فرانس میں مسلم شہریوں سے ملازمتوں کے معاملہ میں عیسائیوں کے مقابلے میں امتیاز برتا جارہا ہے جبکہ عیسائی شہریوں کو مسلمانوں کے برابر تعلیمی اہلیت اور قابلیت ہونے کے باوجود روزگار کے ڈھائی فی صد زیادہ مواقع حاصل ہیں۔
خبررساں ایجنسی شبستان کے مطابق اس بات کا انکشاف اسٹینفورڈ یونیورسٹی (امریکا) کے سیاسیات کے پروفیسر ڈیوڈ لیٹن کے ایک حالیہ تحقیقی مطالعے میں کیا گیا ہے۔اس کو نیشنل اکیڈیمی برائے سائنسز نے شائع کیا ہے۔اس کے حاصل مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ افریقی پس منظر کے حامل ایک عیسائی شہری کو ملازمت کے لیے انٹرویو میں بلانے کا تعلیم میں اس کے ہم پلہ اور اس جیسا پس منظر رکھنے والے مسلمان کے مقابلے میں ڈھائی فی صد زیادہ امکان ہوتاہے۔
یہ پہلا مطالعہ ہے جس میں پہلی مرتبہ یہ بتایا گیا ہے کہ فرانس میں نسل اور جغرافیائی پس منظر کے علاوہ مذہب بھی لوگوں سے امتیازی سلوک کا ایک ذریعہ ہے۔البتہ پروفیسر لیٹن نے اس خوش امیدی کا اظہار کیا ہے کہ اس مطالعے سے فرانس میں پالیسیوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی کیونکہ اس بڑے یورپی ملک میں مذہبی اور نسلی پس منظر کی بنیاد پر حکومت اعدادوشمار اکٹھے نہیں کرتی ہے۔
پروفیسر لیٹن نے دوسرے ماہرین تعلیم سے مل کر فرضی قومیت کی بنیاد پر ایک ٹیسٹ تیار کیا تھا۔اس میں سینی گال نژاد فرانسیسی عیسائی شہری اور مسلمان شہری کو الگ الگ فرضی نام دیے گئے تھے۔ان کے ساتھ تیسرا امیدوار فرانس کے ایک کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد کو بنایا گیا تھا۔ان تینوں کے کوائف کو شائع شدہ تین سو ملازمتوں کے لیے بھیجا گیا۔
اسامیاں مشتہر کرنے والے متعلقہ اداروں کی جانب سے فرانسیسی شہری فرضی خاتون کو ایک سو کال کی گئیں جبکہ سینی گال نژاد مسلم فرانسیسی شہری کو صرف اڑتیس جگہوں سے کال کی گئی تھی۔اس طرح فرانسیسی شہری کو ڈھائی فی صد زیادہ انٹرویو کے لیے منتخب کیا گیا۔
source : http://shabestan.net