اردو
Monday 6th of January 2025
0
نفر 0

رہبر انقلاب کا علمائے اسلام سے خطاب: نوجوانوں کو تکفیریوں کے چنگل سے چھڑا دو

رہبر انقلاب کا علمائے اسلام سے خطاب: نوجوانوں کو تکفیریوں کے چنگل سے چھڑا دو

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بروز منگل(۲۵ نومبر ۲۰۱۴) کو علمائے اسلام کی نظر میں انتہا پسند اور تکفیریت کے خطروں کے زیر عنوان عالمی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب تہران میں اہم خطاب کیا جو عالم اسلام کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے اس خطاب کا مکمل ترجمہ ذیل میں پیش کی جاتا ہے؛

رہبر انقلاب کے خطاب کا مکمل متن:
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم‌(1)
الحمد لله ربّ العالمین وصلّى الله على سیّدنا ونبیّنا المصطفى الأمین محمّد وآله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین وعلى صحبه المنتجبین والتّابعین لهم بإحسان إلى یوم الدّین۔

سب سے پہلے مہمانان گرامی، حاضرین محترم اور مختلف اسلامی مذاہب کے علمائے کرام اور حاضرین محترم کو خوشامدید عرض کرتا ہوں۔ اور شکریہ ادا کرتا ہوں اس دو روزہ اہم اجلاس میں آپ سب کی فعالانہ شرکت کا۔ ضروری سمجھتا ہوں کہ قم کے اکابرین علماء اور فضلاء ـ بالخصوص حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی اور حضرت آیت اللہ سبحانی ـ کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے اس تفکر کی تخلیق کی اور اس کو عملی جامہ پہنایا اور بحمد اللہ اس کام کے سلسلے میں انھوں نے ابتدائی اقدامات سر انجام دیئے؛ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ میں گذشتہ دو دنوں کے درمیان محترم مقررین کے خطابات سے اجمالی طور پر مطلع ہوا؛ میں بھی چند نکات عرض کرتا ہوں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد "تکفیری تفکر" کا جائزہ لینا ہے جو دنیائے اسلام میں ایک نقصان دہ اور خطرناک تفکر اور سلسلہ ہے۔ یہ تفکر اگرچہ نیا نہیں ہے اور اس کا اپنا تاریخی پس منظر بھی ہے، لیکن کچھ برسوں سے استکبار کی سازشوں، خطے کے بعض ممالک کی مالی شاہ خرچیوں اور امریکہ، برطانیہ اور صہیونی ریاست کے جاسوسی اداروں کی منصوبہ سازی کے بدولت اس فکر کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے اور اس کو تقویت ملی ہے۔ آپ کی یہ نشست، یہ اجلاس اور یک اقدام اس فکر اور اس سلسلے کا ہمہ جہت مقابلہ کرنا ہے چنانچہ یہ اجلاس اور یہ اقدام محض داعش کہلانے والے ٹولے کے لئے نہیں ہے۔ داعش کہلانے والا ٹولہ تکفیر کے شجرہ خبیثہ کی ایک شاخ ہے، یہ پوری تکفیری فکر و رجحان کا نام نہیں ہے۔ یہ فساد جو اس گروپ نے کھڑا کیا یہ حرث و نسل کو ہلاک کرنا (2)، یہ بےگناہوں کا خون بہانا، یہ سب دنیائے اسلام میں سلسلۂ تکفیر کے جرائم کا ایک حصہ ہے؛ اس مسئلے کو اس زاویئے سے دیکھنا پڑے گا۔
