اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

صہیونی ریاست کی آخری سانسیں

 

 

غزہ کے محصورعوام کے لئے انسان دوستانہ امداد لے جانے والے بین الاقوامی قافلے پرصہیونی ریاست کے وحشیانہ اوردہشت گردانہ حملے کے بعد جس میں ترکی کے متعدد شہری شہید ہوئے ہيں ترکی اوراسرائیل کے تعلقات سخت بحرانی ہوگئے ہیں۔

ترکی کی بندرگاہ مرمرہ سے غزہ کے لئے روانہ ہونےوالے انٹرنیشنل فریڈم فلوٹیلا پر صہیونی فوج کے حملے میں مارےگئے سولہ افراد میں سے نوافراد ترکی کے شہری تھے۔ اس سفاکانہ حملے کے بعد ترکی نے اسرائیل کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس سے باضابطہ طورپرمعافی مانگنے کوکہا اوراس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ حملہ آوروں کوسزا دے۔ اس درمیان واقعے کوایک ہفتے کا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی ترکی کے مختلف شہروں میں اسرائیل مخالف مظاہروں کا سلسلہ بدستورجاری ہے اورترک عوام و پارلیمنٹ کےممبران دونوں ہی اپنی حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرلے۔

اسرائیل کے اس دہشت گردانہ اقدام کے بعد ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغان نے اسرائیلی حکام کوقاتل اوردہشت گرد قراردیا اورخبردارکیا کہ ترکی کے صبر کا پیمانہ لبریزہوا چاہتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ انقرہ اورتل ابیب کے تعلقات گذشتہ کئي عشروں کے مقابلے میں اس وقت انتہائي بحرانی دورسے گذررہے ہيں ۔ اگرچہ رجب طیب اردغان کی اسلام پسند جماعت انصاف وترقی کی قیادت میں ترکی میں برسراقتدارآنے والی حکومت سے پہلے ترکی اسرائیل کا بہت ہی قریبی  دوست مانا جاتا تھا اوردونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالرکے تجارتی اورفوجی معاہدے ہوا کرتے تھے مگرپچھلے چند برسوں سے دونوں حکومتوں کا ہنی مون ختم ہوگیا  اور ڈیوؤس اجلاس میں غزہ کے محاصرے کولے کرصہیونی ریاست کے صدر شعمون پریزکے ساتھ ترک وزیرا عظم رجب طیب  اردوغان کی جھڑپ دونوں حکومتوں کے تعلقات میں دراڑ پڑنے کا نقطہ آغازثابت ہوئی۔اس اجلاس میں ترک وزیرا عظم نے صہیونی ریاست کے صدر شعمون پریزکوبچوں کا قاتل اوردہشت گرد کہہ کرپوری دنیا کوچونکا دیا تھا اورپھر شمعون پریزکی طرف سے غزہ پراسرائیلی حملے کا دفاع کئے جانے کے خلاف اعتراض کرتے ہوئے اردغان اجلاس سے اٹھ کرباہر چلے گئے۔اس کے بعد ترک حکومت نےگذشتہ برس صہیونیوں کی توسیع پسندانہ اورجارحانہ پالیسیوں پراعتراض کرتے ہوئے نیٹوکے ساتھ سالانہ فوجی مشق میں اسرائیل کوشرکت کی اجازت نہيں دی۔ اس پوری صورت حال میں اسرائیل اوراس کے حامیوں کا ترکی سے ناراض ہونا کوئی تعجب کی بات نہيں ہے مگر ان کا کوئی بس نہيں چل پارہا تھا۔ رجب طیب اردوغان کی انصاف وترقی پارٹی نے گذشتہ دوعام انتخابات میں جومکمل طورپرآزادانہ اورمنصفانہ ہوئے تھے واضح اکثریت حاصل کی اورآج اس حکومت کوترک عوام کا بھاری مینڈیٹ اورحمایت حاصل ہے چنانچہ یہی وہ چیزہے جو رجب طیب اردوغان کی حکومتی پالیسیوں کے لئے خواہ وہ داخلہ پالیسی ہویا پھر خارجہ پالیسی ایک مضبوط پشتپناہ سمجھی جاتی ہے۔موجودہ حالات میں علاقے میں جوسیاسی منظرنامہ سامنے آرہا ہے اس کے پیش نظرصہیونی ریاست مکمل طورپرپسپائی کا شکار ہوگئی ہے بلکہ اب اس کے حامیوں کے پاس بھی کہنے کوکچھ نہيں ہے۔غزہ کے لئے امداد لے جانے والے بین الاقوامی قافلے پرصہیونی فوج کے حملے نے اسرائیل کے پیکر پرایک ایسی کاری ضرب لگادی ہے کہ اب اس کے حامی بھی عالمی برادری کے نزدیک بیحد مشکوک اوربعض ممالک کی توساکھ بری طرح متاثرہوگئي ہے اوروہ اس پوزیشن میں نہيں رہ گئے ہيں کہ اسرائیل کے حق میں کھل کچھ کہہ سکیں اگرچہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی امریکہ ابھی بھی اسرائیلی دہشت گردی کی کھل کرحمایت کررہا ہے۔ایک ایسے وقت جب صہیونی ریاست کے حامی ممالک اسرائیل کے حماقت آمیزاقدام کی وجہ سے بری طرح سے مبہوت ہوکر رہ گئے ہيں اورپریشانی کے عالم میں ادھر ادھر پیر مارے رہے ہيں غزہ کے لئے مزید امدادی بحری جہازوں کی روانگی اوراس بات کے اعلان نے کہ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان خود اس قافلے میں جائيں گے صہیونیوں اوراس کے حامیوں کوبہت ہی سخت مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس کےساتھ ہی انقرہ وتل ابیب کے تعلقات پرگہرے سیاہ بادل منڈلانے لگے ہيں۔