اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

سکارف ترک خواتین کے لیے وقار کی علامت بن گیا ہے

استنبول میں قائم غیر سرکاری تنظیم ایف ایس ای ٹی کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ترکی کی ساٹھ فیصد خواتین سر کو کسی نہ کسی چیز سے ڈھانپتی ہیں۔

سروے کے مطابق سکارف ترک خوتین کے ہلیے وقار کی علامت بن گیا ہے ۔کیا مسلم خواتین کے سر پر پہننے والا اسکارف گلیمر کی علامت بن سکتا ہے؟ ترکی کی قدامت پسند مسلم خواتین کے لیے پہلا فیشن میگزین اس چیلنج کو جیتنے کے لیے پر عزم دکھائی دیتا ہے۔ ماہانہ میگزین Ala گزشتہ سال جون میں شروع کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ خاص طور پر ترکی کی ان خواتین میں کافی مقبولیت اختیار کر گیا ہے جو قدامت پسندانہ سوچ تو رکھتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ فیشن کو بھی پسند کرتی ہیں۔

Ala کے معنی حسن ہیں اور یہ میگزین Cosmopolitan، Vogue اور Elle میگزینز کے ترک شماروں کی مقبولیت کے قریب پہنچ چکا ہے۔ فی الوقت اس میگزین کی 20 ہزار کاپیاں ہر ماہ نکلتی ہیں۔Ala کے صفحات قدامت پسند اسلامی لباس والی ماڈلز سے بھرے ہوتے ہیں۔

تمام ماڈلز نے سر پر اسکارف اور لمبے لباس پہن رکھے ہوتے ہیں اور ان کے بازو اور گردن بھی ڈھکے ہوتے ہیں۔اس میگزین کی مدیرہ 24 سالہ ہولیا اسلان ہیں جنہیں ترکی میں اسکارف سے وابستہ مسائل کا ذاتی تجربہ رہا ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران اسکارف پہننے پر اصرار کیا تھا، جس کے باعث انہیں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ملازمت کرنا پڑی۔ ’اب حالات معمول پر اور بہتری کی جانب آ رہے ہیں۔ اب سر پر اسکارف پہننے والی ہماری ساتھی خواتین یونیورسٹی میں جا سکتی ہیں اور ان کے پاس پہلے سے زیادہ پیشہ وارانہ مواقع ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پچھلے چار پانچ سالوں میں ہم نے بہت کچھ تبدیل کر لیا ہے۔‘Ala کو دو اشتہاری کمپنیوں نے شروع کیا تھا اور اس میگزین میں صحت کے عام مشورے، سفر کے صفحات اور شوبز کی مشہور شخصیات کے انٹرویو شامل ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اس میں اسلامی معلومات کا اچھا خاصا حصہ بھی مختص ہوتا ہے۔میگزین میں شائع ہونے والے ایک اشتہار کی سرخی کچھ یوں تھی، ’پردہ خوبصورتی کی علامت ہے‘۔ اس کے نیچے لکھا تھا: ’میرا انداز، میرا انتخاب، میری زندگی، میرا سچ، میرا حق۔‘تاہم اس طرح کے نعروں کا زیادہ تعلق ماضی کی جدوجہد کے حوالے سے ہے جب سماجی منظر نامے پر سیکولرازم کا غلبہ تھا اور سر پر پہننے والے اسکارف پر منفی ردعمل ظاہر کیا جاتا تھا۔

2002 ء میں ترکی کی اسلامی جڑیں رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سیکولرازم کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑ گئی ہے۔اگرچہ 2002 ء میں ترکی کی اسلامی جڑیں رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سیکولرازم کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑ گئی ہے مگر اب بھی سرکاری ملازمین کے لیے اسکارف پہننا منع ہے۔

اس کے علاوہ بعض یونیورسٹیوں میں اسکارف پہننے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ دیگر میں اب بھی اس کی ممانعت ہے۔استنبول میں قائم غیر سرکاری تنظیم ایف ایس ای ٹی کی جانب سے 2006 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ترکی کی ساٹھ فیصد خواتین سر کو کسی نہ کسی چیز سے ڈھانپتی ہیں۔Ala کو امید ہے کہ وہ قدامت پسند خواتین کے فیشن پر اثر انداز ہو کر اپنی اشتہارات کی آمدنی میں اضافہ کر سکے گی.


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مردوں کے حقوق
یوم قدس کی تاثیر

 
user comment