ اپنی کائنات کو بچانے کے لئے خالقِ کائنات کسی ہادیٔ برحق کو ضرور بھیجے گا۔ اقبال اُسی ہادیِ برحق کو پکارتا ہے
اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا
اے فروغِ دیدہ امکاں بیا
یہی وجہ ہے جہاں وہ پوری دنیا سے شکوہ سنج ہیں۔ وہاں وہ اس دنیا میں نمایاں حیثیت رکھنے والے ''پیران کلیسا'' ''شیخان حرم'' ''شاعرو اہل سیاست'' سے بھی نالاں ہیں ۔ وہ مہدی برحق کی آمد سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔
سب اپنے بنائے ہوئے زندان میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیّار
پیرانِ کلیساہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدّتِ گفتار ہے، نے جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاسِ تخیل میں گرفتار
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہوجسکی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار
کلیات اقبال اردو ص ٥٠٦، ضرب کلیم ٤٤
اقبال کی تلاش و جستجو:
ائمہ اہلبیت کی محبت ومؤدت شاعر مشرق کو وراثت میں ملی۔ مولوی میر حسن ( استادِ اقبال) نے ا س محبت کو جلا بخشی۔اس محبت نے اقبال کو ان ذوات مقدسہ کی مدحت و توصیف کیلئے اُبھارا ۔ قرآن و احادیث میں ائمہ ہدیٰ کا جو مقام ومرتبہ متعین تھا اس پر علامہ اقبال کو یقین تھا ہی، اُنہوں نے مزید تحقیق و جستجو کے لئے تاریخ اسلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا۔ صوفیائے کرام کے کلام سے استفادہ کیا۔ فلسفۂ امامت کی مزید تفہیم کے لئے مسلکِ امامیہ کے مختلف علماء ومجتہدین سے بالمشافہ گفتگو کی۔ ان علماء و مجتہدین میں خاص طور سے علامہ عبدلعلی ہروی او رشیخ عبدالکریم زنجانی قابلِ ذکر ہیں چنانچہ علامہ اقبال نے٣١اکتوبر ١٩١٤ء کو مہاراجہ کشن پرشاد وزیرا عظم دکن کو ایک خط میں علامہ ہروی سے فیض یابی کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ پروفیسر اکبرحیدری کشمیری نے اس خط کا خلاصہ اپنی کتاب اقبال اور شیخ زنجانی میں یوں درج کیا ہے۔
''علامہ ہروی عالم متبحر ہیں۔ مذہباً شیعہ ہیں جو کچھ فرماتے ہیں وہ قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوتاہوں'' ١٦
علاوہ ازیں مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی کے ساتھ اقبال کے قریبی مراسم رہے ہیں ۔ ان دونوں میں دوستی کی حد تک قربت پائی جاتی تھی۔ اکبرالٰہ آبادی نے خواجہ حسن نظامی کو ٢٣نومبر١٩١٦ء اپنے خط میںلکھا۔
''اقبال صاحب نے مجھ کو خط میں لکھا ہے کہ مسئلہ امامت انہوں نے قبول کیا ہے لیکن یہ اقرار نہیں کیا کہ میں شیعہ ہوگیا۔ ١٧
پرو فیسر اکبر حیدری کے مطابق علامہ شیخ عبدالکریم زنجانی غالباً ١٩٢٧ء کے بعد لاہور آئے ۔ اقبال کے ایک دوست سید حسن جعفری نے اقبال اور علامہ زنجانی کے درمیان ہوئی گفتگو کو قلمبند کیا ہے اقبال کے سوال اور علامہ زنجانی کے جواب کو کتابی شکل میں اقبال کی حیات میںہی١٩٣٥ء کو چھا پا گیا۔ اس کتاب کو وحی والہام اور برہان امامت کا عنوان دیاگیاہے۔ علامہ اقبال نے دو سوال علامہ زنجانی سے کئے پہلا سوال وحی والہام کے مابین تفا وت سے متعلق تھا اور دوسرا سوال امام زمانہ کے ظہور کے تعینِ وقت کے متعلق ہوا تھا۔ علامہ موصوف نے مسلسل تین گھنٹے تک تمام علمی صلاحیتوں کے ساتھ اقبال کے ان سوالات کا جواب دیا۔ وحی الہام کے متعلق جو کچھ شیخ زنجانی نے فرمایا اس کا پرتو اقبال کے خطبہ ''اسلامی ثقافت کی روح'' میں صاف طور جھلکتا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ زنجانی نے قرآن و احادیث کی روشنی میں نیز عقلی استدلال کے ساتھ مسئلہ امامت اور ظہورِ امام زمانہ کو ثابت کیاہے ۔ غرض اقبال کو امامت کے متعلق جو عرفان حاصل ہوا تھا وہ محض وراثتی عقیدت ہی تک محدود نہ تھا۔ بلکہ انہوں نے اپنی علمی کدو کاوش ، محققانہ تجسّس ، طالب علمانہ استفسار ، ضمیرو وجدان کی ضیاء پاشی سے خاموشی کے ساتھ زندگی بھر منزل بہ منزل طے کرکے عرفانِ امامت تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ اقبال کے فکری دنیا میں مختلف انقلابات رونما ہوئے ۔ ابتداعاً وطنی محبت ، مظاہر فطرت اور جمالیات سے بے حد متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اور پھر کچھ مدت تک فلسفۂ وحدتَ الوجود کے قائل رہے۔ مشرق سے مغرب کی طرف ہجرت کی تو وہاں کے فلاسفہ برگساں، گوئٹے ، نطشے، فٹشے ، ڈیکارٹ وغیرہ کا بھی اثر قبول کیا۔ وطنی قومیت کو رد کرکے اسلامی قومیت کے پر ستار ہوئے۔تصوّف کو بھی سراہا تو کبھی اس پر زبردست چوٹ کی۔ المختصر اقبال کی سیمابی طبیعت نے انہیں ایک جگہ اطمینان سے ٹکنے نہ دیا ۔ ان کے فکری ارتقاء کے میں رد و قبول کی کئی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ البتہ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے ۔ کہ اوائل عمری سے لیکر موت تک تین چیزیں اقبال کی حرزِ جان بنی رہیں۔١)عشقِ رسولۖ ٢)قرآن کے ساتھ بے حد لگائواور ٣)محبتِ اہلبیت۔ آپ کسی بھی دور کا کلام اُٹھا کر دیکھ لیں آپ ان تین جذبوں کی کارفرمائی ضرور درک کرسکتے ہیں۔ بلکہ محبت و رغبت کا یہ مثلث ہر مقام پر حاوی نظر آئے گا۔فی الحقیقت ان تینوں کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ جسے حق کا متلاشی چشم پوشی نہیں کرسکتا۔ اقبال محبت اہلبیت کو عشق رسول کا ہی جزوِ لا ینفک سمجھتے تھے۔ اور قرآن کی تفہیم کے لئے مکتب امامت سے تمسک لازمی سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت ِحق گو معترف ہیں
رمزِ قرآن از حسین آموختیم
اختتامیہ پر یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اقبال کا پیغام اصل میں پیغامِ امامت و اہلبیت جسکو قرآن و رسالت کے سیاق وسباق میں سمجھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
١۔ فکر ِ اقبال ۔ خلیفہ عبدالحکیم صفحہ٩
٢۔ رموز بے خودی معہ شرح از یوسف سلیم چشتی صفحہ٤
٣۔ سورئہ بقرہ آیت ١٤٣تفسیر سید علی نقن نقی صفحہ٢٦٠
٤۔خطبۂ پنجم ٢١٥/٢١٦۔اسلامی ثقافت کی روح ''تشکیل جدید الہیات اسلامیہ''
٥۔ سورہ مائدہ آیت نمبر ٥٥ترجمہ علامہ جوادی
ٍ٦۔ The Hundredصفحہ٢٥مترجم عاصم بٹ۔ قاری پبلیکیشنز دہلی
٧۔ مسلمانوں کے سیاسی افکار اور ان کا انتظامِ حکومت صفحہ ١٨٨از ہارون خان شیروانی
٨۔ اقبال اور مغربی فکرصفحہ٤٤۔ پروفیسر سید وحید الدین ۔ کشمیر یونیورسٹی ۔
٩۔ ذکر وفکر صفحہ٥١علامہ جوادی ١٠۔ نہج البلاغہ صفحہ١٨۔ ترجمہ از مفتی جعفر حسین
١١۔ دانائے راز کے مولف سید نذیر نیازی کے مطابق یہ چند اشعار اُس نظم سے ماخوذ ہے جو سپاسِ امیر کے عنوان سے، حضرت علی کی منقبت میں لکھی گئی ہے۔ کلیاتِ اقبال فارسی میں یہ نظم شامل نہیں ہے البتہ یہ نظم ''مخزن'' لاہور کے جلد٨نمبر ٤جنوری١٩٠٥ء میں چھپی تھی۔ بحوالۂ اقبال اور علامہ شیخ زنجانی صفحہ ١٨٢/١٨٣
١٢۔سانحہ کربلا۔ ڈاکٹر اسرا راحمد صفحہ١٧
١٣۔ دانائے رازصفحہ٢٩٠از سید نذیر نیازی
١٤۔ سورئہ یاسین آیت نمبر١٢
١٥۔ علامہ اقبال مصلح قرنِ آخر٢٥مترجم کبیر احمد جائسی
١٦۔اقبال اور شیخِ زنجانی صفحہ١٣
١٧۔ ایضاً
source : abna24