اردو
Tuesday 5th of November 2024
0
نفر 0

اشعاد در شان حضرت امام حسن علیہ السلام

(محسن نقوی شہید)

چمکتا ہے کہاں افلاک پر مہرِ مبیں iiایسا
کہاں ہوگا ولایت کی انگوٹھی میں‌ نگیں iiایسا

خدا محفوظ رکھے چشمِ بَد سے حسن حیدر علیہ السلام کو
بڑی مشکل سے پایا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانشیں iiایسا
 

رئیسِ.امامت


لوحِ جہاں پہ فکر کی معراجِ فن کا iiنام
لکھا ہے پنجتن کی حسیں انجمن کا iiنام

سوچا خزاں کے عہد میں جب بھی چمن کا iiنام
آیا مری زباں پہ امام حسن کا iiنام!

جس نے خدا کے دین کی صورت اُجال iiدی
وحشی دلوں میں امن کی بنیاد ڈال iiدی

سرچشمہء نجاتِ بشر، حسن کردگار،
انسانیت کے باغ میں پیغمبر بہار

حاجت روا، حسیں وہ اَنا مست iiبردبار
وہ اَمن و عافیت کی حکومت کا iiتاجدار

تشبیہہ دوں کسی سے مری کیا مجال ہے؟
بس اتنا کہہ رہا ہوں، حسن بے مثال ہے


زہرا سلام اللہ علیہا کا چاند، ابنِ علی علیہ السلام، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور!
جس کی جبیں سے پھوٹ رہی ہے شعاعِ طور

رقصاں ہے جس کی آنکھ میں ادراک کا iiسرور
جس کی ہر اک ادا سے نمایاں نیا iiشعور

چپ رہ کے جس نے باگ حکومت کی موڑ‌ iiدی
کھولی زباں تو ظلم کی رنجیر توڑ iiدی!

وہ مجتبی وہ عالمِ لَوحِ فلک iiمقام!
معراج فکر، سدرہ نظر، عرشِ iiاختشام

ایسا سخی، مَلک بھی کریں جس کا iiاحترام
دشمن سے بھی لیا نہ کبھی جس نے iiانتقام

جس نے دعائے غیر کو تاثیر بخش دی
اپنے عدو کو اپنی ہی جاگیر بخش iiدی

اللہ رے آب و تابِ رُخِ ابنِ iiبوتُراب!
اب تک خراج دے کے گزرتا ہے iiآفتاب

لَوحِ جبیں، وہ علمِ امامت کا ایک iiباب
رفتار میں وہ عدل کہ محشر بھی دے iiحساب

بازو ہیں اس طرح سے عطا پر تلے iiہوئے
جیسے فلک پہ صلح کے پرچم کھلے ہوئے

کاکُل کی تیرگی سے مکمل ہر ایک iiرات
چہرے کی چاندنی سے درخشاں ہے کائنات

دیتے ہیں جان، جنبشِ ابرو پہ iiمعجزات
اَفشا ہے "راز کن" کہ کشادہ حسن کا iiہات

ہیں شاخِ گل میں اوس کی بوندیں اَڑی iiہوئی
یا زلفِ مجتبٰی میں ہیں گِرہیں پڑی iiہوئی

آنکھیں ہیں یا چراغ اَبد کی فصیل iiکے
پلکیں ہیں یا حروف لبِ جبرئیل iiکے

عارض ہیں یا کنول مہ و انجم کی جھیل کے
اعضا ہیں یا نقوش خیالِ جمیل iiکے

چہرہ حسن کا ہے کہ شبیہہِ رسول iiہے
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دھول iiہے

