چارجون سید روح اللہ خمینیکی برسی کا دن ہے۔امام خمینیکی قیادت میں 1979 میں دنیائے اسلام کا پہلا عوامی انقلاب رونما ہوا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کا سب سے طاقتور شاہی نظام حکومت زمین بوس ہوگیا۔ کسی اہل نظر نے کیا خوب کہا ہے کہ جب مصر میں الازہر الشریف کا علمی دبدبہ، صوفیاءکی روحانیت اورہردلعزیزی اوراخوان المسلمین کا نظم وضبط سب آپس میں مل جائیں تو انقلاب ظہور پذیر ہوگا۔ ایران کے تناظر میں یہ تینوں چیزیں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی شخصیت میں جمع کردی تھیں۔امام خمینی علم فقہ کے بلند ترین مقام پر فائز تھے اور ایرانی عوام کی عظیم اکثریت مسائل فقہ میں ان ہی کی طرف رجوع کرتی تھی۔ تصوف وعرفان کے لحاظ سے ان کا شمار صاحب حال اہل اللہ میں ہوتا تھا۔ ان کی عارفانہ غزلیں حافظ کی غزلوں کے برابر مانی جاتی ہیں۔ ان کے پیروکاروں اور مریدوں نے بالعموم اورطلباءو تلامذہ نے بالخصوص کمال نظم وضبط کے ساتھ ان کے انقلابی پیغام کو ایران کے شہرودیہات اورکوچہ وبازار میں اس طرح سے پھیلایا کہ شاہی جبرواستبداد کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور انقلاب کی پرنور صبح کے طلوع ہونے کا راستہ ہموار کیا۔
انقلاب کے بعد ایران میں امام خمینی اور ان کے ہم فکر علماءکے سیاسی اسلامی تصورات پر مبنی نظام حکومت جس طرح کامیابی سے چل رہا ہے وہ ہر مسلمان کے لئے باعث اطمینان ہونا چاہیے۔ عالم اسلام میں سیاسی اصلاحات اور مثبت تبدیلیوں کے لئے ایران کے انقلابی نظام سیاست کی کامیابی یا ناکامی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے عالم اسلام کے مستقبل پر سیاسی لحاظ سے انتہائی گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی نت نئی کامیابیوں سے مسلمانوں کا مغرب زدگی کا شکار انتہا پسند طبقہ چڑتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ ایران کا انقلابی نظام حکومت جمہوری نہیں ہے۔ کیونکہ جمہوری نظام حکومت کے مقابلے میں دنیا میں استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی نظام ہائے حکومت رائج ہیں اس لئے ان مغرب زدہ لوگوں کا کسی نظام کو غیر جمہوری کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظام استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت سے عبارت ہے۔کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری نظاموں میں عوام کو چند بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔قانونی مساوات، آزاد عدلیہ، حکومت کا عوام اور عوامی نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہونا اور افراد پر قانون کی بالادستی جمہوریت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اس لئے اگر کسی نظام کو جمہوری کہاجائے تو گویا اسے اچھا نظام حکومت ہونے کی سند دی جاتی ہے اورجس نظام کو غیر جمہوری اور استبدادی کہا جائے تو اسے گویا ناپسندیدہ اوربرا نظام قرار دیا جاتا ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ ایران کے اسلامی انقلابی نظام حکومت کی ماہیت کو جمہوری ثابت کرنے سے پہلے اس انقلاب میں کار فرما ایران کے سیاسی عمل کی مختصر تاریخ بیان کروں۔ مگر اس سے بھی پہلے دومسائل کی وضاحت ضروری ہے۔
