اب مذکورہ چاروں نظریات کوملاحظہ کرنے کے بعد آپ خود سوچئے کہ ہمارا فریضہ کیا ہونا چاہئے ؟ حقیقی اسلام کے تفکر کے ورثہ دار ہونے کی حیثیت سے ،اس تفکر کے مبلغ کی حیثیت سے، اس تفکر کی نشرو و اشاعت کی حیثیت سے ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ کیااسلامی دستورات کے ساری دنیا میں رائج ہوتا دیکھنے کی تمنا ہمارے دلوں میں نہیں ہے؟!! یقینا ہم سب کی دلی تمنا یہی ہے ۔ تو پھر آئیں ہم سب مل کر بیٹھیں ،غور کریں اور سوچیں کہ اس مغربی دنیا سے متاثرہ ماحول میں ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہئے ۔ حقیقی منجی بشریت سے عالم انسانیت کو روشناس کر انے کے لئے ہمارا لائحہٴ عمل کیا ہونا چاہئے ۔ہر زمانہ سے زیادہ اس زمانہ میں مہدویت پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔لہذا ضروری ہے کہ ہم اپناوقت زیادہ سے زیادہ مہدویت کے سلسلہ میں بحث کرنے اور گفت و شنود کی نشستیں بپا کرنے میں صرف کریں۔تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دیں جومختلف موضوعات پر تحقیق کر یں، امام زمانہ کی عالمی حکومت کی تشکیل کی راہوں اور اسکے بلند افکار کا تجزیہ کریںاور ساتھ ساتھ مغرب کی مہدویت کے سلسلہ میں زہر افشانیوں کا مقابلہ کرنے کی راہوں کی جستجو بھی ہو تاکہ اس عظیم خطرے سے مقابلہ کیا جا سکے کیونکہ اس طرح کے بے ہودہ افکارکا اثر جو کہ اسلام پر تھوپے جا رہے ہیں، فوجی حملوںسے کم نہیں ہے جو امریکہ نے اسلامی ممالک پر کئے ہیں یا کرنے والا ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو اسکی فکری شبخون ضرب اس حملہ سے کہیں زیادہ کاری اور خطرناک ہے ۔
وہ لوگ کفر کے سپاہی ہیں اور اپنے کفر پر استوار و قائم ہیں، وہ اپنے تمام تراسباب و وسائل کو استعمال کر رہے ہیں تا کہ مہدویت مخالف افکار کو دنیا میں رائج کر سکیں۔ ہم بھی اگرامام زمانہ ﷼ کے سپاہی ہیںتو ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم امام ﷼ کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم خود کو اس زمرے میں قرار دیں جسکے لئے معصوم نے فرمایاہے کہ مشرق سے کچھ لوگ خروج کریں گے جو امام زمانہ ﷼ کے قیام کی راہ کو ہموار کریں گے ۔حامیان ظہورسے مخصوص اس زریں و قابل فخر تمغہ کو ہمارے گلے کی بھی زینت بننا چاہئے: ”اللّھم اِنْ حال بینی و بینہ الموت الّذی جعلتہ علی عبادک حَتْمًا مَقْضِیًّا فَاَخْرِجْنِی مِنْ قَبْرِی موٴتَزِراً کَفَنی شَاھِراًسَیْفِی مُجَرِّداً قَناتی مُلَبِیًّا دَعْوَةَ الدَّاعی فی الحاضر و البادی“دعائے عہدہے کہ میںمنتظرکی حالت یہ ہوکہ شادابی و جوش و خروش چہرے سے چھلک رہا ہواور انتظار کا عالم یہ ہو کہ اگر مر بھی جائے توبھی یہ سوچ کرآسودہ خاطر رہے کہ کم از کم ظہور امام ﷼ کی راہ کو ہموار کرنے والوں میں میرا نام تو ہے ۔
منتظرین ظہور کا مرتبہ
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو بھی ہمارے مہدی ﷼ کا انتظار کرے گا اسکا مرتبہ اس مجاہد کاسا ہے جو راہ خدا میں خاک و خون میں غلطاں ہو،بلکہ اس شخص کی طرح ہے جوامام زمانہ ﷼ کے خیمے میںحاضر ہو اورآپکی ہمراہی کر رہا ہو ،بلکہ اس فرد کے مثل ہے کہ جو رسول خدا کی رکاب میں دین خدا کی نصرت کے لئے تلوار چلائے۔یہ تمام عظمت امام زمانہ ﷼ کے چشم براہوں اور آپ کے منتظرین کی ہے ۔