یہ پھول پھول رنگ، طبیعت یہ باغ باغ
کونین پر محیط مزاجِ دل و iiدماغ

جس کی مئے اَنا سے پگھلنے لگے ایاغ
مہتاب حسنِ بندِ قبا سے ہے داغ iiداغ

جس کی مدد سے حق کی سدا برتری iiہوئی
جس کی قبا کو دیکھ کے دنیا ہری iiہوئی

جو دلفشیں گریز کرے نام و ننگ iiسے
انساں کو تولتا نہ ہو تیروتفنگ iiسے

جو آئینہ تراش لے وجدانِ سنگ iiسے
وہ امن آشنا، جسے نفرت ہو جنگ سے

صحرا، چمن کرے جو حدودِ چمن کے iiبعد
ایسا کوئی بشر نہیں دیکھا، حسن کے بعد

جس کا سلوک، خلقِ نبی کا سلام iiلے
حق دے کے جو عدو سے حقیقی مقام iiلے

دستِ اجل سے ہنس کے جو رخت دوام iiلے
اِک جنبشِ قلم سے جو پرچم کا کام iiلے

سلطانی بہشت، جسے کردگار iiدے
وہ کیوں نہ تاج و تخت کو ٹھوکر پہ مار iiدے

ٹکرائے گا حسن سے کہاں کوئی بے iiنسب
یہ وجہ ذوالجلال وہ اِبلیس کا iiغصب

حیدر کہاں، کہاں کوئی فرزندِ بنت iiشب
زہرا سے کیا ملے کوئی حمالہ iiالحطب

بیعت کی بحث ہی سرِ محفل فضول iiہے
وہ پیکرِ خطا تو یہ ابنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم iiہے

گردِ خزف کجا، رُخ دُر نجف iiکُجا
قطرہ کجا، یہ قلزمِ کوثر بکف iiکجا

در یوزہ گر کجا، شہ عالی شرف iiکجا
کنکر کجا، یہ جوہر حسنِ صدف iiکجا

"تحت الثریٰ کو ہمسرِ عرشِ علا iiکہوں؟
دنیا، ترے ضمیر کی پستی کو کیا iiکہوں؟

اے شہسوارِ دوشِ پیمبر مرے iiامام
اے والیِ بہشت بریں، رحمت iiتمام

تونے پیا ہے زہر سے لبریز غم کا iiجام
تجھ کو غرورِ عظمت سقراط کا سلام

انساں کو آشتی کا قرینہ سکھا iiدیا
تونے دلوں کو چین سے جینا سکھا iiدیا

عالم میں ہے نجاتِ بشر کی نوید iiتو
محشر میں باب خلدِ بریں کی کلید iiتو

دوبار راہ حق میں ہوا شہید iiتو
جنت تو کیا ہے، عرشِ معلی خرید iiتو

کیا زہر کم تھا، تلخ کلامی کے iiواسطے؟
اَبِ تیر آرہے ہیں سلامی کے iiواسطے

کیوں بجھ گیا چراغِ نبی کے مزار iiکا؟
کیوں رنگ اُڑ گیا ہے غمِ روزگار iiکا

بڑھتا ہے اِضطراب دلِ سوگوار iiکا
پردے میں شور کیوں‌ ہے کسی پردہ دار کا

پھر زخم ہوگیا کوئی تازہ، الہٰی iiخیر!
پھر گھر کو آرہا ہے جنازہ، الہٰی iiخیر!!

زہرا کے لال، تیرے چمن کو مرا iiسلام
تیری ہر اک اُداس بہن کو مرا سلام

عباس کی جبیں کی شکن کو مرا iiسلام
چھلنی بدن کو سُرخ کفن کو مرا سلام


صدمہ ترا بہت ہے شہ مشرقین کو
پُرسہ میں دے رہا ہوں اِمام حسین علیہ السلام کو

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اشعاردرشان حضرت زہرا(علیہاالسلام)
اقبال اور تصورِ امامت
شاعری، اسلام کی نظر میں
حیدر نہ ہوں تو فاتح خیبر نہیں ہوتا
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا...
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت
خوبصورت افکار
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ دوّم )
اشعاد در شان حضرت امام حسن علیہ السلام
عشق کربلائی

 
user comment