میں دلی طور پر متاسف ہوں ہم یعنی دنیائے اسلام، جنہیں اپنی پوری قوت صہیونی ریاست کی سازشیں ناکام بنانے کے لئے اور حال ہی میں قدس شریف اور مسجد الاقصی کے خلاف ان کے بھیانک اقدامات ـ جنہیں پوری دنیا اسلام کے حرکت میں آنے کا سبب ہونا چاہئے تھا ـ کا مقابلہ کرنے کے لئے صرف کرنا چاہئے تھی لیکن آج ہم مجبوریم کہ ان مصائب اور مسائل میں مصروف ہوجائیں جو استکبار نے عالم اسلام میں کھڑے کئے ہیں؛ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلۂ تکفیر کو زیر بحث لانا، ایسی بات ہے جو عالم اسلام کے علماء، عقلاء اور مفکرین پر ٹھونس دی گئی ہے؛ اس کو دشمن نے دستی مشکل کے طور پر (ارادی طور پر بنا کر) عالم اسلام میں داخل کر دیا ہے اور ہمیں مجبورا اس کو توجہ دینا پڑ رہی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ صہیونی ریاست کا مسئلہ ہے؛ اصل مسئلہ قدس کا مسئلہ ہے، مسلمانوں کو قبلۂ اول مسجد الاقصی کا مسئلہ ہے؛ یہ بنیادی اور اصل مسائل ہیں۔
ایک ناقابل انکار مسئلہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ تکفیری ٹولے اور ان کی حمایت کرنے والی حکومتیں، مکمل طور پر استکبار اور صہیونیت کی نیات اور منصوبوں کے مطابق کام کررہی ہیں۔ ان کا کام امریکہ اور یورپ کی استعماری حکومتوں نیز غاصب صہیونی ریاست کے مفاد کے مطابق ہے؛ دستیاب شواہد اس مدعا کی تائید کرتی ہیں۔ تکفیری فکر پر کاربند ٹولوں کی ظاہری صورت اسلامی ہے لیکن عملی طور پر ـ عالم اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ـ بڑی استعماری اور استکباری قوتوں کی خدمت کررہے ہیں اور اس سلسلے میں واضح و روش شواہد موجود ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں یہاں ان میں چند شواہد کی طرف اشارہ کرتا ہوں:
ایک یہ ہے کہ تکفیری فکر اسلامی بیداری کے سلسلے کو منحرف کرنے میں کامیاب ہوئی؛ اسلامی بیداری کی تحریک امریکہ مخالف، استبداد مخالف اور علاقے میں امریکہ کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے مخالف تحریک تھی؛ ایسی تحریک تھی جو شمالی افریقہ میں عام لوگوں کی طرف سے استکبار اور امریکہ کے خلاف شروع ہوئی تھی؛ تکفیری سوچ نے استکبار، امریکہ اور استبداد کے خلاف شروع ہونے والی اس عظیم تحریک کا رخ موڑ دیا اور اس کو مسلمانوں کے درمیان جنگ اور برادر کُشی میں تبدیل کردیا۔ اس علاقے میں جدوجہد کا اگلا مورچہ فلسطین کی شمالی سرحدوں پر مشتمل تھا؛ تکفیری سوچ رکھنے والے آئے اور اس اگلے مورچے کو فلسطین کی شمالی سرحدوں سے بغداد کی سڑکوں، شام کی جامع مسجد، پاکستان کی سڑکوں اور شام کے مختلف شہروں میں منتقل کیا؛ یہ ہوئی جدوجہد کا اگلا محاذ!