سوال وجواب
سوال نمبر (۱) تمام عالم اسلام اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے ہم طلاب کیا کر سکتے ہیں ،اس سلسلہ میں ہماری ذ مہ داری کیا ہے ؟
جواب: وہ انسان جو دوسروں کو جہاد کی دعوت دے رہا ہے، اسکے لئے ضروری ہے کہ خود اس نے جہاد کی لذت کو محسوس کیا ہو۔ وہ انسان جو دوسروں کو شہادت کے لئے آمادہ کر رہا ہے، اسکے لئے ضروری ہے کہ وہ شہادت کا جذبہ رکھتا ہو ۔ سب سے پہلا کام جو ہم طلاب کر سکتے ہیں وہ خود سازی اور تزکیہٴ نفس ہے اور خود سازی کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم جہاد اکبراور جہاد اصغر جیسے حساس مراحل میں بھی سر فراز و کامیاب بننے کے لئے کوشش کریں ۔آپ نے فوج کو پریڈکرتے اور رہر سل کرتے دیکھا ہو گا، وہ اس رہر سل کے ذریعہ اپنے آپ کو حملے کے لئے تیار کرتے ہیں اور جب حملے کا وقت آتا ہے تو نہ انہیں نیند آتی ہے نہ غنودگی ۔وہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں نیند نہ آئے ،ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہیں کہ کوئی سو نہ جائے۔ ہمارے یہاں (ایران و عراق جنگ کے دوران )حملے کی شب میں لوگ جاگا کرتے تھے، آنکھوں سے نیند غائب رہتی تھی اور خدا سے رازو نیاز میں مشغول رہتے تھے اور اس طرح دعا کرتے تھے کہ جیسے بالکل ابھی خدا سے ملاقات کے لئے جانے والے ہیں۔ گو یا بہشت بالکل نظروں کے سامنے ہے ۔یہ تو ایک لشکر کی کیفیت ہے لیکن ہم تو امام زمانہ ﷼ کے سپاہی ہیں، امام زمانہ کے سپاہی ہونے کا تاج ہمارے سروں پر ہے، آپ کے جانثارہونے کا تمغہ ہمارے سینہ پر سجا ہوا ہے۔ اب ایک سپاہی کا فریضہ اور ذمہ داری کیا ہے ؟ یہی ہے نا کہ اسے ہر وقت چوکنا رہنا چاہئے کہ نہ معلوم کس وقت یہ ندا سنائی دے” انا بقیتہ اللّہ “یہی ”ملبیا دعوة الداعی فی الحاضر والبادی“ اور اگر سنائی دے تو اس قدر آمادہ رہے کہ یہ صدا سنتے ہی نصرت امام ﷼کے لئے اٹھ کھڑا ہو ۔
اس طرح نہیں جیسے کچھ لوگ ایران کی دفاعی جنگ کے دوران یہ سوچتے تھے کہ ابھی تو ہم گھر بنا رہے ہیں، ابھی تو ہمیں شادی کرنا ہے ،اتنی بھی کیاجلدی ہے کچھ دن اورگزر جائیں تو ہم بھی محاذ جنگ پر چلیںگے۔ یہ سب نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ اسی زمانے میں کچھ لو گ ایسے بھی تھے جو شادی کے دوسرے ہی روز گھر سے نکل پڑے تھے اور محاذ پر پہونچ کر جناب حنظلہ ( غسیل الملائکة ) کی طرح جام شہادت سے سیراب ہوگئے تھے۔ حضرت آیت اللہ مصباح یزدی دام عزہ کے شاگردجناب نراقی پور کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے ایک سیدانی سے شادی کی، وہ بھی یہ کہہ کر کہ اس طرح وہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے محرم ہو جائیں گے۔ اپنی ہونے والی زوجہ سے کہا: ”تم جانتی ہو کہ میں محاذ پر جا رہا ہوں لہذا اگر چاہو تو اس شادی سے انکار کر سکتی ہو“ لیکن اس سیدانی نے قبول کر لیا اور شادی کے ایک ہفتہ بعد ہی وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہو گئے ۔