آج کے دور میں نظام حکومت کس طرح کا ہونا چاہیے کے بارے میں اسلام میں قرآن و سنت میں صرف رہنما اصول موجود ہیں۔ تفصیلات وجزئیات طے کرنا ہر دور کے اصحاب دانش وبینش، اسلامی مفکرین ،علماءاور عام مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر وہ نظام حکومت جو قرآن وسنت کے رہنما اصولوں کے مطابق یا ان اصولوں کی کسی ممکنہ تعبیر کے مطابق ہوگا وہ اسلامی نظام حکومت ہے۔ اس کے برعکس ہروہ نظام حکومت جو ان رہنما اصولوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہو وہ غیر اسلامی نظام حکومت ہو گا چاہے اس پر اسلام کی کتنی ملمع سازی کی جائے۔ اس اصول کے مطابق ہر وہ نظام جو درحقیقت بادشاہی سے عبارت ہو غیر اسلامی نظام حکومت ہے، کیونکہ بادشاہت قرآن وسنت میں دیے گئے رہنما اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ چاہے اس بادشاہت کو ایمان فروش علماءاورمجتہدین کتنا ہی اسلامی قراردیں اور شاہی فقیہ لاکھ نمائشی بیعت کی رسم ادا کرتے پھریں۔ اسی طرح مثلاً القاعدہ جیسی تنظیموں کا عامة المسلمین کی رضا مندی کے بغیر بندوق کی نوک پر قہروجبر سے اسلام یا شریعت کے نام پر کوئی بھی نظام رائج کرنا غیر اسلامی ہوگا۔ سیرت سے یہ بات ثابت ہے کہ حکومت وریاست کی تشکیل اور قیام عامة الناس کی عظیم اکثریت کی تائید پر مبنی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ آنحضرت نے بدر کی اقدامی جنگ کرنے کا حتمی فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جب تک انصار مدینہ کے روسا نے ان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس اقدامی جنگ کی کھلے لفظوں میں تائید نہیں کی۔ انصار کی تائید اور رضا مندی کی ضرورت اس لئے تھی کیونکہ بیعت عقبہ میں انصار نے دفاعی جنگ میں سردھڑ کی بازی لگانے کی حامی بھری تھی، مگر اس وقت ان کے ساتھ اقدامی جنگ کی بات نہیں ہوئی تھی۔ صحیح احادیث میں نبی پاک نے مسلمانوں پر زبردستی مسلط ہونے والوں پر لعنت کی ہے اور ایسے لوگوں کودوزخی قرار دیا ہے۔
دوسری سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی مسلمان ملک یا معاشرے میں یا اصولی طور پر آج کے دور میں یا کسی اور زمانے میں کسی طرح کا سیاسی نظام یا نظام حکومت ہونا چاہیے یہ مسلمہ طورپر ایک تحقیقی اورنظری مسئلہ ہے اور اس کا تعلق علم الکلام سے ہے۔ اس میں عام لوگ اگر کسی اسلامی دانشور یا عالم کی نگارشات وفرمودات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ صرف مسئلے کو سمجھنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ سارے تحقیقی اور نظری مسائل میں یہی رویہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عام مسلمانوں کے لئے عبادات ومعاملات کے مسائل عملیہ میں کسی ایسے عالم کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا جواجتہاد کرکے مسائل فقہ کی تخریج کرتا ہو۔ اس رجوع کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔مگراس مجتہد یا فقیہ کے لئے علوم عربیہ، اصول فقہ اورقرآن وسنت کا ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ سارے مسائل نظری ہوتے ہیں۔اسی لئے ایسے ماہر کے لئے ان میں اجتہاد واجب اور تقلید حرام ہوتی ہے۔ تاہم نظری مسائل میں ہر کسی کے لئے تقلید مکروہ اور حرام ہوتی ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب میں کارفرما سیاسی عمل کو سمجھنے کے لئے ہمیں انقلاب سے سو سال سے بھی زیادہ پیچھے جانا ہوگا۔ انیسویں صدی میں دو امور نے دنیائے اسلام کے ارباب علم ونظر اور اصحاب دانش وبینش کو بہت متاثر کیا۔ ان میں سے ایک تو یورپی استعماری ممالک کی افریقہ اور ایشیا میں فتوحات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور دوسرا یورپ میں فکری، سیاسی اور صنعتی انقلابات کا پیہم ظہورتھا۔ یورپ میں نشاة ثانیہ ۔۔۔۔۔روشن خیالی ۔۔۔۔۔(عربی میں اسے تنور کہتے ہیں) انقلاب فرانس، برطانیہ میں جمہوری طرز حکومت کا ظہور وغیرہ حقائق نے عالم اسلام کے فہمیدہ طبقات میں حل چل مچادی تھی۔ یورپ میں چلنے والی تحریکوں میں بہت سی ایسی قدروں کو اجاگر کیا گیاجن کا شمار مسلمانوں کی گم گشتہ میراث میں کیا جاسکتا ہے۔ امام علیؑ کی شہادت کے نتیجے میں جو نظام خلافت وحکومت نابود ہوا اس کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے کئی کر بلائیں وجود میں آئیں مگر وہ نظام پھر قائم نہ ہوسکا۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے دوران تمام انقلابی اقدامات کی ناکامیوں نے علماءمیں اس تاثر کو مضبوط سے مضبوط تر کیا کہ انقلاب لانا تو ناممکن ہے اس لئے بادشاہی پرہی گزارا کرنا پڑے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ بادشاہوں کو پندونصیحت کرنے پر اکتفا کرنے لگے۔
یورپ کے نت نئے مثبت انقلابوں نے عالم اسلام میںبہت سے علماءاوراہل دانش کے دلوں کو پھر سے حسینی ارمانوں سے منورکردیا۔انھوں نے عالم اسلام میں بھی سیاسی اصلاحات کے لئے کوششوں کا آغاز کیا۔ سید جمال الدین افغانی کے نام سے کون واقف نہیں۔ دیگر مصلحین میں علامہ کو کبی اور شیخ محمد عبدہ جیسی بلند قامت شخصیات شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اس وقت دو ملک تھے۔ ایک خلافت عثمانیہ اور دوسرا ایران۔ خلافت عثمانیہ میں نظام حکومت کونمائندہ دستوری جمہوری بنانے کے لئے بہت سے علماءاور مفکرین نے بھرپور کوششیں کیں۔ پہلے کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ خلافت عثمانیہ میں آئین کے مطابق ایک نمائندہ دارالشوریٰ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ شاہی مزاج خلیفہ نے آئین کو منسوخ کرکے مارشل لاءنافذ کیا اور پھر سے مطلق العنان حکمران کی طرح حکومت کرنا شروع کی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو تقریباً 30سال بعد خلافت عثمانیہ کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹنا بہت دشوار ہوتا۔
اس دور میں بھی ایران کے علماء مجتہدین کا سب سے بڑا مسکن دیگر شیعہ علماء کی طرح نحف اشرف ہوتا تھا جہاں امام علی کرم اللہ وجھہ کا روضہ مبارک موجود ہے۔ اسی نجف کے بارے میں حکیم الامت شاعرمشرق کہتے ہیں:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
نجف عراق میں واقع ہے جو اس وقت خلافت عثمانیہ میں شامل تھا۔ شیعہ علماء بھی اپنے سنی بھائیوں کی طرح خلافت عثمانیہ کو مضبوط اور توانا دیکھنا چاہتے تھے۔ عراق کے شیعہ علماء نے خاص طور پر سنی علماء کی طرف سے خلافت عثمانیہ میں اصلاحی کوششوں کی حمایت کی اور خلافت عثمانیہ کو کمزور کرنے والی ہر کوشش کا سر دھڑ کی بازی لگا کر مقابلہ کیا۔ البتہ ایران سے تعلق رکھنے والے شیعہ علماء نے مشروطیت کے نام سے شاہی مطلق العنانیت کے خلاف اور نمائندہ دستوری حکومت کے حق میں زبردست تحریک چلائی۔ مشروطیت کا ساتھ دینے والی سب سے بڑی شخصیت امام المجتھدین ملا محمد کاظم خراسانی تھے۔یہ شیعہ اصول فقہ پر آج تک لکھی گئی بہترین کتاب کفایة الاصول کے مصنف ہیں۔ بڑے بڑے مجتہدین ان کی علمی قابلیت اور قدرومنزلت کے سبب ان کے سامنے اپنے آپ کو طفل مکتب محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے مشروطیت کی حمایت میں مزید دو علماءشیخ محمد عبداللہ مازندرانی اورشیخ محمد حسن تہرانی کے ساتھ مل کر فتویٰ جاری کیا تھا۔ اسی دور میں علامہ نائینی نے مشروطیت کے حق میں تنبیہ الامة وتنزیہ الملہ تحریر کی اور پہلی دفعہ فقیہ کی سربراہی میں حکومت (ولایت فقیہ)کا تصورپیش کیا۔ یہ حقیقت انتہائی افسوس ناک ہے کہ اس وقت کے سب سے بڑے مرجع تقلید آقائے سید کاظم یزدی نے تحریک مشروطیت کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ پہلے پہل تو بادشاہ وقت کومشروطیت کی تحریک کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا اور یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔مگر یہ کامیابی دیر پا ثابت نہ ہوسکی۔ کچھ عرصہ بعد پھر سے مطلق العنان بادشاہت کا دور دورہ شروع ہوا۔ قاچاری بادشاہوں کی جگہ فرعون صفت محمد رضا پہلوی منصب شاہی پر جاگز ین ہوا۔اول الذکر کوایران کی سیاسی تاریخ میں استبداد صغیر اور ثانی الذکر کو استبداد کبیر کہتے ہیں۔
اس کے بعد 1950 کے لگ بھگ ایک تحریک اٹھی جس کی قیادت ڈاکٹرمصدق کررہے تھے۔ اس میں علماءکی طرف سے آیة اللہ کاشانی پیش پیش تھے۔ یہ تحریک بھی غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنے،بادشاہ کوآئین کا پابند بنانے اور عوام کی نمائندہ اسمبلی کوبااختیار کرنے کے لئے تھی۔ اس میں بھی پہلے پہل کامیابی ملی۔ ڈاکٹر مصدق نے بطور وزیراعظم اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کیا اور پارلیمان کی تائید سے ایرانی تیل کی صنعت کو قومی تحویل میںلے لیا۔ اس وقت بھی بادشاہ کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔ بعد میں بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی مدد سے بادشاہ واپس آکر مطلق العنان فرماں روا کے طور پر حکومت کرنے لگا۔ سی آئی اے کی سرپرستی میں فوج نے عوامی انقلابی قوتوں کوکچل کررکھ دیا۔ اس واقعے کے تقریباً 25سال بعد وہ عظیم اور مکمل انقلاب امام روح اللہ خمینی کی قیادت میں آیا جس نے عالمی استعماری طاقتوں اور ان کے گماشتوں کی طرح کام کرنے والے خطے کے شاہی اوراستبدادی حکمرانوں کی نیندیں حرام کردیں۔
جیسے کہ بیان ہوچکا ہے یہ چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کا پہلا عوامی انقلاب تھاجس طرح انقلاب فرانس دنیا کا پہلا عوامی انقلاب تھا۔ انقلاب کے بعد ایک نئے نظام کی تشکیل وتعمیرکے عمل کا آغاز ہوا۔ یہ نظام نہ صرف جمہوری بلکہ مثالی جمہوری نظام ہے جو کامیابی کے ساتھ گذشتہ تیس سالوں سے چل رہا ہے۔
(۱)انقلاب کے بعد ایک آئین مرتب کیا گیا۔ اول اپریل 1979 کے دن یہ دستور عوام کے سامنے منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ ایرانی عوام کی بھاری اکثریت (قریب بہ اتفاق) نے اس کی منظوری دے دی۔ جمہوری نظاموں میں آئین عوام یا عوام کے نمائندے منظور کرتے ہیںاورایران میں بھی عوام نے اسلامی جمہوری آئین کا انتخاب کیا۔