آپ دیکھیں آج لیبیا کی صورت حال کو، شام کی صورت حال کو، عراق کی صورت حال کو، پاکستان کی صورت حال کو؛ دیکھیں وسائل اور طاقت اور شمشیر کو جو مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے اور یہ سب کس کے خلاف استعمال ہورہا ہے؟ یہ سب صہیونی ریاست کے خلاف استعمال ہونا چاہئے تھا۔
تکفیری سوچ نے اس جدوجہد کی سمت کو بدل کر رکھ دیا اور اس جنگ کو ہمارے گھر کے اندر، ہمارے شہروں کے اندر اور اسلامی ممالک کے اندر لے کر آئی۔ دمشق کی جامع مسجد کے اندر دھماکہ کرتے ہیں؛ عام لوگوں کے بیچ میں ـ بغداد کے اندر ـ انسانوں کو دھماکے سے اڑا دیتے ہیں؛ پاکستان میں سینکڑوں افراد سینکڑوں افراد پر گولی چلاتے ہیں؛ لیبیا میں اس صورت حال کے اسباب فراہم کرتے ہیں جس کو آپ دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب تکفیری سوچ کے ناقابل فراموش تاریخی جرائم میں سے ایک ہے وہی سوچ جو اس صورت حال کو معرض وجود میں لائی ہے۔ اس تحریک کی تبدیلی امریکہ اور برطانیہ کی خدمت میں کام کرنا ہے، صہیونی ریاست کی خدمت کے لئے کام کرنا ہے اور امریکہ اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں اور موساد وغیرہ کی خدمت ہے۔

ان شواہد میں ایک یہ ہے کہ جو لوگ تکفیری سوچ اور تکفیری قوتوں کے حامی ہیں وہ صہیونی ریاست کے ساتھ ساز باز کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے خلاف لڑیں۔ وہ صہیونی ریاست کے سامنے چیں بہ جبیں نہیں ہوتے لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے اسلامی ممالک اور مسلم اقوام کو مختلف النوع روشوں سے نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کے خلاف سازش کرتے ہیں۔

ایک شاہد اور ثبوت یہ ہے کہ یہ فتنہ آلود سلسلہ جو تکفیریوں نے اسلامی ممالک ـ منجملہ عراق، شام، لیبیا اور لبناناور بعض دوسرے ممالک میں ـ شروع کیا اس کے نتیجے میں ان ممالک کا بیش بہاء بنیادی ڈھانچہ نیست و نابود ہوگیا؛ آپ دیکھیں کتنی سڑکیں، تیل صاف کرنے کے کارخانے، کانیں اور معادن، کتنی شہر اور کتنے راستے، کتنے گھر ان ممالک میں تباہ ہوئے اور ان خانہ جنگیوں اور ان برادر کُشیوں کے نتیجے میں [کتنے عظیم نقصانات ان ممالک کو پہنچے] اور اکب کتنا وقت لگے گا، کتنی دولت خرچ ہوگی اور کتنے اخراجات آئیں گے کہ ان ویرانوں کو پہلی کی سی صورت میں پلٹا دیا جائے۔ یہ نقصانات ہیں جو تکفیریوں نے آج تک پہنچائے ہیں اور وہ ضربیں ہیں جو تکفیریوں نے حالیہ چند برسوں کے دوران لگائی ہیں۔

ایک ثبوت یہ ہے کہ تکفیری سوچ رکھنے والی قوتوں نے اسلام کا چہرہ دنیا بھر میں مخدوش کیا، بھدا بنا کر پیش کیا۔ پوری دنیا نے ٹیلی ویژن پر دیکھا کہ کسی فرد کو بٹھا دیتے ہیں اور اس کا سر تلوار کی ضرب مار کر بدن سے جدا کرتے ہیں؛ بغیر اس کے کہ اس کو لئے کوئی جرم معین کیا گیا ہو۔ "لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ * إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔(3) انھوں نے بالکل الٹ عمل کیا؛ مسلمانوں کو قتل کیا، ان غیر مسلمانوں کو تلوار کے سائے میں بٹھایا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا تھا اور پوری دنیا میں ان کی تصویریں پھیلادیں؛ پوری دنیا نے ان مناظر کو دیکھا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک شخص نے مسلمان کے عنوان سے ہاتھ ایک مرے ہوئے انسان کے سینے کے اندر پہنچایا اور اس کا دل نکال کر چبایا! اس کو دنیا نے دیکھا۔ یہ اسلام کے کھاتے میں آیا؛ رحمت کا اسلام، تعقل اور تدبر کا اسلام، منطق کا اسلام، وہ اسلام جو فرماتا ہے کہ: "تمہیں اللہ ان لوگوں کے قریب جانے سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی۔۔۔"، اس اسلام کا تعارف ان لوگوں نے اس انداز سے کرایا۔ کیا ہے کوئی جرم اس سے بڑھ کر؟! ہے کوئی خیبث فتنہ اس سے بڑھ کر؟ یہ تکفیری سوچ کے حامل لوگوں کا جرم اور فتنہ ہے۔
ایک شاہد اور ثبوت یہ ہے کہ ان لوگوں نے محاذ مزاحمت کو تنہا چھوڑا۔ غزہ پچاس دن تک تن تنہا لڑا، غزہ نے 50 دن تک مزاحمت کی، اسلامی ممالک غزہ کی مدد کو نہیں آئے، تیل سے حاصل ہونے والے ڈالر غزہ کی خدمت میں قرار نہیں دیئے گئ؛ اگرچہ ان میں بعض چـیزیں صہیونی ریاست کی خدمت کے لئے صرف ہوئیں!