یہ تو صرف ایک نمونہ ہے، اس طرح کے افراد ہمارے یہاں بہت ہیں۔بہر کیف میں عرض یہ کر رہا تھاکہ ہمارے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم ہر پل اپنے آپ کو امام کی را ہ میں جہاد کے لئے آمادہ رکھیں اور جیسے ہی ہمیں پتہ چلے کہ وقت جہاد آگیا ہے توفوراً نکل پڑیں اور بہانہ تراشی سے کام نہ لیں، یہی ہمارا اصلی وظیفہ ہے۔ دوسری چیز جوہمارے لئے ضروری ہے وہ طہارت روح ہے۔ اگر ہماری روح طاہر ہو اور جذبہ شہادت سے سر شار ہو تو پھرہم جس سے بھی گفتگو کریں گے اس کے دل پر ہماری گفتگو اپنا اثر چھوڑے گی۔ پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم امام زمانہ کی معرفت کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں ، اپنی محبت کو ارتقاء بخشیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسے مربی کو تلاش کریں کہ جو الٰہی تربیت سے ہمیں آراستہ کرے تاکہ ہمارے ذہن آپ﷼ کی معرفت سے سر شار اور ہمارے قلوب آپ ﷼کی محبت سے مالا مال ہو جائیں ۔
سوال نمبر(۲) غیر مسلم افراد دھیرے دھیرے اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں، لیکن مسلمانوں کی حالت روز بروز بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، ایسا کیوں ہے ؟ بر ائے مہربانی وضاحت فرمائیں ۔
جواب : ہم دیکھتے ہیںکہ مسلمانوں میں کچھ لوگ فرسودگی اور بے راہ روی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ، اس کے مختلف اسباب ہیں۔ یہ اسباب کبھی معیشتی ، کبھی سیاسی اور کبھی ذاتی ہوتے ہیں۔ بعض افراد اقتصادی اور معیشتی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بے دین یا غیر مسلم انکی مشکلات کو دور کر دیتا ہے تووہ اپنا دین بیچ دیتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو سیاسی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اورہمیشہ مقام و منصب کے چکر میں رہتے ہیں۔کسی پارٹی یاکسی گروپ سے وابستہ ہونے کے لئے جتن کرتے رہتے ہیںاور پارٹی انہیں ممبر شپ دے کر ان کادین و ایمان خرید لیتی ہے۔ یہ تمام ثقافتی و فرہنگی یلغار جو مسلمانوں پر ہو رہی ہے اور جو نئی نئی سازشیں انہیں دین سے منحرف کرنے کے لئے اپنائی جا رہی ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے یہ سب کچھ بہت معمولی چیز ہے ۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیة اللہ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ صرف خامیوں پر نظر نہ ڈالی جائے، اچھائیاں بھی دیکھی جاناچاہئیں یا یوں کہا جائے کہ آپ صرف خزاں کو نہ دیکھےں، بہار سے بھی لطف اندوز ہوں ۔صرف جو چیزیں ہم سے ترک ہو رہی ہیں انہیں ہی نظر میں نہ رکھا جائے، بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ کتنی چیزیں ایسی ہے جن میں اضافہ ہوا ہے ۔دینی امور میں بھی ایسا ہی ہے۔ شمسی سال کے مطابق ۱۳۵۱ء کا زمانہ تھا ،یعنی تقریبا ۳۲/ سال قبل کی بات ہے، میںاس وقت تیرہ سال کا تھا۔ اصفہان سے اپنے والد کے ساتھ ایام محرم میں جمعہ کے دن ہم لوگ مسجد جمکران۔قم روانہ ہوئے۔ نہ جانے کتنی مشکلات کے بعد ہمارے والد ہمیں جمکران لے کرپہنچے ۔