(محسن نقوی شہید)
چمکتا ہے کہاں افلاک پر مہرِ مبیں iiایسا
کہاں ہوگا ولایت کی انگوٹھی میں نگیں iiایسا
خدا محفوظ رکھے چشمِ بَد سے حسن حیدر علیہ السلام کو
بڑی مشکل سے پایا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانشیں iiایسا
رئیسِ.امامت
لوحِ جہاں پہ فکر کی معراجِ فن کا iiنام
لکھا ہے پنجتن کی حسیں انجمن کا iiنام
سوچا خزاں کے عہد میں جب بھی چمن کا iiنام
آیا مری زباں پہ امام حسن کا iiنام!
جس نے خدا کے دین کی صورت اُجال iiدی
وحشی دلوں میں امن کی بنیاد ڈال iiدی
سرچشمہء نجاتِ بشر، حسن کردگار،
انسانیت کے باغ میں پیغمبر بہار
حاجت روا، حسیں وہ اَنا مست iiبردبار
وہ اَمن و عافیت کی حکومت کا iiتاجدار
تشبیہہ دوں کسی سے مری کیا مجال ہے؟
بس اتنا کہہ رہا ہوں، حسن بے مثال ہے
زہرا سلام اللہ علیہا کا چاند، ابنِ علی علیہ السلام، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور!
جس کی جبیں سے پھوٹ رہی ہے شعاعِ طور
رقصاں ہے جس کی آنکھ میں ادراک کا iiسرور
جس کی ہر اک ادا سے نمایاں نیا iiشعور
چپ رہ کے جس نے باگ حکومت کی موڑ iiدی
کھولی زباں تو ظلم کی رنجیر توڑ iiدی!
وہ مجتبی وہ عالمِ لَوحِ فلک iiمقام!
معراج فکر، سدرہ نظر، عرشِ iiاختشام
ایسا سخی، مَلک بھی کریں جس کا iiاحترام
دشمن سے بھی لیا نہ کبھی جس نے iiانتقام
جس نے دعائے غیر کو تاثیر بخش دی
اپنے عدو کو اپنی ہی جاگیر بخش iiدی
اللہ رے آب و تابِ رُخِ ابنِ iiبوتُراب!
اب تک خراج دے کے گزرتا ہے iiآفتاب
لَوحِ جبیں، وہ علمِ امامت کا ایک iiباب
رفتار میں وہ عدل کہ محشر بھی دے iiحساب
بازو ہیں اس طرح سے عطا پر تلے iiہوئے
جیسے فلک پہ صلح کے پرچم کھلے ہوئے
کاکُل کی تیرگی سے مکمل ہر ایک iiرات
چہرے کی چاندنی سے درخشاں ہے کائنات
دیتے ہیں جان، جنبشِ ابرو پہ iiمعجزات
اَفشا ہے "راز کن" کہ کشادہ حسن کا iiہات
ہیں شاخِ گل میں اوس کی بوندیں اَڑی iiہوئی
یا زلفِ مجتبٰی میں ہیں گِرہیں پڑی iiہوئی
آنکھیں ہیں یا چراغ اَبد کی فصیل iiکے
پلکیں ہیں یا حروف لبِ جبرئیل iiکے
عارض ہیں یا کنول مہ و انجم کی جھیل کے
اعضا ہیں یا نقوش خیالِ جمیل iiکے
چہرہ حسن کا ہے کہ شبیہہِ رسول iiہے
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دھول iiہے
یہ پھول پھول رنگ، طبیعت یہ باغ باغ
کونین پر محیط مزاجِ دل و iiدماغ
جس کی مئے اَنا سے پگھلنے لگے ایاغ
مہتاب حسنِ بندِ قبا سے ہے داغ iiداغ
جس کی مدد سے حق کی سدا برتری iiہوئی
جس کی قبا کو دیکھ کے دنیا ہری iiہوئی
جو دلفشیں گریز کرے نام و ننگ iiسے
انساں کو تولتا نہ ہو تیروتفنگ iiسے
جو آئینہ تراش لے وجدانِ سنگ iiسے
وہ امن آشنا، جسے نفرت ہو جنگ سے
صحرا، چمن کرے جو حدودِ چمن کے iiبعد
ایسا کوئی بشر نہیں دیکھا، حسن کے بعد
جس کا سلوک، خلقِ نبی کا سلام iiلے
حق دے کے جو عدو سے حقیقی مقام iiلے
دستِ اجل سے ہنس کے جو رخت دوام iiلے
اِک جنبشِ قلم سے جو پرچم کا کام iiلے
سلطانی بہشت، جسے کردگار iiدے
وہ کیوں نہ تاج و تخت کو ٹھوکر پہ مار iiدے
ٹکرائے گا حسن سے کہاں کوئی بے iiنسب
یہ وجہ ذوالجلال وہ اِبلیس کا iiغصب
حیدر کہاں، کہاں کوئی فرزندِ بنت iiشب
زہرا سے کیا ملے کوئی حمالہ iiالحطب
بیعت کی بحث ہی سرِ محفل فضول iiہے
وہ پیکرِ خطا تو یہ ابنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم iiہے
گردِ خزف کجا، رُخ دُر نجف iiکُجا
قطرہ کجا، یہ قلزمِ کوثر بکف iiکجا
در یوزہ گر کجا، شہ عالی شرف iiکجا
کنکر کجا، یہ جوہر حسنِ صدف iiکجا
"تحت الثریٰ کو ہمسرِ عرشِ علا iiکہوں؟
دنیا، ترے ضمیر کی پستی کو کیا iiکہوں؟
اے شہسوارِ دوشِ پیمبر مرے iiامام
اے والیِ بہشت بریں، رحمت iiتمام
تونے پیا ہے زہر سے لبریز غم کا iiجام
تجھ کو غرورِ عظمت سقراط کا سلام
انساں کو آشتی کا قرینہ سکھا iiدیا
تونے دلوں کو چین سے جینا سکھا iiدیا
عالم میں ہے نجاتِ بشر کی نوید iiتو
محشر میں باب خلدِ بریں کی کلید iiتو
دوبار راہ حق میں ہوا شہید iiتو
جنت تو کیا ہے، عرشِ معلی خرید iiتو
کیا زہر کم تھا، تلخ کلامی کے iiواسطے؟
اَبِ تیر آرہے ہیں سلامی کے iiواسطے
کیوں بجھ گیا چراغِ نبی کے مزار iiکا؟
کیوں رنگ اُڑ گیا ہے غمِ روزگار iiکا
بڑھتا ہے اِضطراب دلِ سوگوار iiکا
پردے میں شور کیوں ہے کسی پردہ دار کا
پھر زخم ہوگیا کوئی تازہ، الہٰی iiخیر!
پھر گھر کو آرہا ہے جنازہ، الہٰی iiخیر!!
زہرا کے لال، تیرے چمن کو مرا iiسلام
تیری ہر اک اُداس بہن کو مرا سلام
عباس کی جبیں کی شکن کو مرا iiسلام
چھلنی بدن کو سُرخ کفن کو مرا سلام
صدمہ ترا بہت ہے شہ مشرقین کو
پُرسہ میں دے رہا ہوں اِمام حسین علیہ السلام کو