ایک گناہ اور اور ایک شاہد اور، یہ ہے کہ تکفیریوں نے پوری دنیا میں مسلم نوجوانوں کا جوش و جذبہ منحرف کرکے رکھ دیا؛ آج پوری اسلامی دنیا کے مسلمان جوش اور جذبے کے حامل ہیں، اسلامی بیداری نے انہیں متاثر کیا ہے، وہ تیار ہیں کہ اسلام کے بڑے مقاصد کے حصول کے لئے کردار ادا کریں، [لیکن] اس تکفیری سوچ نے اس جوش و جذبے کو منحرف کردیا اور بےخبر اور جاہل نوجوانوں کی ایک جماعت کو مسلمانوں کا سر کاٹنے اور ایک گاؤں کے بچوں اور خواتین کے قتل عام کی طرف لے گئی۔ یہ تکفیری سوچ اور تکفیر کے پیروکاروں کے جرائم اور گناہوں میں سے ایک ہے۔
ان قرائن اور شواہد کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا؛ یہ سارے شواہد بتاتے ہیں کہ تکفیر استکبار کی خدمت میں مگن ہے، دشمنان اسلام کی خدمت کررہی ہے، امریکہ کی خدمت کررہی ہے، برطانیہ کی خدمت میں مصروف ہے، صہیونی ریاست کی خدمت کررہی ہے۔ البتہ بعض دیگر شواہد بھی موجود ہیں۔
ہمیں اطلاع دی گئی کہ امریکہ کے بار بردار طیاروں نے داعش کہلانے والے ٹولے کی ضروریات کے مطابق بڑی مقدار میں گولہ بارود عراق کے ان مراکز میں پھینک دیا ہے جہاں داعش والوں کو ٹھکانے بنے ہوئے ہیں اور یوں امریکیوں نے ان کو امداد پہنچائی ہے؛ ہم نے کہا کہ شاید یہ عمل غلطی کا نتیجہ تھا، لیکن یہ عمل دہرایا گیا؛ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے یہ عمل کم از کم پانچ مرتبہ دہرایا گیا ہے! کیا وہ پانچ مرتبہ ایک غلطی دہراتے ہیں!؟ اور اسی اثناء میں انھوں نے بظاہر ایک اتحاد داعش کے خلاف تشکیل دیا ہے! جو محض ایک جھوٹ ہے۔ یہ اتحاد کچھ دوسرے خباثت آمیز مقاصد کے درپے ہے۔ وہ اس اس فتنے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، فریقین کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا چاہتے ہیں؛ وہ مسلمانوں کے درمیان گھریلو جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ [جنگ] یہاں ہمیشہ کے لئے رہ جائے۔ ان کا ہدف یہ ہے؛ البتہ آپ جان لیں کہ وہ اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکیں گے۔

کئی اہم اور بڑی ذمہ داریاں ہیں جنہیں نبھانا پڑے گا۔ آپ جنابان محترم نے دو روزہ اجلاس کی مختلف نشستوں میں روشوں اور حکمت عملیوں پر بحث کی ہے اور فرائض کو مشخص و معین کرچکے ہیں؛ میں دو تین ناگزیر اقدامات کی طرف اشارہ کرتا ہوں:
تکفیری سوچ اور فکر کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے اسلامی مذاہب کے تمام علماء کی جانب سے ایک وسیع البنیاد اور ہمہ گیر علمی اور منطقی تحریک کی تشکیل؛ یہ تحریک ایک مذہب کے لئے مختص نہیں ہوگی جس میں دوسرے مذہب کی گنجائش نہ ہو۔ تمام اسلامی مذاہب، جو اسلام کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور اسلام پر یقین رکھتے ہیں وہ سب اس فریضے اور ذمہ داری میں شریک ہیں۔ ایک عظیم علمی تحریک کا آغاز ہونا چاہئے۔ وہ سلف صالح (4) کی پیروی کے جھوٹے نعرے کے ساتھ میران میں آئے ہیں، چنانچہ دین کی زبان سے علم کی زبان سے اور صحیح منطق کی زبان سے ثابت کیا جائے کہ سلف صالح ان کے اعمال اور ان کے حرکات و سکنات سے بیزار ہے۔