سارا راستہ ہم نے پا پیادہ طے کیا۔کچھ دور چلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ مسافر گاڑیاں جمکران کی طرف جا رہی ہیں۔ میں نے سوچا ایک خستہ حال اور قدیمی مسجد ہے جہاںنہ کوئی بستی ہے نہ آبادی ،نہ کوئی چراغ ہے نہ شمع ،ہم لوگ بھی کسی طرح مسجد جمکران پہنچے ۔ہر طرف سناٹا تھا ،مسجد بھی بوسیدہ تھی، لوگ بھی بہت کم تھے، عصر میں صرف سات آٹھ لوگوں کو میں نے نماز امام زمانہ ﷼ پڑھتے دیکھا۔ وہ ۳۲ /سال پہلے کا زمانہ تھالیکن اب ذرا آپ مسجدجمکران کو ملا حظہ کریں۔اس سال ۱۵/ شعبان کو یہ اعلان کیا گیا کہ ۱ س سال بیس لاکھ زائر مسجد میں زیارت کے لئے موجود ہیں ۔ گزشتہ ہفتہ امام رضا ﷼ کی ولادت با سعادت کے موقع پر میرے کچھ احباب زیارت کی غرض سے مشہد جانا چاہتے تھے لیکن ٹکٹ نہیں مل سکے ،نہ ہوائی جہاز کا ،نہ ٹرین کا ،نہ ہی بس کا ۔ یہ سب خیرو برکت میں اضافہ نہیں تو پھر کیا ہے ؟اب اعتکاف کا بھی یہی حال ہے، میں اپنے طالب علمی کے زمانے میں جب قم آیا تو یہی دیکھا کہ خاص ایام میں کچھ لوگ آتے ہیں اور مسجد امام کے کسی گوشے میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس زمانے میں صرف ایک ہی مسجد تھی جہاں اعتکاف ہوتا تھا، شاید پورے ایران میں صرف قم اور قم میں بھی صرف مسجد امام تھی کہ جہاں اعتکاف ہوتا تھا۔ اس وقت کوئی یہ بھی نہیں جانتا تھاکہ اعتکاف کیا ہوتا ہے۔ ہم اس وقت کچھ ضعیف العمر لوگوں کواعتکاف میںد یکھتے تھے کہ جنکی ڈاڑھی سفید اورکمر جھکی ہوئی ہوتی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا یہ لوگ کون ہیں اورکیا کر رہے ہیں؟! ان سے پوچھا جاتا تھا کہ یہ سب کیا ہے تو وہ جواب دیتے تھے کہ ہم اعتکاف کے لئے آئے ہیں، ہم جانتے بھی نہیں تھے کہ یہ اعتکاف کیا ہوتا ہے لیکن آج عالم یہ ہے کہ اس قدر فضا اور جگہ ہونے کے باوجود بھی اگرآپ تین مہینہ پہلے اپنے نام کا اندراج نہ کرالیں تو بھی آپ کو جگہ ملنے سے رہی !!! اوریہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ اس وقت اعتکاف کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد جوانوں کی ہوتی ہے !یہ سب لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ کیا یہ لوگ بہشت سے نازل ہوئے ہیں ؟ نہیں، اسی سرزمین کے رہنے والے ہیں، یہیں کے باسی ہیں ۔ایک روز جب اعلان کیا جاتا ہے کہ دینی دستورات کی پاسداری اور دینی اصولوں کے دفاع کے لئے جوان آگے بڑھیں،تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ نکل پڑتے ہیں۔تین سال پہلے رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای دام عزہ نے یہ اعلان کیا کہ میں چاہتا ہوںکہ اس سال عید الفطر کے موقع پر ایک لاکھ لوگ مصلائے تہران میں جمع ہوں ،میں ان سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دیکھنے میں آیا کہ تقریباً ۲۰/لاکھ لوگ وہاں رہبر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے ۔وہاں کے ذمہ داروں کو معذرت کرنا پڑی کہ ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں ہے!! یہ وہ جذبہ ہے جسے شیعی جذبہ کہا جاتا ہے، یہ شیعوں کا جذبہ ہے۔ باطل کے اندر صرف جولان ہے:” ان للباطل جولة و للحق دولة“۔ باطل دریا کی موج کی طرح صرف سامنے نظر آنے والی چیز ہے ،پانی بڑے سکون و اطمینان سے روں دواں رہتاہے لیکن وہ موج ہے جس کے اندر طغیانی دیکھی جا تی ہے اسکے اندر آواز ہے، حرکت ہے، اٹھان ہے لیکن جیسے ہی یہ سب کچھ ختم ہوا تو صرف ٹھہراہوا پانی ہے اور کچھ نہیں۔ آج جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے وہ دشمن کے حربے ہیں۔ البتہ انتا ضرور ہے ان سب باتوں کو بے اہمیت نہیں سمجھنا چاہئے ،جہاں تک ہو سکے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا چاہئے ۔کم از کم قوم اور قبیلہ کی حد تک اصلاحی راہ و روش کے ذریعہ ایمان کو باور کرانے کی کوششں کرنا چاہئے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو ترک نہیں کرنا چاہے ۔یہ سب بہت ضروری ہے، اپنی حالت کا محاسبہ ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ ہمیں کیا کام کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خدا کی کسی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے! وہ یوں ہی کسی سے کچھ نہیں کہے گا ۔ وہ تو فرما رہا ہے: ” و من یرتد منکم عن دینہ سوف یاتی اللّہ بقوم یحبھم و یحبونہ ۔۔۔۔“اے لوگو! ہوشیار ہو جاوٴ، اگر تم نے اپنے دین سے ہاتھ اٹھا لیا تو خدا کسی اور کو بھیج دے گا اور اپنے دین کی رسالت کافخرکسی اور کے حوالے کردے گاکیونکہ خدا ان کو دوست رکھتا ہوگا اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہوں گے۔ وہ لوگ اہل یمان کے مقابل خضوع و خشوع رکھنے والے ہیں اور کفار کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار ۔
آپ دیکھیںکہ مکہ میں اسلام کا آغاز ہوتا ہے لیکن اسکا رسوخ کہاں تک ہے؟! ایران سے لے کر دیگر ممالک تک۔ اب آپ دیکھیں کہ اس وقت مدینہ کے شیعوں کی تعداد زیادہ ہے یا پاکستان اور ایران کے شیعوں کی تعداد زیادہ ہے ۔یہ اسی لئے ہے کہ خدا کو کسی سے کوئی لگاوٴ نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دین الٰہی کے نزول کی جگہ مکہ مکرمہ تھی اور مکہ ایک مقدس جگہ ہے اور ہمیشہ رہے گی اور مسلمانوں کی توجہات کا مرکز رہے گی، لیکن وہ دین کہ جسکی تلاش میں ہم ہیں، اہل مکہ نے اسے قبول نہیں کیا ۔وہ حاجی کہ جو شیعہ ہیں کیا وہ خودسعودی عرب کے رہنے والے ہیں یا کہیں اور کے؟! آج شیعیت کا اثر و رسوخ دیکھیں، امریکہ میں بھی شیعوں کی خاصی تعداد ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو امریکہ میں پیدا ہوئے، وہیںپلے بڑھے، لیکن امام زمانہ﷼ کے خالص شیعہ ہیں۔ میرے پاس وقت نہیں بچا ورنہ میںمزید بیان کرتا کہ وہاں کے مسلمان اورجوان کیسے ہیں ۔
لہذا میں یہی کہوں گا کہ مسلمانوں کی حالت پر جب بھی ہم نظر ڈالیں تو خزاں کے ساتھ ساتھ بہار بھی دیکھیں، انکی خامیوں کے ساتھ ساتھ انکی وہ خوبیاں بھی دیکھیںجو پہلے نہیں تھیں لیکن اب فروان ہیں۔میں آپ سبھی لوگوں سے وقت کی تنگی کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔امید ہے کہ انشاء اللہ میری یہ مختصر سی گفتگو امام زمانہ﷼ کی رضایت کاسبب بنے گی۔