(۲)ایران کے آئین کی رو سے رہبر کا منصب سب سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ پہلے رہبر کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ایران کی اکثریت کا مرجع تقلید ہونا شرط تھا۔ چونکہ تقلید عام مسلمان اپنی آزاد مرضی سے کرتے ہیں اس لئے یہ طریقہ بھی عین جمہوری تھا۔اس وقت مجلس خبرگان کا رہبر کے انتخاب میں یہ کام تھا کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کس مجتہد کی ایرانی عوام کی اکثریت تقلید کرتی ہے۔ بعد میں مرجعیت کی شرط کو حذف کیا گیا اور اب مجلس خبرگان بوقت ضرورت رہبر کا انتخاب کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ اس مجلس کا کام رہبر پر کڑی نظر رکھنا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ رہبر میں کوئی ایسا عیب توپیدانہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے اسے منصب رہبری سے ہٹانا ضروری ہوگیا ہو۔ علاوہ ازیں آئین میں ترمیم کے عمل میں بھی مجلس خبرگان کا کردار ہے۔
چونکہ مجلس خبر گان کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر مسلمان عوام کرتے ہیں اس لئے رہبر کا انتخاب بھی جمہوری ہے۔ کیا پارلیمانی جمہوریت میں وزیراعظم کا انتخاب عوام کے منتخب نمائندے نہیں کرتے؟
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ بھارت کے ایوان بالا کے ممبر تھے اور بھارت کے ایوان نمائندگان نے انھیں وزیراعظم کے منصب کے لئے چنا جبکہ اس سے پہلے بھی انھوں نے کبھی برا ہ راست عوام کی نمائندگی کسی بھی حیثیت میں نہیں کی تھی۔ اس کے باوجود مغرب زدہ ذہنوں کے مطابق من موہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ عین جمہوری ہے۔
ایران کے موجودہ رہبر جناب آیة اللہ سید علی خامنہ ای عوام کی منتخب مجلس خبرگان سے منصب رہبری کے لئے چنے جانے سے پہلے دومرتبہ ایران کے صدارتی منصب پر براہ راست انتخابات کے ذریعے بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے۔
(۳)ایران میں مقننہ یعنی مجلس شوریٰ کا انتخاب وقفے وقفے سے عوام بالغ رائے دہی کے اصول پر کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ہمیشہ مجلس کا انتخاب آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے، چاہے جنگ ہویا امن ۔
(۴)ایران میں انتظامیہ کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب بھی عوام براہ راست بالغ رائے دہی کے اصول پر وقفے وقفے سے کرتے ہیں۔ انقلاب سے لے کر آج تک ہمیشہ صدارتی انتخابات آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتے رہے ہیں۔ صدر کابینہ کے وزراءکو نامزد کرتا ہے اورعوام کی منتخب مجلس کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرتا ہے۔
(۵)انقلابی ایران ایک فلاحی ریاست ہے اور ہر ترقی یافتہ جمہوری معاشرے اورملک کی طرح ایران میں بھی لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ عدلیہ بالکل انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہے۔ قانونی مساوات بھی ہے اور قانون وآئین کی بالادستی بھی۔ نیچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئی دستور کا پابند ہے۔ ہرکسی حکومتی عہدہ دار کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ وزرا صدر اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں ۔صدر پارلیمان اوررہبر کے سامنے جوابدہ ہے اور رہبر منتخب مجلس خبرگان کے سامنے جوابدہ ہے۔ کوئی شخص آئین وقانون سے برتر نہیں اوراعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز ہر شخص آئین وقانون کا زیردست ہے چاہے وزرا ہوں صدر ہو یا رہبر۔
source : http://rizvia.net