نوجوانوں کو نجات دلائیں! کچھ لوگ ہیں جو ان گمراہ کن افکار سے متاثر ہوتے ہیں اور بےچارے گمان کرتے ہیں کہ گویا کوئی اچھا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں اور ان آیات شریفہ کا مصداق [ہیں جہاں ارشاد ہوتا ہے]، "قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً ٭ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً"؛(5) وہ گمان کرتے ہیں کہ گویا جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو روز قیامت بارگاہ رب متعال میں عرض کریں گے: "رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ٭ رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً"، (6) یہ بےچارے وہی لوگ ہیں۔ وہ شخص جو دمشق کی مسجد میں ایک بڑے مسلم عالم دین کو قتل کرتا ہے، ان ہی لوگوں میں سے ہے؛ وہ شخص جو مسلمانوں کا سر دین سے انحراف کے بہانے قلم کرتا ہے، ان ہی لوگوں میں سے ہے؛ وہ افراد جو پاکستان میں، افغانستان میں، بغداد اور عراق اور شام کے مختلف شہروں میں، لبنان میں، دھماکے کرکے بےگناہوں کو خاک و خون تڑپا دیتے ہیں، ان ہی لوگوں میں سے ہیں جو روز قیامت کہیں گے: "ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنا مانا تو انہوں نے ہم کو صحیح راستے سے بھٹکا دیا ٭ اے ہمارے پروردگار! انہیں دہری سزا دے اور انہیں بڑی لعنت میں گرفتار فرما"۔ (7) ایک دوسری آیت میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے "۔۔۔لِكُلٍّ ضِعْفٌ۔۔۔" (8) (دونوں کے لئے دوگنا عذاب ہے یعنی) خداوند متعال قبول نہیں کرتا کہ "رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ" (اے ہمارے پروردگار! انہیں دہری سزا دے)، فرماتا ہے: "۔۔۔لِكُلٍّ ضِعْفٌ۔۔۔"، تم دونوں، تابع اور متبوع [دوہرے عذاب میں ہو]؛ "۔۔۔تَخاصُمُ اَهلِ النّار"، (9) وہ آپس میں جھگڑ لیں گے۔ انہیں نجات دلانا چاہئے؛ ان نوجوانوں کو نجات دلانا چاہئے؛ اور یہ علماء کی ذمہ داری ہے۔ علماء کے منور الفکر افراد اور دانشوروں کے حلقوں کے ساتھ بھی تعلق ہے؛ عام لوگوں سے بھی ان کا تعلق ہے؛ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ خدائے متعال روز قیامت علماء سے سوال کرے گا پوچھے گا کہ تم نے کیا کیا؟ اقدام کرنا چاہئے؛ یہ ایک ذمہ داری۔

دوسرا کام جو بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی استکباری پالیسیوں کے کردار کے بارے میں لوگوں کو شعور اور آگہی دلائیں۔ حقائق واضح کردینے چاہئے۔ دنیائے اسلام میں سب کو جان لینا چاہئے کہ امریکی پالیسیاں اس بحران میں کیا کردار ادا کررہی ہیں؟ تکفیری فتنے کے احیاء میں امریکہ، برطانیہ اور صہیونی ریاست کے خفیہ اداروں کا کردار کیا ہے؟ ان حقائق سے سب کو آگاہ ہونا چاہئے۔ سب کو جاننا چاہئے کہ یہ (تکفیری) ان کے لئے کام کررہے ہيں؛ منصوبہ اور نقشہ ان کا ہے، حمایت ان کی طرف سے ہے، راستہ دکھانا اس کی طرف سے ہے، پیسہ ان کے کٹھ پتلیوں (یعنی) خطے کی حکومتوں کی طرف سے آرہا ہے، جو پیسہ دے کر ان بیچاروں کو بدبخت کررہی ہیں اور دنیائے اسلام کو اس مسئلے سے دوچار کررہی ہيں۔ یہ بھی دوسرا اہم کام ہے جس کو انجام پانا چاہئے۔

