اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

القاعدہ، حزب اللہ اور حماس (1)

س وقت دنیا بھر میں متعدد مسلم عسکری تنظیمیں اور گروہ سر گرم عمل ہیں۔جن میں کچھ تنظیمیں اور گروہ تو خالصتا علاقائی نوعیت کے ہیںتو کچھ کو عالمی سطح پر جانا اور مانا جاتا ہے ۔ یہ تنظیمیں اپنی علاقائی شناختوں کے ساتھ ساتھ مخصوص فکری نہجوںکی بھی حامل ہیں۔عسکری گروہوں اور تنظیموں کا یہ سلسلہ مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں، دیگر مذاھب کے ماننے والوں اور لادین افراد نے بھی اپنے اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے عسکری گروہوں اور تنظیموں کی بنیاد رکھی، جن میں آئرلینڈ کی آیئریش ریپبلیکن آرمی، سری لنکا کے صوبہ تامل کی تامل ٹائیگرز،بھارت کی ماﺅ علیحدگی پسند تحریک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

بقلم سید اسد عباس تقوی

القاعدہ، حزب اللہ اور حماس (1)

کوئی بھی قوم یا ملت کس وقت اور کن حالات میں ہتھیار بند ہونے پر مجبور کر دی جاتی ہے یہ ایک تفصیلی بحث ہے جو اس وقت میرے موضوع سے خارج ہے، تاہم یہ گروہ یا تنظیمیں کن مقاصد کے لیے قیام کرتی ہیں اور اس قیام کے دوران ان کی حکمت عملی کیا ہوتی ہے میرے لیے اہم ہے ۔یہی اس مضمون کا موضوع بحث ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام جزوی امور کو زیر بحث لایا جائے گا۔ اس مضمون کے لیے میں نے جن تین ممتاز مسلم عسکری تنظیموں کا چناﺅ کیا ہے وہ مسلم دنیا میں موجود تمام عسکری گروہوں کے عقیدتی و فکری نہج کی نمائندہ تنظیمیں ہیں۔ ایک ہی مذہب (اسلام) کے پیرو ہونے کے باوجود ان تنظیموں کی عسکری پالیسیوں اورحملے کی حکمت عملیوں میں پایا جانے والاواضح فرق اہل نظر کودعوت فکر دینے کے لیے کافی ہے۔
القاعدہ :
روس کے خلاف لڑی جانے والی افغان جنگ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان مجاہدین بالخصوص عرب مجاہدین جنہوں نے افغان جنگ کے بعد عالمی جہاد کا نعرہ بلند کیا کو اس تنظیم کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرب مجاہدین کے بے نام لشکر کو یہ نام امریکی صد ر بل کلنٹن کے دور میں دیا گیا۔تاکہ دنیا میں پھیلی ہوئی اس ذہنیت کو ایک اکائی کے طور پر شکار کیا جا سکے۔ معروف صحافی اور قلم کار آدم کرتیس القاعدہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
القاعدہ بحیثیت تنظیم کا تصور بنیادی طور پر امریکی تصور ہے۔پہلی بار 2001میں یہ نام عوامی سطح پر اس وقت لیا گیا جب اسامہ بن لادن اور ان کے چار دیگر ساتھیوں کو 1998میں افریقی ملک میں قائم امریکی سفارت خانے پر بم حملے میں ملوث قرار دے کر ان کا مواخذہ کیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری نئی حکمت عملی کے حامل مسلم مجاہدین کی امیدوں کا مرکز بن چکے تھے۔ اس وقت تک کوئی باقاعدہ تنظیم موجود نہ تھی ۔ یہ مجاہدین اپنے طور پر عسکری کاروائیوں کو عمل میں لاتے اور مالی معاونت کے لیے اسامہ کی جانب رجوع کرتے۔ اس وقت تک اسامہ ان مجاہدین کے امیر نہ تھے۔اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اسامہ بن لادن نے خود گیارہ ستمبر کے حملوں سے قبل لفظ القاعدہ کا استعمال کیا ہو۔(۱)
قانونی لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکا کے محکمہ انصاف نے اسامہ بن لادن کو دہشت گرد تنظیم کا سربراہ ظاہر کرنے اور ان کی غیر موجودگی میں ان پر میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے ریکو(RICO) ٓ ٓایکٹ کا سہارا لیتے ہوئے جمال الفضل کا اس تنظیم کے راہنماﺅں اور اس کے تنظیمی ڈھانچے کے متعلق اعترافی بیان قلمبند کرایا۔ جس میں جمال الفضل نے اپنے آپ کو القاعدہ کا بانی راہنما اور اسامہ بن لادن کا ملازم ظاہر کیا۔(۲)
القاعدہ کی تاریخ:
اس تنظیم کے تانے بانے 1979 تا 1989 افغان جنگ سے ملتے ہیں۔امریکا نے اس جنگ کو آپریشن سائکلون کے نام سے لڑا جس میں ایک جانب روسی جارح افواج تھیں تو دوسری جانب افغان مجاہدین جن کو امریکی سی آئی اے نے پاکستانی خفیہ عسکری تنظیم کے ذریعے عسکری و تربیتی امداد مہیا کی۔اسی زمانے میں عرب مجاہدین کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھی اس جنگ میں عملی شمولیت اختیار کی اور عرب حکومتوں سے بہت سا سرمایہ اس جنگ کے لیے روانہ کیا گیا۔اس پیسے کو افغان مجاہدین تک پہنچانے کے لیے ایک تنظیم مکتبہ الخدمات کی بنیاد رکھی گئی جس کے بانی فلسطینی محقق اور اخوان المسلمین کے رکن عبداللہ یوسف اعظم اور اسامہ بن لادن تھے۔اسامہ بن لادن اس تنظیم کے مرکزی معاون کے طور پر سامنے آئے ۔اس زمانے میں امریکہ نے مجاہدین راہنماﺅں کو ایک بڑی مقدار میں رقوم مہیا کیں ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو دی جانے والی امدادی رقم تقریبا 600 ڈالر تھی ۔ گلبدین حکمت یار اور اسامہ کے مابین 1990 کی دہائی تک بہت قریبی تعلقات تھے۔(۳) اس بات کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ حکمت یار کے منشیات کے کاروبار کو سی آئی اے نے تحفظ دیا جس سے حاصل ہونے والی رقم جہاد کے لیے استعمال کی گئی۔﴿٤﴾
روس کا انخلاء:
1989میں افغانستان سے روس کے انخلاءکے بعد دنیا کے 43ممالک سے آئے ہوئے مجاہدین نے اپنی سرگرمیوں کو دنیا کے دیگر علاقوں تک وسعت دینے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت ان غیر ملکی مجاہدین کے کئی چھوٹے چھوٹے گروہ اور تنظیمیں معرض وجود میں آئیں۔انہی میں اسامہ بن لادن کی تنظیم بھی شامل ہے ۔ ابتدائی اجلاسوں کی دستاویزات کے مطابق اس تنظیم کا ہدف و مقصد کلمہ حق کا احیاءاور دین خدا کی سربلندی تھا۔
مغربی محقق رائیٹس کے مطابق مصری مجاہدین اور اسامہ کی اس تنظیم کا نام شروع میں مخفی رکھا گیا۔رائیٹس کی تحقیق کے مطابق بن لادن اس تنظیم کو عسکری کے ساتھ ساتھ فلاحی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتے تھے جبکہ عبداللہ اعظم نے اس موقف کی مخالفت کی اور تنظیم کا واحد ہدف عسکری کاروائیوں کو قرار دیا۔﴿٥﴾
اسامہ جنگ کے بعد اپنے آبائی وطن سعودی عرب روانہ ہو گئے حتی کہ صدام کی افواج کویت پر حملہ آور ہوئیں۔ سعودیہ کی شاہی حکومت کو جب اپنے اقتدار کا خطرہ لاحق ہوا تو اسامہ نے ان کو اپنے مجاہد گروہ کی خدمات کی یقین دہانی کرائی ۔سعودی حکومت نے اسامہ کی اس پیشکش کو ٹھکرا کر امریکی فوج کو مداخلت کی دعوت دی (۶)امریکی افواج کی ارض مقدس میں تعیناتی نے اسامہ کو غضبناک کر دیا جس کے خلاف اسامہ نے کھل کر بیانات دیئے ۔ ان بیانات کی پاداش میں اسامہ کو سعودیہ سے جلاوطن کر دیا گیا۔ اور سوڈان اسامہ کی اگلی قیام گاہ بنا۔سوڈان میں اسامہ 1992 سے 1996 تک حسن ترابی کے مہمان رہے۔ سوڈانی کرنل حسن البشیر نے بھی اسامہ کے ساتھ روابط قائم کیے جن کے سبب اسامہ نے اس ملک میں کافی سرمایہ کاری کی ، اسی طرح اسامہ نے سوڈان میں جنگجوﺅں کے کئی تربیتی مراکز کی بھی بنیاد رکھی۔اسامہ کی سوڈان میں سعودی حکومت کے خلاف مسلسل بیان بازیوں کے سبب شاہ فہد نے سوڈانی حکومت سے اسامہ کے پاسپورٹ کا مطالبہ کیا اور اسامہ کی سعودی شہریت کو منسوخ کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ سعودیہ میں آباد اسامہ کے خاندان کو مجبور کیا گیا کہ وہ اسامہ کا سالانہ وظیفہ بند کر دیں اور اس سے عوامی سطح پر اظہار لا تعلقی کریں۔(۷)سعودی حکومت کی جانب سے سوڈانی حکومت پر دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں آزادانہ سرگرمیوں سے باز رکھے،جو کہ بالآخر اسامہ کی افغانستان روانگی پر محمول ہوا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اسامہ اور عرب مجاہدین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور انہیں حکومتی تحفظ میں اپنی سرگرمیا ں جاری رکھنے کی اجازت دی۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طالبان حکومت کو پاکستان ، سعودیہ اور عرب امارات کے علاوہ دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