دوسری طرف اسرائیل کے وحشیانہ اوردہشت گردانہ اقدامات کے بعد علاقے کے عرب ممالک کے عوام کی طرف سے جہاں صہیونی ریاست کے وحشیانہ اقدام کی مذمتوں کاسلسلہ جاری ہے وہيں اپنے حکام کی خاموشی پربھی وہ شدید برہم ہيں اسی لئے مبصرین کا کہنا ہے کہ علاقے کی وہ عرب حکومتیں جوابھی تک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کوبہتر بنانے میں ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کی کوشش کررہی تھیں موجودہ صورت حال میں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اورچارہ نہيں ہے کہ علاقے میں صہیونیت مخالف لہروں میں شامل ہوں یا پھر وہ کنارے ہٹ جائيں اورراستہ اپنی قوموں کے لئے چھوڑدیں کہ وہ خود ہی صہیونی ریاست سے اپنا حساب بے باک کرلیں۔ کیونکہ ایسے وقت جب افریقہ اورلاطینی امریکہ کے بعض ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معطل کرلئے ہيں اور ویتنام نے اسرائیلی صدر کواپنے یہاں آنے سے منع کردیا ہے علاقے کی ان عرب حکومتوں کے پاس اب کوئی اخلاقی جوازہی نہیں بچتا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے خلاف اپنی زبان بند رکھیں۔اس درمیان اسرا ئیلی اخبار ہاآرتض نے لکھا ہے کہ کاروان امن وآزادی پراسرائیلی فوج کے حملے کے بعد مقبوضہ سرزمینوں میں انتفاضہ سوم بھی شروع ہوسکتا ہے اورانقرہ وتل ابیب کے تعلقات بھی منقطع ہوسکتے ہيں اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کا یہ اقدام تل ابیب انتظامیہ کے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ جس طرح سے ترکی نے اپنے سفیر کوتل ابیب سے واپس بلالیا ہے اس سے اس بات کا بھی امکان پایا جاتا ہے کہ ترکی، اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلے۔ اس اخبار نے لکھا ہے کہ کاروان آزادی پراسرائیلی فوج کے حملے سے معلوم ہوتا ہے کہ تل ابیب انتظامیہ نے غزہ پربائیس روزہ جارحیت کے انجام سے کوئي سبق نہیں لیا ہے اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیل نے جس طرح سے کاروان آزادی پرسوار عام شہریوں پرجومختلف ملکوں کی شخصیات تھیں حملہ کرکے انھیں خون میں نہلا دیا ہے اس کا اسے ایسا تاوان ادا کرنا پڑے گا جس کے بار ےمیں وہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا۔ یاد رہے صہیونی اخبار ہارآتض نے اس سے پہلے بھی صہیونی ریاست کے غاصبانہ وجود کے باسٹھ سال پورے ہونے پراپنے اداریہ میں لکھا تھا کہ تل ابیب اخلاقی اورسیکورٹی اعتبارسے سخت دلدل گرفتار ہے۔ اس نے اپنے اس اداریے میں سوال کیا تھا کہ کیا آنےوالا وقت اسرائیل کے نفع میں ہوسکتا ہے ؟ اس نے اس سوال کے جواب میں خودہی لکھا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اسرائیل روزبروزعالمی سطح پرالگ تھلگ پڑتا جارہا ہے اوراسرائیل کے وجود کوسنگین خطرات لاحق ہوچکے ہيں۔ صہیونی اخبار ہاآرتض کا یہ اعتراف ایک ایسے وقت سامنے آرہا ہے جب اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی نے اپنی حیات میں بارہا اوراسی طرح رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی کئی بار اس نکتے پرتاکید کی ہے کہ صہیونی ریاست کوجلد ہی اس صفحہ ہستی نابود ہوجانا ہے۔اورجوصورت حال اس وقت علاقے میں ابھر رہی ہے وہ اس بات کی پوری غمازی کررہی ہے کہ غاصب اسرائیل اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ 

 


source : abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مسجد الاقصی پر صہیونیوں کا حملہ، فلسطینیوں کا ...
وہابی دعوت؛ حضرت زینب (س) کا حرم منہدم کیا جائے
صومالیہ کے دار الحکومت میں بم دھماکہ، درجنوں ...
موغادیشو میں وہابی دہشت گردوں کےخودکش حملہ میں 20 ...
عالم اسلام کو درپیش چیلنجز اور انکا راہ حل
قرآن كريم كا جديد پنجابی ترجمہ
دریائے اردن کے مغربی ساحل میں یہودیوں نے ایک مسجد ...
فلسطینی قوم کی حمایت عالم اسلام کی ترجیح
اقوام متحدہ كے سيكرٹری جنرل كی جانب سے امريكا میں ...
یمن میں اشیائے خوردنی کی شدید قلت

 
user comment