تیسرا کام جو بہر صورت انجام پانا چاہئے، مسئلۂ فلسطین کو اہمیت دینا اور اس کے سلسلے میں اہتمام کرنا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ، قدس شریف کا مسئلہ اور مسجد الاقصی کا مسئلہ فراموشی کے سپرد نہ ہونے دیں؛ وہ [استکباری قوتیں] یہی چاہتی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیائے اسلام مسئلۂ فلسطین سے غفلت کرے۔ اب آپ دیکھیں، اسی ہفتے صہیونی ریاست کی کابینہ نے ملک فلسطین کو یہودیانے کا اعلان کردیا؛ اور اعلان کیا کہ فلسطین ایک یہودی ملک ہے۔ عرصۂ دراز سے وہ اس مقصد کے حصول کے درپے تھے؛ اب انھوں نے وضاحت و صراحت کے ساتھ اس کا اعلان بھی کیا۔ دنیائے اسلام کی غفلت کے دوران، لوگوں اور مسلم اقوام کے فرد فرد کی غفلت کے اس دور میں، صہیونی ریاست قدس شریف پر قبضہ جمانے کے درپے ہے؛ فلسطینیوں کو پہلے سے کہیں زيادہ کمزور کرنے کے درپے ہے؛ اس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تمام مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی حکومتوں سے مسئلہ فلسطین کا مطالبہ کریں؛ علمائے اسلام اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اگے بڑھیں۔ یہ ایک اہم اور بڑا فریضہ ہے۔
ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ میں حکومت اور قوم اس لحاظ سے ہم زبان ہیں۔ اسلامی جمہوری حکومت اور ہمارے امام بزرگوار نے ابتداء ہی سے فلسطین کی حمایت اور صہیونی ریاست کے ساتھ دشمنی کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا اور اس کو عالمی سطح پر آگے بڑھایا۔ یہ سلسلہ آج تک بھی جاری ہے اور 35 برس ہورہے ہیں کہ ہم اس پالیسی سے منحرف نہیں ہوئے ہیں اور ہماری قوم بھی پورے شوق کے ساتھ حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ کبھی کبھی بعض نوجوان ـ جو رجوع کرتے ہیں اور جواب نہیں پاتے ـ مجھے خط لکھتے ہیں کہ "اجازت دیں کہ ہم جاکر اگلی صفوں میں صہیونی ریاست کے خلاف جنگ میں شریک ہوجائیں"، قوم، صہیونی ریاست کے خلاف جنگ اور جدوجہد سے عشق رکھتی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اس کا عملی اظہار کیا ہے۔
ہم اللہ کی توفیق اور فضل الہی سے محدود کردینے والے مذہبی اختلاف کی حدود کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ وہی امداد جو ہم نے لبنان کی حزب اللہ کو دی ـ جو شیعہ جماعت ہے ـ وہی ہم نے جہاد اسلامی (10) اور حماس کو دی اور پھر بھی دیں گے۔ ہم مذہبی حدود کے اسیر نہیں ہوئے؛ ہم نے نہیں کہا کہ یہ شیعہ ہے وہ سنی ہے، یہ حنفی ہے اور یہ حنبلی ہے، یہ شافعی ہے، وہ زیدی ہے؛ ہم نے اس بنیادی ہدف و مقصد کو دیکھا اور مدد کی اور غزہ اور دوسرے علاقوں میں اپنے بھائیوں کی مُٹھّی کو تقویت پہنچائی اور انشاءاللہ ہم اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ اور میں نے اعلان کیا اور قطعی طور پر یہ ہوکر رہے گا کہ "مغربی پٹی کو بھی غزہ کی طرح مسلح ہونا چاہئے اور دفاع کے لئے تیار ہونا چاہئے"۔