عالمی جہاد :
عالمی سلفی جہاد کا تصور 1980 سے موجود تھا۔جس کا مقصد غیر مسلم افواج کو تمام مسلم علاقوں سے بے دخل کرنا تھا۔تاہم فرق صرف یہ ہے کہ اس دفاعی جہاد کو اسامہ اور ان کے مجاہد ساتھیوں نے انتحاری جہاد کی صورت میں متعارف کرایا۔جس کا باقاعدہ آغاز اسامہ بن لادن کے فتوی سے ہوا جس میں انہوں نے عام مسلمانوں کو امریکا کے خلاف جنگ کا حکم دیا۔اس فتوی کے نتیجے میں پہلا حملہ سعودیہ پر ہوا ۔ مینار خوبار پر کیے گئے اس حملے میں 19افراد جاں بحق جبکہ 372افراد زخمی ہوئے۔(۸)فروری 1998 میں اسامہ بن لادن ، ایمن الظواہری اور تین مجاہد راہنماﺅں نے مشترکہ طور پر ایک فتوی جاری کیا جس میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو جہاں اور جیسے ممکن ہو قتل کریں۔(۹)اس فتوے کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔
امریکیوں اور ان کے اتحادیوں چاہے وہ فوجی ہوں یا سویلین کو قتل کرنا ہر اس مسلمان کی ذمہ داری ہے جو ایسا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تاکہ مسلمانوں کے تمام علاقوں سے ان کی افواج نکل جائیں، بالخصوص بیت المقدس اور مکہ کی سرزمین پر ان کا وجود باقی نہ رہے اور وہ کسی مسلمان کی جان و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں۔یہ بات خدا کے حکم کے عین مطابق ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے" کہ کفار سے لڑو جیسا کہ وہ مجتمع ہو کر تم سے لڑتے ہیں۔"(۰۱)
یوںاسامہ کی تنظیم جسے بعد میں القاعدہ کے نام سے جانا گیا نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔اگست 1998میں تنزانیہ دارالسلام میں حملہ، اگست 1998 میں ہی نیروبی کینیا میں حملہ، اکتوبر 2000میں یمن میں حملہ ، پندرہ اور بیس نومبر کو ترکی میں حملے اور بالآخر ستمبر 2001 میںورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملے القاعدہ کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی بڑی مثالیں ہیں۔ ستمبر 2001 میں امریکی سرزمین پر کیا جانے والا حملہ اگرچہ ابھی تک بہت سے تحفظات رکھتا ہے تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ القاعدہ کے کسی بھی راہنما نے اس حملے کی کبھی تردید نہ کی اور نہ ہی کسی مرکزی راہنما کی جانب سے کوئی وضاحتی بیان آیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ:
القاعدہ کے ان متواتر حملو ں کے بعداور بالخصوص ستمبر 2001 کے ورلڈ ٹرید سینٹر پر حملے کے بعد امریکہ اس کے اتحادیوں اور اقوام عالم نے القاعدہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔امریکہ نے افغانستان میں موجود طالبان حکومت سے اسامہ اور القاعدہ کے راہنماﺅں کی سپردگی کا مطالبہ کیا ۔ جس کے جواب میں طالبان نے اسامہ کو کسی غیر جانبدار ملک کے حوالے کرنے کی حامی بھری ، وہ بھی اس صورت میں کہ امریکہ اس بات کے واضح ثبوت مہیا کرے کہ القاعدہ اور اسامہ کا اس حملے میں کوئی ہاتھ ہے۔ اس شرط کے جواب میں امریکی انتطامیہ نے جو موقف اختیار کیا وہ بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ امریکی صدر کا طالبان انتظامیہ کو جواب امریکی رعونت کی عکاسی کرتا ہے ۔ امریکی صدر جارج بش نے طالبان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ" ہم جانتے ہیں کہ وہ قصوروار ہے ۔ اسے ہمارے حوالے کر دو"۔(۱۱)برطانوی وزیر اعظم نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بیان دیا کہ " طالبان یا تو اسامہ کو ہمارے حوالے کردیں یا حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔(۲۱)
