:ایران کے شھر قم میں مدرسہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں منعقد ہو رہی "علماء اسلام کے نقطۂ نظر سے انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں پر عالمی کانفرنس" کے دوسرے دن، آج ایرانی حوزات علمیہ کے مدیر آیۃ اللہ حسینی بوشھری نے کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا:اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ تکفیریت ہے۔
انہوں نے کہا:تکفیری عنصر ایسا فتنہ ہے جس نے لوگوں کی پر سکون اور امن و چین کے ساتھ گزر رہی زندگی کو نشانہ بنایا ہے۔تکفیریت سے بڑھ کر اس وقت کوئی مصیبت نہیں کہ جو اسلام کے چہرہ کو بگاڑ کر اسلام کے عقیدتمندوں کو اس سے دور دھکیل رہی ہے۔
انہوں نے "مسلمان" کے معنیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والی وسلم نے ۲۳ سال تک جد و جہد کی تاکہ اسلام کو لوگوں تک پہونچا سکیں۔قرآن کریم نے اسلام کو صلح و آشتی کا دین بتایا ہے۔اسلام سے ہمیں جو بات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اسلام ہمیں جہاد کی دعوت دیتا ہے تو اسکے ساتھ ساتھ جہاد کے معیاروں اور اصولوں کو بھی پیش کرتا ہے۔جس نے بھی زبان سے "شہادتین" کا اقرار کر لیا تو تمام علماء اسلام کا اتفاق اور اجماع ہے کہ وہ مسلمان ہے اور صرف انہیں دو جملوں کی وجہ سے اسکی جان اور اسکا مال محفوظ ہے اور امان میں ہے۔
ایرانی حوزات علمیہ کے مدیر نے جہالت کو تکفیریت کی بنیادی وجہ بتاتے ہوئے کہا:فکری تعصب، قرآن پر عدم توجہ اور دیگر مذاہب کے بارے میں غلط معلومات پر اطمینان کر لینا،یہ وہ عناصر ہیں جنکی وجہ سے لوگ تکفیری ٹولیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
تکفیری عناصر روز بروز اسلام کے دائرہ کو محدود کرتے جا رہے ہیں۔اس وقت تکفیری عناصر دشمنان اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں اور باوجودیکہ اسرائیل آجکل فلسطینیوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے،مگر یہ لوگ اسلام اور مسلمین کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
آیۃ اللہ بوشھری نے تکفیریت کے مسموم نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: تکفیری حرکتوں کا ایک نتیجہ (Islamophobia) یعنی اسلام کو ایک خوفناک دین کے طور پر پہچنوانا ہے ۔جس کی بنا پر آج دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کو مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تکفیریوں کے اعمال سبب بن رہے ہیں کہ اسلامی ممالک میں تفرقہ پھیلے اور مغربی دشمن سکون کے ساتھ اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہ سکے۔ ایک اور تنیجہ جو تکفیری تحریک کے سبب سامنے آیا ہے وہ اسلامی بیداری اور اسلامی ممالک میں پیدا ہونے والے اہم مسائل کو بھلا دیا جانا ہے۔
انہوں نے علماء کی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے کہا:اگر علماء اسلام تکفیریوں کے سلسلہ میں اپنے تفکرات میں سنجیدہ نہ ہوئے تو یہ مسموم تحریک اور زیادہ عام ہوگی۔علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جوانوں کو صحیح دین سے آشنا کریں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اھل سنت کے علماء اور مفتیوں کی جانب سے تکفیریت کی نفی پر صریح اور واضح فتوے سامنے آئیں۔ہمیں اسلامی ممالک کے درمیان بردباری اور رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
source : www.abna.ir