یہ بھی آپ برادران عزیز سے عرض کرتا چلوں کہ کہیں امریکی ہیبت آپ کو خوفزدہ نہ کرے؛ دشمن کمزور ہے۔ اسلام کا دشمن جو استکبار [اور عالمی سامراج] ہے گذشتہ 100 سے لے کے 150 سالہ دور کے ہر مرحلے کی نسبت آج بہت زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔ یورپ کی استعماری حکومتوں کو دیکھ رہے ہیں جو معاشی، سیاسی مشکلات اور سلامتی کے شعبوں میں مسائل سے دوچار ہیں۔ آج یورپ کی استعماری حکومتوں کو مختلف النوع مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ امریکہ کی حالت ان سے بھی بدتر ہے؛ اخلاقی مسائل سے دوچار، سیاسی مشکلات سے دوچار، مالی اور زری (Monetary) مسائل سے دوچار پوری دنیا میں بڑی طاقت کی حیثیت کی کمزوری سے
این را هم به شما برادران عزیز عرض بکنم: هیمنه‌ى آمریکا شما را نترسانَد؛ دشمن ضعیف شده است. دشمن اسلام که استکبار است، امروز از همه‌ى دورانهاى گذشته‌ى این 100 سال و 150 سال ضعیف‌تر است. دولتهاى استعمارى اروپا را مى‌بینید: گرفتار مشکلات اقتصادى، گرفتار مشکلات سیاسى، گرفتار مشکلات امنیّتى. انواع و اقسام مشکلات را امروز دولتهاى استعمارى اروپا دارند. آمریکا بدتر از اینها؛ دچار مشکلات اخلاقى، دچار مشکلات سیاسى، دچار مشکلات شدید مالى و پولى، بڑی طاقت کے عنوان اپنی حیثیت کمزور ہونے کے مسئلے سے دوچار؛ نہ صرف دنیائے اسلام میں بلکہ پوری دنیا میں۔ دچار ضعف حیثیّتِ ابرقدرتى در همه‌ى دنیا؛ نه فقط در دنیاى اسلام، [بلکه‌] در همه‌ى دنیا. صہیونی ریاست ماضی کی بہ نسبت بہت کمزور ہوچکی ہے۔ یہ وہی ریاست ہے جو "نیل سے فرات تک" کا نعرہ لگا رہی تھی!، صہیونی چلاچلا کر کہتے تھے کہ "نیل سے فرات کا علاقہ ہمارا ہے"، لیکن یہ ریاست 50 دن تک غزہ میں لڑنے کے باوجود فلسطینیوں کی سرنگیں فتح کرنے میں ناکام رہی۔ یہ وہی ریاست ہے۔ اس نے پچاس دنوں تک اپنی پوری قوت صرف کردی تاکہ حماس اور جہاد اسلامی کی سرنگوں کو تباہ کرسکے، انہیں منہدم کرسکے اور ان پر قبضہ کرسکے لیکن وہ ایسا کرسکی۔ یہ وہی صہیونی ریاست ہے جو کہتی تھی کہ "نیل سے فرات تک کا علاقہ ہمارا ہے"۔ دیکھیں حالات میں کس قدر فرق ہے کس قدر ضعیف ہوچکی ہے [صہیونی ریاست]؟۔
اسلام دشمن طاقتوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں عراق میں ناکام ہوئیں، شام میں ناکام ہوئیں، لبنان میں ناکام ہوئیں، مختلف علاقوں میں وہ ناکام ہوئے اور اپنے مقاصد تک نہ پہنچ سکے۔ اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ، امریکہ اور استعماری یورپی ممالک اکٹھے ہوئے اور اپنی پوری قوت سے استفادہ کیا کہ جوہری مسئلے میں اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کریں لیکن وہ اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے پر مجبور نہ کرسکے اور پھر بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ یہ فریق مقابل کی کمزوری ہے۔ اور آپ انشاء اللہ روز بروز طاقتور ہوتے جائیں گے۔ مستقبل آپ کا ہے "وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ"۔ (11)
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌
............................