بالآخر القاعدہ اور اسامہ کی تلاش میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج ایک آزاد و خودمختار مسلمان ملک پر پل پڑے ۔ اس جنگ کے واقعات ابھی اتنے پرانے نہیں ہوئے کہ ان کو دہرایا جائے ، افغانستان کی تازہ صورتحال بھی آپ کے سامنے ہے ۔2004میں امریکی حکومت کے تحقیقاتی کمیشن نے یہ ثابت کیا کہ ستمبر گیارہ کے حملے القاعدہ نے ہی کرائے۔اس کمیشن کی رپورٹ پر اگرچہ بہت سے اعتراضات بھی کیے گئے تاہم تاحال یہ بات عالمی سطح پر تسلیم کی جاتی ہے کہ امریکہ کی سرزمین پر ہونے والے حملے القاعدہ اور اسامہ کی منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ تھے۔القاعدہ اور اسامہ کی جانب سے بھی اس حملے کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ویڈیو ٹیپس عالمی میڈیا پر نشر ہوتی رہیں جن کی کبھی بھی آزاد ذرائع سے توثیق نہ کی جاسکی ۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کو بھی صف اول کی ریاست کے طور پر کردار ادا کرنا پڑا ۔ القاعدہ کے متعدد مرکزی راہنما پاکستان کے مختلف علاقوں سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیے گئے۔ اسامہ کی پاکستان میں موجودگی اور پاکستانی حکومتی حلقوں کی جانب سے اس کا انکار بھی روز کا معمول رہا ۔ بالآخر ۲ مئی 2011میں اسامہ بن لادن پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد سے برآمد ہو گیا۔اس برآمدگی کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں کی پیشن گوئی کرنا اگرچہ قبل از وقت ہے تاہم کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عالمی دنیا میں امریکی موقف کو تقویت ملی ہے اور پاکستان ایک کمزور ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
القاعدہ کی فکری نہج اورحکمت عملی :
القاعدہ کے مرکزی راہنماﺅں کا تعلق شدت پسند سلفی مکتبہ فکر سے ہے۔تنظیم میں موجود جنگجوﺅں کی اکثریت بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے تاہم شدت پسند وہابی، مالکی ، شافعی اور حنفی جنگجو بھی القاعدہ کے رکن ہیں۔القاعدہ کے مرکزی راہنما اعتدال پسند مسلمانوں ، اولیا اللہ کے روحانی تصرفات کا اعتقاد رکھنے والی امت کی غالب اکثریت اور خاص طور پر شیعوںکو مرتد جانتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اکثر ان مسلمان فرقوں کے مذہبی مقامات اور جلوسوں پرحملوںکے فتاوی جاری کیے۔دیگر مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی بڑی کاروائیوں میں عراق میں صدر سٹی پر حملے، عاشورہ کے دھماکے اور 2007میں کیے جانے والے بغداد کے دھماکے زیادہ اہم ہیں۔
جیسا کہ اسامہ ، ایمن الظواہری اور دیگر اتحادی مجاہدین کے 1998 میں جاری کردہ فتوی سے واضح ہے کہ یہ تنظیم مسلح اور غیر مسلح دشمن میں کوئی تمیز روا نہیںرکھتی۔ خود کش حملوں میں مارے جانے والے بے جرم و خطاعام سنی مسلمانوں کو یہ لوگ شہید کا درجہ دیتے ہیں اور ان کو بھی اپنے اس عظیم کام میں ثواب کا مستحق گردانتے ہیں۔
متعدد اعتدال پسند علما، سابق مجاہدین اور جنگجو القاعدہ کے دیگر مسالک پر حملوں اور مسلم ممالک میں مسلمانوں کے قتل عام کی پالیسی کے مخالف بھی ہیں۔ جس کی واضح مثال لیبیائی مجاہدین کے سربراہ نعمان بن عثمان کا ایمن الظواہری کو لکھا جانے والا خط ہے جس میں انہوں نے القاعدہ کی دیگر مسلمان مسالک کے خلاف کاروائیوں پر شدید تنقید کی ۔(۳۱)اسی طرح سعودی عالم دین اور 1980میں برپا ہونے والی بنیاد پرست تحریک کے بانی شیخ سلمان العودا نے اپنی ٹیلیویژنک خطاب میں اسامہ سے براہ راست کہا کہ:
اسامہ بھائی!کتنا خون بہ چکا ہے؟کتنے ہی معصوم لوگ ، بچے، بوڑھے اور خواتین القاعدہ کے نام پر قتل کیے جاچکے ہیں ؟کیا آپ اپنے آپ کو خدا کے سامنے سرخرو پاتے ہیں جبکہ آپ کے کندھوں پر ان ہزاروں بے گناہ افراد کے خون کا بوجھ ہے ؟﴿١٤﴾

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
۱۔The Power of NightmaresBBC Documentryماخوذ از وکی پیڈیا
۲۔WMD Terrorism and Usama bin Laden by the Center for Nonproliferation Studies.ماخوذ از وکی پیڈیا۔
۳۔ Bergen, Peter L., Holy war, Inc.: Inside the Secret World of Osama bin Laden, New York: Free Press, c2001., p.70-1ماخوذ از وکی پیڈیا۔
۴۔. Interview with Alfred McCoy, 9 November 1991 by Paul DeRienzo[1]ماخوذ از وکی پیڈیا۔
۵۔ Wright 2006, p. 260ماخوذ از وکی پیڈیا۔
۶۔ Jehl, Douglas (2001-12-27). "A Nation Challenged: Holy war lured Saudis as rulers looked away". The New York Times: pp. A1, B4. Retrieved 2009-09-05.ماخوذ از وکی پیڈیا۔
۷۔ "Osama bin Laden: A Chronology of His Political Life". PBS. Retrieved 2007-01-12.ماخوذ از وکی پیڈیا۔
۸۔ Abdel Bari Atwan (2006). The Secret History of Al Qaeda. University of California Press. pp. 168-169. ISBN 0-520-24974-7ماخوذ از وکی پیڈیا۔
۹۔Summary taken from bin Laden's May 26, 1998 interview with American journalist John Miller. Most recently broadcast in the documentary Age of Terror, part 4, with translations checked by Barry Purkis (archive researcher).
۰۱۔"Text of Fatwah Urging Jihad Against Americans". Archived from the original on April 22, 2006. Retrieved 2006-05-15.ماخوذ از وکی پیڈیا۔
۱۱۔ "U.S. Jets Pound Targets Around Kabul". The Portsmouth Herald. October 15, 2001. Retrieved 2006-07-06.
۲۱۔"Blair to Taliban: Surrender bin Laden or surrender power". Cbc.ca. 2001-10-03. Retrieved 2010-03-22.
۳۱۔"Libya releases scores of prisoners APRIL 9, 2008". English.aljazeera.net. 2008-04-09. Retrieved 2010-03-22.
۴۱۔ Bergen & Cruickshank 2008.ماخوذ از وکی پیڈیا۔

 


source : www.alimamali.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کمبوڈیا: اہل سنت کے عالم دین مدینہ منورہ میں حصول ...
بنگلادیش میں حزب اختلاف کی اپیل پر دوسرے دن بھی ...
شہدائے مدافع حرم کے ’’بے سر کمانڈروں‘‘ کی یاد ...
وفات کے وقت حضرت آدم[ع] کی عمر کتنی تھی ؟
القاعدہ، حزب اللہ اور حماس (1)
بزرگ علما اور مراجع کی شرکت سے قم میں شہدا منی کی ...
لبنانی وزیر ترقیات: شیعہ مذہب کے نظریئے کی بنیاد ...
نجف اشرف میں ’’بین الاقوامی غدیر میڈیا ...
برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کو ...
بيلجئم میں اسلام دشمنوں كی جانب سے قرآن مجيد كی ...

 
user comment