1) یہ کانفرنس 23 اور 24 نومبر 2014 کو، کانگریس کے سربراہ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور کانفرنس کے علمی سیکریٹری آیت اللہ جعفر سبحانی کے زیر اہتمام قم مشرفہ میں منعقد ہوئی۔ اور کانفرنس کے شرکاء نے 25 نومبر کو تہران میں رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای سے ملاقات کی۔ رہبر معظم کے خطاب سے قبل (کانفرنس کے انتظامی اسٹاف کے سربراہ اور علمی سیکریٹری کے نائب) جناب حجّت الاسلام سیّد مهدى علی زاده ‌موسوى نے کانفرنس کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی۔
2) کھیتی اور نسل کی کی بربادی (ماخوذ از آیت 205 سورہ بقرہ)
3) سورہ ممتحنہ، آیات 8 اور 9؛ ترجمہ: تمہیں اللہ ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے * اللہ بس تمہیں ان سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کے ساتھ پیٹھ ملائی کہ ان کے ساتھ تعاون کرو۔...»
4) پیغمبر(ص) کی خالص سنت کی پیروی۔
5) سورہ کہف، آیات 103 اور 104؛ ترجمہ: کہئے کیا ہم تم لوگوں کو بتائیں کہ اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون ہیں؟ ٭ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں اکارت گئی حالاں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے اعمال کر رہے ہیں۔
6) سورہ احزاب، آیات 67 اور 68: اور انہوں نے کہا پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنا مانا تو انہوں نے ہم کو صحیح راستے سے بھٹکا دیا ٭ اے ہمارے پروردگار! انہیں دہری سزا دے اور انہیں بڑی لعنت میں گرفتار فرما۔
7) سورہ احزاب، وہی آیات۔
8) سورہ اعراف، آیت 38؛ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعاً قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لأُولاَهُمْ رَبَّنَا هَـؤُلاء أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَاباً ضِعْفاً مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ"، ترجمہ: جب بھی کوئی گروہ داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ والے دوسرے گروہ کو لعنت ملامت کرتا ہے یہاں تک کہ جب وہ سب وہاں باہم مل جائیں گے تو بعد والے پہلے والوں کے لیے کہیں گے کہ پروردگار! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو انہیں دوزخ میں زیادہ عذاب کر۔ ارشاد ہو گا کہ ہر ایک ہی کے لیے دو نا عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں۔
9) سورہ ص آیت 64؛ إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ ، ترجمہ: یقینا ایسا ہی واقعی ہونا ہے دوزخ والوں کا آپس کا جھگڑا۔
10) فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک (حركة الجهاد الإسلامي في فلسطين)
11) سورہ یوسف، آیت 21؛ اور اللہ اپنے منشا کے پورا کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔
ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توہين قرآن سے مسلمانوں كے اتحاد میں استحكام آيا ...
مسجد امام صادق(ع) کے شہدا کا کربلا اور نجف میں ...
نجف اشرف؛ عراقی وزیر اعظم کی موجودگی میں آیت اللہ ...
وفات کے وقت حضرت آدم[ع] کی عمر کتنی تھی ؟
مصر کی تاریخی مسجد "ابراہیم دسوقی" کی پندرہ دنوں ...
پیپلز پارٹی کے شیعہ رہنما سپاہ صحابہ کے ہاتھوں ...
پيرس كی سب سے بڑی مسجد كی ڈاك ٹكٹ كی فروخت
حيات پيغمبر ہي ميں قرآن کے مرتب ہونے پر قرآني ...
مسجد، اسلامی اور دینی معرفت کا اصلی مرکز
صومالیہ کے وزير اعظم نے وزراء خارجہ، داخلہ اور ...

 
user comment